Friday, October 4, 2024
Homeشخصیاتفروغ رضویات میں حضرت علامہ ارشد القادری کا کردار

فروغ رضویات میں حضرت علامہ ارشد القادری کا کردار

فروغ رضویات میں حضرت علامہ ارشد القادری کا کردار

تحریر :محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی {رام گڑھ}

قائد اہل سنت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ تحریر و تقریر اور مناظرے کے ذریعے فروغ رضویات میں بہت کام کیے ہیں ، اختصار کے ساتھان پر روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

تحریر کے ذریعے فروغ رضویات :

آپ نے اپنی تحریروں کے ذریعے ایوان نجدیت میں زلزلہ برپاکر دیا، زلزلہ “ اور ’’زیروز بر “ جیسی کتابیں لکھ کر آپ نے حق کو خوب واضح کیا۔ اور بد مذ ہوں کی متناقض عبارتوں کو سامنے رکھ کرخودانھیں کے ذریعے ان کے موقف کی تردیدی کی ۔آپ کی ہر تحریر میں فروغ رضویت نمایاں نظر آتا ہے

خصوصیت کے ساتھ مندرجہ ذیل تصانیف اور مقالات

(۱)فن تفسیر میں امام احمد رضا کا مقام امتیاز

(۲) تعلیمات امام احمد رضا

(۳) دعوت حق مکتوبات رضاکی روشنی میں

(٤) دل کی آشنائی

(۵) دور حاضر میں بریلوی اہل سنت کاعلامتی نشان

(٦)عشق رضاکی سرفرازیاں

(۷) تجلیات رضا

(۸) کنزالایمان جمالیاتی ادب کا شاہ کار

(۹) امام احمد رضا اور قادیانیت

(۱۰) کیوں رضا آج گلی سونی ہے

(۱۱) سرمستی جنون

(۱۲) امام احمد رضا ایک ہمہ گیر شخصیت

(۱۳) کنزالایمان کا مطالعہ

(۱٤) کنز الایمان کی اہمیت

(۱۵) مفتی عظم کامحد ثانہ مقام

(۱٦)الملفوظ کی ترتیب و تدوین

تجلیات رضا:

یہ کتاب علامہ کے مختلف مضامین پرشتمل ہے جسے آپ کے صاحب زادے ڈاکٹر غلام زرقانی صاحب نے ترتیب دیا ہے ۔

اس میں پہلا مضمون ”امام احمد رضا بریلوی کے عشق رسول کی ایک جھلک “ اسے آپ نے اپنی کتاب لالہ زار کے لیے لکھا ہے جسے اس میں شامل کر لیا گیا ہے ۔

دو سرا مضمون ”فن تفسیر میں امام احمد رضا کا مقام امتیاز “( یہ کتابی شکل میں پہلے سے بھی دستیاب ہے یہ طویل مضمون علامہ نے ’’ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی کے زیراہتمام بین الاقوامی امام احمد رضا کا نفرنس میں پڑھاتھا۔ اس میں آپ نے تین رخ سے بحث کی ہے، پہلا رخ ترجمے میں قرآن کے نصوص و مضمرات کی رعایت ۔ دوسرارخ ترجمے میں اختصار اور جامعیت ۔

تیسرارخ شگفتہ زبان کنز الایمان کی بڑی جامعیت کے ساتھ تبصرہ فرمایا ہے۔ تیسرامضمون ” فاضل بریلوی کی شاعری میں عشق رسول کے جلوے“ یہ مضمون جام نور کولکاتہ میں شائع ہوا تھا۔

چوتھامضمون ” دعوت حق مکتوبات رضا کی روشنی میں “ ۔ یہ مضمون معارف رضاکراچی میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں آپ نے یہ دکھانے کی کوشس کی ہے کہ ” جو لوگ اعلیٰ حضرت کی زبان پر شدت پسندی و تلخ بیانی کا الزام عائد کرتے ہیں وہ عصبیت کی عینک اتار کر دیدۂ انصاف سے ان خطوط کی زبان ملاحظہ فرمائیں ۔(تفصیل کے لیے کتاب کا مطالعہ کریں) ۔

اس مضمون سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ حضرت اپنوں کے ساتھ بڑی نرمی سے پیش آتے تھے اگر چہ وہ فروعی مسائل میں آپ سے اختلاف رکھتے تھے ۔

پانچواں مضمون ”عبقریت امام احمد رضا بریلوی کے باکمال پہلو“۔ اسے حضرت علامہ یسین اختر مصباحی صاحب کی مشہور زمانہ کتاب ’’امام احمد رضا اور رد بدعات و منکرات “ کے لیے آپ نے مقدمے کے طور پر لکھا ، جو ایک طویل مقد مے پر مشتمل ہے۔

چھٹا مضمون ’’مسلک رضویت حقائق کے اجالے میں “ حضرت مولانا بدر الدین رضوی مصباحی کی کتاب سوانح اعلیٰ حضرت کے لیے آپ نے مقدمہ تحریر فرمایا، اس میں آپ نے لفظ اعلیٰ حضرت “ اور ”مسلک اعلیٰ حضرت “ پر بڑی عمدہ تحریر پیش کی ہے ۔ساتواں مضمون ” بریلوی دور حاضر میں اہل سنت کا علامتی نشان؟“۔

آٹھواں مضمون ” بار گاہ اعلیٰ حضرت میں حاضری “ ۔ اس مضمون کو قارئین سفر نامہ بھی کہہ سکتے ہیں ، جب حضرت علامہ جمشید پور سے دعوت و تبلیغ کے لیے کشمیر تشریف لے جار ہے تھے تو بریلی اسٹیشن سے در گاہ اعلیٰ حضرت تشریف لے گئے اور آستانے پر حاضری دی ، اس میں آپ نے آستانہ رضویہ پر حاضری کو بڑے اچھوتے انداز میں پیش کیا۔

 

مناظرہ کے ذریعہ فروغ رضویات:

یوں تو آپ نے جتنے بھی مناظرے کیے سب میں اہل سنت کا پرچم لہرایا اور اہل سنت کی فتح ہوئی ، کچھ مناظرے ایسے بھی تھے جس میں دیوبندی مناظر نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ پر بے بنیاد الزامات عائد کیے ،اس پر علامہ نے انھیں مناظروں میں دندان شکن جواب دیا۔ پیش ہے ان مناظروں کی چند جھلکیاں علامہ کی زبانی:

ملاحظہ فرمائیں:

کٹک اڈیشا:

پہلے راؤنڈ میں مولوی ارشاد احمد دیو بندیوں کی طرف سے مناظرے کے لیے کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے افتتاحی تقریر میں ” لفظ اعلیٰ حضرت “ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ حضور اکرم ﷺ کو ”حضرت “ کہتے ہیں اور مولانا احمد رضا خاں کو ’اعلیٰ حضرت “ کہتے ہیں اس طرح آپ حضرات نے اپنے پیشوا کو حضور ﷺ سے بھی بڑھادیا۔

میں نے ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا یہ الزام بالکل غلط ہے کہ ہم حضور ﷺ کو صرف حضرت کہتے ہیں بلکہ جب بھی ہم حضورﷺ کا نام لیتے ہیں تو کبھی ہم انھیں سرور کائنات ، احمد مجتبٰی محمد مصطفیٰﷺکے القابات سے یاد کرتے ہیں اور کبھی سلطان کونین ،امام الانبیاء سید المرسلین ﷺ کے الفاظ سے موسوم کرتے ہیں ۔

جن القابات کے ساتھ ہم حضور پر نورﷺ کا نام لیتے ہیں ان القابات سے ہم ہرگز امام اہل سنت امام احمد رضا خاں صاحب کو موسوم نہیں کرتے ہیں ۔ یہ آپ کے گستاخ ذہن کی ناپاک جسارت ہے کہ آپ نے لفظ اعلیٰ حضرت کو حضور اکرم ﷺ کے مقابلے میں سمجھ لیا ہے ، حالاں کہ ہم اعلیٰ حضرت کا لفظ ان کے علمی خانوادے کے در میان امتیازی لقب کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔

اگر آپ حضرات کے نزدیک ”لفظ اعلیٰ حضرت ‘‘ کا استعمال حضور کے مقابلے میں ہے تو آپ سنبھل کر بیٹھ جائیے کہ میں آپ کی متعد د کتابوں کے حوالوں سے آپ کی برادری میں در جنوں اعلیٰ حضرت کی نشان دہی کر رہا ہوں ۔

میں نے ان کی کتابوں سے ثابت کیا کہ انھوں نے اپنی کتابوں میں حاجی امداداللہ چشتی ، مولوی رشید احمد گنگوہی، مولوی قاسم نانوتوی ، مولوی اشرف علی تھانوی ، مولوی حسین احمد ٹانڈوی ، سعودی عرب کے شاہ فیصل اور قاری طیب مہتم دار العلوم دیو بند کے ناموں کے ساتھ جگہ جگہ اعلیٰ حضرت کا استعمال کیا ہے

راجستھان:

اس مناظرے میں بھی دیو بندی مناظر نے اعلیٰ حضرت کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا تو آپ نے بروقت اس کی گرفت کی ، پیش ہے آپ ہی کے لفظوں میں اس مناظرے کی کچھ اقتباسات: بحث کے دوران دیو بندی مناظر نے اعلیٰ حضرت کے خلاف اسی طرح کا الزام عائد کرتے ہوے کہا کہ انھوں نے اپنی کتاب “إعلام الأعلام بأن الهند دار الإسلام“ میں برطانوی دور حکومت کے ہندوستان کو دارالاسلام لکھا ہے ۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ انگریزی حکومت کو اسلامی حکومت اور انگریز کو ظل اللہ فی الارض سمجھتے تھے ۔ انھوں نے یہ کتاب لکھ  کر انگریزوں کا حق نمک ادا کیا ہے ۔ میں نے الزامی جواب دیتے ہوے کہا کہ برطانوی دور حکومت کا ہندوستان تو آپ حضرات کی نظر میں دار الحرب ہے ،لیکن یہ بتائیے کہ آج کے کا نگریسی دور حکومت کے ہندوستان کو آپ لوگ کیاسمجھتے ہیں دار الاسلام یادار الحرب ؟۔

جواب دیتے ہوے یہ بھی ذہن میں ملحوظ رہے کہ نظام حکومت اب بھی وہی غیر اسلامی ہے ۔ صرف نظام چلانے والے ہاتھ بدل گئے ہیں ۔ تویقین جانیے ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں ۔ دار الا سلام کہہ نہیں سکتے تھے کہ مسلمانوں سے شرم آرہی تھی اور دار الحرب کہتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی صاحب کا خطرہ تھا جو سامنے ہی بیٹے ہوئے تھے اسی شکمش میں وہ کوئی جواب نہیں دے سکے اور ہمارا سوال آج تک ان کے ذمہ قرض رہ گیا۔ [تجلیات رضا-ص:١٨٣]۔

جھریا دھنباد:

الملفوظ پراعتراض اور اس کار د بلیغ: اس مناظرے میں شرائط طے کرتے وقت دیو بندیوں نے اصرار کیا کہ بریلوی مناظر بھی اپنے اکابر کا مسلمان ہونا ثابت کرے گا ، چناں چہ مولوی طاہر گیاوی نے الملفوظ پر اعتراض کیا

اس مناظرے کی روداد ملاحظہ فرمائیں:

طاہر گیاوی نے الملفوظ کے حوالے سے کچھ عبارتیں پیش کر کے کہا کہ ان عبار توں سے کفر ثابت ہو تا ہے اس لیے آپ صاحب ملفوظ کا مسلمان ہو ناثابت کریں۔ میں نے اپنی جوابی تقریر میں کہا کہ سب سے پہلے آپ اپنی یہ حیثیت پہچانیں کہ آپ اپنی جماعت کے نمائندہ اور وکیل ہونے کی حیثیت سے ہمارے مخاطب ہیں اپنی ذاتی حیثیت میں آپ ہمارے قطعاً مخاطب نہیں ہیں اس لیے سب سے پہلے آپ اپنے اکابر کی طرف سے ہمارے خلاف کفر کا فتوی دکھلائے اگر آپ کے اکابر نے ہمارے خلاف کفر کا فتوی صادر نہیں کیا ہے تو ہم سے یہ مطالبہ کرنا کہ ہم اپنا اسلام ثابت کرے اسے جہالت و حماقت کے سواکیا کہا جا سکتا ہے ۔

اس کے باوجود فتاویٰ دار العلوم دیو بند اور تھانوی صاحب کی کتابوں میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ”ہم بریلی والوں کو مسلمان سمجھتے ہیں انھیں کافر نہیں کہتے ان کے پیچے ہماری نمازیں ہو جاتی ہیں“۔ بحث کے دوران دیو بندی لیٹر یچر سے اس طرح کی عبارتیں پڑھ کر سنائی گئیں۔

اب رہ گیا الملفوظ کی عبارتوں پر آپ کا اعتراض تو اس کا جواب ہماری طرف سے آپ لوگوں کو بار بار دیا جا چکا ہے ۔ اس کے باوجوداگر واقعی آپ حضرات کے نزدیک ان عبارتوں میں کفر ہے تو آپ کو ہم سے لڑنے کے بجائے اپنے اکابر سے لڑناچاہیے کہ اتنے کفریات کے باوجود وہ ہمیں مسلمان کیوں سمجھتے ہیں ، ہمارے پیچھے ان کی نمازیں کیوں کر درست ہیں ۔

ہمارے خلاف ان کے اکابر کی طرف سے فتوی دکھانے کا بار بار مطالبہ کیے جانے پر دیو بندی مناظر نے ایک کتاب نکالی اور کہا کہ یہ مولانا گنگوہی کی کتاب ہے اس میں انھوں نے آپ کے اعلیٰ حضرت کے خلاف کفر کا فتوی صادر کیا، انھوں نے وہ فتوی مجمع کے سامنے پڑھ کر سنایا بھی ۔ جب حوالے کی عبارت دیکھنے کے لیے ان سے کتاب طلب کی گئی تو انھوں نے کتاب دکھلانے سے انکار کر دیا جو اصول مناظرہ کے بالکل خلاف ہے ۔

ان حالات میں اہل سنت کی طرف سے جلسے کے کنٹرولر جناب واجد حسین رضوی ان کے اسٹیج پر پہنچ گئے اور کتاب دیو بندی مناظر کے ہاتھ سے چھین کر دیکھا کہ کتاب کے اندر الگ سے ایک سفید کاغذ رکھا ہوا ہے اور دیو بندی مناظر اس کو پڑھ کر سنار ہا ہے ۔

واجد حسین رضوی صاحب نے دیو بندی مناظر کی یہ عیاری مکاری اور چوری کو دونوں فریق کے عوام کے سامنے پیش کر دیا، اس کے ردعمل میں ہر طرف سے دیو بندی مناظر پر ایسی تھو تھو ہوئی کہ شرم کے مارے سارے دیو بندیوں کے سر جھک گئے ۔

کچھ جذباتی قسم کے نوجوان مولوی طاہر گیاوی کو مسجد کے اندر لے گئے اور وہاں اسے اتناذلیل کیا کہ مارے دہشت کے اس نے پیشاب کر دیا۔[سہ ماہی رفاقت – جون٢٠٠٢ص:٢٨]۔

تقریر کے ذریعے فروغ رضویات:تقریر کے ذریعے بھی آپ نے مسلک اعلیٰ حضرت کی خوب نشر واشاعت کی ہے ،اعلیٰ حضرت سے کتنی عقیدت تھی یہ آپ کی تحریر اور مناظرے سے بخوبی پتہ چلا۔

اب قارئین علامہ کی تقریر بھی سن لیں :

”ایک بریلی کا امام احمد رضا ہے، میرے مصطفیٰ کی عظمتوں پہ قربان ہو گے وہ کون ساشہر ہے جہاں ان کا ترانہ نہیں پڑھا جارہا ہے مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام ۔ یہ یوروپ کی زمین جہاں کی مادری زبان اردو نہیں ہے ، یہاں بھی مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام ۔ اب تو یہ ایمان کی نشانی بن گئی ہے اور سنیت کی علامت بن گئی ہے کہ جو امام احمد رضا سے منسلک ہے وہی سنی ہے جو ان کو مانتا ہے وہی سنی ہے ۔

اور جو انھیں نہیں مانتا وہ سنی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی کی بنیاد ہی اس پر رکھی ہے کہ مصطفیٰ کو مانو مصطفیٰ کو مانوان کو مان لیا توتم ہمارے دل میں اتر گئے ۔ (خطبات رئیس القلم – ص:١٦)۔

ایک اور دوسری تقریر میں فرماتے ہیں: ”امام احمد رضانے زندوں کا بھی حق محفوظ کیا ہے ، اور مردوں کے حق کے لیے بھی لڑائی لڑی ہے ۔

مردوں کے حق پر حملہ کس نے کیا ، تم نے کیا ہے ۔ زندوں سے لڑو تواینٹ کا جواب پتھر سے مل جاۓ گا، مگر مردوں کا جو حق تم مار رہے ہو بولو کوئی مردہ تو قبرستان سے لڑنے نہیں آئے گا یہ توصرف امام احمد رضا بریلوی ہے جو مردوں کے طرف سے لڑ رہا ہے ۔ (خطبات رئیس القلم – ص:٣٢)

اسی تقریر میں اعلی حضرت کا امت مسلمہ پر جو احسان ہے اس کا ذکر جمیل کر رہے ہیں: یہ امام احمد رضا کا احسان ہے کہ ان شکاریوں(بدعقیدوں) سے بچانے کے لیے ، امت مسلمہ کور سول پاک کی اس اعلیٰ امت کو بچانے کے لیے امام احمد رضانے ہزاروں صفحات پر اپنے قلم چلائے اور ایسی روشنی دکھلائی ہمیں ، کہ اب ہم بالکل چوکنے ہوگئے ، ہوشیار ہوگئے ، ہم کو انھوں نے ہوشیار کر دیا، خبر دار کلمہ اور نماز کے دھوکے میں مت آنا یہ توصرف تم کو شکار کرنے لیے ہے ۔[ایضاً :٤٤]

حضرت علامہ کو اعلیٰ حضرت سے کیسی عقیدت تھی اس حوالے سے ان کے صاحب زادے ڈاکٹر غلام زرقانی صاحب کی تحریر پڑھنے کے لائق ہے ”مجد د دین وملت ، امیر کشور علم و فن اعلیٰ حضرت امام احمد رضافاضل بریلوی رضی المولی سے حضرت علامہ ارشد القادری کو بڑاہی والہانہ لگاؤ تھا کہ فاضل بریلوی کی ذات با سعادت دور حاضر میں اپنے علم وعمل ، زہد و تقویٰ ، شرافت و نجابت ، فکر و فن ، وسعت نظر اور ہمہ جہت فضائل و کمالات کی بنیاد پر ایک جاں پر سوز عاشق رسول ، کامل مرد مومن ،اخلاق و کردار کا پیکر مجسم اور عقائد حقہ کی مدافعت میں ہر لحظہ اپنے وجود کا نذرانہ پیش کرنے کا جذبہ مستانہ اپنے نہاں خانہ دل میں جواں رکھنے والے مخلص سپاہی کی سچی تصویر ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ قائد اہل سنت آپ کی قد آور شخصیت کی بار گاہ سے اپنے تعلق خاطر کی صلابت کا اظہار کرتے ہوئے ایک ذاتی مکتوب میں رقم طراز ہیں: ”کیوں کہ اعلیٰ حضرت سے میرارشتہ ایمان کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ اس کے مقابلے میں خاندانی رشتہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا“۔[تجلیات رضا-ص١_٢]

تحریر :محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی

ڈائریکٹر مجلس علماے جھارکھنڈ

و ڈائریکٹر الجامعۃ الغوثیہ للبنات جھارکھنڈ

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن