مختصر حالات امام مسلم نیشاپوری قدس سرہ العزیز
تیسری صدی ہجری کے جن محدثین اور علماے راسخین نے علم حدیث کی تنقیح و توضیح کے لیے متعدد فنون ایجاد کیے نیز اس علم کی توسیع اور اشاعت میں گراں قدر خدمات انجام دیں ان میں عساکر الملت والدین ابوالحسین امام مسلم بن حجاج القشیری نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ آپ فن حدیث کے اکابر ائمہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔
ولادت اور سلسلہ نسب:
آپ خراسان کے ایک وسیع اور خوب صورت شہر نیشاپور میں بنوقشیر کے خاندان میں پیدا ہوۓ۔۔ آپ کی تاریخ ولادت میں مورخین کا اختلاف ہے۔
چناں چہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ القوی نے آپ کا سال ولادت ۲۰۲ ھ لکھا ہے، امام ذہبی رحمتہ اللہ علیہ نے ۲۰۴ھ بیان کیا ہے اور ابن اثیر نے ۲۰۶ھ کو اختیار کیا ہے۔
نیز آپ کا سلسلہ نسب :
امام مسلم بن الحجاج بن مسلم بن ورد بن کرشاد القشیری ہے۔تحصیل علم واساتذہ: نیشاپور خود علم حدیث کے اہم مراکز میں شمار کیا جاتا تھا جہاں حدیث کے بڑے بڑے حلقے قائم تھے۔ امام مسلم نے ابتدائی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد علم حدیث کی طلب میں متعدد شہروں کا سفر اختیار کیا۔۔
چناں چہ حجاز شام عراق اور مصر گئے اور ان گنت بار بغداد کا سفر کیا نیز ان تمام شہروں کے مشاہیر اساتذہ کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا حافظ ابن حجر عسقلانی اور دیگر مؤرخین نے آپ کے اساتذہ میں یحییٰ بن یحییٰ محمد بن یحییٰ ذہلی احمد بن حنبل اسحاق بن راہویہ عبداللہ بن مسلمہ القعنبی احمد بن یونس یربوعی اسماعیل بن ابی اویس سعید بن منصور عون بن سلام داؤد بن عمرو الضبی ہیثم بن خارجہ، شیبان ابن فروخ اور امام بخاری کا تذکرہ لکھا ہے۔
علمی تجلیات:
امام مسلم فن حدیث میں عظیم صلاحیتوں کے مالک تھے حدیث صحیح اور سقیم کی پہچان میں آپ اپنے زمانہ کے اکثر محدثین پر فوقیت رکھتے تھے حتی کہ بعض امور میں آپ کو امام بخاری پر بھی فضیلت حاصل ہے ابوزرعہ رازی اور ابو حاتم رازی نے آپ کی امامت حدیث پر گواہی دی ہے۔
امام ترمذی اور ابوبکرخزیمہ جیسے نابغۂ روزگار نے آپ سے روایت حدیث کو باعث شرف سمجھا اور ابوقریش نے کہا کہ دنیا میں صرف چار حفاظ ہیں اور امام مسلم ان میں سے ایک ہیں۔
حلیہ اور اخلاق واوصاف
امام مسلم سرخ وسفید رنگ بلند قامت اور وجیہ شخصیت کے مالک تھے سر پر عمامہ باندھتے تھے اور شملہ کاندھوں کے درمیان لٹکایا کرتے تھے۔آپ ساده دل درویش تھے اور علم وعمل کی بہترین خوبیوں کے جامع تھے۔ آپ علم کو ذریعہ معاش نہیں بنایا کپڑوں کی تجارت کر کے اپنی نجی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: کہ امام مسلم کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ انہوں نے عمر بھر نہ کسی کی غیبت کی نہ کسی کو مارا اور نہ کسی کے ساتھ درشت کلامی کی۔“ اللہ تعالی نے آپ کی خدمات کا بہترین صلہ عطا فرمایا۔
ابو حاتم رازی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام مسلم کو خواب میں دیکھا اور ان کا حال دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا: اللہ تعالی نے اپنی جنت کو میرے لیے مباح کر دیا ہے اور میں اس میں جہاں چاہتا ہوں رہتا ہوں۔
تلانده :
امام مسلم سے بے حساب لوگوں نے سماع حدیث کیا ہے آپ سے روایت کرنے والے تمام حضرات کے اسماے کا شمار تو مشکل ہے۔
مگر ان میں چند یہ اسماء ہیں :
ابوالفضل احمدبن سلمہ، ابراہیم بن ابی طالب، ابوعمروخناف، حسین بن محمد قبانی، ابو عمرو مستملی، حافظ صالح بن محمد علی بن حسن، محمد بن عبدالوہاب، علی بن حسین بن جنید، ابن خزیمہ، ابن صاعد، سراج، محمد بن عبد بن حمید، ابوحامد ابن الشرقی، علی بن اسماعیل الصنعار، ابومحمد بن ابی حاتم رازی، ابراہیم بن محمد بن سفیان، محمد بن مخلد دوری، ابراہیم بن محمد بن حمزه، ابوعوانہ اسفرائنی، محمد بن اسحاق فاکہی، ابوحامد اعمشی، ابوحامد بن حسنویہ، اور امام ترمذی علیہم الرحمۃ۔
علمی و دینی خدمات:
امام مسلم کی عمر کا اکثر حصہ روایت حدیث کے حصول کیلئے مختلف شہروں میں سفر کرتے ہوۓ گزرا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ درس و تدریس میں بھی بے حد مشغول رہے۔
اس کے باوجود آپ نے مندرجہ ذیل تصانیف یادگار چھوڑی :
(۱) الجامع الصحیح
(۲)المسند الکبیر
(۳) کتاب الاسماء والکنی
(٤) کتاب الجامع على الباب
(٥) کتاب العلل
(٦) كتاب الوحدان
(۷) کتاب الافراد
(۸) کتاب سوالات احمد بن حنبل
(۹) کتاب حدیث عمرو بن شعیب
(۱۰) کتاب الانتفاع باھن السباع
(۱۱) کتاب مشائخ مالک
(۱۲) کتاب مشائخ ثوری
(۱۳) کتاب مشائخ شعبه
(١٤) كتاب من ليس له الا راو واحد
(١٥) کتاب المخضرمین
(١٦) کتاب اولاد الصحابته
(۱۷) کتاب اوہام المحدثین
(۱۸) کتاب الطبقات
(۱۹) کتاب افرادالشامین
(۲۰) مسند امام مالک
(۲۱) مسند الصحابہ
نوٹ :
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام مسلم نے مسند الصحابہ بڑی تفصیل سے لکھنی شروع کی تھی مگر وہ مکمل نہ ہو سکی اور آپ وفات پا گیے اور اگر وہ اس کو پورا کر لیتے تو وہ ایک ضخیم تصنیف ہوتی۔صحیح مسلم اور اہمیت: کتب صحاح ستہ میں (صحیح مسلم)۔
صحیح بخاری کے بعد شمار کی جاتی ہے۔ امام مسلم بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ نے اسے تیار کرنے میں پندرہ سال کی مدت تک مسلسل جدوجہد اور شدید مشقت کے بعد صحیح مسلم کی صورت میں یہ مجموعہ احادیث وجود میں لائیں اور حسن ترتیب وتدوین کی عمدگی کے لحاظ سے یہ صحیح بخاری پر بھی فوقیت رکھتی ہے متقدمین میں سے بعض مغاربہ اور بعض محققین نے صحیح مسلم کو بے حد پسند کیا ہے اور اس کو صحیح بخاری پر بھی ترجیح دی ہے۔۔
چناں چہ ابوعلی حاکم نیشاپوری اور حافظ ابوبکر اسماعیلی صاحب مدخل کا یہی قول ہے اور امام عبدالرحمان نسائی نے کہا کہ امام مسلم کی صحیح امام بخاری کی صحیح سے عمدہ ہے۔۔۔۔ اور مسلم بن قاسم قرطبی معاصر دارمی نے کہا کہ امام مسلم کی صحیح کی مثل کوئی شخص نہیں پیش کر سکتا۔
اور خود امام مسلم نے اپنی کتاب کے بارے میں فرمایا کہ اگر محدثین دو سوسال بھی احادیث لکھتے رہیں پھر بھی ان کا مدار اسی کتاب پر ہوگا۔۔۔۔علامہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفی ١٢٢٩ھ، (اپنی کتاب بستان المحدثین) میں بیان کرتے ہیں کہ ابوعلی زعفرانی کوکسی شخص نے وفات کے بعد خواب میں دیکھا اور ان سے پوچھا کہ تمہاری بخشش کس سبب سے ہوئی ؟
تو انہوں نے صحیح مسلم کے چند اجزاء کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ان اجزاء کے سبب اللہ تعالی نے مجھے بخش دیا۔
اس خواب سے معلوم ہوا کہ صحیح مسلم اللہ تعالی کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کر چکی ہے۔
وصال شریف :
امام مسلم قدس سرہ القوی کے وصال کا سبب نہایت عجیب وغریب بیان کیا گیا ہے۔۔
چُناں چہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ایک دن مجلس مذاکرہ میں امام مسلم سے ایک حدیث کے بارے میں استفسار کیا گیا اس وقت آپ اس حدیث کے بارے میں کچھ نہ بتا سکے گھر آ کر اپنی کتابوں میں اس حدیث کی تلاش شروع کر دی’ قریب ہی کھجوروں کا ایک ٹوکرا بھی رکھا ہوا تھا
امام مسلم کے استغراق اور انہماک کا یہ عالم تھا کہ کھجوروں کی مقدار کی طرف آپ کی توجہ نہ ہوسکی اور حدیث ملنے تک کھجوروں کا سارا ٹوکرا خالی ہو گیا اور غیر ارادی طور پر کھجوروں کا زیادہ کھا لینا ہی آپ کی موت کا سبب بن گیا اور اس طرح ٢٤ رجب ۲۶۱ ھ اتوار کے دن شام کے وقت علم حدیث کا یہ درخشنده آفتاب غروب ہو گیا (اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ) اور اگلے روز پیر کے دن خراسان کے اس عظیم محدث کو سپرد خاک کر دیا گیا۔(مآخذ:
شرح صحیح مسلم، علامہ سعیدی علیہ الرحمہ)اللہ جل وعلا حضرت امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تربت انور پر بےشمار نور کی برسات کرے،اور ان کے فیضان سے ہمیں مالامال فرمائے، خصوصا آپ کی کتاب (صحیح مسلم شریف)
مجھ ناچیز کو پڑھنے اور پڑھانے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰ حضرت مشن، کٹیہار
aalahazratmission92@gmail.com
یہ مضامین نئے پرانے مختلف قلم کاروں کے ہوتے ہیں۔
ان مضامین میں کسی بھی قسم کی غلطی سے ادارہ بری الذمہ ہے۔