Tuesday, December 5, 2023
Homeشخصیاتحضور شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی نثری خدمات

حضور شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی نثری خدمات

حضور شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی نثری خدمات   

از : آصف جمیل امجدی

حضور شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی تصنیفی خدمات تقریبا نصف صدی کا احاطہ کیے ہوے ہیں ۔آپ کی نثر نگاری کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی رہی کہ وقت اور حالات کے اعتبار سے اس میں تبدیلی آتی رہی ہے۔ نزهة القاری

شرح بخاری مفتی شریف الحق امجدی کا وہ علمی شاہکار ہے جس میں ان کی علمی جلالت فقہی بصیرت ، متکلمانہ حیثیت ، ناقدانہ ومحققانہ صلاحیت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔اس شرح کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ زبان بڑی شستہ سادہ اور عام فہم ہے مطالیب و مفاہیم غیرمبہم اور واضح ہیں ۔ جس طرح بخاری شریف کی عربی زبان میں بے شمار شرحیں لکھی گئیں ۔ اسی طرح اردوزبان میں بھی بہت سی شرحیں لکھی جا چکی ہیں۔ لیکن جب ہم ان تمام شرحوں کو سامنے رکھ کر نزھتہ القاری کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہیں تو زبان و بیان کی جو شادابی اس میں نظر آتی ہے ۔ وہ دوسری شرحوں میں کم ہی ملتی ہے۔

نزہۃ القاری میں شروع سے آخر تک شارح علام نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ اس سے خواندہ نا خواندہ یکساں مستفید ہوسکیں ۔ یہاں تک کہ نا خواندہ کو پڑھ کر سنادیا جاۓ تو وہ بھی اس کو پورے طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔ کیونکہ وہی ترتیب ہے جو ترتیب الفاظ حدیث کی ہے پھر اس التزام کے باوجود اگر آپ اردو ترجمہ پڑھیں تو اردو محاورات کے خلاف نہ پائیں گے ۔ حدیث سے مستنبط مسائل صاف اور سادہ انداز میں بیان کیے گئے ہیں ۔ یہ ایک ایسی انفرادی خصوصیت ہے جو اس کو دیگر تراجم وشروح سے ممتاز کرتی ہے ۔

ڈاکٹرشکیل اعظمی نزہۃ القاری کے متعلق یوں رقم طراز ہیں:

”اسلوب تحریر تفہیم عالمانہ ومحققانہ ہونے کے باوجود بے حد شگفتہ ، شستہ ، عام فہم اور قاری و سامع کے دل و دماغ کو متاثر و مطمئن کرنے والا ہے ۔ ورنہ عموما علمی مباحث کے طرز تحریر تفہیم میں ابہام و اغلاق اور ژولیدگی و پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ جس سے عام قاری کا ذہن نہ صرف اخذ وقبول سے قاصر ہوتا ہے ۔ بلکہ انتشار و پراگندگی کا شکار بھی ہوجا تا ہے۔“

نزہۃ القاری کے اسلوب نگارش وطرز افہام وتفہیم کی ایک نمایا اور منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ حدیث پاک کے رواں سلیس اور بامحاورہ ترجمے اور ایمان افروز و باطل سوز تشریحات کے ساتھ ساتھ فقہ حنفی اور مسلک اہل سنت و جماعت کے نظریات و معتقدات پر ایرادات و اعتراضات کے تشفی بخش جوابات اور ان کی عظمت و اہمیت اور صداقت و حقانیت کو شرعی وعقلی دلائل و براہین سے مبرہن ومزین کر کے معترضین کو لا جواب اور قارئین کو طمانیت قلب اور طہارت فکر ونظر کا سامان بہم پہنچا کرفتنوں کا سد باب کر دیا ہے ۔ مسلک وعقیدہ کی بیباک ترجمانی اور سچی پاسبانی شارح بخاری کا خاص رنگ و آہنگ ہے ۔ انہوں نے جس قدر وسعت علم اور وقت فکر و نظر سے کام لے کر انتہائی موثر اور دلنشیں انداز میں اپنے مطالب و مقاصد کا اظہار فرمایا ہے وہ قابل صد تحسین و آفرین ہے ۔ نزہۃ القاری کا مقدمہ نہایت وقیع ، معیاری تحقیقی ، تنقیدی اور معلوماتی ہونے کے ساتھ ہی اسلوب تحریر نہایت صاف ستھرا اور طرز تحریر و تفہیم انتہائی عمدہ اور عام فہم ہے ۔ اس کے متعلق ڈاکٹر شکیل اعظمی صاحب فرماتے ہیں:

