اعلیٰ حضرت اور حضور اشرفی میاں مراسم و تعلقات کے آئینے میں (بموقع : عرسِ اعلیٰ حضرت)
غلام مصطفیٰ رضوی (نوری مشن مالیگاؤں)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی (م۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) کی ذات مرجعِ عالم اسلام تھی۔ دینی و علمی خدمات کا شہرہ دینی مدارس سے لے کر عالمی جامعات ویونیورسٹیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ امام احمد رضا؛ شیخ المشائخ اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں قدس سرہٗ کی عظمتوں کے قدر داں تھے
آپ کی شان و مدح میں کئی ملفوظات یادگار ہیں۔ یوں ہی حضرت اشرفی میاں بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی شان و آن بان، علم و فن و خدماتِ دینِ مبیں کے معترف تھے۔ دونوں بزرگوں کے تعلقات و مراسم پر روشنی ڈالتے ہوئے ماہ نامہ المیزان ادارتی نوٹ میں لکھتا ہے: ’’اعلیٰ حضرت اشرفی میاں صاحب کچھوچھوی قدس سرہٗ (متوفیٰ ۱۱؍رجب المرجب ۱۳۵۵ھ) شہر بریلی رونق افروز ہوئے، تو وہیں امام احمد رضا خاں صاحب قدس سرہٗ سے ملاقات ہوئی اور پھر سلسلہ دراز ہی ہوتا گیا۔
دونوں بزرگوں نے ایک دوسرے کو بہت قریب سے دیکھا اور مراتبِ علیا سے واقف ہوئے۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں صاحب؛ امام موصوف کے تبحرِ علمی اور دینی فہم و بصیرت کے بہت معترف تھے، اسی طرح امام احمد رضا بھی اعلیٰ حضرت(اشرفی میاں) کی مشیخت اور جمالِ ظاہری و باطنی نیزروحانی کمالات کے دل دادہ تھے۔
ایک مقام پر امام موصوف نے ایک شعر میں اعلیٰ حضرت (اشرفی میاں) کے امتیازی اوصاف کو نہایت بلیغ اور دل کش انداز میں پیش کیا تھا، جو درج ذیل ہے ؎
اشرفی اے رُخت آئینۂ حُسنِ خوباں
اے نظر کردہ و پروردۂ سہ محبوباں‘‘(١)
اعلیٰ حضرت کے شعر مذکور پر متعدد تضمینیں لکھی گئی ہیں
محدث اعظم ہند سیدؔ محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے جو تضمین کہی اس کا مقطع ملاحظہ کریں ؎
کیا بیاں تیرا کرے سیّدؔ آشفتہ بیاں
تر زباں اند بمدحت چو نعیمِ دوراں
تورا مُکھ دیکھ کے اَس بولے رضا شیخِ جہاں
’’اشرفی اے رُخت آئینۂ حُسنِ خوباں
اے نظر کردہ و پروردۂ سہ محبوباں‘‘
حضرت مولانا سید محمد مدنی میاں اخترؔ کچھوچھوی نے اپنی تضمین کے مقطع میں یوں ارشاد فرمایا ؎ تیری تخصیص نہیں اخترؔ آشفتہ بیاں کتنے اختر ہیں نشید آرا ترنم ریزاں دیکھ خود شیخ رضاؔ بھی ہیں یوں گوہر افشاں
’’اشرفی اے رُخت آئینۂ حُسنِ خوباں اے نظر کردہ و پروردۂ سہ محبوباں‘‘
شیخ المشائخ حضرت اشرفی میاں نے ایک نصیحت میں فرمایا: ’’میرا مسلک شریعت و طریقت میں وہی ہے جو حضور پُر نور اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی قدس سرہٗ کا ہے۔‘‘ (٢)
اشاعتِ سُنّیت اور خدمتِ دین متین نیز احقاقِ حق کے لیے اعلیٰ حضرت اور حضور اشرفی میاں میں فکری مماثلت و ذہنی ارتباط کا نظارہ ان بزرگوں کے اقوال و افعال سے ہوتا ہے، مولانا یٰسٓ اختر مصباحی رقم طراز ہیں: شیخ المشائخ حضرت سیدشاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی (وصال ۱۳۵۵ھ/۱۹۳۶ء) قدس سرہٗ؛ خاتمُ الاکابر سید شاہ آلِ رسول احمدی مارَہروی قدس سرہٗ کے خاتمُ الخُلَفا تھے۔
حضرت خاتمُ الخُلَفا (اشرفی میاں) کا یہ ایمان افروز وگراں قدر اِرشاد وفرمانِ ھِدایت نشان ہے کہ: ’’فقیر کوحضرت مولانا سید شاہ آلِ رسول مارَہروی قدس سرہٗ سے شرفِ خلافت حاصل ہے اور مولانا احمدرضا خاں صاحب بریلوی بھی ان کے دربار سے فیض یاب ہیں۔ فقیر اور وہ اس رشتے سے پیر بھائی ہوئے- میرا مُرید اُن کامُرید ہے اور اُن کا مُرید فقیر کا مُرید ہے۔ جو اِس کے خلاف ہے ،فقیر اُس سے بَری ہے۔‘‘(٣)
روحانی اعتبار سے حضرت اشرفی میاں انفرادی مقام پر فائز تھے۔ وصالِ امام احمد رضا کی اطلاع کچھوچھہ مقدسہ میں پہنچی نہیں تھی کہ نگہِ ولایت سے آپ نے ملاحظہ فرما لیا
اس بابت حضرت محدث اعظم مولانا سید محمد اشرفی کچھوچھوی فرماتے ہیں: ’’مَیں اپنے مکان پر تھا اور بریلی کے حالات سے بے خبر تھا، میرے حضور شیخ المشائخ (اشرفی میاں) قدس سرہ العزیز وضو فرما رہے تھے کہ یکبارگی رونے لگے
یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ کیا کسی کیڑے نے کاٹ لیا ہے، مَیں آگے بڑھا تو فرمایا کہ: بیٹا! مَیں فرشتوں کے کاندھے پر “قطب الارشاد” کا جنازہ دیکھ کر رو پڑا ہوں۔ چند گھنٹے کے بعد بریلی کا تار ملا تو ہمارے گھر میں کہرام پڑ گیا۔ اس وقت حضرت والد ماجد قبلہ قدس سرہٗ کی زبان پر بے ساختہ آیا کہ رحمۃاللہ تعالٰی علیہ اسی وقت ایک خاندانی بزرگ نے فرمایا کہ اس سے تو تاریخِ وصال نکلتی ہے۔‘‘ (٤)
بہر کیف! حضور اشرفی میاں اور اعلیٰ حضرت کے مابین محبت و اخوت کا بابرکت رشتہ تھا۔ نصرت و حمایت دین کے لیے دونوں کی حیات مثالی اور مشعلِ راہ ہے
حوالہ جات:
(١) ماہ نامہ المیزان، کچھوچھہ، دسمبر۱۹۷۱ء، ص۴۸
(٢) سُنّی آواز ناگ پور،جولائی تاستمبر۱۹۹۷ء، ص۴۸؛ بحوالہ ہفت روزہ رضوان لاہور
(٣) علماے اہل سنت کی بصیرت و قیادت، ص۴۲۴۔۴۲۵، مجلسِ فکر رضا لدھیانہ۲۰۱۲ء
(٤) مجدد ِاعظم، مشمولہ سُنّی آواز ناگ پور، جولائی تا ستمبر۱۹۹۷ء، ص۹۰