یوم آزادی کے مکمل ہوئے 75 سال
تحریر :محمد رضوان احمد مصباحی
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
ہمارا ملک ہندوستان کبھی انگریزوں کا غلام ہوا کرتا تھا۔ مگر ٹھیک آج سے پچھتر ٧٥/ سال پہلے ملک ہندوستان کے شیردل اور جانباز مجاہدین نے بلا تفریق مذہب و ملت اپنا خون بہا کر اور اپنی جانوں کی قربانی پیش کرکے اس ملک کو ہمیشہ ہمیش کے لیے غلامی کے زنجیر سے آزاد کرادیا۔ اس خوں ریز جنگ آزادی میں کتنی ماؤں نے اپنی اولاد کھو دیں، کتنی بیبیوں کا سہاگ اجڑ گیا، اور کتنی بہنوں نے اپنے سینے اور کلیجے پر پتھر رکھ کر اپنے اپنے بھائیوں کو الوداع کہہ کے میدان جنگ کے لیے رخصت اور روانہ کیے؟
ان مجاہدین آزادی کے خون کا ایک قطرہ بھی رائیگاں اور برباد نہیں گیا بلکہ پندرہ ١٥/ اگست ١٩٤٧ کو غلامی کی بیڑیاں ٹوٹ گئیں اور ہمارا ملک ہندوستان انگریزوں کے چنگل سے نجات حاصل کر کے ایک آزاد ملک میں تبدیل ہوگیا۔
ملک ہندوستان کو آزاد ہوئے آج پچھتر ٧٥/ برس ہوگئے آور آج ہم اسی آزادی کا ٧٥/واں جشن منا رہے ہیں اور جنگ آزادی میں اپنی جان قربان کرنے والے مجاہدین کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ پورے ملک میں آزادی کا جشن بڑے ہی تزک و احتشام اور شان و شوکت کے ساتھ منایا جا رہا ہے، اور ہندوستان کو ایک دلہن کی طرح سجا کر مجاہدین آزادی کو یاد کیا جا رہا ہے۔ نیز پورا ملک “ہندوستان زندہ باد” کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے ان مجاہدین کی جانیں قربان ہوئیں اور خون بہایا گیا وہ یہ تھا کہ ہندوستان میں بسنے والے تمام باشندگان بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل ہر ایک آپس مل جل کر رہیں. ہر فرد کو اپنے اپنے طور پر مذہبی آزادی حاصل ہو، ہر شہری اپنے آپ کو فری اور آزاد محسوس کرے، مذہب کی بنا پر کسی کو نشانہ نہ بنایا جائے، ہندو مسلم، سکھ، عیسائی ہر ایک اپنے مذہب کا پیروکار ہو۔
لیکن حیف! کہ جب ہم گزشتہ چند سالوں پر ایک طائرانہ نظر بھی ڈالتے ہیں تو آنکھیں نم اور اشکبار ہوجاتی ہیں اور وہ مقصد دور دور تک کہیں نظر نہیں آتا جس کے لیے مجاہدین جنگ آزادی نے اپنا لہو بہایا تھا۔
حد تو یہ ہے کچھ شریر اور شدت پسند لوگ سونے کی چڑیا کہے جانے والے اس خوبصورت ملک کی تصویر کو بدتر اور بد صورت بنانے کے لیے ایک مخصوص مذہب، مذہب اسلام کو ٹارگیٹ کر کے مسلمانوں کو تباہ و برباد اور بدنام کرنے کی ناپاک کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
حالاں کہ حقیقت ان پر آشکارا ہے۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ جس طرح ہندوستان کی آزادی میں ہندو اور دوسرے دھرم کے ماننے والوں نے اپنی اپنی جانوں کی بلیدان پیش کی ہیں اس طرح مسلمانوں نے بھی اپنی قربانیاں پیش کی ہیں۔
تاریخ گواہ ہے مسلمان جنگ آزادی میں نہ تو ایک قدم پیچھے ہٹے ہیں اور نہ ہی کسی گورے اور انگریز سے صلح کئے ہیں۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب نے اپنے اپنے طور پر حصہ لیا ہے ۔ لیکن یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں مسلمانوں ہی کا اہم اور قائدانہ کردار رہا ہے۔
اور اس کی شروعات بھی مسلمانوں نے ہی کی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ اس ملک کی آزادی میں پچاس فیصد مسلمانوں کا ہاتھ ہے تو میں اپنے اس قول میں حق بجانب رہوں گا کیونکہ یہی سچائی ہے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انگریز جب پورے ملک میں اپنا تسلط قائم کر چکے اور ہندوستان کے لوگوں پر طرح طرح ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنے لگے ایسے وقت میں جب ہندوستانی عوام کشمکش میں مبتلا تھی کہ آخر ان کے خلاف کون آواز اٹھائے؟
ایسی نازک اور دشوار حالت میں ایک آواز دہلی کی جامع مسجد سے انگریزوں کے خلاف جہاد کی بلند ہوئی اور یہ آواز اٹھائے والا کوئی دوسرا نہیں بلکہ ایک مسلمان، قائد جنگ آزادی حضرت علامہ فضل خیرآبادی کی ذات مقدسہ ہی تھی۔
مورخین لکھتے ہیں :_قائد جہاد آزادی استاد مطلق حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی ہی نے وسیع پیمانے پر سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا علما سے فرضیت جہاد پرفتوی لیا جس پر اسی وقت دہلی کے ۳۳ علماۓ حق نے دستخط ثبت کیے جس کے نتیجے میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی رونما ہوئی جسے انگریزوں نے “غدر” کہا جس میں قائدین ومجاہدین کی بڑی تعداد مسلمانوں کی تھی۔ لاکھوں عوام اہل سنت نے اپنا خون نذرکر کے “حب الوطنی” کا ثبوت پیش کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں علماء شہید کیے گئے۔
لاکھوں مجاہدین سولی پر لٹکائے گئے۔ مسلمان مجاہدین کی فہرست کافی طویل ہوتی گئی۔ مگر پھر کیا ہوا جب ہمارا ملک ہندوستان آزاد ہوا۔ ہماری تاریخ کو مسخ کر دیا گیا، اسے بگاڑ کر عوام کے سامنے پیش کیا گیا، تاریخ کومحدود کر دیا گیا، وہ مجاہدین جنہوں نے آزادی کا علم بلند کیا تھا ان کے نام تک مٹا دیے گئے۔
ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ہمارے ملک کی دیگر قومیں اس میں شامل نہیں تھیں، نہیں ہرگز نہیں، انہوں نے بھی اپنے ملک کے لیے ہمارے دوش بدوش حصہ لیا۔ آج ہندوستان کی دھرتی اگر سر سبز و شاداب ہے تو اس ہریالی کے پیچھے مسلمانوں کا بہتا لہو بھی کارفرما ہے۔ حرارت ایمانی سے گرم خون ہی نے اس مٹی کو زر خیز بنار کھا۔ہے۔ (جنگِ آزادی میں علمائے اہل سنت کا کردار، ص : ٢)
ہندوستان کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ سب لوگ ایک ساتھ مل کر رہیں اور سب کو یکساں اور برابری کا حق حاصل ہو۔ ذات پات ، رنگ ونسل اور مذہب و ملت کی وجہ سے کسی کو ٹارگیٹ نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی کا کپڑا اور لباس دیکھ کر ان سے نفرت کی جائے۔ وہ پگڑی پہنے یا سر پر ٹوپی لگائے بلکہ ایک سچا ہندوستانی ہونے کے ناطے ان سے محبت کی جائے یہی ہمارے ملک کی خوب صورتی اور آئینی حق ہے۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا ۔
تحریر : محمد رضوان احمد مصباحی
رکن : البرکات ایجوکیشنل اینڈ ویلفئیر ترسٹ سیمانچل
مقیم حال : راج گڑھ ،جھاپا ،نیپال