” اردوادب میں حالی کے مقدمہ شعر و شاعری نے جو ذہنی و فکری انقلاب برپا کیا اور شعر و شاعری کے رنگ و آہنگ کو جدید اور وسیع منظر نامہ عطا کیا جس کے باعث اسے شہرت دوام اور قبول عام حاصل ہوا اور اس کی اہمیت وعظمت کا اقرار و اعتراف ہر اردو ادیب و ناقد کو کرنا پڑا ۔ اس سے کہیں زیادہ قابل قدر فکر انگیز اثر آفریں اور دینی نظریات و معتقدات کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والا یہ مقدمہ ہے“

 

شب قدر عنایات الٰہی کی مقدس رات

یہ مقدمہ جہاں اپنا ایک ادبی مقام رکھتا ہے وہیں علمی اعتبار سے قاری اپنی معلومات میں غیر معمولی اضافہ اور ذہن وفکر میں جلا محسوس کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ اس کے مطالعہ سے شارح بخاری کے بے پناہ تبحرعلمی ، دقیقہ رسی ، نکتہ سنجی اور ژرف نگاری کا اقرار کیے بغیر بھی نہیں رہا جا سکتا۔

ترجمہ نگاری میں اس بات کا لحاظ ضروری ہوتا ہے کہ جس زبان میں ترجمہ کیا جاۓ اس کے اسلوب اور طرز میں کیا جاۓ ۔ کیونکہ ہر زبان کا اسلوب اور طرز جدا گانہ ہوتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ لفظ اور معنی دونوں کی رعایت بھی ضروری ہوتی ہے ۔ جہاں ان دونوں کی رعایت ناممکن ہو وہاں صرف عبارت کے معنی اور اس کی روح کو احتیاط اور دیانتداری کے ساتھ دوسرے الفاظ میں منتقل کر دیا جائے اور اس بات کا خاص طور سے خیال رکھا جاۓ کہ ترجمہ کرتے وقت پہلی عبارت جیسی فصاحت و بلاغت اور سلاست و روانی باقی رہے۔ اگر باقی رہتی ہے، تو یہ اعلیٰ قسم کا ترجمہ سمجھا جاتا ہے۔

نزہۃ القاری کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت شارح بخاری نے اردو اسلوب ہی میں ترجمہ فرمایا ہے ۔ لفظ اور معنی دونوں کی رعایت بھی مکمل طور پر کی ہے ۔ فصاحت و بلاغت اور سلاست و روانی میں کوئی خلل بھی واقع نہیں ہونے دیا ۔ نمونہ کے طور پر ایک حدیث پیش کی جاتی ہے

حديث : ”ان سويد بن نعمان ان اخبره انه خرج مع رسول اللہ ﷺ عام خیبر حتى اذا كانوا بالصهباء وهي ادنى خيبر فصلى العصر ثم دعا بالا زواد فلم يوت الابالسويق فأمر به فثری فاکل رسول اللہ ﷺ اكلناثم قام الى المغرب فمضمض و مضمضنا ثم صلى ولم يتوضاء“

ترجمہ : سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ یہ رسول اللہ سلیم کے خیر والے سال جہاد کے لیے نکلے جب سب لوگ صہبا پہنچے جوخیبر کا مدینہ طیبہ سے قریبی علاقہ ہے ۔ تو حضور ﷺ نے نماز عصر پڑھی پھر توشہ منگوایا ۔ حضورﷺ کی خدمت میں صرف ستو پیش کیا گیا ۔ حضورﷺ نے حکم دیا تو اسے بھگو یا گیا ۔ حضور نے بھی تناول فرمایا اور ہم لوگوں نے بھی کھایا۔اس کے بعد حضور مغرب کے لیے اٹھے ۔حضور نے کلی کی اور ہم لوگوں نے بھی کی پھر مغرب پڑھی اور حضور نے وضو نہیں فرمایا

اس ترجمہ کی فصاحت وسلاست ظاہر ہے ۔ اگر متن حدیث کو الگ کر دیا جاۓ تو ترجمہ محسوس نہیں ہوگا ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ترجمہ اردو اسلوب ہی میں کیا گیا ہے نزہتہ القاری کی تمام جلدوں میں ترجمہ کا یہی انداز ہے اور ترجمہ کا یہ بہت بڑا کمال ہے کہ لفظ ومعنی کی رعایت بھی ہو جائے اور ساتھ ہی مقصد بھی واضح ہو جاۓ۔

حضور مفتی شریف الحق امجدی نے ترجمہ میں اختصار و جامعیت کا پورا پورا لحاظ کیا ہے۔ نمونہ کے طور پر اس کی ایک دو نظیریں پیش کی جارہی ہیں۔

”فأخذني فغطنى حتى بلغ منی الجھد“ کا ترجمہ کیا ہے ۔ ”پھر فرشتے نے مجھے پکڑ کر طاقت بھر دیو چا“ اس کی جامعیت اور اختصار کو یوں سمجھئے کہ الجھد ، بلغ کا فاعل بھی ہوسکتا ہے اور مفعول بھی اگر منی میں من کو بیانیہ مانا جاۓ تو فاعل ہونے کی بنیاد پر مفعول بہ مبلغہ کو محذوف مانا جائے گا اور ترجمہ یہ ہوگا کہ پھر فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنادبوچا کہ میری طاقت اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور مفعول بہ ماننے کی صورت میں بلغ کا فاعل اس میں ضمیر مستتر ہوگی جس کا مرجع ( غط ) ہوگا اور ترجمہ یہ ہوگا ۔ ( پھر فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنا دبوچا کہ ان کا دبوچنا میری انتہائی طاقت کو پہنچ گیا ) ۔ان دونوں تر جموں میں طاقت حضور اقدس ﷺ کے ساتھ خاص ہے۔

اور اگر من کو براے تعلیل مانا جاۓ تو الجھد کو فاعل ماننے کی صورت میں حسب سابق مفعول بہ محذوف ہوگا اور ترجمہ یہ ہوگا ( پھر فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنا دبوچا کہ مجھے دبوچنے کی وجہ سے ان کی طاقت انتہا کو پہنچ گئی) اور الجھد کومفعول بہ ماننے کی صورت میں بلغ کا فاعل بلغ میں مستتر ضمیر ہوگی۔

جس کا مرجع ملك ( فرشتہ ) ہوگا اور ترجمہ یہ ہوگا ( پھر فرشتے نے مجھے پکڑ کر دبوچا یہا ں تک کہ مجھ کو دبوچنے کی وجہ سے اپنی انتہائی طاقت کو پہنچ گئے ) ان دونوں مؤخر الذکر ترجموں میں طاقت حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ خاص ہے۔

اس تشریح کو ذہن میں رکھتے ہوئے حضرت مفتی شریف الحق کے ترجمہ (پھر فرشتے نے مجھے پکڑ کر طاقت بھر دبو چا ) میں غور کیجیے کہ حضرت موصوف نے طاقت کو کسی کے ساتھ خاص نہیں کیا تا کہ سارے احتمالات کا پاس و لحاظ بھی ہو جائے اور لفظ طاقت حضور کی قدرت کوبھی شامل ہو جاۓ اور حضرت جبرئیل کی طاقت کو بھی ۔ اس لیے اس ترجمہ میں انتصار و جامعیت پیدا ہوگئی۔

مفتی شریف الحق صاحب امجدی کا انداز تشریح بھی انتہائی دلنشیں ہے مختصر اور سلیس عبارت میں مافی الضمیر کو بڑی خوش اسلوبی سے ادا کر نے پر ملکہ حاصل ہے ۔ تشریح کو مستند اور باوزن بنانے کے لیے مختصر تشریح میں ٹھوس دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ اعتراض کا سد باب بھی کر دیتے ہیں ۔ پوری نزہۃ القاری ایسی تشریحات سے پر ہے ۔ نمونہ کے طور پر یہاں ایک حدیث کی تشریح پیش کی جارہی ہے۔

”حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے جس میں حضور اقدس ﷺ نے ارشادفرمایا : امرتان ا قاتل الناس حتى يشهدو ان الا اله الا الله وان محمداً رسول الله و يقيموا الصلوة و يوتوا الزكوة فاذا فعلو ذلك عصموا منی دما ٸهم و اموالهم الابحق الاسلام و خسابهم على الله۔“ ترجمہ : *مجھے حکم دیا گیا کہ لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں۔ تو جب وہ ایسا کریں تو ان لوگوں نے اپنی جان و مال کو مجھ سے محفوظ کرلیا مگر اسلام کے حق سے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔

علمی سطح پر آپ کی تحریریں اور قلمی آثار علمی و تحقیقی ایجاد کا خوبصورت اور قیمتی رنگ لیے رہتی ہیں باتیں نپی تلی اور پتے کی ہوتی ہیں ۔ مضامین کی فراوانی بھی خوب ہوتی ہے ۔ لیکن مفہوم کی ترسیل اور مضامین کی تفہیم کہیں بھی متاثر نہیں ہوتی ، جن کا امتیازی وصف تحقیق و تدقیق ہوتا ہے ۔ سرعت تحریر میں اپنا جواب آپ تھے ۔ یقینا آپ کا یہ علمی شاہکار اپنی ایک ادبی حیثیت بھی رکھتا ہے اور ساتھ ہی آپ نے اپنے قلم کے ذریعہ اردوادب کے سرمایہ میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔

آصف جمیل امجدی

6306397662

[مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں]

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن