امام احمد رضا خان اور فن شاعری
اس خاک دان گیتی پر ہزاروں لوگ آئے اور چلے گئے۔ لیکن بہت سے لوگ ایسے آئے جن کو ان کے علمی اور فنی کارناموں کی وجہ سے دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ ان میں بیسویں صدی کی عبقری شخصیت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی ذات ہیں جنہوں نے درجنوں مروجہ اور غیر مروجہ علوم و فنون میں تقریبا ایک ہزار کتابوں کا علمی سرمایہ دنیا کو عطا کیا۔
امام احمد رضا کی زندگی کا مقصد دین متین کی خدمت اور ناموس رسالت کی حفاظت تھا۔ اسی وجہ سے ان کی کتابوں کے ورق ورق عشق رسالت سے لبریز ہیں۔ جذبہ عشق کی تڑپ جب بڑھ جاتی تھی تو آپ اشعار کہتے۔
حالاں کہ شاعری کی طرف آپ کا کوئی خاص رجحان نہیں تھا۔ اور آپ نےفن شاعری میں طبع آزمائی صرف عشق رسالت کے جذبے کو شادمان کرنے کے لیے کی۔ امام احمد رضا شاعری میں اپنا ایک خصوصی مقام رکھتے تھے۔
ان کی شاعری عشقِ مصطفٰی ﷺ و سلم کی آئینہ دار تھی۔ فن نعت گوئی ایک مشکل ترین فن ہے جس پر چل کر بہکنے سے بچنا اتنا آسان نہیں۔ بڑے بڑوں کے عقیدے کی کشتی اس بھنور میں ٹھہر نہ سکی۔ اور اس راستے پر چل کر گمراہ ہوئے۔
اور ہدایت سے بھٹک کر کفر اور گمرہی کا شکار ہوگئے آپ نے نعت گوئی کے متعلق خود فرمایا ہے، کہ حقیقتاً نعت شریف کہنا بڑا مشکل کام ہے۔ جس کو لوگوں نے آسان سمجھ لیا ہے اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے اگر بڑھتا ہے، تو شان الوہیت تک پہنچا دیتا ہے۔ اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے۔ البتہ حمد میں راستہ صاف ہے۔
بندہ کما حقہ حمد کر ہی نہیں سکتا، جتنا بھی بیان کرے اس کی شان کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے غرض حمد میں بڑھ جانے اصلا خدشہ نہیں ـ
آپ کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اردو زبان پر کیسی کامل دسترس حاصل تھی کہ ایک لفظ کو کئی کئی معنوں میں بخوبی استعمال کرنا جانتے تھے۔اس ایک شعر میں آپ کی فنکاری ملاحظہ فرمائیں:
سونا پاس ہے، سونا بن ہے، سونا زہر ہے اُٹھ پیارے
تو کہتا ہے نیند ہے میٹھی تیری مت ہی نرالی ہے
اس شعر میں تینوں جگہ سونا کے معنی مختلف ہیں۔ اسی طرح امام احمد رضا نے چار زبانوں (عربی، فارسی، بھوجپوری اور ہندی) میں ایک کلام لکھا ہے۔ جو کہ بہت مقبول ہوا ہے:
لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا
فن شاعری میں اعلی حضرت امام احمد رضا جیسا کمال کہیں دوسری جگہ نہیں ملتا، محاورات کے استعمال میں اعلٰی حضرت کی مہارت بےمثال تھی۔
محاورات:
ہوا بگڑنا: ( زمانہ کا نا موافق ہونا، اعتبار اٹھ جانا وغیرہ غیرہ خدارا ناخدا آ دے سہارا ہوا بگڑی بھنور حائل ہے یا غوث
نظروں پہ چڑھنا: ( خوبصورتی کے باعث نظر کو بھانا، عزت و وقار دینا) جیسے:
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
نمک چھڑکنا: (ستانا، جلانا) دل اعدا کو رضا تیز نمک کی دھن ہے
ایک ذرا اور چھڑکتا رہے خامہ تیرا
ضرب الامثال:
جان ہے تو جہاں ہے: ( زندگی ہے تو سب کچھ ہے) وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے
منہ چاہئے: (ہمت اور حوصلے کا ہونا)
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے
دینے والا ہے سچا ہمارا نبی
امام احمدرضا کے نعتیہ کلام کا تحقیقی اور ادبی جائزہ لیتے ہوئے علامہ شمس بریلوی علیہ الرحمہ نے ان کی شاعری کی خصوصیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور اس کی واضح مثالیں پیش کی ہیں مثلاً ۱
ان کی تبحر علمی کا اثر ان کی شاعری پر
۲۔ زبان کی لطافت و پاکیزگی۔
۳۔ طرز ادا کی رنگینی و ندرت بیان۔
۴۔ مضمون آفرینی، فصاحت و بلاغت۔
۵۔ شکوہ الفاظ اور بندشوں کی چستی۔
۶۔ تشبیہ و استعارات کا برملا استعمال۔
۷۔ کنائے اور مجاز مرسل کے قرینے۔
۸صنعت لفظی و معنوی کا خوبصورت اور فنکارانہ انداز میں استعمال۔
۹۔ نعتیہ شاعری میں ان کی انفرادیت اور اولیت وغیرہ۔

اعلی حضرت علیہ الرحمہ کو صنائع و بدائع میں کامل مہارت حاصل تھی۔ صنائع و بدائع کے بارے میں ایک قول مشہور ہے کہ “شاعری اور علم بیان اور علم بدیع کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور شاعری کی تخلیق کے لیے بہترین کسوٹی” ـ انہیں لوازمات پر اہل نقد و نظر فن شاعری کے معائب و محاسن کو پڑھتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر کو علوم شاعری پر کتنی دسترس حاصل ہے، اور فن سے کس حد تک واقف ہے۔ حرف روی، استعارہ، کنایہ مجاز مرسل سے کس حد تک اپنے کلام کو مرصع کرنا جانتا ہے۔
فرش والے تیری شوکت کا علو کیا جانے
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا۔ (صنعت تضاد)
وہ کمال حسن حضور ہے، کہ گمان نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں (کنایہ و استعارہ)
حسن یوسف پہ کٹیں مصرمیں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردان عرب (صنعت تلمیح)
(بحوالہ تاریخ نعت گوئی میں امام احمد رضا کا مقام)
اعلی حضرت کی فن شاعری پر گفتگو کرنے کے لیے ایک دفتر ناکافی ہے۔ فن شاعری میں آپ کے کمال کو سمجھنے کے لیے آپ کے نعتیہ دیوان “حدائق بخشش”کا مطالعہ کریں
اس مختصر سے مضمون میں ان کی ندرت اور فن کاری کا احاطہ کرنا آسان نہیں۔ اگر کسی کو تفصیل دیکھنے اور اس بحر ناپیداکنار میں غوطہ زن ہونے کا شوق ہو تو وہ حضرت علامہ فیض احمد اویسی علیہ الرحمہ کی چودہ جلدوں پر مشتمل شرح حدائق بخشش کا مطالعہ کرے تو اس پر عیاں ہو جائے گا کہ امام احمد رضا خان کو فن شاعری پر کس قدر دسترس حاصل تھی۔
از محمد جنید رضا
اسلامک اسکالر، بریلی

