قرآں کو بدل دیتے ہیں !!
✍ : نثار مصباحی
ایک خطیب ہیں جو کافی جارحانہ اصلاح کرتے ہیں۔ وہ اپنی اسی خصلت اور خصوصی رنگِ خطابت کے سبب اسٹیج کی دنیا میں خاصے مشہور ہیں۔ ان کی اس عادتِ مستمرہ کے سبب اگر کوئی انھیں “خوں خوار اِصلاح کا رَسیا” کہہ دے تو شاید غیر متوقع نہیں ہوگا۔
ان کی کسی تقریر کا ایک شارٹ ویڈیو کلپ مجھے موصول ہوا جس میں وہ مساجد کے اماموں پر ٹرسٹیوں، متولیوں اور مساجد کمیٹی والوں کے ظلم و ستم وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں مساجد کے ذمے داروں کی ‘اصلاح’ کر رہے ہیں۔!!
انھوں نے آیتِ کریمہ : “یَومَ نَدعُوا کُلَّ أُنَاسٍ بِإمٰمِهِم” (ترجمہ کنز الاِیمان : جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے ‘امام’ کے ساتھ بلائیں گے) میں “امام” کا مطلب “امامِ نماز” بتا کر میدانِ حشر میں “امامِ مسجد” کے ذریعے بارگاہِ الہی میں مقتدیوں کی شکایت اور پھر مقتدیوں کی کُٹائی پِٹائی سب کروا دی ہے!!!(1) اور آخر میں دھڑلے کے ساتھ کہا ہے کہ “میں کوئی ہوائی بات نہیں کر رہا ہوں۔ یہ قرآن کا ججمنٹ (فیصلہ) ہے”۔!!!
جب کہ اس آیت کی تفسیر دیکھیں تو آیت کریمہ میں موجود “اِمام” کی تفسیر میں متعدد اقوال ہیں :
1 – “امام” سے انبیاے کرام مراد ہیں۔
2 – بندوں کے نامۂ اعمال مراد ہیں۔
3- ان کے لیے اتاری گئی آسمانی کتاب مراد ہے۔
4- ہر وہ امامِ زمانہ جس کی دعوت پر لوگ چلے خواہ وہ حق کا داعی ہو یا باطل کا۔ بلفظ دیگر عقیدہ و عمل میں ہر قوم کا پیشوا۔
5- ایک قول یہ ہے کہ “امام” سے لوگوں کے “مذاہب” مراد ہیں۔ (تفسیرِ قرطبی)
6- تفسیر بغوی میں “قِیل” کے ذریعے منقول ایک ضعیف قول یہ ہے کہ “امام” سے لوگوں کے (باطل) معبود مراد ہیں۔
7- ایسا ہی ایک دوسرا ضعیف قول یہ ہے کہ “امام” سے لوگوں کی مائیں مراد ہیں۔ (تفسیر قرطبی و تفسیر بغوی)۔
[[ان اقوال میں سے صاحبِ جلالین جو صرف ‘اصح اقوال’ پر اکتفا کرتے ہیں انھوں نے صرف پہلا اور دوسرا قول ذکر کیا ہے۔ امام طبری نے چوتھے قول کو “أولی بالصواب” کہا ہے۔ امام احمد رضا کا ترجمہ پہلے اور چوتھے دونوں اقوال کو شامل ہے۔]]
حاصل یہ کہ اس آیت میں “مسجد کے امام/نماز کے امام” مراد ہی نہیں ہیں اور -ہمارے علم اور تلاش کی حد تک- ایسی کوئی تفسیر یا ایسا کوئی ضعیف سے ضعیف تفسیری قول بھی وارد نہیں ہے۔ تفسیر طبری و قرطبی و بغوی وغیرہ متعدد تفاسیر دیکھیں تو متعدد اقوال ملتے ہیں، مگر کوئی ایک قول بھی “امامِ نماز/اِمامِ مسجد” کے بارے میں نہیں ملتا ہے۔ حتی کہ “قیل” وغیرہ کے ذریعے کوئی ضعیف قول بھی “امامِ مسجد” کے بارے میں نہیں ملتا ہے۔!!۔
ایسی صورت میں بالکل ظاہر ہے کہ خطیب کا اس آیت میں “اِمام” سے “اِمامِ مسجد” مراد لینا اور اسے قرآن کا ججمنٹ قرار دینا اپنی راے سے قرآن کی تفسیر کرنے کی ایک بڑی جسارت ہے، جو حرام اور قرآن کریم کی معنوی تحریف کے درجے میں ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ اپنی تقریروں کا رنگ چوکھا کرنے اور اپنے جذبات کو تسکین دینے کے لیے خطبا و مقررین کلامِ الہی کی تفسیر اپنے مَن سے کرکے قرآن کریم میں معنوی تحریف کی ایسی جسارت کیسے کر لیتے ہیں!!!
نوٹ: اس مقام پر اس خطیب کے انداز اور تعبیرات کی وجہ سے ہی ہم نے یہ اندازِ بیان اپنایا ہے۔ خطیب کے سارے جملے سننے کے بعد بہت افسوس ہوتا ہے۔ اللہ رحم فرمائے۔
[[واضح رہے کہ یہ مضمون لکھنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کے اس خطاب کی وجہ سے کئی بدمذہبوں کو ہم نے دیکھا کہ وہ ہمارے مذہب و مسلک کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس لیے بھی براءتِ ذمہ اور ایضاحِ حق ضروری تھا۔
]][[[ ضروری نوٹ : مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ خطیب صاحب نے میری یہ تحریر دیکھنے کے بعد اپنے بیان سے رجوع فرما لیا ہے۔وفقنا اللہ و ایاہ لما یحب و یرضی۔ ]]]