صدیق وعتیق ، یار غار، سالار صحابہ، سرکار دوعالم ﷺ کا پیارا اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں سایہ مصطفیٰ مایہ مصطفیٰ عزو ناز خلافت پہ لاکھوں سلام یعنی اس افضل الخلق بعد الرسل ثانی اثنین ہجرت پہ لاکھوں سلام یعنی حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے سعادت حاصل کر رہے ہیں ۔ جس کا عنوان ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان وعظمت
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
رب تبارک وتعالیٰ ہمیشہ اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے انبیائِ کرام کو مبعوث فرمایا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی محمد ر سول ا للہ صادق ا لو عدالا مین ﷺ نے بنی نوع انسا نوں کو اللہ کی وحدا نیت کا پیغام دیا اور رشدو ہدایت کی تعلیم دی اور بتا یاکہ اِھْدِ نَا ا لصِّرَاطَ ا لْمُسُتَقِیْمَ ہی سیدھا راستہ ہے، اسی پر چل کر انسان اللہ کی بار گاہ کا پیا را بندہ ہونے کاشرف حاصل کر سکتا ہے۔
اللہ رب العزت نے اولادِآدم سے اس بات کا عہد, لیا ہے کی میرا راستہ سیدھا ہے اسی پر چلنا شیطان کو نہ پوجناارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
اَ لَمْ اَ عْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ ٓ اٰ دَ مَ اَ نْ لَّا تَعْبُدُوْا الشَّیْطٰنَ اِ نَّہ’ لَکُمْ عَدُ وٌّ مُّبِیْنٌ وَّ اَنِ عْبُدُوُ نِیْ ھَذَا صِرَا طٌ مُّسْتَقِیْمٌ ۔
ترجمہ:اے اولادِ آدم کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کونہ پوجنا بیشک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے، اور میری بندگی کرنا یہ سیدھی راہ ہے،۔( کنزالایمان) ۔ جب نبی آخر الز ماں ﷺ نے نبوت کا اعلان فر مایا لو گوں کو اسلام کی دعوت دی کہ اے لو گو! اللہ ایک ہے اسی کی عبادت کرو اور میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں محمد رسو ل اللہ صادق الو عدالامین کا اعلان سنتے ہی حضرت سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم ﷺ کو گلے لگا لیا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا: ۔
لَااِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمْدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ۔
نبی آخر الز ماں ﷺ پر ایمان لانے والے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے انسان ہیں،ظا ہری اعلان نبوت سے پہلے ہی آقا ﷺ صادق الو عدالا مین کے لقب سے مشہور تھے آپ کی سچائی پر اعتبار کر نے پر اور ایمان لانے پر آپ کو ”صدیق ” کا لقب ملا۔
آپ کے ایمان لانے کا واقعہ بہت دل چسپ وطویل ہے مختصر تفصیل یہ ہے
ربیعہ بن کعب فر ماتے ہیں: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا آسمان وحی کی مانند تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ: اسلام سے قبل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شمار علاقہ کے بڑے تاجروں میں ہو تا تھا۔
ایک مر تبہ تجارت کے سلسلے میں آپ ملک شام تشریف لے گئے، یہاں قیام کے دوران ایک رات آپ نے خواب دیکھا کہ چاند اور سورج آسمان سے نیچے اتر آ ئے ہیں اور آپ کے گود میں داخل ہوگئے ہیں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک ہاتھ سے چاند اور سورج کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگالیا حضرت ابو بکر نیندسے بیدار ہوئے تو اس عجیب وغریب خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے قریب ہی ایک راہب کے پاس گئے۔ اس راہب نے سارا خواب سن کر آپ سے پو چھا: تم کہا ں سے آئے ہو؟۔
آپ نے فر مایا؛ مکہ سے، اس نے پھر پو چھا: کیا کرتے ہو؟ فر مایا: تاجر ہوں؟۔ وہ راہب کہنے لگا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمھا رے خواب کو سچ فر مادیا، تو وہ تمھا رے ہی قوم میں ایک نبی مبعوث فر مائے گا، اس کی زندگی میں تم اس کے وزیر ہو گے اور وصال کے بعد اس کے جا نشین ہو گے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی الہ عنہ نے اس واقعہ کو پو شیدہ رکھا اور کسی کو نہیں بتایا اور جب حضور ﷺ نے نبوت کا اعلان فر مایا تو آپ نے یہی واقعہ بطور دلیل حضور کے سامنے پیش کیا اور حضور ﷺ کو گلے لگایا اور پیشانی چومتے ہو ئے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔
اسی وجہ کر آپ ﷺ نے آپ کو ”صد یق” کے لقب سے نوازا۔(ریا ض النضرۃ: جلد اول صفحہ183)۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی عظمت:
صحا بہ کی فضیلت میں قر آن کی آیتیں شا ہد ہیں اوراحا دیث طیبہ میں کثرت سے عظمتِ صحا بہ کا ذکر مو جود ہے۔
قر آن کریم میں محمد ر سول اللہ صاد ق الو عدا لامین ﷺ کے سچ لانے اور سچ قبول کر نے کا ذکر اس طرح ہے۔
وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖٓ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ، لَھُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ ذَالِکَ جَزٰٓ ؤُاالْمُحْسِنِیْنَ ۔(القر آن، سورہ زمر 39،آیت 3433 ۔
ترجمہ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور جنھوں نے اس کی تصد یق کی یہی ڈر والے ہیں۔، ان کے لیے ہے وہ جو چا ہیں اپنے رب کے پاس نیکیوں کا یہی صلہ ہے۔( کنز الایمان) ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے درجہ والے ہیں، صواعق مرحقہ میں بروایت ابن عساکر میں ہے حضرت علی کر م اللہ وجہہ الکریم یوں ارشا د فر ماتے ہیں کہ سچائی لانے والے حضو ر ﷺ ہیں جو بظاہر اعلان نبوت سے پہلے ہی صا دق الو عد الا مین سے مشہور تھے یہ لقب نہ پہلے کسی کو ملا تھا نہ ہی قیا مت تک کسی کو ملے گا۔اور سچائی کی تصدیق کر نے والے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اللہ کے وہاں اِن کا بڑا درجہ بڑی عزت بہت شان و شوکت ہے یہ آیت کریمہ اس امر کی گواہ ہے(تفسیر نو را لعر فان ص،307) ۔
اور یہ آیت کریمہ صحا بئہ کرام کی شان وعظمت و فضیلت میں چار چاند لگا رہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
رَضِیَ اللّٰہُ عََنْھُمْ وَرَضُوْ ا عَنْہُ وَ اَ عَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَاالْاَ نْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَ بَدًا ذٰ لِکَ الْفَوْ زُا لْعَظِیْمُ ۔(القرآن،سورہ التو بہ9،آیت100)۔
تر جمہ: اور مہا جرین کے مدد گار(انصار) میں سے سبقت لے جا نے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجہ احسان کے ساتھ ان کی پیر وی کر نے والے، اللہ ان(سب) سے راضی ہو گیا اور وہ(سب ) اللہ سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فر ما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبر دست کام یابی ہے۔
تمام صحا بہ کرام کے جنتی ہو نے کا اعلان قرآن کریم میں ہو چکا صحابئہ کرام کی کم وبیش تعداد ایک لاکھ چو بیس ہزار ہے جن میں بعض کے فضا ئلِ خصوصی قرآن و حدیث میں منقول ہیں جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو سب سے پہلے ایمان لائے پھر عور توں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ( پہلے ایمان لانے سے آپ کو بھی کُبریٰ کا خطاب ملا) اور بچوں میں حضرتِ علی کر م اللہ وجہہ الکریم۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا لقب”یارِغار ” بھی ہے جسکا ذکر سورہ تو بہ میں مو جود ہے، آ پ کا” لقب ثانی اِثنین ”بھی ہے حضور کے بعد سب سے بڑا آپ کا در جہ ہے کہ انھیں رب نے حضور کا ثانی فرمایا سورہ تو بہ آیت نمبر 9۔
اسی لیے حضور ﷺ نے انھیں اپنے مصلیٰ پر امام بنایا،حضور کے حیات میں آپ نے 9بار امامت فر مائی، آپ کی فضیلتوں میں یہ بھی ہے کی۔
آپ کی چار پشت صحابی ہیں
والدین بھی صحا بی ہیں۔
آپ خود بھی صحا بی ہیں
آپ کی اولاد بھی صحا بی ہیں۔
آپ کی اولاد کی اولاد بھی صحا بی ہیں
یہ صرف آپ کی خصو صیت ہے ، آپ کا لقب ”عتیق” بھی ہے صحا بی کے درجات کو قر آن نے جگہ جگہ بیان کیا ہے۔
حدیث پاک میں بھی نبی صادق ﷺ نے بتایا، فر مایا:حضر ت ابو سعد خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،حدیث اس طرح سے ہے ۔”لاتسبُّو االصحا بی فلواٰن اَحدَ کم مثل اَحَدٍذھَبًا مَا بَلَغ مُدَّاَحد ھم ولا نصیفَہ”؛اخرجہ الشیخان فی ”صحیحیھما”۔
ترجمہ: میرے اصحاب کو برا مت کہو۔ اگر کوئی شخص اُحُد پہاڑ کے برا بر بھی سونا(اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مُد کے غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ آدھہ مد کے برابر۔،( بخاری، حدیث3673،)۔
اس حدیث کے راوی عبداللہ بن داوود، ابو معا ویہ، اور محا ضر نے بھی روایت فر مائی ہے) ۔
یہ ہے صحابئہ کرام کی عظمت و فضیلت کی اگر کو ئی احد پہاڑ کے برا بر بھی سو نا صدقہ کردے اور صحا بئہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین ایک مٹھی غلہ(جو) یا آدھی مٹھی بھی اللہ کی راہ میں دے دیں تو احد پہاڑ کے برا بر سونا دینے والا بھی صحا بہ کے برا بر نہیں کر سکتاہے سبحا ن اللہ سبحا ن اللہ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں بے شماراحا دیث ہیں یہ حدیث مطا لعہ فر مائیں۔
حضرت عبدا لعزیز بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے زمانہ میں جب صحا بہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہاجاتا تو سب میں افضل اور بہتر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو۔(صحیح بخاری، حدیث3655)۔
جب قر آن کریم واحا دیث طیبہ میں آپ کی شان و فضیلت کا ذکر ہے تو کوئی انسان آپ کی تعریف کیا کر سکتا ہے چند خوبیاں مطالعہ فر مائیں، ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام قبول کر نے کے بعد آپ تما م اسلامی جہادوں میں شامل رہے۔
حق و با طل کی پہلی جنگ ، جنگ ِ بدر، اُحُد،خندق،تبوک،حدیبیہ ، بنی نضیر، بنی مصطلق،حنین، خیبر، فتح مکہ سمیت تمام ”غزوات”(غزوہ) وہ جہاد جس میں رسولِ کریم ﷺ شریک ہوئے) میں سر کار دو عالم کی ہمرا ہی میں شامل رہنے کا شرف حاصل رہا۔
غزوہ تبوک میں آپ نے جو اطاعت رسول کیا، ایثار(قربانی) وسخا وت کا نمونہ اللہ کے راہ میں پیش کی جسکی مثال تاریخ عالم میں ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔
اس غزوہ میں سر کار دوجہاں ﷺ کی تر غیب( کسی کام کے کر نے پر آ مادہ کر نا) پر تمام صاحب استطاعت صحا بہ نے دل کھول کر لشکرِ اسلامی کی امداد کی مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سب پر اس طرح سبقت حاصل کی،کہ آپ اپنے گھر کا سارا مال لے آئے۔
جب رسو ل اللہ ﷺ نے پو چھا کہ: اے بو بکر! گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھو ڑا ہے؟” توآپ نے عرض کی”گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی کافی ہیں”۔
پر وا نے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے خدا کا رسول بس
افضلیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اور عقیدۂ اہل سنت
قرآن پاک میں شان صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ
سیرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
ایثار و قربانی کے عظیم پیکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت
افضلیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ قرآن کریم کی روشنی میں
دور رسالت میں امامت و اول امیر المؤمِنین
دورِرسالت کے آخری ایام میں رسول اللہ ﷺ نے آپ کو نمازوں کی امامت کا حکم دیا۔ آپ نے مسجدِ نبوی میں سر کار دوعالم ﷺ کے حکم پرمصلیٰ رسول17 نمازوں کی امامت فر مائی۔ نبی کریم ﷺ کا یہ اقدام آپ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ تھا۔
ایک دفعہ نماز کے وقت میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مدینہ سے با ہر تھے،حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو نہ پاکر حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو نماز کی امامت کو کہا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو امامت کرواتا دیکھ کر آپ ﷺ نے فر مایا۔ اللہ اور اس کا رسول یہ پسند کرتا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ امامت کرے۔
یہ بات حضرت ابوکر صدیق رضی اللہ عنہ پر آپ ﷺ کے اعتماد کا اظہارتھا کہ آپ ہی مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہوں آپ ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فر مانے کے بعد صحابئہ کرام کے مشورے سے آپ کو جا نشینِ رسول ﷺ مقر رکیا گیا۔ آپ کی تقرری امت مسلمہ کا پہلا اجماع کہلاتی ہے۔
بارِ خلافت سبھا لنے کے بعد آپ نے مسلمانوں کے سامنے پہلا خطبہ دیا۔ ۔” بہت طویل خطبہ میں بہت سی باتیں ارشاد فر مائیں، میں آپ لو گوں پر خلیفہ بنا یا گیا ہوں حا لا نکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں۔ اس ذات پاک کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب وامارت اپنی رغبت اور خوا ہش سے نہیں لیا،نہ میں یہ چا ہتا تھا کہ دوسرے کے بجا ئے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اللہ رب العزت سے اس کے لیے دعا کی اور نہ ہی کبھی میرے دل میں اس منصب کے لیے حرص لا لچ پیدا ہوئی”
آپ کی حق گوئی سچائی کی جو باتیں آپ نے خطبہ میں فرمائیں ان میں سے یہ بھی ہے فرمایا:
” سچا ئی امانت ہے”اور جھوٹ خیانت ہے ”
آپ کی اس نصیحت پر ہم تمام مسلما نوں کو عمل پیرا ہونا چاہیے دنیا وآخرت کی کام یابی اسی میں ہے کہ اللہ رب العزت ارشاد فر مارہا ہے۔ (القر آن، سورہ توبہ 9،آیت 119)۔
تر جمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ ۔(کنزالایمان)۔ اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں یہ تعلیم فر مائی ہے کہ انسان کو اپنی صحبت سچے لو گوں کے ساتھ رکھنی چاہیے، جو زبان کے بھی سچے ہوں، اور عمل کے بھی سچے ہوں سچائی ایک بہت بڑی نعمتِ عظمیٰ ہے اور سچوں پر اللہ کی رحمتیں برستی رہتی ہیں اور انعام کی بارشیں ہو تی ہیں
اللہ رب العزت اپنے متقی پر ہیز گا ر بندوں کے اوصاف بیان فر مارہا ہے۔ ۔(القر آن، سورہ آل عمران3 ,آیت17)
تر جمہ:(یہ) لوگ صبر کر نے والے ہیں اور قول وعمل میں سچا ئی وا لے ہیں اورآداب و اطاعت والے ہیں جھکنے وا لے ہیں اور اللہ کی را ہ میں خرچ کر نے وا لے ہیں اور رات کے پچھلے پہر(اٹھ کر) اللہ سے معا فی ما نگنے وا لے ہیں ۔
مسلما نوں کو چا ہیے کی سچائی کاراستہ اختیار کریں سچوں کی پیر وی کریں جھوٹ اور خیا نت سے دور رہیں امانت داری میں ہی بھلائی اور نجات ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلما نوں کو سچائی پر چلنے کی تو فیق دے اور سچوں کی صحبت نصیب فرمائے آ مین ثم آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسین ﷺ ۔
تحریر: حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ
اسلام نگر کوپالی وایا مانگو
جمشیدپور جھارکھنڈ پن کوڈ 831020
Mob.:09386379632
e-mail: hhmhashim786@gmail.com