Wednesday, November 20, 2024
Homeحالات حاضرہجنگ آزادی میں علماے اہل سنت کا نمایاں کردار

جنگ آزادی میں علماے اہل سنت کا نمایاں کردار

جنگ آزادی میں علماے اہل سنت کا نمایاں کردار 

ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس پر تقریباً آٹھ سو سال اسلامی حکومت اپنی شان و شوکت کے ساتھ جگمگاتی رہی ،اس عرصۂ دراز میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک مسلمانوں کے جھنڈے فضائے بسیط میں لہراتے رہے ،اس طویل مدّت میں ملک نے جو عروج و ارتقا کے منازل طے کیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں، کیوں کہ ملک کی محبت و عظمت کو مسلمانوں نے اپنےدل کی دھڑکنوں میں رچایا بسایا ۔

اور اس کی محبت پر مر مٹنے کا جزبۂ صادقہ پیدا کیا۔ مسلمانوں نے جہاں صنعت و حرفت کی بدولت ملک کو خوشحال اور زرخیز بنایا وہیں اپنی علمی اور فنی لیاقت کو بروئے کار لاکر ملک کو علم و فن کا میکدہ بنایا

چناں چہ اس وقت عالمی سطح پر ہندوستان نے جو شہرت و مقبولیت اور عروج و ارتقا حاصل کی اس شہرت و مقبولیت اور تعمیر و ترقی نے پوری دنیا پر گہرا اثر ڈالا ،اہل کمال اور اربابِ علم و فن حضرات نے ملک ہند کی طرف اپنا رخ کیا ،ہندوستان میں یکتائی اور بے نظیری کا غلغلہ اور شور بلند ہوا ۔

اس خاکِ ہند کو افلاک کی سی بلندی نصیب ہوئی ،اطرافِ ہند میں خوشحالی اور آسودگی کی لہر دوڑ گئی ، باشندگان ِ ہند امن و سکون،چین و راحت کے گہوارے میں جھولنے لگے اور ہندوستان کی دولت و ثروت اکنافِ عالم میں گشت کرنے لگی۔

 

ہندوستان کی بد نصیبی کہ ۱۸۵۷ ؁ءمیں اس چمکتے دمکتے آفتاب کو گہن لگ گیا اور سلطنت مغلیہ کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کو تختِ ہند سے اتار دیا گیا،سلطان بہادر شاہ ظفر کے سلطنت سے معزولی کے بعد انتشار و خلفشار کے دروازے کھل گئے۔

پھر دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں حریصانہ نگاہوں سے وطن عزیز کی جانب دیکھنے لگیں چنانچہ تن کے گورے اور من کے کالے انگریزوں نے بھی اپنی شاطرانہ چال “ایسٹ انڈیا کمپنی “کے ذریعہ تجارت کے بہانے سونے کی چڑیا کہے جانے والے بھارت کو لوٹنا شروع کیا ،دھیرے دھیرے ؁۱۸۵۷ء تک حکومت کا مغز نکال کر کھوکھلا کر ڈالا ۔

ان کم ظرفوں نے صرف اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ہند کی حکومت پر ظالمانہ و جابرانہ طور پر قبضہ کر لیا اس طرح وطن عزیز تن کے گورے من کے کالوں (انگریزوں )کے قبضے میں چلا گیا،اور پھر ملک میں تباہی و بربادی کا سماں پیدا ہو گیا ، چاروں جانب ظلم کے شعلے آسمانوں سے باتیں کرنے لگے

جبروتشدد اور وحشت و بربریت کا حولناک و دہشت انگیز مظاہرہ کیا جانے لگا ، پورے ملک میں قبرستان جیسا سنّاٹا چھا گیا ، حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں لپیٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جانے لگا (العیاذ باللہ )فتح پوری مسجد سے لال قلعہ کے دروازے تک انسانی لاشیں درختوں پر نظر آنے لگیں

اور پورے ملک میں سنّاٹاچھا گیا اس خوف و ہراس بھرے وقت میں ضرورت پیش آئی ایک ایسی تحریک کی جو تحریک انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کرے اور ملک کو انگریزوں کے شکنجے سے آزاد کرا سکے ،ملک کے باسی امن اور شانتی کے ماحول میں زندگی بسرکر سکیں ، انسانوں کے خون و مال، عزت و آبرو اور جائیداد وغیرہ کی حفاظت و صیانت ہو سکے ۔

بالآخر مظلوم انسانوں کی آہ و بکا اور فریاد اللہ عز و جل کی بارگاہ میں پہنچ ہی گئی اور علمائے ربا نیین کو اس کی توفیق حاصل ہوئی ۔

چناں چہ بطل حریت علامہ فضل حق خیرا بادی نے فتویٰ لکھا کہ” انگریزوں سے اپنے مذہب ،ملک اور عزت کی حفاظت کی خاطر جہاد کرنا واجب ہو گیا “اس فتویٰ پر وقت کے اکابر علمائے کرام و مشائخ ذوی الاحترام نے دستخط فرمائے، علامہ فضل حق خیرابادی اور ان کے ہمنواؤں کے اس فتویٰ سے پورے ملک میں آزادی کی با قاعدہ لہر دوڑ گئی ۔علمائے کرام کے ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس جنگ آزادی میں دل و جان سے حصہ لیا ۔

اور حد درجہ اذیتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ،اور ہزاروں علماے کرام کو انگریزوں نے جوشِ انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا ،اس وقت کے ان تمام جاں باز علما نے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو قبول کر لیا تب جاکر کہیں ۱۵ اگست ؁۱۹۴۷ءکو ہند وستان کو آزادی ملی ۔ ان میں سے اکثر وہ حضرات ہیں جو مسندِ درس پر بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے اور اپنی تحریری و تقریری تبلیغ سے اسلام کے چراغ کو روشن کیا کرتے تھے

جب ضرورت پیش آئی ملک کے لیے لڑنے کی تو اپنے ملک کی محبت کی خاطر درسگاہوں کو چھوڑ کر ننگی تلوار کے ساتھ شاملی کے میدان میں نکل آئے ،انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے مجاہدین آزادی کے دوش بدوش ہوکر میدان کارزار میں صف آرا ہوئے بہت سے علمائے کرام وطن سے محبت اور فتوائے جہاد کی حمایت کی وجہ سے جزیرۂ انڈومان کے کالا پانی میں زندگی کے باقی دن گذارنے پر مجبور کیے گئے، نہ جانے کتنے علمائے کرام کو پھانسی کے پھندے کو چومنا پڑا ،لاکھوں کی تعداد کا وجود ختم ہو گیا ،اور نہ معلوم کتنے علمائے کرام رو پوش کردیئے گئے ۔

اس جنگ میں علماے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ملک کی حفاظت و صیانت کے لیے شہادت پیش کیا، جنگِ آزادی میں جن علمائے کرام نے نمایاں کردار پیش کیا ان میں حضرت علامہ فضلِ حق خیرابادی رحمة اللہ علیہ ،حضرت مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی،حضرت مفتی صدر الدین آزردہ ،مولانا لیاقت اللہ الہ ٰ بادی ،مولانا احمد اللہ مدراسی وغیرہم کے اسمائے گرامی سرِ فہرست ہیں علّامہ فضلِ حق خیرا بادی کی وہ ذات ہے جس نے تحریک آزادی کی فکری دور کا آغاز اس وقت کیا،جب آپ لکھنؤ میں تحصیل دار کے مہتمم اور صدر الصدور مقرر کئے گئے

ابھی آپ ٹھیک سے جائزہ بھی نہ لے پائے تھے کہ ہنومان گڈھی میں انگریزوں نے خفیہ طور پر دو فریق (ہندو مسلم) کے درمیان خونی جنگ کرا دی ، جسے سیدھے سادھے لوگ سمجھ نہ سکے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے

جب علّامہ صاحب نے ایسا ماحول دیکھا تو اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر پوری طرح سے لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیئے ابھارنا شروع کر دیا اور آخری حربہ کے طور پر دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد میں مدلّل و مفصل خطاب فرمایا جس سے پوری قوم کا سویا ہوا مزاج جاگ اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے نوّے ہزار کی تعداد میں لوگ انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے جمع ہو گئے۔

جس سے انگریزوں کو اپنا اقتدار ختم ہوتا نظر آیا تو انگریزوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے آپ کو خریدنا چاہامگر ان کو اس میں سخت ناکامی حاصل ہوئی ،اسی طرح علّامہ کی آخری سانس تڑپتی ہوئی نکلی آخر کار ۱۸۷۸؁ھ مطابق ؁۱۸۶۱ء میں یہ علم و فضل کا شمع ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا

فنا کے بعد بھی باقی ہے،شان رہبری تیری

خدا کی رحمتیں ہوں اے امیرِ کارواں تجھ پر

از : (مولانا) حبیب اللہ قادری انواری 

آفس انچارج :۔ دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف ،باڑمیر (راجستھان)

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن