ملک العلماء حضرت ظفرالدین بہاری علیہ الرحمہ محبوب بارگاہ اعلیٰ حضرت ، نور نگاہ رضا ، محفظ ناموس مصطفیٰ ، افتختار اہل سنت ، ماہر علم وفن ، استاذ الاساتذہ ، خلیفہ و تلمیذ اعلیٰ
ملک العلماء حضرت ظفرالدین بہاری علیہ الرحمہ
جو ایک انجمن تھے جن کے بارے میں خود اعلیٰ حضرت قدس سرہ فرماتے ہیں
میرے ظفر کو اپنی ظفر دے
اس شکستیں کھاتے یہ ہیں
ان ہی کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں نوجوان قلم کا ر شاہین صفت ،وزیر احمد مصباحی
ملک العلماء حضرت ظفرالدین بہاری علیہ الرحمہ
ولادت
پٹنہ بہار کا ایک قدیم، تاریخی اور مردم خیز شہر ہے۔ آپ نے اسی شہر کے قریب میں واقع عظیم آباد کے موضع رسول پور میجرا میں ١٩،اکتوبر 1880 ء کو آنکھیں کھولی اور اپنی زندگی کی شروعات کی ۔
نام و نسب و القاب
پیدائش کے چند روز بعد بعض معززین نے آپ کا نام “عبدالحکیم” تجویز فرمایا۔ بعض تاریخ دانوں نے تاریخی نام” مختار احمد” رکھا لیکن والد صاحب نے” ظفر الدین” پسند فرمایا۔آپ کے مورث اعلی سید ابراہیم بن سید ابوبکر غزنوی ہیں۔ آپ کا نسب نامہ ساتویں پشت میں شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ سے جاملتا ہے ۔
جب آپ اعلی حضرت کی بارگاہ میں پہنچے تو اعلی حضرت نے آپ کو” ملک العلما “اور” فاضل بہار” جیسے معزز القاب سے ملقب فرمایا ۔آپ ابتدا میں اپنی کنیت “ابوالبرکات” فرمایا کرتے تھے ۔ لیکن جب آپ کے یہاں لڑکے کی پیدائش ہوئی تو “ابو محمد” لکھنے لگے ۔
تعلیم
ابتدا میں آپ والد ماجد ہی کی نگرانی میں تربیت پاتے رہے اور ابتدائی تعلیم حافظ مخدوم اشرف،مولوی کبیر الدین اور مولوی عبداللطیف سے حاصل کی پھر اپنے نانیہال تشریف لائے اور مدرسہ غوثیہ حنفیہ میں1312ھ کو داخل ہوئے ۔
یہاں آپ تقریبا نو سال تک اساتذہ کرام کے زیر تربیت رہے۔ جب ملک العلما نے محدث سورتی حضرت مولانا وصی احمد کا تذکرہ سنا تو 25،جمادی الاول 1320ھ کو محدث سورتی کی بارگاہ با فیض میں حاضری دی اور ان کی بارگاہ میں رہ کر مسند امام اعظم اور مشکات شریف غیرہ کی تعلیم حاصل کی۔
لیکن ان دنوں محدث سورتی سے بھی زیادہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ کے علم و قلم کا شہرا عنفوان شباب پر تھا۔ اس لیے آپ مصدر عشق و محبت کے جمال جہاں آرا کے اس طرح گرویدہ ہوئے کہ آپ نے اپنے ہم وطن مولانا سید عبدالستار عظیم آبادی کے ہمراہ اعلی حضرت کے دربار میں حاضری دی۔
اعلی حضرت قدس سرہ نے ملک العلما کے اس ذوق تحصیل علم کی سرگرمی کو دیکھ کر منظر اسلام کی بنیاد ڈالی اور اس کا افتتاح آپ ہی دونوں طالب علم سے ہوا ۔یہاں رہ کر آپ نے اعلی حضرت قدس سرہ سے علم حدیث ،فقہ اور علم تصوف میں مہارت تامہ حاصل کی۔ فتوی نویسی کے آداب سیکھے اور علم ہئیت،تکثیر ،توقیف اور ریاضی جیسے نادر فنون میں کمال حاصل کیا۔
درس و تدریس
فراغت کے فورا بعد ہی آپ نے تدریسی میدان میں قدم رکھا اور اپنے میکدہ علم سے مختلف خطوں کے لاکھوں طالبان علوم نبویہ کو قرآن و حدیث کا خوب خوب جام محبت پلایا۔
اعلی حضرت کے حکم سے آپ نے منظر اسلام ہی سے تدریسی خدمات کا آغاز فرمایا ۔تقریبا چار سال تک خدمت انجام دینے کے بعد شوال 1328ھ میں فاضل بریلوی ہی کے حکم سے انجمن نعمانیہ لاہور تشریف لے گیے۔
ھجری 1329 میں معززین شملہ کے اصرار پر اعلی حضرت نے خطیب و مفتی کی حیثیت سے آپ کو شملہ بھیجا ۔
لیکن پھر ایک سال بعد 1330ھ میں مدرسہ حنفیہ آرا، بہار میں صدر کی حیثیت سے تشریف لائے۔ادارہ کو سنبھالا دینے کے بعد ١٣٣٤ھ میں سید شاہ سلیم الدین سہسرامی کی درخواست پر خانقاہ کبیریہ، سہسرام تشریف لے گیے۔ پھر 1338 ھ میں مدرسہ شمس الہدی میں آپ کی سرکاری تقرری عمل میں آئی اور آپ نے ریٹائرمنٹ تک اپنا فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا، اس کے بعد مکمل اطمینان و سکون کے ساتھ تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئے ۔
اسی درمیان آپ نے کٹیہار میں “جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم ” کا افتتاح فرمایا اور آخر عمر تک اپنی نگرانی سے مدرسے کو عروج بخشتے رہے ۔
تصنیفی خدمات
آپ کو اللہ تعالی نے تدریسی صلاحیت کے ساتھ ساتھ سیال قلم سے بھی خوب نوازا تھا ۔آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جن کی تصانیف سے ہندوستان اور پاکستان ہی کے باشندے نہیں بلکہ دیگر ممالک کے بھی کثیر باشندے فیض یاب ہوئے۔
آب نے 1323ھ سے باضابطہ تصنیفی خدمات کا آغاز فرمایا اور اس روش پر آخری عمر تک قائم رہے ۔ ان مدتوں کے درمیان آپ نے مختلف فنون مثلا: حدیث، فقہ تاریخ، سیرت ،سوانح ،صرف ،نحو ،منطق، فلسفہ، مناظرہ ہیئت اور تکثیر وغیرہ فنون پر بے شمار کتابیں تصنیف فرمائی۔
مولانا حسن رضا قدس سرہ نے ماہنامہ “رفیق” کے علماے بہار نمبر میں آپ کی ٢٧ کتابوں کا تذکرہ کیا ہے۔(ماہنامہ رفیق ،علمائے بہار نمبر ،جنوری ١٩٨٤ء ص:١١٧)۔
لیکن ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی نے” جہان ملک العلما” میں آپ کی چھوٹی بڑی 70 کتابوں کی ایک تفصیلی فہرست جاری کی ہے۔(جہان ملک العلما ،٤٧٣/٤٧٤
میں یہاں پر ملک العلما کے ان ستر کتابوں میں سے صرف دس ایسے مشہور و معروف کتابوں کے نام پیش کرنے پر اکتفا کر رہا ہوں ،جن سے اس حقیقت کا اندازہ لگانا بہت ہی سہل ہوجائے گا کہ ملک العلما عبقریت اور فنی مہارت میں کس حد تک کامیاب تھے:۔
- الجامع الرضوی المعروف بصحیح البخاری
- ظفرالدین الجید
- الحسام المسلول علی منکر علم الرسول
- النبراس لدفع ظلام الناس
- جواہر البیان
- حیات اعلی حضرت
- الاکثیر فی علم التکثیر
- تحفتہ الابصار
- توضیح التوقیت وغیرہ۔۔
تلامذہ
ملک العلما کی تدریسی صلاحیت جب اقوام عالم میں پھیلی تو ہند و بیرونِ ہند سے لاتعداد طلبا علمی تشنگی بجھانے کے لیے آپ کی بارگاہ عالیہ میں کشاں کشاں آتے چلے گیے اور آپ بھی انھیں تاریخ و تفسیر اور قرآن و حدیث کا جام محبت پلاتے چلے گئے ۔
