اعلی حضرت اور نظریہ حرکت زمین
تحریر: سلیم رضا عطاری
14ویں صدی میں بریلی کا بادہ نشین، مفتی نقی علی خاں کا جانشین، فکر و فن کا سلطان ” احمد رضا خان” کے نام سے پورے عالم پر چھاگیا۔ جس کےنوکِ قلم نے جس بھی فن کو موضوعِ انتخاب بنایا، اس میں ایسےعالمانہ و حکیمانہ تخیلات پیش کیے ،کہ جن کو پڑھ کر اھل فن بھی انگشت بہ دنداں ہو کر رہ گیے۔
جن کی علمی جلالت،اور فقہی بصیرت بڑے بڑوں کے مابین بھی مسلم ہوئی۔ جو بیک وقت محدث،محقق، مفسر ،مفتی،مترجم، سائنسدان، ریاضی دان،اور فقیہ و ادیب، ہونے کے ساتھ ساتھ 120علوم کے ماھر تھے۔ جو تنِ تنہا ایک تحریک و تنظیم تھے۔ بلاشبہ احمد رضا خان ایک ایسے جہان علوم و معارف کا نام ہے جن کے علمی شہ پاروں سے پورا عالم فیض پا رہا ہے۔
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمہ کی اسی مقبولیت اور شانِ علمی کی بنیاد پر اھل حق انہیں ایک ممتاز شخصیت اور 14ویں صدی کا مجدد ماننے پر مجبور ہوگئے۔ فن حدیث میں جب ان کی محدثانہ شان دیکھی تو امیر المومنین فی الحدیث کہ اٹھے۔ فقہا نے جب فقہی بصیرت و عمیق نظری کو دیکھا تو عصر حاضر کا ابو حنیفہ بو ل اٹھے۔
مسلم سائنس دانوں میں سر فہرست ان کا نام نامی جگمگانے لگا۔ شعراء نے جب ان کی شعر گوئی کو ملاحظہ کیا تو داغ دہلوی جیسے عظیم شاعر کو بھی کہنا پڑا۔ ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں بلاشبہ اس علم و حکمت کے مہر درخشاں پر جتنا لکھا جاے کم ہے، ہم اپنے اس مقالے میں فقط “امام احمد رضا اور نظریہ حرکت زمین ” کے متعلق چند سطور تحریر کریں گے جہاں خطا پائیں، اھل علم اصلاح فرمائیں
(1) اعلی حضرت اور نظریہ حرکت زمین پاک و ھند میں اکثر علماء فقہ و افتاء وغیرہ سے مشہور ہیں مگر امام اہلسنت وہ شخصیت ہیں جو ایک مسلم سائنسدان کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، اور اس خصوصیت میں آپ سب پر فوقیت رکھتے ہیں
ہمارے معاشرے میں سائنس کو اسلام سے جدا تصور کیا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سائنس کو اگر تحقیقی نظر رکھنے والا اور قرآن و حدیث کا ماہر سیکھے تو اس پر اسلام کی حقانیت مزید آشکار ہو جاتی ہے۔ سائنس کو سیکھنے کے متعلق مفتی محمد قاسم قادری حفظہ اللہ تعالیٰ رقمطراز ہیں۔۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل کو جاننے کی نیت سے سائنس اور ریاضی کا علم حاصل کرنا عبادت ہے۔ (انظر صراط الجنان ج 9 ص 209)
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو جہاں دیگر علوم پر مہارت تھی وہیں وہ ایک ایسے مسلم سائنسدان تھے جنہوں نے غیر مسلم سائنس دانوں کے باطل نظریہ کا قلع قمع کر دیا اور جب بھی سائنس کے ذریعے اسلام مخالف بات کہنے کی کوشش کی گئی تو آپ علیہ الرحمہ نے نہ صرف قرآن وحدیث سے بلکہ سائنٹفک دلائل سے بھی ان کو دنداں شکن جواب دیا اس کا منھ بولتا ثبوت یہ ہے کہ ۱۵۳۰ء تک دنیا بھر کے تمام سائنس دان زمین کے ساکن ہونے کے قائل تھے ،مگر اس کے بعد کوپر نیکس نامی سائنس دان نے حرکت زمین کا نظریہ پیش کیا، یہ نظریہ اتنا مقبول ہوا کہ نیوٹن، ابو ریحان یہاں تک کی البرٹ آئنسٹائن جیسے نامور سائنس دانوں نے بھی چند فاسد دلائل کی وجہ سے اس نظریہ کو قبول کر لیا۔ (زمین ساکن ہے،ص۵)
لیکن سلام ہو اس مسلم سائنسدان (احمد رضا خان) پر کہ جب ان سے حرکتِ زمین کے نظریہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو چو ں کہ یہ نظریہ قرآن و حدیث کے مخالف تھا، لہذا ان سائنس دانوں کے نظریہ کا رد انہیں کے اصولوں کے مطابق سائنسی طرز پر کیا اور اپنی کتاب فوز مبین در رد حرکت زمین میں ۱۰ قرآنی آیات اور ۱۰۵ سائنسی دلائل کے ذریعے ثابت کر دیا کہ زمین متحرک نہیں بلکہ ساکن ہے۔
کچھ دلائل آپ خود بھی ملاحظہ فرمائیں۔
1-زمین اگر متحرک ہوتی تو ہمیں حرکت کرتی معلوم ہوتی اور پانی تو زمین سے بھی لطیف تر ہے تو اس کے اجزاء میں تلاطم و اضطراب اور سخت ہوتا۔
۲-آدمی جب تیز ہوا میں اس کے سامنے آئے گا تو ہوا کو اپنی مدافعت کرتا پائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔
۳-بھاری پتھر اوپر پھینکیں سیدھا وہیں گرتا ہے اگر زمین مشرق کو متحرک ہو تو وہ مغرب میں گرتا کہ جتنی دیر پتھر اوپر گیا اور آیا اتنی دیر میں وہ زمین کی حرکت کے سبب مشرق کو چلی گئی۔ تو ماننا پڑے گا کہ زمین متحرک نہیں بلکہ ساکن ہے۔ (سلسلہ رسائل فتاویٰ رضویہ،ج۲۷) ۔
مولانا عمران عطاری پر زمین کے ساکن ماننے پر اعتراضمدنی چینل کے سلسلہ “بچوں کے مسائل” میں مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران حاجی عمران عطاری نے ایک مرتبہ بچوں سے یہ کہا کہ زمین ساکن ہے اور سائنس کی یہ تھیوری غلط ہے کہ زمین گھوم رہی ہے۔ اس پر بچوں نے سوال کیا کہ پھر رات و دن کیسے ہوتے ہیں؟ تو حاجی عمران عطاری کا جواب تھا کہ سورج گھوم رہا یے۔
نگران شوری نے یہ بات اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے موقف کے مطابق کہی تھی جو بالکل برحق ہے۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ھندو پاک میں اک کہرام مچ گیا اور ھندوستان کے ایک نیوز چینل پر یہاں تک کہا گیا کہ یہ مولانا سائنس سے جاھل ہیں، اور بچوں کا مستقبل خراب کر رہے ہیں،لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ مسلمان کہلانے والے بھی کثیر تعداد میں ایسے افراد ہیں جو ملحدین سائنس دانوں کے دلائل کو پورے وثوق و اعتماد سے قبول کرتے ہیں، لیکن قرآن و حدیث اور سائنسی دلائل سے مزین مسلم سائنسدان پر اعتماد نہیں کرتے
