ساری مخلوقات کی اجتماعی عید
تحریر: مفتی محمد شمس تبریزقادری علیمی
اللہ تعالیٰ ایک ہے پاک اور بے عیب ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا۔
اس نے خود فرمایا:’’تم فرماؤ وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد اورنہ وہ کسی سے پیداہوا۔ اور نہ اس کے جوڑ کاکوئی‘‘۔(سورۂ اخلاص، آیت: ۱،۴)
اس نے جب اپنی ربوبیت کااظہارچاہا اورکائنات کی تخلیق مقصود ہوئی تو فرمایا:’’ہوجا‘‘ پھرکیاتھا سارا عالم عدم سے وجود میں آگیا۔عَالم یعنی دنیا اٹھارہ ہیں ۔
اور ہر ایک عالم میں اس قدر کثیر مخلوقات ہیں جو حدوشمار سے ہاہر ہیں۔ صرف اس فرش گیتی پر رہنے والی مخلوقات کے متعلق معلومات حاصل کرنے والوں کی ساری زندگیاں ختم ہوجاتی ہیں مگر چند مشہور ومعروف مخلوق کی حقیقت تک کما حقہ رسائی نہیں ہوپاتی ہے۔
امام احمدرضامحدث بریلوی علیہ الرحمہ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ ج،۲۹،ص:۲۵۳، پرایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’عالم اٹھارہ ہیں اور ہر ایک میں کثرت ِ مخلوقات کے سبب اسے ہزار سے تعبیر کیا۔ تینوں موالید جمادات، نباتات، حیوانات اور چاروں عناصر اورسات آسمان اور فلک ِ ثوابت،فلک اطلس،کرسی، عرش‘‘۔
فتاویٰ رضویہ کی مذکورہ عبارت کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ کل دنیا اٹھارہ ہیں۔اور ہر ایک عالم یعنی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار ، انگنت مخلوقات ہیں۔جس کا صحیح علم اللہ عزوجل اور اس کی عطاسے رسول کریم ﷺ کو ہی ہے۔اس آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپررہنے والی مخلوقات کامشاہدہ کیاجائے تویہ بات سورج کی روشنی سے بھی زیادہ روشن ہوجاتی ہے کہ اللہ رب العزت کی تخلیق کردہ جملہ مخلوقات کے حقائق سے باخبر ہونا ناممکن ہے۔
عصر حاضر میں سائنسدانوں نے وہم وگمان سے زیادہ ترقی کی ہیں۔ ہر طرف سائنس(Science) اور سائنٹسٹ) (Scientistکی ترقیوں کا چرچاہو رہاہے۔ جدید ذرائع ابلاغ وغیرہ کی ایجادات اور خشکی وتری میں پیداہونے والی اشیاء پر نئی نئی تحقیقات اس بات کی غمازی کر رہی ہیں کہ واقعی آج سائنس (Science) نے ناقابل ِ انکار ترقیاں کی ہیں۔
ان تما م ترقیوں کے باوجود اب تک سائنس داں چند محدود اشیاء کوچھوڑ کراللہ عزوجل کی بہت سی مخلوقات کے حقائق سے بے خبرہیں۔ زمین سے کھود کرنکالی جانے والی کانی اورمعدنی اشیا ءجسے جمادات کہا جاتاہے ۔ صرف جمادات پر ریسرچ (Research)کیا جائے تو نہ جانے کتنے سالوں کی کدوکاوش کے باوجود چند چیزوں کے حقائق سے بھی اچھی طرح واقفیت نہیں مل پائے گی۔ پھر نباتات کا اندازہ کون لگا سکتاہے۔
بس یہی کہنا پڑے گاکہ جس نے کائنات پیداکی ہے وہی بہتر جانتاہے ۔
یا اس کے عطاکردہ علم سے میرے نبی ﷺ واقفیت رکھتے ہیں۔حیوانات کی دنیا بھی عجیب وغریب ہے ۔ برّی اور بحری حیوانات پر غور کیاجائے تو ہر کوئی یہی بولے گاکہ بے شمار حیوانات ہیں۔
حشرات الارض کے متعلق تحقیق کرنے والے یہی بولیں گے کہ کیڑے مکوڑےہی لاکھوں کی تعداد میں ہوں گے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب اللہ رب العزت نے اٹھار ہ عالم پیدا فرمایا ہے تو اس میں بے شمار مخلوقات بھی ہوں گی جس کا درست اورصحیح علم اللہ رب العالمین اور اس کے نبی رحمۃ للعالمین کو ہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سب سے پہلے رب الارباب عزوجل نے کس کی تخلیق فرمائی؟
اس سلسلے میں امام عبدالرزاق نے اپنے مُصَنَّف میں سند صحیح سے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے ایک روز حضور ﷺ سے عرض کی ،میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں ،مجھے یہ بتائیں کہ وہ کون سی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں سے پہلے پیدا فرمایا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے جابر ! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ پھر قدرت الٰہیہ سے جہاں اللہ تعالیٰ کو منظور تھا سیر فرماتا رہا،اس وقت نہ لوح وقلم تھانہ جنت ودوزخ تھی،نہ فرشتے تھے نہ زمین وآسمان، نہ چاند وسورج اور نہ ہی جن و انس تھے ۔
پھر جب خدائے تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمانے کاارادہ کیا تو اس نور میں شعاعیں در شعاعیں بڑھتی گئیں اور وہ مزید شعاعوں میں تقسیم ہوتی گئیں۔
یعنی پہلے نور کے چار حصے کیے گئے ،پہلے سے قلم دوسرے سے لوح تیسرے سے عرش چوتھے کے چار حصے کیے وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں تک کہ کائنا ت کا وجود ظاہر ہوگیا۔(الیٰ آخرالحدیث،مواہب لدنیہ، ج:۱، ص ۹، شرح زرقانی،ج :۱،ص:۴۶،فتاویٰ حدیثیہ ابن حجر مکی،ص:۵۱،مدار ج النبوۃ،ج:۱،ص:۳۰۹)۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نو رکو پیدا فرمایا، میں اللہ کے نور سے ہوں اور ساری مخلوقات میرے نور سےہے‘‘۔(مدارج النبوۃ ، مطالع المسرات)
ثابت ہواکہ نبی اکرم ﷺ اصل کائنات اور جملہ عوالم آپ کے نور کا جلوہ ہیں ۔ عاشقِ رسول امام احمد رضا فاضل بریلوی نے اسی کی طرف اشارہ اپنے اس شعر میں کیا ہے:
یہی ہے اصل عالم مادۂ ایجاد خلقت کا
یہاں وحدت میں برپا ہے عجب ہنگامہ کثرت کا
کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے۔
کیا شانِ احمدی کا چمن میں ظہور ہے
ہر گل میں ہر شجر میں محمد کانور ہے
اس روئے زمین پر جتنے بھی انسان ہیں چاہے جس مذہب ،دھرم ،ذات ،برادری سے تعلق رکھتے ہوں ہر قوم وملت کے لوگ سال میں چند مخصوص دن اپنے اپنے طورطریقے اور رسم ورواج کے مطابق تہوارمناتے ہیں۔ جس میں بوڑھے ،بچے ،جوان ،مردوعورت ہر کوئی خوشیوں کااظہار کرتے ہیں۔
پوری دنیا میں کچھ خاص دن مقرر ہیں جس میں عید منائی جاتی ہے۔ ہر قوم کی عید الگ الگ اور مختلف رسوم ورواج سے مزین ہوا کرتی ہے ۔ اسی طرح ہر ملک اور ہر برادری کے لیے علاحدہ تہوار ہیں۔صرف انسانوں کی بات کی جائے تو ان کے یہاں سال میں کئی طرح کے تہوار منائے جاتے ہیں۔ یہودی ،عیسائی، کرسچن، بدھ مت، جین،پارسی اورمسلم و غیر مسلم کے عید منانے کے جداگانہ طریقے ہیں ۔
ذاتی تہوار اور عید میں صرف اسی ذات ومذہب کے لوگ شریک بزم ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ تہوار وطنی اور قومی ہوتے ہیں جیسے بھارت میں یوم آزادی وغیرہ کی تقریب ایسے موقع پر کسی خاص ذات،برادری والے نہیں بلکہ جملہ برادرانِ وطن کی شرکت ہواکرتی ہے۔یہ بات ہر عام وخاص بخوبی جانتے اورمانتے ہیں کہ ہر کسی کی ایک عید ہواکرتی ہے جس میں اس مذہب سے تعلق رکھنے والے دل کھول کر خوشیاں مناتے اور دوست واحباب کوشریک بھی کرتے ہیں۔
لیکن کسی نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ انسان کی طرح کیاجنات بھی تہوار اورعید مناتے ہیں،اسی طرح حیوانات وجمادات اورنباتات بھی اپنے اپنے طور طریقے او ررسم ورواج کے مطابق آپسی خوشیاں مناتے ہیں یانہیں؟
جنات کی بات کریں تو چوں کہ جن وانس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت وریاضت کے لیے پیدا کیاہے ۔ جس طرح انسانوں پر شرعی احکام کی بجاآوری لازم وضروری ہے اسی طرح جنات بھی اس کے مکلف ہیں۔ تو اس سے ظاہر ہواکہ انسانوں کی طرح جنات بھی نماز ،روزے ،دیگر عبادات بجالاتے ہیں تو عید بھی مناتے ہی ہوں گے۔
اللہ کی پیدا کردہ جتنی بھی مخلوقات ہیں وہ سب اپنی زبانوں میں رب کی تسبیح پڑھا کرتی ہیں۔قرآن مقدس کی کئی آیات اس کی وضاحت کر رہی ہیں کہ زمین وآسمان میں جو کچھ ہیںوہ سب اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ سورہ ٔ بنی اسرائیل ،آیت: ۴۴/ میں ہے :
’’ اس کی پاکی بولتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہیں اور کوئی چیز نہیں جو اسے سراہتی ہوئی اس کی پاکی نہ بولے ہاں تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے بیشک وہ حلم ولابخشنے والاہے‘‘۔
اس آیت سے یہ معلوم ہواکہ کہ ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں بسنے والی ساری مخلوقات اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور تسبیح وتقدیس میں مشغول ہیں اور یہ تسبیح دونوں طرح ہے، زبانِ حال سے بھی اور وہ اس طرح کہ تمام مخلوقات کے وجود اپنے صانع یعنی بنانے والے کی قدرت وحکمت پر دلالت کرتےہیں اور یہ تسبیح زبانِ قال سے بھی ہے۔(روح البیان،ملخصاً بحوالہ صراط الجنان)
قرآن مقدس کی آیتوں میں غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ساری کائنات اللہ رب العزت کی تسبیح وتحمید میں ہرلمحہ مشغول ہے۔مفسرین نے لکھاہے کہ دروازہ کھولنے کی آواز اور چھت کا چٹخنا یہ بھی تسبیح کرناہے اور ان سب کی تسبیح ’’سُبْحَانَ اللہ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ہے۔
تو اس سے یہ بھی سمجھ میں آیا کہ جسے ہم بغیر زبان والی اشیاء سمجھتے ہیں درحقیقت اس کے اندر بھی زبان ہے جسے ہم نہیں سمجھ سکتے ۔حیوانات ،جیسے کہ چرندے،درندے،پرندے وغیرہ یہ سب قوت نطق رکھتے ہیں اور ہم انسان ان کی بولیاں سنتے بھی ہیں مگر کیا ان کی آپسی باتیں سمجھ سکتے ہیں نہیں نا !
مذکورہ اقتباس سے یہ بات بھی آفتاب نیم روز سے زیادہ روشن ہوگئی کہ زمین وآسمان اور اس کے درمیان کی ساری مخلوقات زبان ِ قال وحال رکھتی ہیں مگرہماری عقلیں اس کے فہم وادراک سے قاصر ہیں۔ان حقائق کی روشنی میں یہ سمجھ میں آتاہے کہ جن وانس کی طرح دوسری مخلوقات بھی اپنے اپنے انداز میں تہوار اور عید مناتے ہوں گے اور اس میں خوشیوں کااظہار کرتے ہوں گے۔
جملہ مخلوقات کی اجتماعی عید:
تاریخ وسیر کے مطالعےسے یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ اس دنیا میں ایک ایسا دن وتاریخ بھی رونما ہواہے جس میں کسی خاص طبقے یامعاشرے ،مذہب ودھرم اور کسی مخصوص ذات ،برادری کے لوگوں نے تنہا خوشیوں کااظہار نہیں کیا بلکہ اس میںفرشتے، انسان ،جنات، لوح وقلم،جنت ودوزخ، عرش و کرسی، آسمان وزمین،حد تو یہ ہے کہ جمادات ونباتات،حیوانات غرض کہ سارے عالم کی جملہ مخلوقات نے مشترکہ اور اجتماعی طورپر عید منائی ہیں ۔
آخر وہ کونسی تاریخ اور کون سادن ہے اور اس دن کی خصوصیات کیاہیں کہ جس دن ساری مخلوقات نے خوشیوں کااظہار کیااور تاقیام قیامت یہ عید اجتماعی طور پر منائی جاتی رہے گی ؟ آخر وہ کونسی عید تھی جس کوپوری کائنات نے مل کرایک ساتھ منایا بلکہ خالقِ کائنات نے بھی اس خوشی اور عید کومنایا ویسی خوشی اس سے پہلے کبھی نہیں منائی گئی ۔
قارئین ! وہ ہے عیدوں کی عید یعنی پیغمبرِ اسلام، تمام نبیوں کے سردار، محبوب ِ پروردگار، شفیع روز شمار کی پیدائش کی خوشی ،وہ ہے میلاد النبی کی خوشی۔اور یہی وہ انوکھی ،نرالی، شان وشوکت والی عیدکہ جس پر اٹھارہ عالم کی ساری مخلوقات نے خوشیوں کا اظہار کیا اورجس دن سب نے مشترکہ طور پر عید منایاہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب مجھ پر پہلی وحی نازل ہوئی، میں نے عرض کیا یا اللہ تونے مجھے کس لیے پیدا فرمایا ؟
ارشاد ہوا:’’ا گر آپ نہ ہوتے تو میں اپنی زمین اور آسمان کو پیدا نہ کرتا‘‘۔ مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو میں اپنی جنت اور دوزخ نہ بناتا‘‘۔
ابن عساکر نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے فرمایا محمد مصطفیٰ ﷺ نے مجھ پر وحی بھیجی گئی ،ارشاد باری ہوا:’’میں نے دنیا اور اہل دنیا کو اس لئے پیدا فرمایا کہ جوقدرو منزلت آپ کی میرے ہاں ہے ،میں اسے ظاہر کروں ،آپ نہ ہوتے تو دنیا کو پیدانہ کرتا‘‘۔(دیلمی، نزہۃ المجالس،بحوالہ شرح حدائق بخشش،ج۴،ص۲۶۵/۲۶۶،ملخصاً)
ان سب سے معلوم ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ نبی کائنات ﷺ کو پیدا نہ فرماتاتو ذرہ بھر کوبھی عالم وجود میں نہ لاتا،دنیاو اہل دنیا ،جنت ونار کی تخلیق آپ ہی کے باعث ہوئی ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے کیا خوب لکھاہے:
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کاچاند
اس دل افروز ساعتِ پہ لاکھوں سلام
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں توکچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
زمین وزماں تمہارے لیے مکین ومکاں تمہارے لیے
چنین وچناں تمہارے لیے بنے دوجہاں تمہارے لیے
’’ دلائل النبوۃ‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ جس شب نبی کریم ﷺ کا نورِ نبوت حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی پشت اقدس سے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن مقدس میں منتقل ہوا، روئے زمین کے تمام چوپایوں خاص کر قریش کے جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے گویائی عطا فرمائی
