احترام سادات،حیات اعلیٰ حضرت کا درخشندہ پہلو
از: محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ(ولادت ۱۲۷۲ھ، وصال۱۳۴۰ھ)بیسویں صدی کی اس عظیم شخصیت کا نام ہے، جس نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقف کردی تھی اور اپنی زندگی کو سنت رسول کی پیروی میں بسر کیا۔آپ نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو عام کیا۔
اپنے علم و عمل اور اخلاق وکردار سے معاشرے میں پھیلی برائیوں کو ختم کیااور امت مسلمہ کی ہر موڑ پر رہنمائی کی۔آپ اپنے دور کے فقیہ اعظم تھے،علوم وفنون کے سمندر تھے،تمام علوم مروجہ پر آپ کو دسترس حاصل تھی،ساتھ ہی آپ ایک سچے عاشق رسول تھے،بلکہ یوں کہا جائے تو بجاہوگا کہ اعلیٰ حضرت عشق رسالت کا مجسمہ تھے۔ آپ کے علمی سرمائے سے عشق رسالت مترشح تھا۔
آپ نے عشق رسول میں جینا مرنا سکھایا۔سرکار دوعالم ﷺکی آل کا ادب سکھایا۔ خود بھی ادب واحترام کاخوب خیال کیا۔یہ احترام کیوں تھا؟کیوں کہ آپ کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل عشق رسالت مآب ﷺسے سرشار تھا۔ آپ کی زندگی عشق مصطفی ﷺکا آئینہ دار تھی۔امام احمد رضا نے اپنے قول و عمل سے محبت رسول کا ثبوت دیا۔ محبت رسول ہو اور محبت آل نہ ہو تو محبت کامل نہیں ہوتی۔
جب سرکار دوعالم ﷺ سے سچی محبت ہوگی، تو سرکار کی آل سے بھی ہوگی۔اس محبت کا ثبوت اما م احمد رضا نے اپنے کردار و معاملات سے دیا۔ آپ کی سادات کرام سے محبت دیکھنے والوں نے دیکھا،سننے والوں نے سنا اور عمل کرنے والوں نے عمل بھی کیا۔
تعظیم وتوقیر اور احترام سادات کے تعلق سے تلمیذِ اعلیٰ حضرت،ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں : ساداتِ کرام جز و رسول ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحق توقیر و تعظیم ہیں اور اس پر پورا عمل کرنے والا ہم نے اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کو پایا۔
اس لیے کہ وہ کسی سید صاحب کو ان کی ذاتی حیثیت و لیاقت سے نہیں دیکھتے بلکہ ا س حیثیت سے ملاحظہ فرماتے کہ سرکار دو عالم ﷺ کا جزو ہیں۔(حیات اعلیٰ حضرت۱؍۲۲۳) اعلیٰ حضرت کا خاندان سادات کی عزت وعظمت کے لیے مدت سے مشہور ہے۔
اعلیٰ حضرت قبلہ کے دادا مولا نا رضا علی خاں روزانہ نماز فجر پڑھ کر سادات کرام نو محلہ کی خیریت معلوم کرنے اور سلام عرض کرنے جایا کرتے تھے۔ان کے اس معمول میں کسی مجبوری ہی سے فرق پڑتا تھا۔ یہ خاندان نجیب بھی سادات کرام کا عجیب خاندان تھا۔ ان کے اخلاق کریمہ یہ کہوا لیتے تھے کہ ان کی رگوں میں خونِ سرکارِ رسالت ہے اور سارا خاندان حسین وجمیل خوب صورت اور خوب سیرت تھا۔
مولانا رضا علی خاں صاحب کے بعد مولا نانقی علی خاں بھی اسی خاندان سے وابستہ رہے۔ ہر تقریب میں ہر دعوت میں وہ اپنے یہاں سادات کرام کو ضرورت شریک کرتے تھے اور ان کا اعزازی حصہ سب سے دوگنا ہوتا تھا۔
اعلیٰ حضرت کی ناگواری کا واقعہ:
اعلیٰ حضرت اگر کبھی نا خوش ہوئے تو کھا نا یا حقہ یا پان چھوڑ دیتے تھے جس سے انہیں سخت تکلیف ہوتی تھی،کبھی یہ مجاہدہ ہو ہی جاتا تھا۔ پہلے تو خاندان والے اور احباب اس غصے کے فروکرنے کی کوشش کرتے۔
اگر وہ اس مجاہدے کو نہ ختم کرا سکے تو سید صاحبان سے عرض کیا جا تا تھا۔اعلیٰ حضرت کو سید صاحب کے حکم کی تعمیل کرنا پڑتی تھی۔اعلیٰ حضرت قبلہ نے ایک بارکھانا چھوڑا اور صرف ناشتے پر قناعت کی۔اس میں بھی کوئی اضافہ منظور نہ فرمایا۔سارے خاندان اور ان کے احباب کی کوشش رائگاں گئی۔
سید مقبول صاحب کی خدمت میں نومحلہ حاضر ہوئے،عرض کیا: آج دو مہینے ہونے کو آئے کہ اعلیٰ حضرت نے کھانا چھوڑ دیا ہے، ہم سب کوشش کر کے تھک گئے ہیں، آپ ہی انہیں مجبور کر سکتے ہیں۔اس پر انہوں نے فرمایا کہ ہماری زندگی میں انہیں یہ ہمت ہوگئی ہے کہ وہ کھانا چھوڑ بیٹھے ہیں،ابھی کھانا تیار کرا تا ہوں اور لے کر آتا ہوں، حسب وعدہ سید مقبول صاحب ایک نعمت خانہ میں کھانا لے کرخودتشریف لائے، اعلیٰ حضرت قبلہ زنانے مکان میں تھے۔ سید صاحب کی اطلاع پاتے ہی باہر آ گئے۔سید صاحب سے قدم بوس ہوئے۔اب بات چیت شروع ہوئی۔
سید صاحب نے فرمایا میں نے سنا ہے کہ آپ نے کھانا چھوڑ دیا ہے۔ اعلیٰ حضرت نے عرض کیا کہ میں تو روز کھاتا ہوں۔ سید صاحب نے فرمایا مجھے معلوم ہے جیسا آپ کھاتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے عرض کیا کہ حضور میرے معاملات میں اب تک کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
میں اپنا سب کام بدستور کر رہا ہوں، مجھے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی تو سید صاحب قبلہ برہم ہو گئے اور کھڑے ہو کر فرمانے گئے: اچھا! تو میں کھانا لیے جا تا ہوں،کل میدان قیامت میں سرکار دوجہاں کا دامن پکڑ کر عرض کروں گا کہ ایک سیدانی نے بڑے شوق سے کھانا پکا یا اورسید لے کر آیا مگر آپ کے احمد رضا خاں نے کسی طرح نہ کھایا۔
اس پراعلیٰ حضرت کانپ گئے،عرض کیا کہ میں تعمیلِ حکم کے لیے حاضر ہوں۔ابھی کھائے لیتا ہوں۔سید صاحب قبلہ نے فرمایا کہ اب تو یہ کھانا تم جب ہی کھا سکتے ہوجب یہ وعدہ کرو کہ اب عمر بھر کھانا نہ چھوڑو گے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت قبلہ نے عمر بھر کھانا نہ چھوڑ نے کا وعدہ کیا تو سید صاحب قبلہ نے اپنے سامنے انہیں کھلا یا اور خوش خوش تشریف لے گئے۔ اعلیٰ حضرت کے لیے سادات کرام کا جائز حکم آخری ہوتا تھا۔
سادات کرام کے حکم کے بعد اعلیٰ حضرت کو سواے تعمیل حکم کے کوئی چارہ کا رہی نہ ہوتا تھا۔
ہم نے ان کے والد ماجد کا دور تو نہ دیکھا مگر یہ دیکھا کہ اللہ اور رسول کے حکم کے بعد اعلیٰ حضرت کے یہاں سادات کرام ہی کا حکم نافذ ہوسکتا تھا۔ یہ نا قابل انکار حقیقت ہے کہ سرکار دو عالم کی آخری وصیت’’انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی‘‘۔ (ترجمہ) میں تم میں دو بھاری امانتیں چھوڑ تا ہوں، اللہ کی کتاب اوراپنی اولاد۔اس پر پورا پوراعمل کر کے اس دور میں اعلیٰ حضرت قبلہ ہی نے دکھایا۔(سیرت اعلیٰ حضرت،ص۹۵،۹۷)
جناب سید ایوب علی کا بیان کرتے ہیں’’فقیر اور برادرم سید قناعت علی کے بیعت ہونے پر بموقع عیدالفطر بعد ِنماز دست بوسی کے لیے عوام نے ہجوم کیا۔
مگر جس وقت قناعت علی دست بوس ہوئے، حضور پر نور اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے ان کے ہاتھ چوم لیے،یہ خائف ہوئے اور دیگر مقربان خاص سے تذکرہ کیا،تو معلوم ہوا کہ حضور کا یہ معمول ہے کہ بموقع عیدین دوران مصافحہ سب سے پہلے جو سید صاحب مصافحہ کرتے ہیں، اعلیٰ حضرت ان کی دست بوسی فر ما یا کرتے ہیں۔ غالباً آپ موجود سادات کرام میں سب سے پہلے دست بوس ہوئے ہوں گے۔(حیات اعلیٰ حضرت،ج۱،ص۲۲۴)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی احتیاط اور عظمت سادات کرام ملاحظہ فرمائیے :
جناب سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے:ایک کم عمر صاحبزادے خانہ داری کے کاموں میں امداد کے لیے(اعلیٰ حضرت کے)کاشانہ اقدس میں ملازم ہوئے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سید زادے ہیں لہٰذا(اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے) گھر والوں کو تاکید فرما دی کہ صاحب زادے صاحب سے خبر دار کوئی کام نہ لیا جائے کہ مخدوم زادہ ہیں، کھانا وغیرہ اور جس شے کی ضرورت ہو (ان کی خدمت میں) حاضر کی جائے۔ جس تنخواہ کا وعدہ ہے وہ بطورنذرانہ پیش ہوتا رہے،چناں چِہ حسب الارشاد تعمیل ہوتی رہی۔کچھ عرصہ کے بعد وہ صاحبزادے خود ہی تشریف لے گئے۔ (حیات اعلیٰ حضرت،ج۱،ص۲۲۳)
سید زادے سے خدمت لینے کے متعلق ایک سوال: اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں سوال ہوا کہ سید کے لڑکے سے جب شاگرد ہو یا ملازم ہو دینی یا دنیاوی خدمت لینا اور اس کو مارنا جائز ہے یا نہیں؟ توآپ نے جواباً ارشاد فرمایا:ذلیل خدمت اس سے لینا جائز نہیں۔
نہ ایسی خدمت پر اسے ملازم رکھنا جائز اور جس خدمت میں ذلت نہیں اس پر ملازم رکھ سکتاہے۔بحال شاگرد بھی جہاں تک عرف اورمعروف ہو(خدمت لینا) شرعاً جائز ہے لے سکتا ہے اور اسے(یعنی سید کو) مارنے سے مطلق احتراز(یعنی بالکل پرہیز) کرے۔ (فتاویٰ رضویہ،جلد ۲۲،صفحہ۲۶۸)
اصلاح کا ایک اچھوتا انداز:
مولانا مفتی محمد ابراہیم صاحب فریدی صدر مدرس مدرسہ شمس العلوم بدایوں کا بیان ہے حضرت مہدی حسن سجادہ نشین سرکار کلاں مارہرہ شریف نے فرمایا کہ:میں جب بریلی آتا تواعلیٰ حضرت خود کھانا لاتے اور ہاتھ دھلاتے۔
حسب دستورہاتھ دھلاتے وقت فرمایا۔ حضرت شہزادہ صاحب! یہ انگوٹھی اور چھلے مجھے دیجیے، میں نے فوراً اتار کر دے دیے اور وہاں سے بمبئی چلا گیا۔ بمبئی سے مارہرہ واپس آیا، تو میری بیٹی فاطمہ نے کہا ابا! بریلی کے مولانا صاحب کے یہاں سے پارسل آیا تھا، جس میں چھلے اور انگوٹھی تھے، یہ دونوں طلائی تھے۔ والا نامہ اس میں مذکور تھا، شہزادی صاحبہ یہ دونوں طلائی اشیا آپ کی ہیں۔
یہ تھا اعلیٰ حضرت کاسادات اور پیرزادوں کا احترام۔(حیات اعلیٰ حضرت،ج۱،ص۲۳۴) کہ جو چیز مردوں کو پہننا جائز نہیں اور عورتیں پہن سکتی ہیں،انھیں محبت کے ساتھ اتروا کر گھر بھیجوا دیا تاکہ عورتیں پہن لیں، اس سے اصلاح بھی ہوگئی،اور اعلیٰ حضرت نے اپنا دینی فریضہ بھی انجام دیا۔ ملک العلمالکھتے ہیں:۔
’’جس زمانہ میں اعلیٰ حضرت کے دولت کدہ کی مغربی سمت جس میں کتب خانہ نیا تعمیر ہورہا تھا، عورتیں اعلیٰ حضرت کے قدیمی آبائی مکان میں جس میں حضرت مولانا حسن رضا خان صاحب برادر اوسط اعلیٰ حضرت مع متعلقین تشریف رکھتے تھے، قیام فرما تھیں اور اعلیٰ حضرت کا مکان مردانہ کردیا گیا تھا کہ ہر وقت راج مزدوروں کا اجتماع رہتا
اسی طرح کئی مہینہ تک وہ مکان مردانہ رہا جن صاحب کو اعلیٰ حضرت کی خدمت میں باریابی کی ضرورت پڑتی بے کھٹکے پہنچ جایا کرتے جب وہ کتب خانہ مکمل ہوگیا، مستورات حسب دستور سابق اس مکان میں چلی آئیں، اتفاق وقت کہ ایک سید صاحب جو کچھ دن پہلے تشریف لائے تھے اور اس مکان کو مردانہ پایا تھے پھر تشریف لائے اور اس خیال سے کہ مکان مردانہ ہے بے تکلف اندر چلے گئے، جب آدھے آنگن میں پہنچے تو مستورات کی نظر پڑی جو زنانہ مکان میں خانہ داری کے کاموں میں مشغول تھیں
انہوں نے جب سید صاحب کو دیکھا تو گھبراکر اِدھر اُدھر پردہ میں ہوگئیں ان کے جانے کی آہٹ سے جناب سید صاحب کو علم ہوا کہ یہ مکان زنانہ ہوگیا ہے، مجھ سے سخت غلطی ہوئی جو میں چلا آیا اور ندامت کے مارے سر جھکائے واپس ہونے لگے کہ اعلیٰ حضرت دکھن طرف کے سائبان سے فوراً تشریف لائے اور جناب سید صاحب کو لے کر اس جگہ پہنچے جہاں حضرت تشریف رکھا کرتے اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہتے
اور سید صاحب کو بٹھا کر بہت دیر تک باتیں کرتے رہے جس میں سید صاحب کی پریشانی اور ندامت دور ہو، پہلے تو سید صاحب خفت کے مارے خاموش رہے پھر معذرت کی اور اپنی لاعلمی ظاہر کی کہ مجھے زنانہ مکان ہونے کا کوئی علم نہ تھا۔
اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ حضرت یہ سب تو آپ کی باندیاں ہیں آپ آقا اور آقا زادے ہیں،معذرت کی کیا حاجت ہے میں خود سمجھتا ہوں حضرت اطمینان سے تشریف رکھیں، غرض بہت دیر تک سید صاحب کو وہیں بٹھاکر ان سے بات چیت کی، پان منگوایا، ان کو کھلایا
جب دیکھا کہ سید صاحب کے چہرہ پر آثار ندامت نہیں ہیں اور سید صاحب نے اجازت چاہی، ساتھ ساتھ تشریف لائے اور باہر کے پھاٹک تک پہنچا کر ان کو رخصت فرمایا وہ دست بوس ہوکر رخصت ہوئے عجب اتفاق کہ وہ وقت مدرسہ کا تھا اور رحم اللہ خاں خادم بھی بازار گئے ہوئے تھے
کوئی شخص باہر کمرہ پر نہ تھا جو سید صاحب کو مکان کے زنانہ ہوجانے کی خبر دیتا، جناب سید صاحب نے اس واقعہ کو خود مجھ سے بیان فرمایا اور مذاق سے کہا کہ ہم نے تو سمجھا کہ آج خوب پٹے مگر ہمارے پٹھان نے وہ عزت و قدر کی کہ دل خوش ہوگیا واقعی حب رسول ہو تو ایسا ہو‘‘۔(حیات اعلیٰ حضرت ۱،ص۲۳۱،۲۳۳)
ان چند واقعات سے سید زادوں کی قدرومنزلت اور ان کا ادب و احترام کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔اس کے علاوہ بھی بہت سارے واقعات کتب سوانح میں مذکور ہیں۔جب اعلیٰ حضرت کے پیر خانے مارہرہ مطہرہ پر نظر ڈالی جائے، جہاں مشائخ سادات کرام کی عظیم عظیم ہستیاں موجود ہیں۔آپ اپنے پیر خانے کے صاحبزادوں اور مشائخ کا بھی غایت درجہ احترام و اکرام ملحوظ رکھ سکتے تھے اور اپنے پیرخانے میں سید زادوں کے لیے پلکیں بچھائے رہتے تھے۔
اگر اس پر لکھا جائے تو ’’اعلیٰ حضرت اور سادات مارہرہ‘‘ کے عنوان پر ضخیم جلدیں لکھی جا سکتی ہیں،یہاں میں انہیں باتوں پر اکتفاکرتا ہوں۔اللہ پاک ہمیں ان واقعات اور تعلیمات سے درس حاصل کرنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
ایڈیٹر:پیام برکات،علی گڑھ
رابطہ: 7860561136
یہ مضامین نئے پرانے مختلف قلم کاروں کے ہوتے ہیں۔
ان مضامین میں کسی بھی قسم کی غلطی سے ادارہ بری الذمہ ہے۔