موجودہ حکومت اورمدارس اسلامیہ کامستقبل
از : محمد اشرف رضا قادری
مدارس اسلامیہ دین کے قلعے ہی نہیں انسان سازی کی تربیت گاہ اوراچھا شہری بنانے کا معتمد اور تجربہ شدہ کارخانہ ہے۔ یہاں ماضی سے لے کر حال تک کا سفر کرایا جاتاہے ،خداتک رسائی کی راہیں بتائی جاتی ہیں،پیغمبر اسلام کی سیرت میں ڈھلنے کی تربیت اور مخلوق کو خالق سے ملانے کے ہنر سکھائے جاتے ہیں ۔
یہاں کے اساتذہ ومعلمین انسانیت کی تعمیر، افراد کی تیاری اور تحفظ ِ دین کے لیے ہمہ وقت مصروف ہیں۔تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ مدارس کی کوکھ میں پلنے والے بچے علم سے لے کر مذہب اورسماج سے لے کر سیاست تک میں نمایاں کردار اداکرنے والے انسان بن کر ابھرے ہیں ۔
اگر ذہن تعصب کا شکار نہ ہواور بھید بھاؤ کے بجائے دیانت داری کے ساتھ ہندوستان میں مدارس کے علمی ملی مذہبی سماجی اور سیاسی خدمات کا جائزہ لیاجائے تو یونیورسیٹی سے کم کارآمد اسے نہیں پائیںگے۔ مدارس اسلامیہ کومسجد نبوی کے مقام صفہ سے نسبت ہے۔
وہاں تعلیم کے لیے نہ کوئی باضابطہ عمارت تھی،نہ مروجہ نصاب تھا ،بس ایک کتاب تھی،قرآن مقدس اورایک معلم تھے معلم کائنات ﷺ۔ مگر اسی کتاب اور اسی معلم کائنات ﷺ نے ایک حسین علمی مذہبی اور سماجی انقلاب برپا کیا،دلوں کے زنگ صاف کئے ،برسوں کے بیماروں کو شفائے قلب کی منزل سے گزارااورضلالت کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی انسانیت کو ہدایت کا نور عطاکیا
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا
پھر اس چراغ سےسینکڑوں چراغ جلے، روشنی بڑھتی گئی ،اندھیرا چھٹتا گیا ،علم کتابی کے ساتھ علم سینہ بھی پروان چڑھتا رہا۔چلتے چلتے وہ دن بھی آیا کہ تعلیم کے لیے مدارس کا باضابطہ قیام عمل میں آیا، نصاب مرتب ہوئے اور میکدہ علم وعرفان کے دریا بہنے لگے،اس دریائے علم وفن میں غوطہ زن ہونے والے افراد معلم ،مبلغ،مفسر ،محدث ،مؤرخ، قائد سیاست دان اور سائنٹسٹ بن کر ابھرے اور باد بہاری بن کر دنیاکے نقشے پر چھاگئے۔
اگر ان شخصیات کی خدمات اور ان کی قربانیوں کی تاریخ مرتب کی جائے تو کئی جلدیں تیار ہوجائیں یہ ہے مدارس کی خدمات کاپس منظر اور یہ ہے مدارس کی گود میں پلنے والے افراد کی عظمت۔
ہندوستان کی سرزمین میں بزرگوں کی آمد کے ساتھ مدارس کاوجود عمل میں آگیا۔ علماومشائخ کا گھر طالبان علوم نبویہ کے لئے درسگاہ ودانش گاہ بن گئے، گھر گھر نہ رہا یونیورسیٹی ہوگئی ،مسندیں سجنے لگیں،علماوفضلا نکلنے لگے ،دین کی خدمت وتبلیغ کے ساتھ زمام سیاست سنبھالنےوالے نکلنے لگے،علوم عقلیہ کے ماہرین اور سائنسی دنیا میں اپنا مقام بنانے والے افراد نکلنے لگے۔
یادگار سلف حضرت علامہ عبد المبین نعمانی حفظہ اللہ تعالیٰ کی آپ سے چند باتیں
ہندوستان کی آزادی میں اُردو صحافت کا اہم کردار
مدارس و مکاتب کی ضرورت و اہمیت
ملک کی آزادی میں علما و مدارس کا اہم رول
ہندوستان کی جنگ آزادی میں علما و مدارس کا کردار
ایمان و عقیدے کی بقا و تحفظ کے لیے مدارس اسلامیہ کی ضرورت
پھر یہاں بھی مدارس کا باضابطہ قیام بھی عمل میں آیااور ملک ہندوستان دینی مدارس کے میناروں سے جگمگانے لگا ۔عروج وارتقا کا یہ سفر بڑا علمی ،پراثر اور تاریخی رہا۔
مسلم دوراقتدار میں اسے پھولنے پھلنے کے وسیع مواقع ملے مگرمسلم حکمرانوں کی طرح اس کی عمربھی بہت طویل نہیں ہوپائی اور وہ سیاہ دن بھی آیاکہ انگریزوں کے قدم یہاں جمنے لگے اور مساجد کے مینار،مدارس کے گنگرےاور علما کی پگڑیاں اچھالی جانے لگیں،وہی درسگاہیں جو کل روح کی تسکین کا ذریعہ تھیں آج ذ ہنوں کی خلش کا ذریعہ سمجھی جا نے لگیںاور غالب کی زبان میں ’’دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا‘‘کا منظرہر جگہ نظر آنے لگا۔
تاہم بوریہ نشینی باقی رہی ،کہیں کہیں مدارس بھی زندہ رہے ،نئے مدارس کے قیام بھی عمل میں آتے رہے گویا مسلم دور اقتدار میں مدراس کی مثال اگر سورج کی تھی تو انگریزوں کے دور میں تاروں کی طرح ہی سہی مگراس کا وجود تھا اور وہیں سے دینی، مذہبی ،علمی، سیاسی خدمتیں دی جاتی تھیں ۔
۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہوا اور آزادی کی خوشی کے ساتھ تقسیم کے درد سے بھی ہمیں گزرنا پڑا۔اس تقسیم نے جہاں زندگی کے اور شعبے کو متاثر کیاوہیں مدارس اسلامیہ بھی اس کی زد میں آئے،ان کا معیار متاثر ہوا،ترقیات کی رفتارتھم گئی اور نئی حکومت کے نئے قوانین بھی نافذ ہوئے مگر نئی فضامیں مدارس کو پھولنے پھلنے کے مواقع بھی ملے۔
اس آزادی کے سبب نئے نئے مدارس قائم ہوئے مکاتب قائم ہوئے بڑی درسگاہیں وجود میں آئیں اسلام کی تبلیغ مذہب کی توسیع اور سنیت کی اشاعت کے لیے کہیں کوئی بڑی رکاوٹ سامنے نہیں آئی۔ یوں یہ کارواں چلتارہامگر گزرے ۷۰؍سالوں کے مقابلے میں اب حالات پہلے جیسے نہیں ہیں اور مدارس اسلامیہ کے سامنے کئی بڑے چیلنجز ہیں جس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ان مسائل میں : مدارس کودہشت گردی سے جوڑنے کی سازش مدارس کو بند کرنے کا مطالبہ
مدارس کو ملنے والی امداد کے سبب اسے بھگواکرن سے جوڑنے کاہنگامہ
نصاب تعلیم پر سوالات
نصاب تعلیم میں ایسے مضامین کی اشاعت جس کا تعلق نہ مذہب سے ہے نہ علوم عصریہ سے
غیر ملحقہ مدارس پہ شکنجہ کسنے کی اندرونی کوشش جب یہ بات مسلمہ ہے کہ مدارس کے وجود سے ہی یہاں اسلام کی بقااور مسلمانوں کی اسلامی زندگی کا تحفظ وابستہ ہے تو پھر معاملہ صرف مدارس کے تحفظ کا نہیں اسلام کی بقاوتحفظ کا ہوجاتا ہے اور یہاں پہنچ کر ہمیں سوچناپڑتا ہے کہ ہم اس سلسلہ میں کتنے حساس ومخلص اور متحرک ہیں ۔
یہ ذہن نشیں رہے کہ مدارس کی تعلیمات کا انحصار بڑی عمارتوں پر نہیں، اچھے مدرسین ،مخلصانہ جذبے اورپیہم محنت ومشقت پر ہے۔ہمیں یہاں ڈاکٹر اقبال کی ایک بات یاد آرہی ہے جو انہوں نے مدارس کے حوالے سے کہے تھے ان کے الفاظ ہیں:
’’جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرےقلب کی کیفیت بھی ایسی تھی۔ میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا، جو تم چاہتےہو، انقلاب، ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کےمسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کےدوش بدوش کھڑا کردے، لیکن یورپ کو دیکھنےکےبعد میری رائےبدل گئی، ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنےدو، غریب مسلمانوں کےبچوں کو ان ہی مکتبوں میں پڑھنےدو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہےتو جانتےہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا اسےمیں اپنی آنکھوں سےدیکھ آیا ہوں۔
اگر ہندوستان کےمسلمان مکتبوں کےاثرسےمحروم ہو گئےتو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کےباوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کےکھنڈر اور الحمراءاور باب الاخوتین کےسوا اسلام کےپیرواں اور اسلامی تہذیب کےآثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کےتاج محل اور دہلی کےلال قلعہ کے سِوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملےگا۔
کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمیں آج کے حالات میں مدارس کے بقاوتحفظ کے لئے کتنے سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے ۔گزشتہ چندسالوں میں مدارس کے خلاف جیسے جیسے بیانات اخبارات اور سوشل میڈیاپہ گردش کرتے رہے ہیں اس سے ہمارے کان کھڑے ہوجانے چاہئے۔مگر ایک سرد مہری ہے جو ہم سب پر مسلط ہے کہیں سے کوئی آواز نہیں ،کوئی تحریک نہیں ،کوئی ہلچل نہیں ۔یہ خموشی کہیں ہماری اجتماعی موت کا پیغام تونہیں؟
مدارس کے حوالے سے یہ چند جملے اس حقیقت کا اعلان ہیں کہ اس ملک میں اسلام کی بقااور ملکی سالمیت کے لیےمدارس کاوجود انتہائی ضروری ہے مگر یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ آخر نفرت اور تعصب کے ماحول میں مدارس کی بقاکاسامان ہمارے پاس کیاہے یا اسے کیسے ہم تحفظ فراہم کرسکتے ہیں؟اس سلسلہ میں یہ حقیر اپنی رائے کیا پیش کرسکتا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہوگی۔
مگر اتنا تو کہا ہی جاسکتاہے کہ یہ مسئلہ فرد کا نہیں پوری قوم اور پوری جماعت کاہے اس لئے انفرادی طور پر کوئی رائے قائم کرنے یا کسی انفرادی فیصلے پہ عمل سے بہتر ہے کہ ہمارے اکابر اس سلسلہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں وہ اگر اس سمت پیش رفت کرتے ہیں تو ان شاء اللہ اس کے اچھے اور نامیاں اثرات سامنے آئیں گے ہم جیسے لوگ آہ کرسکتے ہیں مگر اس آہ کی روح اور اس کے تقاضے تک تو ہمارے اکابر ہی پہنچ سکتے ہیں اے کاش کہ ان کا ذہن ہزاروں کاموں کے ساتھ اس کام کی طرف ملتفت ہوجائے ۔
از : محمد اشرف رضا قادری
(بلودا بازار چھتیس گڑھ)
یہ مضامین نئے پرانے مختلف قلم کاروں کے ہوتے ہیں۔
ان مضامین میں کسی بھی قسم کی غلطی سے ادارہ بری الذمہ ہے۔