میں یہاں پر آپ کے میکدہ علم و عرفاں سے فیض پانے والے ایسے چند گہر نایاب کے اسما کے ذکر پر اکتفا کر رہا ہوں جو آپ کے علمی پنگھٹ سے سیراب ہو کر اپنے اپنے دور میں علم و ادب کے چراغ بن کر روشن ہوگئے۔
(١)سید شاہ احسن الھدیٰ، سجادہ نشین خانقاہ شاکریہ، مونگیر بہار۔
(٢) مولانا حافظ محمد عبدالرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ
(٣) مولانا محمد محمود رفاقتی (مصنف : تذکرہ علماے اہل سنت)
(٤) خواجہ علم و فن مظفرحسین رضوی علیہ الرحمہ ۔
(٥) سید شاہ فرید الحق امادی، منگل تالاب پٹنہ۔
(٦) مفتی محمد غلام مجتبیٰ اشرفی، سابق شیخ الحدیث و صدر المدرسین منظر اسلام بریلی شریف و حضرت علامہ سید
ہاشم چشتی علیہ الرحمہ وغیرہ۔
اصلاح معاشرہ
حضرت ملک العلما کے فتاوی اور دیگر تصانیف کا جائزہ لیا جائے تو ایسے بہت سے اقوال اورفتاوی ملیں گے جن سے آپ نے اصلاح معاشرہ کا اہم فریضہ انجام دیا ۔آپ ہفتہ وار یا روزانہ پٹنہ کی ایک مسجد میں درس دیا کرتے تھے
جس کا خاص مقصد اصلاح معاشرہ اور تبلیغ دین تھا ۔جب آپ نے دیکھا کہ اوقات نماز معلوم کرنے میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں تو آپ نے “مؤذن الاوقات” تصنیف فرما کر اس دشواری کا حل نکال دیا ۔
یوں ہی جب سمت قبلہ کی تعیین میں گڑبڑی پیدا ہوئی تو قبلہ کی جدول مرتب فرما دیں ، نیز اسے معلوم کرنے کے لیے خواص کے لئے علمی طریقہ اور عوام کے لیے عملی طریقہ بھی مرتب فرمایا۔
اس طرح آپ نے اصلاح معاشرہ کا حل نکالا اور لوگوں کی حد درجہ تک اصلاح فرمائی۔آپ نے اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم سے ایک ایسا دردمند اور پر سوز دل بھی پایا تھا جو ہر لمحہ قوم و ملت کی خدمت کے لیے دھڑکتا رہتا تھا۔
آپ نے اپنے خون جگر سے درد ملت کا عظیم مداوا پیش کیا ہے۔ ہادی الہداة لترک الموالات، دلچسپ مکالمہ اور سدالفرار المہاجر بہار وغیرہ اسی جذبے نے تحریر کرائے ہیں۔
ملی درد و کرب کے ثبوت میں آپ سد الفرار کا یہ اقتباس دیکھتے چلیں کہ ملی اضطراب لفظ لفظ سے کس طرح برستا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔
فسادات بہار سے متاثر ہوکر جب ہزاروں مسلمان ترک وطن کرکے بے تحاشا بغیر سوچے سمجھے بنگال اور کراچی کی طرف منتقل ہورہے تھے تو اس وقت ملک العلما کا ایک پرسوز اور دردمند دل قوم مسلم سے پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ
” آپ خوف و ہراس سے بھاگ کر اپنے اسلاف کے کارناموں پر پانی پھیر رہے ہیں ہیں۔ آپ اپنے اس فعل سے دارالاسلام کا چراغ بجھا کر اس کو دارالکفر بنا رہے ہیں ۔
کیا آپ کی غیرت اس کی اجازت دیتی ہے کہ وہ مساجد جہاں آپ اور آپ کے آباء و اجداد اپنی پیشانیاں گھسا کرتے تھے، ان کو ویران چھوڑ جائیں؟ کیا آپ کی غیرت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ آپ اپنے بزرگوں کے مزارات کو کفار ومشرکین کی پامالی اور تذلیل کے لیے چھوڑ جائیں کہ ان کے جانور انھیں ناپاک کریں؟”۔ (حیات ملک العلما،ص: ٣٣،٣ )۔
خدمت حدیث
ملک العلما نے فن حدیث میں بھی زبردست مثالی کردار ادا کیا ہے۔ برس ہا برس سے علماے کرام و فضلاے عظام کی آنکھیں ترس رہی تھیں کہ کوئی ایسی کتاب معرض وجود میں آئے جس میں وہ تمام احادیث یکجا ہوں جو مذہب حنفی کا ماخذ اور موئد ہوں۔
اس لیے چودہویں صدی میں ملک العلما نے اعلی حضرت کی اجازت سے اس عظیم الشان کام کا بیڑا اٹھایا اور اس میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔
آخرکار شب و روز کی مکمل جاں فشانی و جہدِ مسلسل کے بعد دس سال کے طویل عرصہ میں میں یہ علمی و حیرت انگیز کارنامہ پائے تکمیل کو پہنچا اور دیدہ زیب، حسین اور جاذب نظر ٹائٹل سے آراستہ ہوکر عوام و خواص کے لیے راحت قلب و جاں اور سکون دل و نظر ثابت ہوئی۔
یہ کتاب چھ جلدوں پر مشتمل ہے ،جس کی قدرے تفصیل مندرجہ ذیل ہے (١)جلد اول : عقائد (٢) جلد دوم : طہارت و صلوۃ (٣) جلد سوم : زکوۃ،صوم و حج (٤) جلد چہارم : کتاب النکاح تا وقف (٥) جلد پنجم : کتاب البیوع تا غصب (٦) جلد ششم
کتاب الشفاء تا فرائض
اس طرح آپ نے فن حدیث میں زبردست کارنامہ انجام دیا اور ایسے ضرورت و احتیاج کا حل نکال دیا جس کا احسان رہتی دنیا تک دنیاے اسلام پر باقی رہے گا
مناظرہ
آپ کے دور میں مختلف فرقہائے باطلہ ن اپنی گمراہیت اور بدعقیدگی کا جال بچا رکھا تھا۔ وہ آئے دن بھولے بھالے مسلمانوں کو کفر و ضلالت کے گھڑے میں ڈھکیلے جارہے تھے ۔ایسے پرخطر و پُرآشوب دور میں ملک العلما نے اس محاذ پر بھی دین و سنیت کی پاسبانی کے حقوق ادا کیے اور ہر ایک کو دندان شکن جواب دیا۔شاید آپ کے اسی فاتحانہ شوکت کو دیکھ کر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ۔
آپ کے مربی اعلیٰ حضرت قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں
میرے ظفر کو اپنی ظفر دے
اس سے شکستیں کھاتے یہ ہیں
کئی ایک مناظروں میں آپ نے اعلی حضرت کے حکم سے شرکت فرمائی اور کئی مناظروں میں آپ کو خود طلب کیا گیا۔سہسرام کے مناظرے کی روداد آپ نے بنام “گنجینہ مناظرہ” تصنیف فرمائی ۔رامپور کے مناظرے کی تفصیل” کشف السطور عن مناظر ة رامپور “میں رقم فرمائی۔ظفر الدین الجید میں تھانوی کا زبردست گھیراؤ کیا اور ظفرالدین الطیب میں غیر مقلدیت کے فتنے کو زبردست لگام دیا۔
( یہی وجہ تھی کہ ملک العلما، جماعت رضائے مصطفی بریلی شریف کے سرپرست اور شعبہ مناظرہ کے صدر قرار دیے گئے تھے۔( تاریخ جماعت رضائے مصطفی ،بحوالہ سہ ماہی افکار رضا ،ممبئی شمارہ اکتوبر تا دسمبر ١٩٩٨ء
یقینا آپ ان تمام خوبیوں کے مالک تھے جو انفرادی طور پر دوسرے لوگوں کے لیے وجہ افتخار اور شان امتیاز ہوا کرتی ہیں۔ مشہور محقق اور نقاد قلمکار پروفیسر مختار الدین احمد آرزو رقم طراز ہیں : ” میرے بچپن میں وہ (ملک العلما) آریہ سماجوں اور مسیحی مبلغین سے مناظرہ کے لیے جلسوں میں بھی تشریف لے جایا کرتے تھے ۔غیر مقلدین سے مناظرہ کے لیے دور دراز مقام سے بلائے جاتے۔ ایک مناظرہ کے لیے وہ برما بھی تشریف لے گئے”۔ ۔(حیات ملک العلما مشمولہ صحیح البهاری،ص: ١٠،مطبوعہ حیدرآباد ١٩٩٢ء)۔
ملک العلما کی فن مناظرہ میں تقریبا نو یا دس کتابیں ملتی ہیں۔ جو فن مناظرہ میں فضل و کمال اور مہارت و بصیرت کی کھلی شہادتیں ہیں۔
ملک العلما کی نثری خدمات
فاضل بریلوی کے فیض یافتگان میں سے جن حضرات نے نثری خدمات انجام دیا ان میں سے ایک نام ملک العلما کا بھی ملتا ہے۔
ملک العلما نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں فقہ، حدیث ،سیرت، تکسیر اور تاریخ وغیرہ علوم میں تصنیفات و تالیفات کے توسط سے اردو نثر کو مالا مال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آئیے اب ہم ان کی تصنیف کے روشنی میں صرف ایک ایسی جھلک پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو سکے گا کہ وہ کس پائے تکمیل کے نثرنگار تھے۔
حضور ملک العلما اپنی گراں قدر تصنیف لطیف “چودہویں صدی کے مجدد” میں مجدد اسلام کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :۔
” قاعدہ کی بات یہ ہے کہ جو شخص کسی عقیدہ اور خیال میں ایسا پختہ ہو کے ایک ہاتھ میں اس کے آفتاب اور دوسرے ہاتھ میں ماہتاب آسمان سے اتار کر دے دیں۔ جب بھی وہ اپنے عقیدے سے باز نہ رہے ،ایسا پختہ شخص اس عقیدہ کی تبلیغ کرسکتا ہے اور لوگوں پر اس کا اثر بھی ہوگا کہ ” آنچہ از دل خیزد بر دل ریزد “۔( چودھویں صدی کے مجدد،ص: ٤٨)۔
اس اقتباس میں آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس میں جہاں زبان کی سادگی اور بیان کی صفائی لائق دید ہیں وہی ایجاز و بلاغت کا اچھا نمونہ بھی جلوہ گر ہے ۔صحیح اور پختہ عقیدے کی حامل شخصیت کا مدلل بیان بہت ہی خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔
فارسی مصرع کو عمدگی سے سمویا ہے اور نثر میں شعریت کی اچھی مثال ہے ۔یقینا آپ کی تحریر میں جہاں سرسید کی تمثیل نگاری ہے وہی الطاف حسین حالی کے مجردات کی پیکر تراشی بھی موجود ہے۔ ایک طرف اگر مرزا غالب کی وضاحت خیال رواں دواں ہے تو دوسری طرف علامہ اقبال کی اظہار ذات و اظہار دردمندی کا عنصر روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
فقہی خدمات
آپ کی ذات بابرکات اور فقہی نگارشات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو آپ بالغ نظرفقیہ اور تجربہ کار اسلامی دانشور کی خوبصورت شکل و صورت میں ابھر کر نگاہوں کے سامنے جگمگانے لگتے ہیں ۔آپ نے تقریبا ٥١/ سال تک افتا نگاری فرمائی۔
کثیر فقہی موضوعات پر رسالے تحریر فرمائے اور بے شمار محفلوں میں ہزاروں مسائل بیان فرما کر دین و مذہب کی آبیاری فرمائی اور سونے پر سہاگہ یہ کہ عبقری فقیہ اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کی تربیت و اصلاح نے آپ کے تفقہ اور افتا نگاری کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا ۔
ایک فقیہ اور مفتی کے لیے جن طبقات فقہائے احناف اور مستند کتب مذہب کی درجہ بندیوں کے ساتھ ساتھ رسم المفتی سے مکمل واقفیت رکھنا ضروری ہوتا ہے وہ تمام خوبیاں آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ اس موضوع پر آپ کی تقریبا پندرہ کی طرح ہے ملتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر آفتاب و ماہتاب سے کم نہیں ہیں۔
ان میں سے چند کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں ملاحظہ فرمائیں
(١)عید کا چاند
(٢) نافع البشر فی فتاوی ظفر
(٣) تنویر المصباح للقیام عند حی علی الفلاح
(٤) الفیض الرضوی فی تکمیل الحموی
(٥) جامع الاقوال فی روایۃ الہلال ۔
وغیرہ جیسی آپ کی قیمتیں تحریری فقہ افتا کے سمندر میں گوہر آبدار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ آپ نے پچپن سال کے طویل عرصے میں اپنی تدریسی خدمات سے ہزاروں تلامذہ کو اپنے میکدہ علم سے سیراب کیا اور اس دوران فتویٰ نویسی،وعظ و تلقین، تصنیف و تالیف ،بیعت و ارشاد اور مناظرہ و فضا جیسےگوناگوں مشاغل کو اپناتے ہوئے امت مسلمہ کی ہر محاذ پر مکمل رہنمائی فرمائی۔
وصال پر ملال اور مزار مبارک
لیکن افسوس کے آخری عمر میں ملک العلما کو فساد الدم کی ایسی بیماری لاحق ہو گئی جس نے آپ کے وجود مسعود کو مکمل طور پر مضمحل کرکے رکھ دیا ۔کمزوری سر چڑھ کر بولنے لگی۔ اس عالمی نقاہت میں بھی آپ کے معمولات روز و شب میں کوئی فرق نہیں آیا۔
آخر کار ١٩،جمادی الاخری 1382ھ مطابق ١٨،نومبر 1962ء کو یک شنبہ کا دن گزار کر دو شنبہ کی رات میں ذکر بالجہر کرتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے اس طرح جا ملے کے کچھ دیر تک لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ آپ کی روح قفص عنصری سے پرواز کر چکی ہے۔ دوسرے دن حضرت شاہ محمد شاہد رشیدی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔
مزار مبارک
آج بھی شاہ گنج درگاہ ارزاں کے قبرستان میں زیارت گاہ خلائق بنا ہوا ہے۔ ہزاروں بندگان خدا شب و روز آپ کے در پر اپنے سوال کا دامن اور بھیک کی جھولیاں پھیلائے رہتے ہیں اور آپ کا فیض و کرم ہر آن ان پر ٹوٹ ٹوٹ کر برستا رہتا ہے۔جس سے وہ اپنی دامن مراد بھر کر خوشی خوشی لوٹ آتے ہیں۔
ہزاروں رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تم پر
فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری
تحریر :✍🏻 وزیر احمد مصباحی (بانکا)
شعبہ افتا ،جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ
wazirmisbahi87@gmail.com