Wednesday, November 20, 2024
Homeاحکام شریعتاصولِ تکفیر و تضلیل : ایک مختصر تعارف

اصولِ تکفیر و تضلیل : ایک مختصر تعارف

اصولِ تکفیر و تضلیل : ایک مختصر تعارف

از قلم : طفیل احمد مصباحی

تکفیر علمِ کلام کی ایک معرکۃ الآرا بحث ہے ۔ مسئلۂ تکفیر نہایت دشوار ، امرِ پُر خطر اور حد درجہ حزم و احتیاط کا متقاضی ہے ۔ تکفیر کا تعلق امورِ سمعیہ شرعیہ سے ہے اور اس میں عقل و وجدان ، ہوائے نفس ، نفرت و عداوت یا مذہبی تعصب کو قطعی دخل نہیں ہے اور یہ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ہے ۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِیهِ یَا کَافِرُ فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدَهُمَا ۔ [ یعنی جب ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے کہے ، اے کافر ! تو یہ قول ان میں سے ایک کی طرف لوٹتا ہے اور دونوں میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے ]

( صحیح البخاری ، کتاب الأدب ، باب من أکفر أخاه بغیر تأویل فهو کما قال ، رقم: ۵۷۵۲ ، مطبوعہ : دار ابن کثیر ، بیروت )

یہی روایت ترمذی شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ان الفاظ میں منقول ہے : أَیُّمَا رَجُلٍ قَالَ لِأَخِیهِ یَا کَافِرُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا ۔ [ یعنی جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو کہے : اے کافر ! تو یہ کلمۂ کفر ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرور لوٹے گا ]

علامہ عینی حنفی قدس سرہ مذکورہ حدیثِ بخاری کی توضیح و تشریح کرتے ہوئے عمدۃ القاری شرح البخاری میں لکھتے ہیں :

لِأَنَّہُ إِنْ کَانَ صَادِقًا فِي نَفْسٍ الْأَمْرِ فَالْمَقُوْلُ لَہُ کَافِرٌ وَإِنْ کَانَ کَاذِبًا فَالْقَائِلُ کَافِرٌ ، لِأَنَّہُ حَکَمَ بِکَوْنِ الْمُؤمِنُ کَافِرًا أَوِ الْإِیمَانِ کُفْرًا . اس لیے کہ کافر کہنے والا حقیقت میں سچا ہے تو اس کی بات درست ہے کہ دوسرا شخص ( جس کی تکفیر کی گئی ہے ) کافر ہے اور اگر جھوٹا ہے تو کہنے والا کافر ہو گیا کہ اس نے مومن پر کفر کا حکم لگایا ہے یا اس نے ایمان کو کفر کہا ۔

( عمدة القاری شرح صحیح البخاری ، جلد : ۲۲ ، ص : ۱۵۷ ، مطبوعہ : دار احیاء التراث العربی ، بیروت )

تکفیر کی انہیں دشواریوں اور احتیاطی تقاضوں کے پیشِ نظر حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ نے ” التفرقۃ بین الاسلام و الزندقۃ ” میں لکھا ہے کہ :

میری وصیت یہ ہے کہ اہلِ قبلہ جب تک ” لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ ” کے قائل رہیں اور اس کلمۂ طیبہ کی تردید نہ کریں ، ان کی تکفیر سے حتی الامکان اپنی زبان کو روکو ۔ کلمۂ توحید کی تردید کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ کسی عذر یا بلا عذر کے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ کو جائز قرار دیں ۔ کیوں کہ تکفیر ایک وادیِ پُر خطر ہے ، جب کہ سکوت میں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ تکفیر کا قانون یہ ہے کہ تم پہلے اس بات کو جان لو کہ افکار و نظریات دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق اصولِ عقائد سے ہے اور دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق فروعیات ہے ۔

اصولِ ایمان و عقائد فقط تین ہیں :

( ۱ ) اللہ عز وجل پر ایمان

( ۲ ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان

( ۳ ) یومِ قیامت پر ایمان ۔

ان کے ماسوا سب فروعیات کے قبیل سے ہیں اور اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کر لو کہ فروعیات میں سوائے ایک مسئلہ کے تکفیر جائز نہیں ہے اور وہ یہ کہ کوئی شخص کسی ایک بات کا انکار کرے جس کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ سے بطورِ تواتر ثابت ہو ۔ البتہ بعض فروعی مسائل میں منکر کو ” خاطی ” قرار دیا جائے گا ، جیسے فقہیات میں اور بعض میں اسے ” بدعتی ” قرار کہا جائے گا ۔ مثلاً : ایسی خطا جس کا تعلق امامت اور احوالِ صحابہ سے ہو ۔

( التفرقہ کا اردو ترجمہ بنام حق و باطل کا فیصلہ ، ص : ۴۶ ، ۴۷ ، ناشر : تاج الفحول اکیڈمی ، بدایوں )

مسئلۂ تکفیر کی دشواری و سنگینی کے با وجود بعض اوقات اہل علم کے لیے تکفیر ناگزیر ہو جاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ کسی شخص کی زبان یا قلم سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کلمۂ کفر سرزد ہو جائے یا کوئی بندہ ضروریاتِ دین یا اصولِ عقائد میں سے کسی ایک کا کھلم کھلا انکار کر بیٹھے تو اس وقت قائل کی تکفیر ضروری ہو جاتی ہے ۔ کیوں کہ مسلمان کو مسلمان اور کافر کو کافر جاننا بھی ضروریاتِ دین میں سے ہے ۔ اس لیے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ جس شخص نے قطعاً کفر کیا ، اس کی بہر حال تکفیر کی جائے گی ۔ کیوں کہ قطعی کافر کے کفر میں شک بھی آدمی کو کافر بنا دیتا ہے ۔

” من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر ” اسی ضابطے کے تحت ہے ۔ حضرت امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ ” شفا شریف ” میں یہود و نصاریٰ اور دینِ اسلام سے جدا ہونے والے گروہ کی تکفیر نہ کرنے یا ان کے کفر میں توقف یا شک کرنے والوں کے کفر پر اجماع نقل فرمایا ہے ، جس سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تکفیر و تضلیل بھی بعض اوقات امرِ ضروری ہو جایا کرتی ہے اور علمائے اسلام کو کفر کا فتویٰ دینا لازمی ہو جاتا ہے ۔

الاجماع علیٰ کفر من لم یکفر من أحدا من النصاریٰ و الیھود و کل من فارق دین المسلمین أو وقف فی تکفیرھم أو شک ۔ قال القاضی أبوبکر : لان التوقیف و الاجماع اتفاقا علیٰ کفرھم فمن وقف فی ذالک فقد کذب النص و التوقیف أو شک فیہ و التکذیب و الشک فیہ لا یقع الا من کافر ۔

( بہار شریعت تخریج شدہ ، جلد اول ، ص : ۱۸۵ ، مطبوعہ : مجلس المدینۃ العلمیۃ ، ممبئی )

تکفیر ایک امرِ پُر خطر سہی ، لیکن ضروریاتِ دین و ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنت کے منکر کی تکفیر و تضلیل ضروری بھی ہے ، تاکہ امتِ مسلمہ اس کے شرور و مکائد سے محفوظ رہ سکے ۔ فقہائے متقدمین و علمائے اسلام تکفیر کے معاملے میں غایت درجہ حزم و احتیاط سے کام لیتے تھے ، لیکن آج تکفیر و تضلیل کے معاملے میں بڑی بے احتیاطی اور عجلت پائی جاتی ہے اور معمولی باتوں پر تکفیر و تضلیل کا بازار گرم ہے ۔ الامان و الحفیظ ! یہ ایک بدیہی مسئلہ ہے کہ ہر چیز کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں ۔

علمِ تفسیر کو جاننے کے لیے ” اصولِ تفسیر ” کا جاننا ضروری ہے ۔ علمِ فقہ کو جاننے کے لیے ” اصولِ فقہ ” کا مطالعہ ناگزیر ہے ۔ اسی طرح علمِ حدیث کو جاننے کے لیے ” اصولِ حدیث ” سے واقفیت ضروی ہے ۔ کچھ یہی معاملہ تکفیر و تضلیل کا بھی ہے ۔ تکفیر کے اصول و مبادی سے آگاہی حاصل کیے بغیر اپنے محدود علم کی روشنی میں کسی کے خلاف کفر و ضلالت کا فتویٰ دینا ، حد درجہ حماقت و نا دانی ہے ۔

زیرِ مطالعہ کتاب ” اصولِ تکفیر و تضلیل ” تکفیر کے اصول و مبادی پر ایک زبردست علمی و تحقیقی کتاب ہے ۔ ایک سو چودہ ( ۱۱۴ ) صفحات پر مشتمل اس کتاب کی ساری بحثیں خالص علمی نوعیت کی ہیں ۔ حضرت مصنف دام ظلہ العالی نے ایمان و کفر کی حقیقت و ماہیت بیان کرنے اور اقسامِ کفر پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد تکفیر و تضلیل کے اصول و مبادی اور ان کے قوانین و شرائط حوالوں کے ساتھ بیان کیے ہیں ۔ اس کے بعد کن اقوال و اعتقادات ، افعال و احوال اور امارات و علامات پر تکفیر یا تضلیل و تفسیق کی جاتی ہے ؟۔

ان تمام امور پر محققانہ اسلوب میں روشنی ڈالی ہے ، جن کے مطالعے سے مصنف دام ظلہ کی فقہی مہارت ، علمی تبحر اور ان کی تحقیقی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ” ضروریاتِ دین ” ” ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنت ” ” ثابتاتِ محکمہ ” اور ” ظنیاتِ محتملہ ” کی توضیح و تشریح کے بعد مجددِ اسلام ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ضروریاتِ دین کا منکر یا ان میں باطل تاویلات کا مرتکب کافر ہے ۔ ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنت و جماعت کا منکر کافر نہیں ، بلکہ گمراہ ، بد مذہب اور بد دین ہے ۔

” ثابتاتِ محکمہ ” جن کے ثبوت کے لیے دلیلِ ظنی کافی ہوتی ہے اور حدیثِ آحاد ، حدیثِ صحیح ، حدیثِ حسن اور قولِ سوادِ اعظم و جمہور علما سے بھی ان کا ثبوت ہو جاتا ہے ، ان کا منکر نہ کافر ہوتا ہے نہ ضال و مضل ، بلکہ خاطی و آثم و خطا کار و گناہ گار ہوتا ہے ۔

ظنّیاتِ محتملہ ، ان کے ثبوت کے لیے ایسی دلیلِ ظنی بھی کافی و وافی ہوتی ہے ، جس نے جانبِ خلاف کے لیے بھی گنجائش رکھی ہو ۔ ان کے منکر کو صرف مخطی و قصور وار کہا جائے گا ۔ ان کے منکر کو گنہگار کہنا بھی جائز نہیں ، چہ جائے کہ ان کو گمراہ یا کافر کہا جائے ۔

پوری کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد ، بلند پایہ ، نہایت دلچسپ ، معلومات افزا اور اصولِ تکفیر و تضلیل کے حوالے سے گراں قدر ہے ۔ اردو میں اس عنوان پر خالص علمی و تحقیقی کتابوں کی کمی ہے ۔

حضرت مصنف دام ظلہ العالی نے یہ بلند پایہ کتاب لکھ کر ایک بہت بڑی علمی ضرورت کی تکمیل فرمائی ہے اور صرف عوام ہی نہیں بلکہ خواص کو بھی درجنوں فقہی کتب و رسائل کی اوراق گردانی سے بچا لیا ہے ۔ اس مختصر تحریر میں پوری کتاب کا تعارف و تجزیہ ممکن نہیں ، اس لیے اس کے چند اہم مباحث اور معلومات افزا مندرجات کے ذکر پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے :

( ۱ ) ایمان و کفر کی حقیقت

( ۲ ) اجماعِ امت کی مخالفت سے بچنا شرطِ ایمان ہے

( ۳ ) انکار یا تکذیب و توہین اقوال کے علاوہ افعال و احوال و مخصوص امارات و علامات سے بھی ہوتی ہے

( ۴ ) کفر کی دو قسمیں ہیں :

قولی اور فعلی

( ۵ ) اجماع سے ثابت شدہ امور نصِ شارع کی مانند ہیں

( ۶ ) کفر کے لیے بطورِ تواتر ثبوت ضروری ہے

( ۷ ) غیر متواتر کا انکار کفر نہیں

( ۸ ) ضروریاتِ دین و ضروریاتِ مذہبِ اہل سنت و جماعت

( ۹ ) مسائل تین قسم کے ہوتے ہیں

( ۱۰ ) ضروریاتِ عقائدِ اہل سنت کا منکر بد مذہب و گمراہ ہے

( ۱۱ ) ادلۂ سمعیہ کی اقسامِ اربعہ

( ۱۲ ) ضروریاتِ دین کا ثبوت کن دلیلوں سے ہوتا ہے ؟

( ۱۳ ) جمہور فقہائے حنفیہ کے نزدیک قطعی الثبوت غیر ضرورتِ دینی کا منکر کافر ہے

( ۱۴ ) ضروریاتِ مذہبِ اہل سنت و جماعت کا منکر کافر نہیں

( ۱۵ ) اجماعِ قطعی و یقینی کا انکار کفر ہے

( ۱۶ ) تکفیر و تضلیل کا مقام و محل یکساں نہیں

( ۱۷ ) ضروریاتِ دین کسے کہتے ہیں ؟

( ۱۸ ) ضروریاتِ دینِ اسلام میں

تاویل مسموع نہیں

( ۱۹ ) باطل تاویلات کی توضیح

( ۲۰ ) امت کا اس امر پر اجماع ہے کہ جس شخص میں ننانوے ہزار باتیں اسلام کی اور ایک کفر کی ہو تو وہ یقیناً قطعاً کافر ہے

( ۲۱ ) جس کلام میں اسلام اور کفر دونوں قسم کے معانی کا احتمال ہو ایسے کلام کے سبب قائل کی تکفیر نہیں کی جائے گی

( ۲۲ ) کلامِ محتمل کی توضیح و تشریح

( ۲۳ ) کلماتِ کفر کی قسمیں

( ۲۴ ) کفرِ لزومی و کفرِ التزامی کی بحث

( ۲۵ ) راجح یہی ہے کہ التزامِ کفر کے بغیر تکفیر نہیں

( ۲۶ ) لزومِ کفر و التزامِ کفر کی توضیح

( ۲۷ ) کفرِ کلامی کی تعریف

( ۲۸ ) کلام و تکلم و متکلم میں شبہہ کے معنیٰ

( ۲۹ ) تکلم و متکلم میں احتمال

( ۳۰ ) تاویل کی تین قسمیں اور اقسامِ تاویل کی تعریف

( ۳۱ ) کسی کی تکفیر ایک امرِ عظیم ہے

( ۳۲ ) لفظِ صریح میں تاویل کا مقبول نہ ہونا متفق علیہ ہے

( ۳۳ ) یقین بالمعنیٰ الاعم کا مطلب

( ۳۴ ) علمِ قطعی دو معنوں میں مستعمل ہے

( ۳۵ ) احتمال و ایہام کا فرق وغیرہم ۔

غرض کہ یہ کتاب ” اصولِ تکفیر و تضلیل ” اردو زبان میں اپنی نوعیت کی منفرد علمی و تحقیقی دستاویز ہے ، جس کی سطر سطر سے مصنف کی علمی مہارت ، تحقیقی شان اور دقتِ نظری ظاہر ہوتی ہے ۔ تکفیر جیسے نہایت دشوار حکمِ شرعی کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں ، ان کے مالہ و ماعلیہ پر آپ نے دلائلِ ساطعہ کی روشنی میں بھرپور انداز سے گفتگو فرمائی ہے اور کسی بھی گوشہ کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے اور آخر میں خلاصۂ کلام کے طور پر لکھا ہے کہ :

ان ساری بحثوں سے یہ روشن ہوا کہ محققین فقہا و متکلمین کے مذہبِ احوط پر صرف ضروریاتِ دین ہی کے انکار پر منکر کی تکفیر کی جائے گی اور ضروریاتِ مذہبِ اہل سنت و ضروریاتِ عقائدِ اہل سنت کے انکار پر تضلیل کی جائے گی ( تکفیر نہیں ) ۔

محققین فقہا و متکلمین کے نزدیک تکفیر کے لیے التزامِ کفر ضروری ہے اور التزامِ کفر کے بغیر محض لزومِ کفر پر تکفیر نہیں کی جائے گی ، جب کہ جمہور فقہا محض لزومِ کفر پر تکفیر فرماتے ہیں ۔ ضروریاتِ دین میں کوئی تاویل یا اس کے عموم میں کچھ قیل و قال اصلاً مسموع نہیں ۔ البتہ تکذیب و توہین پر دلالت کرنے والے افعال و امارات ( علامات ) پر اور ضروریاتِ دین کے انکار پر بالاتفاق تکفیر کی جائے گی ۔

ہاں ! اگر کوئی مسئلہ اجماعی یا دلیلِ قطعی سے ثابت ہو تو جمہور فقہا کے نزدیک اس کے منکر کی تکفیر کی جائے گی ، چاہے وہ ضروریاتِ دین سے ہو یا نہ ہو اور محققین فقہا و متکلمین کے نزدیک منکر کی اس وقت تکفیر کی جائے گی جب کہ وہ ضروریاتِ دین سے ہو ، ورنہ تضلیل کی جائے گی ۔ تاویلِ صحیح ( جو دلیل سے ناشی ) فقہا و متکلمین دونوں کے نزدیک بالاتفاق مقبول ہے اور تاویلِ باطل ( تاویلِ متعذر ) دونوں حضرات کے بالاتفاق نا مقبول ہے ۔

البتہ تاویلِ بعید ( تاویلِ فاسد جو کسی کے دلیل کے شبہہ کی بنیاد پر ہو ) متکلمین محتاطین کے نزدیک مقبول ہے اور جمہور فقہا کے نزدیک مقبول نہیں ۔

فقہا کے نزدیک صریح کا معنی متبیّن ( ظاہر ) اور متکلمین کے نزدیک صریح کا معنی متعین ہونا مراد ہونا مراد ہے ۔ قائل کا کلام معنیٔ کفر میں صاف و صریح ، ناقابلِ تاویل و توجیہ ہو اور پھر بھی حکمِ کفر نہ ہو تو اسے کفر نہ کہنا ، گویا کفر کو اسلام ماننا ہوگا اور جو کفر کو اسلام مانے وہ خود کافر ہے ۔ لزومِ کفر پر تکفیر اور عدمِ تکفیر کی قائل ایک ہی جماعت نہیں ، بلکہ جمہور فقہا و محققین کی دو الگ الگ جماعتیں ہیں ۔ ( اصولِ تکفیر و تضلیل ، ۸۹ ، ۹۰ )

مصنفِ کتابِ ہٰذا :

استاذ العلما ، عمدۃ المدرسین ، محققِ عصر ، ادیبِ لبیب حضرت علامہ مفتی محمد ناظم علی مصباحی حفظہ اللہ الباری ( استاذ جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور ، اعظم گڑھ ، یوپی ) جماعتِ اہلِ سنت کے ایک جید عالمِ دین ، بالغ نظر مفتی ، قدر آور محقق ، بلند پایہ مدرس ، اعلیٰ علمی اسلوب کے مالک نثر نگار ، کامیاب مترجم اور ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف و مؤلف ہیں ۔ اپنے فضل و کمال ، علمی تبحر ، تحقیقی ذوق اور تصنیفی مہارت کے سبب جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے قدر آور اساتذہ میں آپ کا شمار ہوتا ہے ۔ مضبوط قوتِ حافظہ ، فکرِ صائب اور ذہنِ ثاقب کے مالک ہیں ۔ دورانِ تدریس امہاتِ کتبِ درسیہ کی عربی عبارتیں زبانی پڑھتے چلے جاتے ہیں ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زبانی قرآن کی تلاوت فرما رہے ہیں ۔

مروجہ علومِ درسیہ میں مہارت رکھتے ہیں اور کسی بھی فن کی کتاب بلا تکلف ، بے ضغطۂ زبان کے پڑھاتے ہیں ۔ عربی ، فارسی اور اردو زبان و ادب کے ایک بلند پایہ ادیب ہیں ۔ راقم اپنے جن اساتذۂ کرام کی علمی صلاحیتوں اور تحریری لیاقتوں سے کافی متاثر ہے ، آپ ان میں سے ایک ہیں ۔ خالقِ لوح و قلم نے علم و فضل اور ذہانت و طباعی کے ساتھ آپ کو قرطاس و قلم کی دولت سے بھی مالا مال فرمایا ہے ۔ سیّال قلم کے مالک ہیں ۔ کسی بھی موضوع پر جب قلم اٹھاتے ہیں تو اس کا حق ادا کر دیتے ہیں ۔ علمی مواد ، تحقیقی

شان ، زورِ استدلال اور دلنشیں اسلوبِ بیان آپ کی نگارشات کے قابلِ قدر پہلو ہیں ۔ وقت کی قدر دانی اور اس کا صحیح استعمال کوئی آپ سے سیکھے ۔ راقم الحروف کو مارہرہ شریف کا ایک سفر آپ کے ساتھ کرنے کا اتفاق ہوا ہے ۔ دورانِ سفر دیکھا گیا کہ آپ حضرت علامہ فضلِ حق خیر آبادی کی بلند پایہ فارسی تصنیف ” امتناع النظیر ” کا ترجمہ بڑی روانی کے ساتھ کر رہے ہیں ۔ میں نے عرض کیا ! حضرت کم از کم سفر میں تو آرام کر لیا کریں ، اس پر آپ نے ارشاد فرمایا : مولانا ! زندگی مختصر ہے اور کام بہت زیادہ ہے ۔ اس سے آپ کی علمی زندگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مہارت کے ساتھ ” فنِ ترجمہ نگاری ” سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔ آپ نے مشہور عرب عالم ڈاکٹر سید محمود سید صبیح کی مشہور عربی کتاب ” اخطأ ابن تیمیہ ” کا بڑے سلیس اور رواں دواں اسلوب میں ترجمہ فرمایا ہے ، جو کافی ضخیم ہے اور پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ۔

اسی طرح ” امتناع النظیر فارسی ” کا اردو ترجمہ آپ کے کامیاب مترجم ہونے پر دال ہے ۔ اردو کے ساتھ عربی نثر نگاری میں بھی کمال حاصل ہے ۔ فقہ کی مشہور کتاب ” نور الایضاح ” کا عربی حاشیہ بنام ” ضوء المصباح ” عربی نثر نگاری میں آپ کے کمال کو ظاہر کرتا ہے ۔

مرشدِ گرامی ، تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی اختر رضا خان قادری ازہری بریلوی علیہ الرحمہ کی عربی تصنیف ” الفردۃ شرح قصیدۃ البردۃ ” پر بزبانِ عربی آپ کے قیمتی تاثرات موجود ہیں ۔ محب گرامی حضرت مولانا مفتی محمد ابرار احمد قادری مصباحی نے راقم الحروف کو بتایا ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ سے پوچھا تھا کہ ” حضور ، مولانا ناظم علی مصباحی کی عربی کیسی ہے ؟ اس پر آپ نے فرمایا : مولانا کی عربی نثر بڑی اچھی ہے ۔ غرض کہ آپ کی ذات میں بہت ساری علمی و ادبی و اخلاقی خوبیاں موجود ہیں

۔ طبیعت میں عاجزی و سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہے ۔ بڑی سادہ اور تصنع سے خالی زندگی گذارنے کے عادی ہیں ۔ پڑھنا ، پڑھانا اور کتابیں لکھنا ، یہی آپ کے مشاغلِ حیات ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی دینی و علمی خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور جماعتِ اہل سنت پر آپ کا سایہ تا دیر قائم رکھے ۔ آمین !!

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

1 COMMENT

  1. میری وصیت یہ ہے کہ اہلِ قبلہ جب تک ” لا الہٰ الا محمد رسول اللہ ” کے قائل رہیں اور اس کلمۂ طیبہ کی تردید نہ کریں ، ان کی تکفیر سے حتی الامکان اپنی زبان کو روکو ۔ کلمۂ توحید کی تردید کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ کسی عذر یا بلا عذر کے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ کو جائز قرار دیں ۔ کیوں کہ تکفیر ایک وادیِ پُر خطر ہے ، جب کہ سکوت میں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ تکفیر کا قانون یہ ہے کہ تم پہلے اس بات کو جان لو کہ افکار و نظریات دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق اصولِ عقائد سے ہے اور دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق فروعیات ہے ۔
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں طفیل احمد مصباحی صاحب کی تحریر پڑھ رہا تھا جس میں اس کا ایک پیرا میں نے اوپر لکھا ہے جس میں کلمہ طیبہ لکھتے ہوئے لفظ اللہ چھوٹ گیا ہے اس کی تصحیح کر دی جائے کہیں پرنٹنگ کی غلطی ہے جزاک اللہ خیرا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن