مختصر فضائل ومناقب حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ
مختصر فضائل ومناقب : حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
تاریخ عالم میں بہت کم شخصیات ایسی ملتی ہیں جن کی ذات میں اس قدر صلاحیتیں اور خوبیاں ایک ساتھ ہوں کہ ایک طرف فتوحات اور نظام حکومت میں مساوات ، عدل و انصاف ، مذہبی رواداری اپنی انتہاء پر ہو اور دوسری طرف روحانیت ، زہد و ورع ، تقویٰ اور بصیرت بھی اپنے پورے کمال پر نظر آئے ۔
تاریخ میں اس حوالے سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ عدل و انصاف کی بات ہو تو اپنے عملی کردار کی وجہ سے منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں ۔ اپنے ، پرائے ، کمزور و طاقتور میں فرق نہیں کرتے یہاں تک کہ اپنے متعین کردہ گورنر اور اپنے بیٹے کےلیے بھی انصاف کا مظاہرہ اسی طرح کرتے ہیں جس طرح کسی عام آدمی پر عدل و انصاف کا اطلاق کرتے ۔
یہی وہ صفات ہیں جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کے پس پردہ کار فرما نظر آتی ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں بے شمار صلاحیتیں، سیاسی و انتظامی بصیرت اور عدالت و صداقت ودیعت کر رکھی تھیں، اسی بناء پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عمر کی زبان اور قلب کو اللہ تعالیٰ نے صداقت کا مصدر بنادیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وجود مسعود سے اسلام کی شان و عظمت کو قیصر و کسریٰ کے ایوانوں تک پہنچادیا ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ صرف یہ کہ فتوحات کا دائرہ وسیع کیا اور ایک کامیاب فاتح حکمران کے طور پر شہرت حاصل کی بلکہ ان مفتوحہ ممالک میں جو انقلابی اقدامات اور اصلاحات نافذ کیں حقیقت میں وہ آپ کو تاریخ اسلام میں ہی نہیں بلکہ تاریخ عالم میں منفرد و ممتاز مقام عطا کرتی ہیں ۔
نیز آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کو دیکھیں تو جن علاقوں کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا، آج تک وہاں اسلام کا پرچم لہرارہا ہے۔ اس کی وجہ صاف ہے کہ جن علاقوں کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتح کرتے وہاں عدل و انصاف کو رائج کرتے۔۔۔عفو و درگزر اور بردباری سے کام لیتے۔۔۔ امیرو غریب اور شاہ و گدا میں امتیاز نہ کرتے
۔روحانیت کا امام؛اسی طرح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روحانیت کا یہ عالم تھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر حق بولتا تھا۔ آپ الہامی شخصیت کے مالک تھے، جو سوچتے، وہ ہوجاتا تھا۔۔۔۔ آیت حجاب، مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنانے، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے متعلق، واقعہ ایلائ، جنگی قیدیوں سے سلوک، منافق کی نماز جنازہ، حرمت شراب، توریت کی آیت کے مطابق آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلام، اذان کے حکم آپ کی رائے کے مطابق ہونا وغیرہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روحانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ترجمانِ نبی ہم زبانِ نبی جانِ شانِ عدالت پہ لاکھوں سلام
فاروقِ اعظم؛ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی گئی : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو فاروق کا لقب کس نے دیا ؟ انہوں نے ارشاد فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا (اسد الغابۃ جلد ۴ صفحہ ۱۶۲)
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے عرض کی گئی کہ : ہمیں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق کچھ بتائیے ۔ تو ارشاد فرمایا : حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہ ہستی ہیں جنہیں اللہ عزوجل نے لقب ’’فاروق‘‘ عطا فرمایا کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے حق کو باطل سے جدا کر دکھایا (تاریخ ابن عساکر جلد ۴۴ صفحہ ۵۰)حضرت جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا : زمین میں ان کا نام عمر اور آسمانوں میں فاروق ہے (رضی اللہ عنہ) (ریاض النضرۃ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳)
نیز آپ رضی اللہ عنہ جس دن اسلام لائے اسی دن آپ نے مسلمانوں کے ساتھ اعلانیہ کعبۃ اللہ شریف میں نماز ادا کی اور طواف بیت اللہ بھی کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ : اس دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خود میرا نام فاروق رکھ دیا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے سبب سے حق و باطل میں امتیاز فرمادیا ۔(حلیۃ الاولیاء عمر بن الخطاب؛ جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۷۵ الرقم : ۹۳)
شہادت عظمی کی بشارت؛صحیح بخاری میں حدیث مبارک ہے :
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ صَعِدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَی أُحُدٍ وَمَعَهُ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ،فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ،قَالَ:اثْبُتْ أُحُدُ فَمَا عَلَیْکَ إِلاَّ نَبِیٌّ أَوْ صِدِّیقٌ أَوْ شَهِیدَانِ ۔
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ احد پہاڑ پر تشریف فرما ہوئے تو وہ اپنے مقدر پر ناز کرتے ہوئے فرط مسرت سے جھومنے لگا، حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم مبارک مار کر اس سے فرمایا :اے احد! تھم جا تجھ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ایک صدیق اور دوشہید ہیں۔(صحیح البخاری حدیث نمبر: ۳۶۸۶)
نیز آپ رضی اللہ عنہ اکثر مدینۂ طیبہ میں وفات پانے اور جام شہادت نوش کرنے کی دعا کیا کرتے : اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ شَہَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِکَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، یعنی الہٰی ! تو مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت عطا فرما اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شہر مدینے میں مرنا نصیب فرما۔(صحیح بخاری ، ج۱،ص۶۲۲، الحدیث:۱۸۹۰)۔
چناں چہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آخری حج ۲۳ سن ہجری میں کیا اور اسی سال حج سے واپسی کے بعد ۲۶ ذوالحجۃ الحرام کو انہیں ابولؤلؤ فیروز (لعین) نامی مجوسی (آتش پرست) غلام نے خنجر کے پے درپے تین وار کرکے شدید زخمی کردیا ۔ آپ تین دن اسی حالت میں رہے مگرنماز کوئی نہ چھوڑی پھر یکم محرم الحرام کو دس سال پانچ مہینے اور اکیس دن مسند خلافت پر متمکن رہنے کے بعد ۶۳ برس کی عمر میں آپ شہید ہوگئے۔(طبقات کبری،ج۳،ص۲۱۵۔۲۶۲۔۲۷۸) إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ۔
یعنی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ۶۳ سال کی عمر مبارک میں وصال، قرب مصطفویﷺ کی دلیل ہے جیسا کہ صحیح مسلم شریف میں روایت ہے: فَقَالَ مُعَاوِیَةُ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ سَنَةً وَمَاتَ أَبُو بَکْرٍ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ وَقُتِلَ عُمَرُ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ ۔ترجمہ : سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا، اس وقت آپﷺ کی عمر مبارک ترسٹھ (۶۳) برس تھی، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو آپ کی عمر ترسٹھ (۶۳) برس تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو آپ کی عمر مبارک بھی ترسٹھ(۶۳) برس تھی (صحیح مسلم ،باب کم أقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ بمکۃ والمدینۃ.حدیث نمبر:۶۲۴۴)
وصال شریف کے بعد پس منظر ؛ہر ذی روح نے پیامِ اجل کو لبیک کہنا ہے اور ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھناہے ۔ ویسے تو دنیا سے لاکھوں لوگ رخصت ہوئے ، کسی پرکچھ لوگوں نے آنسو بہائے توکوئی انتہائی خاموشی کے ساتھ گورستان کا مکین ہو گیا مگر جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو کیا سماں تھا ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تاثرات کیا تھے ؟ ملاحظہ کیجئے : آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم نے کہا : اللہ تعالیٰ ہماری عمریں بھی آپ کو لگادے۔(طبقات کبری،ج۳،ص۲۶۵)حضرت مولا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آپ کے چہرے سے کفن کا کپڑا ہٹا کر کہا : اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ (طبقات کبری ، جلد ۳ صفحہ ۲۸۳)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : خدا کی قسم !میرے گمان میں خاردار درخت بھی آپ کے وصال پر غمزدہ ہیں (طبقات کبری،ج۳،ص۲۸۴)
آپ کے وصال کے دن حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے فرمایا : آج اسلام کمزور ہوگیا۔(معجم کبیر ،ج۲۵،ص۸۶، الرقم:۲۲۱)
اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ کے وصال سے ہر مسلمان کے گھر دینی ودنیاوی نقص داخل ہوگیا۔(طبقات کبری،ج۳،ص۲۸۵)۔
یہ ہیں خلیفۂ دوم، پیکر صبر و وفا، مراد رسولﷺ، امام العادلین، امام المجاہدین، غیظ المنافقین، امیر المومنین، حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی سیرت و حالاتِ زندگی کے چند گوشے ۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات طیبہ کا احاطہ کرنے کےلیے لاکھوں دفاتر بھی کم ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاص نسبت عطا فرمائے اور حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے کی توفیق بخشے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
(بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰ حضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند :
متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔ یوپی۔