جنگ آزادی ۱۸۵۷۹) میں علماء کرام کا مجاہدانہ کرادار رہا ہے ان ہی علماء کرام میں ایک نام ہے رضا علی خاں تو لیجئے پڑھئے جنگ آزادی اور حضرت رضا علی خاں بریلوی قدس سرہ کا کردار جس کو ترتیب دیا ہے نوجوان اسکالر کاشف رضا شاد مصباحی صا حب نے۔۔۔
جنگ آزادی اور رضا علی خاں
ہندوستان کا ایک معروف خانوادہ ہے جسے خانوادہ رضویہ کہا جاتا ہے جو گزشتہ صدی کے مجدد الشاہ امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہٗ کے نام سے منسوب اور معروف ہے
جن کے جد اعلیٰ سعید اللہ قندھاری 1152ھ 1739ء کے اواخر میں مغلیہ حکومت کے فرماں روا محمد شاہ کے دور میں آئے ایک روایت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ وہ نادر شاہ کے قافلہ کے ہندوستان تشریف لائے
اس خانوادے کی ایک عظیم شخصیت مفتی رضا علی خاں بریلوی قدس سرہٗ ہیں جو امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہٗ کے حقیقی دادا ہوتے ہیں۔
انہوں نے 1857ءکی جنگ آزادی میں بڑے اہمکارنامے انجام دیئے ہیں. مفتی رضا علی خاں کی ولادت 1224 ھ1809 ء میں ہوئ. صوبہ راجستھان کے شہر ٹونک میں مولوی خلیل الرحمٰن صاحب سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی 22سال کی عمر میں سند فراغت سے سرفراز ہوئے. اور علوم متداولہ خصوصاً فقہ وتصوف میں بڑی مہارت حاصل کی۔
حکیم عبدالحئی رائے بریلوی ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ لکھتے ہیں۔
مولانا محمد رضا علی خاں نے 22سال کی عمر میں علوم منقولہ کی تکمیل کی. اپنے معاصرین کے درمیان ممتاز تھے علم فقہ میں بڑی مہارت حاصل کی تھی۔
آپ ایک جید عالم، مفتی ،استاد، صوفی، ہونے کے علاوہ پر اثر خطیب بھی تھے اور بہت بااثر خطاب فرمایا کرتے تھے. مزید برآں اللہ تعالیٰ نے انھیں سبقت کلام، سبقت سلام، زہد وقناعت، حلم و تواضع، تجرید وتفرید جیسی خوبیوں و خصوصیات کی حامل بنایا تھا.اللہ تعالیٰ نے عزت وشہرت بھی بخشی تھی. آپ کا سلسلہ اجازت و خلافت اور سند حدیث مولانا خلیل الرحمٰن کی توسط سے بحر العلوم حضرت علامہ محمد عبد العلی فرنگی محلی لکھنوی سے جا ملتا ہے
اس خانوادے میں مسند افتا کو اولا آپ نے ہی زینت بخشی جو آج تک نسلا بعد نسل آپ کے خانوادہ میں منتقل ہوتا آ رہا ہے. آپ نے اس دور کو دیکھا جب انگریزوں سے آزادی کی لہر چل رہی تھی اور آزادی کے متوالے آزادی کے لیے ہر طرح کی قیمت چکا رہے تھے
مفتی رضا علی خاں بھی انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی انجام دینے کے لیے تیار تھے اور آپ نے اس کے لیے کلیدی رول ادا کیا اور زبان وقلم، مال و دولت، شاگرد و معتقد سبھی کو اس کام کی انجام دہی کے لیے لگا دیا۔
مولانا یاسین اختر مصباحی صاحب ماہنامہ ترجمان اہلسنت ماہ جولائی 1975کراچی کے جنگ آزادی نمبر کے حوالہ سے رقم طراز ہیں۔
مولانا رضا علی خاں عالم دین ہونے کے ساتھ بہادر اور بطل حریت بھی تھے فرنگی اقتدار کے خلاف آپ نے بریلی میں مورچہ سنبھال رکھا تھا لارڈ ہسٹنگ اور جنرل نے آپ کا سر قلم کرنے کا انعام پانچ سو روپے مقرر کر رکھا تھا مگر اپنے مقصد میں وہ ناکام ریا جب آپ نے جنگ میں برطانوی حکام کے خلاف حصہ لیا تو انگریزوں کے احاطہ میں نقب زنی کرکے پچیس گھوڑے چوری کرلیے. کیونکہ آپ اپنے تمام گھوڑے مجاہدین آزادی کو انگریزوں کی پناہ گاہ پر شب خون مارنے کے لیے مفت دیا کرتے تھے
(چند علمائے انقلاب 1857ء از یاسین اختر مصباحی ناشر دارالقلم دہلی)
اس اقتباس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مفتی رضا علی خاں کو اللہ تعالیٰ نے بڑی دولت و ثروت عطا کی تھی اور آپ نی اپنی دولت کے ضروری حصے مجاہدین جنگ آزادی کے لیے وقف کر رکھے تھے حتی کہ انگریزوں کی نظر میں اتنے بڑے مجرم جانے جاتے تھے کہ آپ کے سر قلم کرنگ پر بھاری رقم رکھ دی گئی تھی
مفتی رضا علی خاں علیہ الرحمہ بڑے جری اور نڈر اور ولی صفت انسان تھے کہ جنگ آزادی کے موقع پر جب کے انگریزوں کی نظر میں خار بن چبھ رہے تھے کبھی چھپنے یا بھاگنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنے مسکن پر ہی مقیم رہے اور کبھی ایسا موقع آیا بھی کہ انگریز اپنی گرفت میں لے لیں تو بھی انگریزوں کی نظر خطا کر گئی جو آپ کی کرامت کی طرف اشارہ کرتی ہے
حضور فقیہ ملت کی قلمی خدمات کا مطالعہ کریں
حضرت علامہ مفتی محمد ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔
ء1857ء کے بعد جب انگریزوں کا تسلط ہوا اور انھوں نے شدید مظالم کیے تو لوگ ڈر کے مارے پریشان پھرتے
بڑے بڑے لوگ اپنے اپنے مکانات چھوڑ کر گاؤں چلے گئے. لیکن حضرت مولانا رضا علی خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ محلہ ذخیرہ بریلی اپنے مکان میں برابر تشریف رکھتے اور پنج وقت نمازیں مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کیا کرتے تھے. ایک دن حضرت مسجد میں تشریف رکھتے تھے کہ ادھر سے گوروں (انگریزوں) کا گزر ہوا انہیں خیال ہوا کہ شاید مسجد میں کوئی شخص ہو تو اسے پکڑ کر پیٹیں. مسجد میں گھسے ادھر ادھر گھوم آئے بولے کہ مسجد میں کوئی نہیں ہے. حالانکہ کہ حضرت مسجد ہی میں تھے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اندھا کردیا تھا کہ حضرت کو دیکھنے سے معذور ر رہے (حیات اعلیٰ حضرت)۔
حضرت مفتی رضا علی خاں علیہ الرحمہ ایک علمی و عملی اور فکری و فنی شخصیت کے حامل تھے آپ نے بعض تحریریں بھی چھوڑیں جو وقت کی بےوفائیوں کی نذر ہو کر رہ گئیں مؤرخین نے لکھا ہے کہ ” خطبات علمی” متحدہ ہندوستان میں مقبول عام مجموعہ خطبات جو کہ جمعہ کو بزبان عربی پڑھا جاتا ہے وہ آپ ہی کا کارنامہ ہے ۔ آپ نے جہاں مسند افتاء کو رونق بخش کر امت کے لئے رہنمایانہ خطوط قائم کیے وہین شاگردوں کی ایک مضبوط جمیعت چھوڑی جن میں ایک سے بڑھ کر ایک آفتاب ومہتاب تھے ۔
مولانا فخرالدین جوسندیلہ ،ہردوئ کے باشندہ تھے اور بریلی میں انگریزوں کے خلاف جنگ میں شہید ہوئے وہ آپ ہی کے شاگرد و مرید تھے۔ ان خوبیوں کے علاوہ آپ ایک بہترین شاعر بھی تھے اور حضرت شاہ محدث عبد العزیز دہلوی علیہ الرحمہ کے شاگرد مجاہد آزادی مفتی صدر الدین آزردہ دہلوی علیہ الرحمہ سے فن شعرو سخن میں اکتساب کیا تھا اور شاعری بجی کی۔ ان کی شاعری کا نمونہ ملتا ہے ایک شعر جو انگریزوں کے خلاف ہی رقم کیا ہے۔
آہ! ہم پر ہوا مسلط وبالِ فرنگیاں
ہمیں ہیں مالک اور ہمیں آنکھیں دکھائ جاتی ہیں
علم و عمل کا یہ آفتاب اور آزادی کا علمبردار60 سال کی عمر میں 1286ھ 1869ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا قبرستان بہاری پور سول لائن اسٹیشن بریلی میں آپ کی آخری آرام گاہ ہے۔
از۔۔۔ محمد کاشف رضا شاد مصباحی
ریسرچ اسکالر گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگلہ شریف
online shopping Jiva Ayuerda Mi Redmi8A Redmi Note 8pro
سنی علماء ویب سائٹ کو وزٹ کریں