علم ریاضی( mathematics ) میں امام احمد رضا کی مہارت
تحریر : محمد رضوان احمد مصباحی
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی ذات با برکت کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی ذات مقدسہ نہ صرف ایک جہت سے متعارف ہے بلکہ مختلف جہات سے آپ معروف و مشہور ہیں۔ خصوصاً جب ہم تعلیم کے میدان میں آپ کی ذات کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو مروجہ تمام علوم میں متبحر نظر آتے ہیں۔ علم حدیث میں آپ کے معاصرین میں دور دور تک کوئی آپ کا ہم پلہ نظر نہیں آتا۔
فقہ میں اپنے وقت میں امام اعظم تھے۔ علم قرآن، علم تجوید، تفسیر، علم کلام، عقائد، تخریج، سیرت نگاری، فلسفہ، منطق، شعر و سخن، جغرافیہ، صوتیات، اقتصادیات، ارضیات، فلکیات و غیرہ جس علم و فن میں آپ کی ذات کا مطالعہ کرتے ہیں آپ اس علم و فن کے ماہر، فن کار و شاہکار نظر آتے ہیں۔
اس وقت ہم صرف اعلیٰ حضرت کو بحیثیت ریاضی داں مطالعہ کرتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی اور علم ریاضی کے متعلق گفتگو کرنے سے پہلے چند باتیں علم ریاضی پر بطور مقدمات ملاحظہ فرمائیں :
علم ریاضی کی تعریف :
ریاضی دراصل اعداد کے استعمال کے ذریعے مقداروں کے خواص اور ان کے درمیان تعلقات کی تحقیق اور مطالعہ کو کہا جاتا ہے، اس کے علاوہ اس میں ساختوں، اشکال اور تبدلات سے متعلق بحث بھی کی جاتی ہے۔
اس علم کے بارے میں گمان غالب ہے کہ اس کی ابتدا یا ارتقا دراصل گننے، شمار کرنے، پیمائش کرنے اور اشیاء کے اشکال و حرکات کا مطالعہ کرنے جیسے بنیادی عوامل کی تجرید اور منطقی استدلال (logical reasoning) کے ذریعہ ہوا۔
موضوع :
ریاضی داں ان تصورات و تفکرات کی جو اوپر درج ہوئے ہیں چھان بین کرتے ہیں اور ان سے متعلق بحث کرتے ہیں۔
غرض و غایت :_ ان کا مقصد نئے گمان کردہ خیالات (conjectures) کے لیے صیغے(formulas)اخذ کرنا اور پھر احتیاط سے چنے گئے مسلمات (axioms)، تعریفوں اور قواعد کی مدد سے ریاضی کے اخذ کردہ صیغوں کو درست ثابت کرنا ہوتا ہے۔
اشتقاق:
ریاضی کا لفظ ریاضت سے بنا ہے جس کا مطلب سیکھنا، مشق کرنا یا پڑھنا ہوتا ہے، جب کہ انگریزی میں بھی mathematics کا لفظ یونانی کے mathema سے ماخوذ ہے جس کا مطلب سیکھنا یا پڑھنا ہے۔
تاریخ:
بنیادی قسم کی ریاضی کی معلومات کا استعمال زمانہ قدیم ہی سے رائج ہے اور قدیم مصر، بین النہرین اور قدیم ہندوستان کی تہذیبوں میں اس کے آثار ملتے ہیں۔
آج دنیا بھر میں علم ریاضی کو سائنس، ہندسیات، طب اور معاشیات سمیت تمام شعبہ ہائے علم میں استعمال کیا جا رہا ہے اور ان اہم شعبوں میں استعمال ہونے والی ریاضی کو عموما عملی ریاضی (applied mathematics) کہا جاتا ہے، ان شعبہ جات پر ریاضی کا نفاذ کرکے اور ریاضی کی مدد لے کر ریاضیاتی پہلوؤں کی دریافتوں کا راستہ کھل جاتا ہے (ماخوذ از وکیپیڈیا Wikipedia)
سائنسدان کہتے ہیں :_ کہ ایک کام یاب زندگی کے لیے ریاضی کا علم جاننا انتہائی ضروری ہے۔ یہی وہ علم ہے جو دماغ کو جلا بخشتا ہے۔ مسائل حل کرنے کی آپ کی صلاحیت بہتر کرتا ہے۔ (منقول)
علم ریاضی کے متعلق مذکورہ معلومات سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ کتنا مشکل اور دشوار فن ہے۔
لیکن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کے لیے یہ بہت آسان اور سہل تھا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال جو آپ نے بارہا سنا بھی ہوگا:
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سر ضیاء الدین صاحب جو پچھلے کئی ماہ سے ایک ریاضی کے مسئلہ کو لے کر بہت پریشان تھے یہاں تک کہ جب ہندوستان میں اس کو کوئی حل نظر نہیں آیا تو انہوں نے بیرون ملک جانے کا ارادہ کر لیا۔ مگر خلیفۂ اعلیٰ حضرت سید سلیمان اشرف بہاری رحمت اللہ علیہ کو معلوم تو آپ نے تاجدارِ بریلی کے پاس آنے کا مشورا دیا۔
لیکن سید صاحب کا یہ مشورہ ان کو ہضم نہ ہو سکا اور برملا کہا کہ میں ہندوستان میں بڑے بڑے ریاضی دان سے مل چکا۔ مگر کسی نے بھی حل نہ کر سکا۔ اب آپ مجھے ایسے آدمی کے پاس بھیج رہے ہیں جن کے پاس دین کا علم تو ہے مگر دنیا کا علم نہیں اور یہ کوئی عام مسئلہ بھی نہیں ہے جو ہر ایک سمجھ لے اور سمجھا دے۔
انہوں نے سمندر تو دیکھا مگر سمندر کی گیرائی اور گہرائی سے نا آشنا رہا اس لیے ان کی عقل نے اس بات کو قبول نہیں کیا۔ بہرحال خلیفۂ اعلٰی حضرت کی اصرار پر وہ بریلی جانے کو تیار ہو گئے اور ان کا مسئلہ کافی و شافی اور مکمل طور پر حل ہو گیا۔
اس کے بعد ملک العلما کی کی زبانی سنئے :۔حضور اعلیٰ حضرت نے اپنا ایک قلمی رسالہ جس میں اکثر “اشکال مثلث اور دوائر” کے بنے تھے، ڈاکٹر صاحب کو دکھایا۔
ہم لوگوں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب نہایت حیرت و استعجاب سے اسے دیکھ رہے تھے اور بالآ خر فرمایا! “میں نے اس علم کو حاصل کرنے میں غیر ممالک کے اکثر سفر کیے مگر یہ باتیں کہیں بھی حاصل نہ ہوئیں۔ میں تو اپنے آپ کو بالکل طفل مکتب سمجھ رہا ہوں ۔” پھر جب خود ان سے ہی پوچھا گیا کہ آپ نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کو کیسا پایا؟
تو وائس چانسلر پروفیسر ضیاء الدین صاحب نے کہا :بہت ہی خلیق و منکسر المزاج اور ریاضی بہت اچھی جانتے تھے باوجود یکہ کسی سے پڑھا نہیں، ان کوعلم لدنی تھا۔
میرے سوال کا جو بہت مشکل اور لا ینحل تھا۔ ایسا فی البدیہ جواب دیا، گویا اس مسئلہ پر عرصہ سے ریسرچ کیا ہوا ہے۔ اب ہندوستان میں کوئی اور جاننے والانہیں ہے ۔(حیات اعلیٰ حضرت )
لیکن ایک سوال یہاں ضرور ہوتا ہے کہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ جب نہ کسی اسکول، کالج، یا یونیورسٹی میں پڑھنے گئے اور نہ ہی کسی نے پڑھایا تو پھر یہ علم آپ نے سیکھا کہاں سے؟ تو اس کا جواب خود اعلیٰ حضرت کی زبانی سنئے :جب اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ آپ کا اس فن میں استاد کون ہے؟
تو حضور اعلیٰ حضرت نے ارشادفرمایا:میرا کوئی استادنہیں ہے ۔ میں نے اپنے والد ماجد علیہ الرحمۃ سے صرف چار قاعدے
(١) جمع
(٢) تفریق
(٣) ضرب
(٤) تقسیم محض اس لیے سیکھے تھے کہ ترکہ کے مسائل میں ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ شرح چغمینی شروع کی تھی کہ حضرت والد ماجد نے فرمایا! کیوں اپنا وقت اس میں صرف کرتے ہو؟
مصطفے پیارے ﷺ کی سرکار سے یہ تم کو خود ہی سکھا دیے جائیں گے۔
چناں چہ یہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں، مکان کی چار دیواری کے اندر بیٹھا خود کرتارہتا ہوں۔ یہ سب سرکار رسالت ﷺ کا کرم ہے۔ اس کے بعد کسور اعشار یہ متوالہ کی قوت کا تذکرہ آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی وہی فرمایا کہ تیسری قوت تک ہے۔
اس پر حضور نے میرے اور قناعت علی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ میرے میں دو بچے بیٹھے ہیں۔ انہیں جس قوت کا آپ سوال دے دیں، حل کر دیں گے۔ ڈاکٹر صاحب تحیر ہو کر ہم دونوں کو دیکھنے لگے۔( حیات اعلیٰ حضرت بحوالہ ماہ نامہ مصلح الدین کراچی، اپریل ٢٠٠٤)
یہ تھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کی علم ریاضی میں ایک چھوٹی سی جھلک باقی ایسے کتنے گنجلک مسائل ریاضی اور توقیت کے ذریعے اعلیٰ حضرت نے حل فرمائے ہوں گے شمار سے باہر ہے۔
اللّٰہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے صدقے میں ہم سب کو اپنے امام جیسے علم دین کی دولت عطا فرمائے اور ساتھ ساتھ عمل کی بھی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم
از قلم :محمد رضوان احمد مصباحی
مقام : ٹھاکر گنج ،کشن گنج ،بہار
مقیم حال : راج گڑھ،جھاپا ،نیپال