اور انہوں نے فصیح وبلیغ اعلان کیا کہ آج اللہ رب العزت کا وہ مقدس رسول شکم مادر میں جلوہ گر ہوگیاجس کے سر پر تمام دنیا کی امامت کاتاج ہے اورجو سارے عالم کوروشن کرنے والاچراغ ہے۔پورب کے جانوروں نے پچھم کے جانوروں کو اسی طرح سمندروں اور دریاؤں کے جانوروں نے ایک دوسرے کویہ خوش خبری سنائی کہ مبارک ہومبارک ہو آخری نبی ﷺ کی ولادت با سعادت کا وقت قریب آگیاہے۔(زرقانی علی المواہب ج۱،ص:۱۰۸،مواہب لدنیہ ،ج۱،ص۶۲،بحوالہ سیرت مصطفیٰ ملخصاً)۔
خطیب بغدادی کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب حضور ﷺ پیدا ہوئے تو میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی بدلی آئی جس میں روشنی کے ساتھ گھوڑوں کے ہنہنانے اور پرندوں کے اُڑنے کی آواز تھی اور کچھ انسانوں کی بولیاں بھی سنائی دیتی تھیں۔
پھر ایک دم حضور ﷺ میرے سامنے سے غیب ہوگئے اور میں نے سنا کہ کوئی اعلان کر رہاہے کہ محمد(ﷺ) کو مشرق ومغرب میں گشت کراؤ اور سمندروں کی بھی سیر کراؤ تاکہ تمام کائنات کو ان کا نام ، حلیہ، ان کی صفت معلوم ہوجائے اور ان کو تمام جان دار مخلوق یعنی جن وانس ، ملائکہ اور چرندوں و پرندوں کے سامنے پیش کرو اور انہیں تمام انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے کمالات واخلاق حسنہ سے مزین کردو‘‘۔(مواہب لدنیہ مع شر ح الزرقانی،ج۱،ص:۲۱۲/۲۱۵،بحوالہ سیرت مصطفیٰ ملخصاً)
تواریخ وسیر کی روایات شاہد ہیں کہ آپ کی ولادت کے وقت حورانِ بہشتی جائے ولادت پر موجود تھیں، فرشتوں کی جماعت صف باندھے باادب کھڑی تھی۔ساری مخلوقات ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کررہیں تھیں۔
اور ایسا ہو بھی کیوں نہ ؟ کیونکہ وہ نبی برحق ساری کائنات کے لیے رحمۃ للعالمین بناکر بھیجے گئے ہیں۔ جو روتوں کوہنسانے والے ،بھوکوں کوکھلانے والے، ننگوں کاستر چھپانے والے، گالیاں دینے اور مظالم کاپہاڑ ڈھانے والوں کو دعائیں دینے والے ہیں۔
پیر کے دن ۱۲/ ربیع الاول ،مطابق ۲۰/ اپریل ۵۷۱ء کو ساری مخلوقات کے نبی سارے عالم کے لیے رحمت بن کرمکہ شریف میں تشریف لائے ۔نبی رحمت ﷺ کے آنے سے پہلے دنیا میں بے شمار برائیاں تھیں۔ بچیوں کو زندہ در گور کردیاجاتاتھا۔ بیوہ عورتوں سے سماج میں زندگی گزارنے کا حق چھین لیاگیاتھا۔
پوری دنیا میں بچیوں اور بیوہ عورتوں کومنحوس سمجھاجاتاتھا۔باپ کے انتقال کے بعد ماں سے بہت ہی بُرا سلوک کیاجاتاتھا۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے بچیوںاور عورتوں کومعاشرے میںوہ مقام دیاہے جوکسی نے بھی نہیں دیاتھا۔ انگریزوں ،یہودیوں اور غیرمسلم اہل علم نے اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کیاہے۔
لہٰذا بارہ ربیع الاول کی تاریخ صر ف سنی مسلمانوں کے لئے تہوار اور عید نہیں بلکہ یہ ساری مخلوقات کی مشترکہ اور اجتماعی عید ہے۔
اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو ہدایت اور فہم وفراست عطافرمائے۔ آمد وجہ تخلیقِ کائنات کے صدقے پوری دنیا خاص کر بھارت میں رہنے والوں کے درمیان محبت ،مروت ،اخوت وصداقت،بھائی چارہ قائم فرمائے ۔آمین۔
تحریر: مفتی محمد شمس تبریزقادری علیمی
(ایم.اے.ایم.فل) مدارگنج، ارریہ. بہار۔
یہ مضامین نئے پرانے مختلف قلم کاروں کے ہوتے ہیں۔
ان مضامین میں کسی بھی قسم کی غلطی سے ادارہ بری الذمہ ہے۔