اور زمین کے ساکن ماننے والے علماء کو جاھل کہتے اور سائنس سے نابلد گردانتے ہیں، گوگل پر مسلمانوں کی ایسی ویب سائٹ موجود ہیں جن میں مسلمان اس پر تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں کہ مولانا صاحبان کو اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہیے ،یہ سائنسدانوں کا کام ہے۔ اور یہ باطل نظریہ بھی پیش کرتے ہیں کہ زمین کی سکونت کا موقف صرف امام احمد رضا خان اور ان کے متبعین کا ہے۔ اور بعض وھابیہ دیابنہ اپنے اکابر پر لگی شمشیر کا درد بجھانے کےلیے تعصب کے بناء پر اس مسئلے میں بھی اعلیٰ حضرت پر طعن و تشنیع کر رہے ہیں
لیکن۔۔ سورج کو بجھاے گی کہاں پھونک تری ۔ کیا زمین کے ساکن ہونے کے قائل صرف اعلیٰ حضرت ہیں؟ سب سے پہلے تو ہم اس بات کا رد کرتے ہیں کہ کیا زمین کے ساکن ہونے کے قائل صرف اعلی حضرت ہیں ؟ ہر گز نہیں! بلکہ 1530ء سے پہلے تمام سائنسدان زمین کے ساکن ہونے کے قائل تھے. پھر کچھ سائنس دانوں کی تحقیق بدلی اور وہ حرکت زمین کے قائل ہو گۓ۔لیکن پھر بھی اس تحقیق پر سب کا اتفاق نہ ہوا بلکہ کثیر سائنسدانوں نے اس نظریے کا رد کیا، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ نظریہ فقط احمد رضا خان کا نہیں، بلکہ تمام قدیم اور کثیر تعداد میں جدید سائنس دانوں کا بھی یہی نظریہ رہا جس کی کچھ نظیر بھی ملاحظہ ہوں۔ )
صوبہ کرناٹک انڈیا میں 1982ء میں سائنسدانوں کی دو روزہ کانفرنس ہوئی جس میں نیوٹن اور آئن اسٹائن کی تحقیق کو غلط قرار دیا گیا۔ ) جرمنی سے ایک کتاب شائع ہوئی 100Authors Against Einstien آئن اسٹان کے خلاف ایک سوسائنس دان، جس میں حرکت زمین والے نظریے کی تردید کی گئ۔
پروفیسر ڈاکٹرعبدالسلام کے رفیق پروفیسر وائن برگ نے اپنی کتاب “کائنات کی عمر” کے پہلے تین منٹ میں ایسے تجربے کا ذکر کیا جس سے نظریہ حرکت زمین کی تردید ہوتی ہے ۔
فاضلہ زہرا مرزا قادری نے چندسال پہلے نظر یہ حرکت زمین کو باطل قرار دیا اورلکھا ۔ جس کی وجہ سے ان کوامریکہ میں تبادلہ خیال کی دعوت دی گئی۔ * ممتازفلسفی دانشور سید محمدتقی نے بھی حرکت زمین کو باطل قرار دیا ہے اور لکھا کہ وہ ۴۵ سال سے اس مسئلہ میں غور* وفکر کر رہے ہیں بالآخر یہ نظر یہ حرکت زمین باطل ہے۔
فاضل اصغرعلی چیئر مین انٹرنیشنل سوسائٹی آف اسکالرز نے اپنے مقالے میں لکھا کہ قرآن حکیم زمین کوسا کن قراردیتا ہے۔ اور یہی صحیح ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالدین صاحب نے اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی تحقیق کو پسند کیا اور عربی زبان نہ آنے کی وجہ سے معذرت کی .(قرآن اور سائنس ص 12 )
ایسے بے شمار حوالے طوالت کے خوف سے نقل نہیں کئے اس لئے کہ العاقل تکفیہ الاشارہ۔ آخر مولانا ہی مظلوم کیوںاب تصویر کے دونوں رخ آپ کے سامنے ہیں، آپ نے ملاحظہ کیا کہ جب کوئی دنیوی حلیہ والا سائنسدان زمین کی سکونت کو بیان کرے تو اسے سراہا جاتا ہے، اور تبادلہ خیال کے لیے امریکہ مدعو کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر حلیہ مولویانہ ہو تو انہیں تنقید کا نشانہ بنا یا جاتا ہے یہ ہے وہ سوچ جسے دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بھی ایک ماہر فن سائنس دان تھے
لیکن چوں کہ وہ ایک مولانا بھی تھے، جس کی بنیاد پر ان کی وہ تحقیق جو کثیر سائنسدانوں کی بھی رائے ہے اور قرآن وحدیث بھی جس پر شاھد ہیں ،اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور تعصب کی بنا پر ان کی تحقیق کو غلط ثابت کرنے کے لیے قرآنی آیات کی بھی بے سر و پا تاویلات پیش کی جارہی ہیں
جب کہ قرآن پاک کی آیات اور حدیث کی غلط تاویلات کے بجاے اس سائنسی نظریہ کو رد کردینا کافی آسان ہے جس پر خود سائنس دان متفق نہیں جس پر ہمارا معاشرہ ایک مسلم سائنسدان کو جھٹلاتا ہے اب زرا سائنس دان مسٹر برنٹ کو بھی پڑھیے! سائنس دان مسٹر برنٹ نے اپنی کتاب The Universe And Dr. Einstien میں لکھا کہ دنیا میں کوئی ایسا متعین ضابطہ اور معیار نظر نہیں آتا جس سے انسان حتمی طور پر زمین کی حرکت کا اندازہ کر سکے اور نہ کوئی ایسا طبیعاتی تجربہ بھی ہوا، (قرآن اور سائنس ص12)
ہماری ترجیحات کیا ہوں؟
ذکر کردہ سطور سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نظریہ حرکت زمین کے معاملے میں سائنسدان خود متفق نہیں بلکہ ان کے مابین بھی یہ یہ ایک معرکۃ الآرا مسئلہ ہے، تو بحیثیت مسلمان ایک مسلمان کے ترجیحات وہ ہونی چاہیے، جو ہماری شریعت سے زیادہ موافق ہوں، اس نظریہ میں بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا وہ موقف ہے جس کی تائید خود قرآن کرتا ہے، اور سائنسی دلائل و شواھد بھی
لھذا ہمیں قرآنی دلائل سے مزین نظریے کو فروغ دینا چاہیے، کیوںکہ سائنسی تحقیق بدلتی رہتی ہے ، ہر سو سال بعد کوئ جدید تحقیق آجاتی ہے، تو ہمیں ان سائنس دانوں کی بدلتی تحقیقات کے ساتھ بدلنے کی حاجت نہیں بلکہ سائنس کو اسلامی نظریہ کہ موافق کرنا ہے، اور یہی اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا سائنس کے متعلق نظریہ ہے چناں چہ زمین ساکن ہونے کے متعلق اپنے رسالے ”نُزُوْلِ آیَاتِ فُرْقَان بَسُکُوْنِ زَمِیْن و آسْمَان“ میں فرماتے ہیں:سائنس یوں مسلمان نہ ہوگی کہ اسلامی مسائل کو آیات و نُصُوص میں تاویلات دُوراَزکار (یعنی بے سروپا اور لاتعلق تاویلات) کرکے سائنس کے مطابق کرلیا جائے۔
یوں تو مَعَاذَ اللہ اسلام نے سائنس قبول کی نہ کہ سائنس نے اسلام۔ وہ مسلمان ہوگی تو یوں کہ جتنے اسلامی مسائل سے اُسے خلاف ہے سب میں مسئلۂ اسلامی کو روشن کیا جائے دلائلِ سائنس کو مَرْدُود و پامال کردیا جائے جا بجا سائنس ہی کے اقوال سے اسلامی مسئلہ کا اِثْبات ہو، سائنس کا اِبْطال و اِسْکات ہو، یوں قابو میں آئے گی۔(فتاویٰ رضویہ،27/227) لہذا ہمیں وہی نظریہ اپنانا چاہیے جو قرآن سے مؤئید ہے۔اور وہ نظریہ یہ ہے کہ زمین ساکن ہے
وما توفیقی الا باللہ
العبد المفتقرالی الرحیم
عبدہ المذنب محمد سلیم