Friday, October 18, 2024
Homeاحکام شریعتایک غلط فہمی کا ازالہ معذور کون

ایک غلط فہمی کا ازالہ معذور کون

ایک غلط فہمی کا ازالہ معذور کون

تحریر : محمد رضوان احمد مصباحی

عموماً فقہ کی کتابوں میں ایک مسئلہ مذکور ہے:

امامت کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ امام معذور نہ ہو۔ یعنی معذور شخص کی امامت جائز و درست نہیں اور وہ امامت کا حقدار بھی نہیں۔

اب یہاں غلط فہمی یہ ہوئی کہ بعض اہل علم حضرات نے اس معذور کا رخ دوسرے طرف موڑ دیا اور ہر اندھا، لنگڑا، ہاتھ کٹا، یہاں تک جس کی انگلی کٹی ہوئی ہو یا پھر کسی ہاتھ میں چھ انگلی ہو اس کو بھی معذور سمجھ بیٹھے۔ مسئلہ کی حقیقت سمجھنے کے لیے سب سے پہلے کتب فقہ کی روشنی میں معذور کی تعریف ملاحظہ فرمائیں :

معذور کی تعریف :

ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وُضو کے ساتھ نمازِ فرض ادا نہ کرسکا وہ معذور ہے۔

(بہار شریعت جلد اول ،حصہ دوم، ص :٣٨٨ ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) در مختار ج:۱ : ۴۳۷ میں ہے:

(وصاحب عذر من به سلسل بول) لا يمكنه امساكه (أو استطلاق بطن…..) …..وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (ان استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ و يصلى فيه خالياً عن الحدث

جسے سلسل بول کی شکایت ہو کہ پیشاب کو روکنے پر قادر نہ ہو، یا اسہال کا عارضہ لاحق ہو-) اسی طرح ہر وہ مواد جو بیماری کی وجہ سے خارج ہو، خواہ کان، پستان اور ناف سے ہی کیوں نہ ہو اور اس کا عذر کسی فرض نماز کے پورے وقت کا احاطہ کر لے بایں طور کہ اس پورے وقت میں حدث سے خالی اتنا بھی وقفہ نہ پاۓ جس میں وضو کر کے نماز ادا کر سکے، تو وہ “شرعا معذور” ہے۔ بہار شریعت میں ہے :

معذور اپنے مثل یا اپنے سے زائد عذر والے کی اِمامت کر سکتا ہے، کم عذر والے کی اِمامت نہیں کر سکتا اور اگر امام و مقتدی دونوں کو دو قسم کے عذر ہوں ، مثلا ایک کو ریاح کا مرض ہے، دوسرے کو قطرہ آنے کا، تو ایک دوسرے کی اِمامت نہیں کرسکتا۔

طاہر معذور کی اقتدا نہیں کرسکتا جبکہ حالت وضو میں حدث پایا گیا، یا بعد وضو وقت کے اندر طاری ہوا، اگرچہ نماز کے بعد اور اگر نہ وضو کے وقت حدث تھا، نہ ختم وقت تک اس نے عود کیا تو یہ نماز جو اس نے انقطاع پر پڑھی، اس میں تندرست اس کی اقتدا کرسکتا ہے۔

(بہار شریعت جلد اول حصہ سوم ، ص:٥٨٨، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

مذکورہ بالا عبارات سے کسی طرح کا کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا کہ معذور سے مراد لنگڑا، اندھا ،ہاتھ کٹا ہوا، یا وغیرہ مراد ہے ۔ در اصل یہ غلطی فہمی بایں طور ہوئی کہ ہم نے اُردو کے معذور کو عربی کا معذور سمجھ لیا جب کہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ فیروز اللغات میں معذور کا معنی ہے اپاہج ۔ یہ لغوی معنی ہوا ۔ اور اصطلاح شرع میں معذور وہ شخص ہے :

جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وُضو کے ساتھ نمازِ فرض ادا نہ کرسکا وہ معذور ہے۔ (بہار شریعت)

رہی بات ہاتھ کٹے ہوئے یا لنگڑے لوگوں کی امامت درست ہے یا نہیں تو اس سلسلے میں فتاویٰ رضویہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے ایک سوال ہوا کہ ایک شخص کا داہنا ہاتھ ٹوٹ گیا ہے اس وجہ سے نیت باندھتے وقت ہاتھ اس کا گوش( کانوں ) تک نہیں پہنچتا کہ اس کو مس کرے، اس سبب سے بعض لوگ اس کے پیچھے اقتدا کرنے سے انکار کرتے ہیں کیا موافق ان لوگوں کے اس کے پیچھے نماز نہیں ہوسکتی؟

تو اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ نے جواب میں ارشاد فرمایا : خیال مذکور غلط ہے اس کے پیچھے جواز نماز میں کلام نہیں، ہاں غایت یہ ہے کہ اس کا غیر اولیٰ ہوتا ہے وہ بھی اس حالت میں کہ یہ شخص تمام حاضرین سے علم مسائل نماز وطہارت میں زیادت نہ رکھتا ہو ورنہ یہی احق و اولی ہے۔

فی ردالمحتار تحت قولہ تکرہ خلف امرد وسفیہ ومفلوج وابرص الخ وکذلک اعرج یقوم ببعض قدمہ فالاقتداء بغیرہ اولی تاتار خانیۃ وکذااجذم برجندی ومجبوب وحاقن ومن لہ ید واحد فتاوی الصوفیۃ عن التحفۃ ۱؎ اھ ردالمحتار میں ماتن کے قول ”امرد، بیوقوف، مفلوج اور ابرص کے پیچھے نمازمکروہ ہے”الخ کے تحت ہے “” یہی حکم اس لنگڑے کاہے جو اپنے قدم کے بعض حصے پر قیام کرتا ہو، “

پس اس صورت میں غیر لنگڑے کی اقتداء بہتر ہوگی، تاتار خانیہ۔ صاحب جزام کا بھی یہی حکم ہے۔ برجندی،مقطوع الذکر ،پیشاب روک رکھنے والا اور وہ شخص جس کا ایک ہی ہاتھ ہو اس کا بھی یہی حکم ہے۔فتاوی صوفیہ میں تحفہ کے حوالے سے یہی ہے اھ

(۱؎ ردالمحتار مطلب فی امامۃ الامرد مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۴۱۶) وفی الدر یکرہ امامۃ الاعمی الا ان یکون اعلم القوم فھو اولی اھ ۲؎ملخصاواﷲ سبحنہ وتعالی اعلم۔

اور درمختار میں ہے نابینا شخص کی امامت مکروہ ہے سوائے اس صورت کے کہ وہ قوم میں سب سے زیادہ عالم ہو تو اس صورت میں وہی امامت کے زیادہ لائق وافضل ہے اھ ملخصا واﷲ تعالی اعلم(ت) (فتاویٰ رضویہ جلد :٦،ص : ٤٤٨ مترجم )

خلاصہ یہ ہے کہ ایسے شخص جو اندھے، لنگڑے ہوں ان لوگوں کی امامت جائز و درست ہے اور جواز میں کوئی کلام ہی نہیں جب کہ باقی تمام شرائط امامت پائے جاتے ہوں ورنہ نہیں ۔

اور ہاں خیال رہے کہ یہ لوگ معذور نہیں۔ بلکہ معذور -ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وُضو کے ساتھ نمازِ فرض ادا نہ کرسکا وہ معذور ہے۔

از : محمد رضوان احمد مصباحی

صدر المدرسین :

مدرسہ مظاہر العلوم ،صفتہ بستی ،راج گڑھ ،جھاپا ،نیپال بارہ دشی(1)

رکن البرکات ویلفئیر ٹرسٹ سیمانچل

شب قدر عنایات الٰہی کی مقدس رات
زکوٰة احادیث کے آئینے میں
زکوٰة احادیث کے آئینے میں
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن