ایک بے مثال تلمیذ اعلیٰ حضرت کی جھلکیاں
حضرت سید نا سفیان بن عُیَیْنہ رضی اللہ عنہ کا یہ معروف مقولہ ہے۔ ” عِندَ ذِکرِالصّالِحینَ تَنَزَّلُ الرّحْمۃ ” یعنی نیک لوگوں کے ذکر کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے(حلیۃ الاولیاء ج٧ص٣٣٥) اللہ رب العزت کی خصوصی رحمتوں سے فیضیاب ہونے اور اپنے مشام جاں کو معطر کرنے کے لیے شہزادہ حضور اشرفی میاں والد حضور سرکار کلاں، دادا حضور شیخ اعظم سلطان الواعظین عالم ربانی تلمیذ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی،حضرت علامہ مولانا ابو المحمود سید محمد احمد اشرف اشرفی جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا مختصر تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
حضور شیخ الاسلام المسلمین رئیس المحققین مفسر قرآن حضرت علامہ مولانا سید شاہ مفتی محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی مدظلہ النورانی تاج دار کچھوچھہ مقدسہ ارشاد فرماتے ہیں :
اہل اللہ کے حالات واقعات پڑھنے اور سننے سےقلب مضطر کو سکون ملتا ہے، روح کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے، فکر و نظر کاانتشار دور ہوتا ہے ، عقل آوارہ کازورٹوٹتاہے، روحانیت کو ترقی ملتی ہے اور معرفت الہی کا راستہ آسان ہوتا ہے اس لیے زمانہ قدیم ہی سے عرفائے حق کے تذکرے لکھنے اور شائع کرنے کا معمول رہا ہے اور مشائخ طریقت اپنے وابستگان سلسلہ کو اولیاء کاملین کےحالات ومعمولات اور تعلیمات و ارشادات بار بار پڑھنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ (حیات مخدوم العالم ص19) ۔
چناں چہ میں ابوضیا سعدی،یہ چند سطریں اس لیےسپرد قرطاس کررہا ہوں۔کہ اللہ رب العزت اپنے ان نیک بندوں کے صدقے میں میری اورمیرے والدین کی بھی بلا حساب مغفرت فرمائے اور دارین کی خوشیاں نصیب فرمائے۔
اللہ پاک اپنے صالح اور محبوب بندوں پر انوار وتجلیات کی بارشیں نازل فرماتا ہے اور بلند مقام و مرتبے پر فائز فرماتا ہے۔ جس کی بنیاد پر کائنات میں نیک بندوں کے ڈنکے بجتے ہیں ۔ انہیں نیک بندوں میں
وارث علوم نبی اکرم ﷺ، ابن مولیٰ علی، جانشین غوث اعظم، پرتو خواجہ ہند الولی،نور نگاہ غوث العالم محبوب یزدانی، شہزادہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں،مخدوم اہل سنت، سلطان الواعظین عالم ربانی حضرت علامہ مولانا الشاہ ابو المحمودسید احمد اشرف اشرفی جیلانی معروف بحضور عالم ربانی و سلطان الواعظین علیہ الرحمہ والرضوان کی ذات بھی ہے۔ اسم گرامی :سید محمد احمد اشرف اشرفی آپ کا تاریخی نام، مولانا ابو المحمود احمد اشرف ہیں۔
ولادت باسعادت : ٤ شوال المکرم ١٢٨٦ھ بروزجمعہ۔
والد ماجد اور پیر و مرشد :
شیخ المشائخ ہمشبیہ غوث اعظم ابو احمدمولانا سیدشاہ علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں تاجدار کچھوچھہ۔ شیخ المشائخ ہمشبیہ غوث اعظم ابواحمدمولانا سید علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں تاج دار کچھوچھوی علیہ الرحمہ کے دوشہزادے تھے ۔
(1) عالم ربانی ،سلطان الواعظین،مخدوم اہل سنت، حضرت علامہ مولانا الشاہ ابو المحمودسید احمد اشرف اشرفی جیلانی
(2) عارف باللہ حضرت مولانا سید شاہ پیر مصطفیٰ اشرف اشرفی جیلانی رحمۃ اللہ علیہما۔
عالم ربانی ،سلطان الواعظین، حضرت علامہ مولانا الشاہ ابو المحمودسید احمد اشرف اشرفی جیلانی رحمۃ اللہ علیہ پر سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاص نوازش تھی جب عالم ربانی کی رسم بسم اللہ خوانی کا وقت آیا تو حضرت مولانا شاہ آل احمد پھلواروی علیہ الرحمہ، مدینہ منورہ سے کچھوچھہ شریف تشریف لائے اورآپ نے عالم ربانی کوبسم اللہ پڑھائی۔
جب آپ نے قاعدہ بغدادی مکمل کر کے پارہ عم شروع کیا تو خواب میں دیکھا کہ آپ کے جد بزرگوار غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ آپ کو سورہ فاتحہ پڑھائی۔ آپ نے ابتدائی کتابیں استاذ العلما مولانا معین الدین ابو الخیرمانک پوری گورکھ پوری سے پڑھی۔ اس کے بعد استاذ العلما مولانا لطف اللہ علی گڑھی شاگرد رشید غوث وقت مولانا آل احمد صاحب محدث ہندی کی خدمت میں حاضر ہو کر بقیہ علوم وفنون کی تکمیل کی۔ (شیخ اعظم نمبرص٣٥،٣٦۔ ناشر الاشرف اسٹوڈینٹس مومنٹ جامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ)
حضور مفتی اعظم ہند شہزادہ اعلیٰ حضرت مولانا مصطفےٰ رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ” رسالۂ استمداد صفحہ 92″۔ پر تحریر فرماتے ہیں:
ابوالمحمود احمد اشرف اشرفی جیلانی زیب سجادہ کچھوچھہ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی اولاد سے تھے۔ آپ عارف باللہ سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی رحمتہ اللہ علیہ کے نامور فرزند تھے۔ تاریخی نام ابوالمحمود احمد اشرف تھا۔ 4شوال ١٢٨٦ھ میں بروز جمعہ پیدا ہوئے ابتدائی کتابیں کچھوچھہ شریف میں پڑھیں اور مفتی لطف اللہ علی گڑھی سے درسیات کی تکمیل کی۔ خواب میں سرکار دوعالم ﷺ نے دستاربندی فرمائی۔ اس خواب کے بعد آپ نے کسی مدرسہ سے دستار فضیلت حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ (شیخ اعظم نمبر ج1صفحہ ٧٦۔ ایضًا)
جب آپ علوم اسلامیہ کی تکمیل سے فارغ ہوگیے تو آپ کے والد ماجد ہم شبیہ غوث اعظم شیخ المشائخ مولانا سید شاہ علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے راہ سلوک و معرفت کے مدارج طے کرائے اور شرف بیعت و اجازت اور تاج خلافت سے نوازا ۔ اپنا ولی عہد سچا جانشین اور خلف اکبر نامزد کیا۔ عالم ربانی مولانا احمد اشرف علیہ الرحمہ کی پوری زندگی اسوۂ حسنہ کا مظہر کامل، رشد و ہدایت کا روشن چراغ تھی۔
آپ نے ہمہ جہت دین کی خدمت انجام دی ۔ بیعت وارشاد کےسلسلہ کو رونق بخشی ، تبلیغ اسلام میں جدوجہد فرمائی، عقائد حقہ کی ترویج واشاعت فرمائی، باطل فرقوں کے باطل عقائد کی نقاب کشائی کی۔ آپ کے نفس زکیہ کی برکتوں سے لوگ بکثرت اسلام میں داخل ہوئے آپ کے ظاہری و معنوی خوبیوں کی جامع تھی۔ تقریر ایسی کرتے کہ دل موہ لیتے ۔
دوران تقریر آیت کریمہ کی تلاوت کرتے تو اہل محفل بے تاب ہوجاتے ۔ تقریر کا ہر جملہ آپ کی زبان سے نکلنے والا اتنا پیارا معلوم ہوتا تھا کہ عرصہ تک اس کی حلاوت سامعین کے دل میں باقی رہتی ۔ دوران تقریب آیت کریمہ کی تفسیر میں عجیب و غریب نکات کا انکشاف ہوتا تھا جس کی طرف عنان توجہ پھر جاتی اس کے دقائق اور اسرار کا بخوبی اظہار ہوجاتا ۔ کبھی علم ہیئت کے مسائل کی وضاحت ، کبھی فلسفہ قدیمہ وجدیدہ کا تقابل، کبھی علم ہندسہ کا تذکرہ،کبھی قرآن و حدیث کی شیریں بیانی، کبھی فقہ کی دقیقہ سنجی۔
غرض کہ ہر موضوع پر نہایت روح پرور، کیف آمیز عالمانہ وعارفانہ بیان ہوتا تھا۔ اگر دوران تقریر بارش ہوتی تو بھی ہر شخص اسی ذوق و شوق کے ساتھ ہمہ تن گوش بند کر آپ کے لطف بیان سے محظوظ ہوتا رہتا۔جب آپ دوران تقریرفرقۂ باطلہ کا رد کرتے تھےتو اہل سنت وجماعت اور فرقہ باطلہ کے درمیان مکمل امتیاز ظاہر ہوجاتا۔ (ایضًا صفحہ، ٣٨)
نبیرہ اعلیٰ حضرت، حضرت علامہ سبحان رضا خان رضوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
“میرے جدید کریم سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے دور حیات ظاہری میں عالم ربانی سلطان الواعظین حضرت علامہ سید شاہ احمد اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی ان کے پاس تشریف لاتے تھے ۔ سیدنا اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ ان کا شایان شان استقبال نیز احترام فرماتے تھے اور محبت کا یہ عالم کے اپنے رسالۂ “ الاستمداد ” میں جہاں اپنے دیگر تلامذہ اور خلفاء کا ذکر فرمایا ہے،حضرت شاہ سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کا بھی ذکر ایک شعر میں اس طرح فرمایاہے۔ احمد اشرف حمدو شرف لے تجھ سے ذلت پاتے یہ ہیں ( ماہنامہ کنزالایمان دہلی جلد 15 شمارہ1، ص29، بحوالہ شیخ اعظم نمبر)
عالم ربانی کا بیان، اعلی حضرت فاضل بریلوی کھڑے ہوکر کیوں سنتے تھے امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کے مدرسہ اہل سنت کے سالانہ جلسہ میں حضرت عالم ربانی علامہ سید احمد اشرف خاص دعوت دے کر بلائے جاتے ،فاضل بریلوی بھی شریک محفل ہوتے ایک بار ایسا ہوا کہ ایک بیک کھڑے ہوگئے اور پورا بیان کھڑے ہو کر سماعت فرمایا، حضرت مولانا حسنین رضا خان علیہ الرحمہ جو خود بھی ناقد وب صیر تھے۔
اپنی کتاب سیرت اعلی حضرت میں رقمطراز ہوئے کہ اعلیٰ حضرت بریلوی کے حاشیہ کے علما اور ان کے تلامذہ کا کہیں کہیں نام آ گیا ہے، ان کی تفصیل کے لیے یہ کتاب ناکافی ہے مگر میں حضرت مولانا سید احمد اشرف صاحب کچھوچھوی( علیہ الرحمہ ) کے متعلق اتنا ضرور عرض کروں گا کہ ان جیسا شیریں بیاں واعظ پھر نہ دیکھا، انہوں نے تھوڑی سی عمر میں دین کی بڑی بڑی خدمتیں انجام دیں اعلی حضرت بریلوی انہیں اکثر یاد فرماتے تھے۔
مفتی محمود رفاقتی صاحب لکھتے ہیں مولانا عمر اشرفی نعیمی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ :”حضرت سراپا برکت جامع الطرقین مجمع البحرین حضرت مولانا سید شاہ احمد اشرف صاحب مدظلہ العالی کچھوچھوی کے بیان فیض نے جلسہ پر جو رنگ جمایا بیان سے باہر ہے ایک کلمہ جو ممدوح کی زبان مبارک سے اداہوتاتھا دل میں اثر کرتا تھا مجمع محوہورہاتھاایک عجیب عالم تھا ” (ایضًا صفحہ ٧٨)
حضور محدث اعظم ہند آپ کی شان خطابت میں نغمہ سرائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛ محویت چھا گئی جب حسن بیان یاد آیا دل تڑپ اٹھا، وہ انداز بیان یاد آیا جھومتی پھرتی ہے وہ دنیائے تصور سید جب کبھی موعظۂ پیرمغاں یاد آیا (ایضًا صفحہ ٧٨)
” اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی عادت کریمہ یہ تھی کہ آپ مولانا احمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ کی مکمل تقریر اسٹیج کے نیچے ہی سے کھڑے ہوکر سماعت کرتے تھے۔ آپ کے بعض مریدین نے آپ سے پوچھا کہ حضور دیگر خطبا کی خطابت آپ برسراسٹیج سماعت کرتے ہیں مگر جب مولانا احمد کچھوچھوی کی خطابت ہوتی ہے توآپ اسٹیج پر تشریف نہیں لے جاتے ہیں اور نیچے سے ہی کھڑے ہو کرسماعت کرتے ہیں تو اعلی حضرت نے جواب دیا کہ مولانا کی شخصیت تم لوگوں پر مخفی ہے، جو بات ان کی تقریر میں احمد رضا دیکھتا ہے دیگر مقررین کی تقریر میں نہیں دیکھتا۔ والله جب یہ دوران خطابت حدیث شریف پڑھتے ہیں تو جس راوی کی حدیث یہ سناتے ہیں ان کو برسراسٹیج پاتا ہوں تو ان رواۃ کی تعظیم کرتے ہوئے کھڑے ہو کر اسٹیج کے نیچے ہی سے تقریرسماعت کرتا ہوں۔ “( ماہنامہ ماہ نور، اشرف العلماء نمبر فروری مارچ2008 صفحہ45/بحوالہ شیخ اعظم نمبر ج1ص100)
تبصرہ
الله پاک نے اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان پر کتنا کرم فرمایا تھاکہ سلطان الواعظین عالم ربانی مولانا سید احمد اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھوی علیہما الرحمہ کے بیان میں صحابہ کرام کا دیدارہوتا تھا ۔اس سےدونوں حضرات کے مقام کا اندازہ لگائیں۔ شہزادہ عالم ربانی سرکارکلاں کانام” مختار اشرف “اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے رکھا تھا عالم ربانی سلطان الواعظین حضرت علامہ مولانا سید شاہ احمد اشرف اشرفی الجیلانی بریلی شریف اعلی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا حضور آپ کے پوتے کی ولادت ہوئی ہے کیوں کہ حضرت موصوف اعلی حضرت سرکار کے تلمیذ وخلیفہ بھی تھے۔
رشتۂ طریقت کی بنا پر فرمایا آپ کے پوتے کی ولادت ہوئی ہے۔
حدیث پاک میں “محمد” نام کی فضیلت آئی ہے یوں اس کانام “محمد”رکھ دیا ہے۔
حضور کوئی تاریخی نام رکھ دیں اور دعا فرما دیں۔ اعلیٰ حضرت قبلہ نے فرمایا ان کے نانا جان مختار کون ومکانﷺ بھی تو ہیں لہذا فقیر اس بچے کانام” محمد مختار “رکھتاہے۔ دیکھئےشایدسن ولادت ہوگئی ۔ جب اعداد کا شمار کیا توپورے۱۳۳۳ھ ہوئے اور یہی سن ولادت تھی۔ چند سکنڈ کےبعد فوراً اعلیٰ حضرت قبلہ نے فرمایا” حضرت مخدوم اشرف سمنانی علیہ الرحمہ سے اس خاندان سے نسبت ہے اسی وجہ سے آپ کا نام احمد اشرف ہے، لہذا فقیر’محمدمختار’میں”اشرف “کا اضافہ کرتا ہے اب اس نام میں یہ خوبی بھی پیدا ہوگئی کہ “محمد مختار “سے سن ھجری نکلے گی اور ” محمد مختار اشرف “سے سن عیسوی نکلے گی۔ خدا مبارک کرے۔ علم نافع عمل صالح عطا فرمائے اور آپ کا سچا جانشین بنائے۔ (ماہنامہ کنزالایمان دہلی ج:۱۵شمارہ ١، ص٣٠،بحوالہ شیخ اعظم نمبر صفحہ 100) ۔
حضرت مولانا طبیب الدین شرفی لکھتے ہیں : شہزادہ اعلیٰ حضرت حضورمفتی اعظم ہند حضرت علامہ مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمہ نےفرمایا کہ آپ کی تقریر ہردلعزیز ہوتی اور وعظ، میں تاثیر ہوتی۔ (شیخ اعظم نمبر صفحہ ٧٧)
آپ کی خطابت کے سلسلے میں حضور سرکار کلام شیخ المشائخ حضرت مولانا سید محمد مختار شاہ اشرفی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ایک مرتبہ میں نے صدرالافاضل حضرت مولانا سید شاہ نعیم الدین اشرفی مرادآبادی رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ حضرت والد بزرگوار کی خطابت کیسی ہوتی تھی حضرت صدرالافاضل علیہ الرحمہ نے مجھ سےفرمایا کہ حضرت کی خطابت بس یوں سمجھئے کہ حضرت محدث اعظم ہند کی خطابت ان کے مقابلے میں ایک بال کے برابر ہے۔ (ایضًا صفحہ ٧٨)
حضرت مولانا اکمل حسین اشرفی نے یہ تحریر فرمایا ہے: کہ حضرت عالم ربانی مولانا سیداحمد ا شرف رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ایک مرتبہ حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ واللہ میں حضور پیر و مرشد(سلطان الواعظین، عالم ربانی)رحمۃ اللہ علیہ کی نقل کرتا ہوں اس پر دنیا مجھے محدث اعظم ہند کہتی ہے اگر حضور پیرومرشد علیہ الرحمہ کے علوم ظاہری وباطنی سے ایک آنہ بھی پایا جاتا تونہ معلوم دنیا والے مجھے کیا کہتے۔ (ایضًا ص٧٩)
سید شاہ فاخر الٰہ آبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
“مولاناسید احمد اشرف کی ذات سے اسلام کو بڑی ترقی تھی،ہزاروں کو ہدایت پہونچی درحقیقت آپ اسلام کے ایک رکن رکین تھے”۔(ایضًا) ڈاکٹر عظیم الدین فاروقی نندورہ گوپال گنج ضلع پرتاب گڑھ جوحضرت مولانا علیہ الرحمہ کے معتقدین میں سے تھے موصوف کی عمر تقریباً سو سال کی ہو گی انہوں نے فرمایا کہ حضرت مولانا احمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ کی تقریرجب ہوتی تو سامعین اپنا ہوش وحواس گنوا بیٹھے تھے، بالخصوص معراج رسول صلی اللہ وسلم پر تقریر ہوتی تو لوگ آپ کی جانب دیکھنے کے بجائے آسمان کی جانب دیکھا کرتے تھے کہ کہاں سوارئی رسول جا رہی ہے اور بارہا ایسا ہوا کہ لوگ چیخ مار کر بے ہوش ہو جاتے کتنے ایسے لوگ ہوتے جو بے خودی میں گریبان پھاڑ ڈالتے تھے ۔ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ جشن عید میلاد النبی ﷺ میں آپ کو بریلی شریف مدعو کرتے اور آپ کی تقریر سنا کرتے تھے۔ (ایضًا صفحہ ٧٨) شان بےنیازی
اس کو بھی پڑھیں : تذکرہ حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ (خلیفہ اعلیٰ حضرت)
حضرت مولانا طبیب الدین شرفی لکھتے ہیں :
حضور سرکار کلاں حضرت مفتی سید شاہ مختار اشرف اشرفی جیلانی زیب سجادہ آستانہ عالیہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف نے فرمایا کہ والد بزرگوار حضرت مولانا سید شاہ احمد اشرف علیہ الرحمہ کی طبیعت میں کمال استغناء پایا جاتا تھا ، دنیا اور طلب دنیا سے ہمیشہ دور رہے کبھی خیال تک آپ نے نہیں فرمایا اسی تعلق سے حضرت مولانا علیہ الرحمہ کا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ:
اعلی حضرت اشرفی میاں رحمتہ اللہ علیہ بیرون ہند سفر میں تھے اور حضرت مولانا سید احمد اشرف گھر پر قیام فرماتے ہیں بمبئی کے مریدین و معتقدین نے آپ کو محرم الحرام کے پروگرام پر مدعو کیا۔ آپ لوگوں کی دعوت پر ممبئی تشریف لائے اورمحمد پٹیل کے ہوٹل میں آپ نے قیام فرمایا، پروگرام کمیٹی کے صدر محمد حسین سیٹھ جو اس وقت پروگرام کے روح رواں تھے ممبئی کے دستور کے مطابق مولانا علیہ الرحمہ کی خدمت میں پہنچے اور اسی انداز میں گفتگو کرتے ہوئے درمیاں میں پوچھ لیا کہ حضرت آپ تقریر کا کتنا پیسہ لیں گے۔ اتنا سننا تھا کہ جلال آگیا اور محمد حسین سیٹھ کو سختی سے دانٹ کر بھگا دیا اور فرمایاکہ تقریر نہیں ہوگی۔ اب سارے لوگ پریشان ہوگئے دوسری دوسری طرف محمد حسین سیٹھ کے وقار کامعاملہ تھا بالآخر کچھ مدبر لوگ درمیان میں پڑے اور کسی طرح حضرت مولانا علیہ الرحمہ کو راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے اور محمد حسین سیٹھ کو معافی دلوائی۔ اس نے حضرت سے معافی مانگی اور حضرت نے معاف کر دیا ۔ پھر تقریر ہوئی ۔
روانگی کے وقت لوگوں نے اسٹیشن پر ہار پھول اور لفافےپیش کئے،حضرت نے لفافہ لینے کے بجائے اپنے خادم جمن کولینےکااشارہ فرمایاوہ سب لفافہ جمع کرتا رہا،جب سب لوگوں نے دیا تو جمن نے لفافوں کی گھٹری باندھ کر بینچ کے نیچے ڈال دیا اب ٹرین چل پڑی، راستے میں جمن نے حضرت کا پاؤں دباتے ہوئے دبی زبان میں کہاآپ نے سب کوڈانٹ کر بھگا دیا معاملہ سب بگڑ گیا ۔اب عرس کاانتظام کیسے ہوگا۔ آپ نے اسے بھی ڈانٹ دیا اور فرمایا چپ رہو اللہ مسبب الاسباب ہے ۔
تھوڑی دیر بعد اس نے کہا حضور وہ سب خطوط پڑے ہیں اسے کب پڑھیں گےحضرت نے فرمایا کہا ہے اس نے بینچ کے نیچے سے گھٹری نکالی اور اسے کھولا آپ نے فرمایا لفافہ کھول کے دیکھ، اب جو اس نے لفافہ کھولا تونوٹوسےبھراہواسب لفافہ ملا اس نے فوراًسارے لفافے سمیٹ کر رکھا اور گھر آکر مخدومی علیہا الرحمہ کے حوالے کردیا۔
حضرت نے اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا اورحضرت مخدومہ نے بھی اسےاسی طرح رکھ دیا عرس مخدومی علیہ الرحمہ کے موقع پر پیسہ نکلتا رہا اور عرس کے کام میں خرچ ہوتا رہا اسی طرح عرس کے تمام پروگرام بحسن وخوبی انجام پائے۔ آپ کی صحبت مبارکہ سے مستفیض ہونے والوں نے بیان کیا ہے تازندگی آپ کی شان بےنیازی کایہی عالم رہا۔ آپ دنیا داری سے بہت دورر ہے کبھی آپ نے اسباب دنیا میں دلچسپی نہیں لی۔ (ایضًا صفحہ ٧٦)
حضور مفتی اعظم ہند کا جنازہ اور عالم ربانی کا شہزادہ حضور سرکارکلاں حضرت مولانا حکیم سید محمد حسین کوثر اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ نے حضور مفتی اعظم ہند کے وصال کے وقت حضرت مخدوم المشائخ سیدنا شاہ محمد مختار اشرف اشرفی جیلانی سرکار کلاں علیہ الرحمہ کے بریلی شریف جانے اور حضور مفتی اعظم ہند کے جنازہ پڑھانے کا واقعہ تحریر فرمایا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
حضور مفتی اعظم ہند کے وصال کی خبر ابھی مشتہر بھی نہیں ہوئی تھی اور سرکار کلاں علیہ الرحمہ نے کچھوچھہ میں ایک روز پہلے ہی سے کہنا شروع کر دیا کہ بھئی مجھے کل بریلی جانا ہے۔ سیالدہ (ٹرین )پکڑناہے۔گاڑی منگواؤ اکبر پور چلنا ہے۔لوگوں نے کہا حضور !سیالدہ کچھوچھہ سے بھی چل کر پکڑی جاسکتی ہے ۔ اس پر میرے حضرت نے فرمایا نہیں بھائی تم لوگ نہیں جانتے ہو۔حضرت کی بے چینی کو دیکھ کر لوگوں نے فورا گاڑی منگوائی اور 18 گھنٹے پہلے اکبر پر پہنچ گئے ۔
اس کے بعدریڈیو اور دیگر ذرائع سے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے وصال کی خبر مشتہر ہوئی۔حضور سرکار کلاں صبح کو سیالدہ (ٹرین) سے بریلی کے لئے روانہ ہوگئے۔ اور اپنے معمول سے ہٹ کر کوئی سامان بھی اپنے ساتھ نہیں لےگئے۔ پھر سادہ لباس میں پہنچ کر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ کی اجازت رحمانی میاں سے ملی۔ پھر حضور سرکار کلاں ابنِ عالم ربانی علیہ الرحمہ نے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ کی امامت فرمائی۔
جب میری ملاقات قبلہ بھائی جان( اشرف العلماء حضرت مولانا سید شاہ حامد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ) سے ہوئی تو فرمایا دیکھو احمدحسین! کیسےبھائی جان( حضرت سرکارِ کلاں علیہ الرحمہ) بریلی پہنچ گئے میں نے کہا قبلہ بھائی جان یہ تو مفتی اعظم ہند کی ولایت تھی اور حضرت سرکارکلاں کی کی ڈیوٹی تھی جوانہوں نے ادا کی ۔ میں نے سناہے کہ ولی کی نماز جنازہ ولی ہی پڑھاتے ہیں ۔ فرمایا یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے مگر یہاں ایسا ہی ہواہے۔ نہ تو بھائی جان سرکارکلاں کی ولایت میں کوئی شک ہے اور نہ حضور مفتی اعظم ہند کی ولایت میں کوئی شک ہے۔اس پر میری زبان سے برجستہ الحمدللہ نکلا اور میں نے کہا پِیرسچا پایا ہے۔
گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ قبلہ بھائی جان !میں نے اور مولانا غلام جیلانی صاحب کے بڑے صاحبزادے یزدانی میاں نے حضورمفتی اعظم ہند کو قبر تک پہنچایا اور نیچے اتارا۔
اس پر فرمایا،یہ تم لوگوں کی خوش نصیبی وفضل الہی ہے کہ اللہ تعالی تم لوگوں کو ایسا موقع عنایت فرمایا۔ (اشرف العلماء نمبر ماہ نور،فروری مارچ2008ءص٩٧، بحوالہ شیخ اعظم نمبر ص101)
ان مضامین کو بھی پڑھیں
کشف وکرامت
مولانا طبیب الدین اشرفی لکھتے ہیں: آپ صاحب کشف و کرامت بزرگ گزرے ہیں اگرچہ آپنے عمر کم پائی اس کے باوجود اللہ تعالی نے آپ کو بہت سارے کمالات سے نوازا آپ سے بہت سی کرامتیں ظاہر ہوئیں۔
مولانا آل حسن بیان کرتے ہیں کہ میں کالج میں پڑھتا تھا انٹرمیڈیٹ کر چکا تھا میری عمر سولہ یا سترہ سال رہی ہوگی۔ ایک بار مفتی محمد اجمل صاحب اجملی نے فرمایا کہ آل حسن مرادآباد جامعہ نعیمیہ میں دستاربندی کا جلسہ ہے اور حضرت صدر الافاضل کی دعوت پر مولانا سیداحمد اشرف آرہے ہیں تم بھی جلسہ میں شرکت کے لیے چلو ، میں ان کے کہنے پر ان کے ساتھ ہو گیا۔مرادآباد آیا جلسہ میں شرکت کی، پروگرام ہو گیا۔ میں مولانا سیداحمد اشرف کی خدمت میں بیٹھا تھا۔
حضرت مولانا سیداحمد اشرف علیہ الرحمہ نے مجھے علم دین حاصل کرنے کی ترغیب دی میں نے عرض کیا حضور! طبیعت ہچکچا رہی ہے کہ شروع کروں اور کہیں درمیان سے تحصیل علم کا سلسلہ منقطع نہ ہو جائے اور میں ناقص ونامکمل رہ جاؤں تو پھر کہیں کا نہ رہوں گا۔ حضرت مولانا سید احمد اشرف علیہ الرحمہ نے فرمایا تم شروع کرو ان شاءاللہ تعالٰی تم مکمل عالم ہو جاؤ گے۔ الحمدللہ میں نے تحصیل علم دین شروع کی اور بڑی کامیابی کے ساتھ درجۂ تکمیل کو پہنچ گیا ۔ بحیثیت عالم حضرت مولانا سید احمد اشرف علیہ الرحمہ نے مجھے خلافت سے نوازا۔ (شیخ اعظم نمبر ص٨٠)
تاڑی میرے سامنے نہ پینا
حضرت مولانا مجیب اللہ صاحب شہبازی بھاگل پوری سے روایت ہے کہ نعمت نامی ایک شخص نے جو حضرت مولانا سید شاہ احمد اشرف علیہ الرحمہ کا مرید تھا اپنا واقعہ خودبیان کیا۔ مولانا مجیب اللہ صاحب نے فرمایا کہ نعمت نے بتایا کہ حضرت مولانا سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ ابوالحسن ماچھی پور کے یہاں تشریف لائے اور وہیں قیام پذیر تھے اور ابوالحسن کے دروازے پر ملنے والوں کا اژدہام ہوگیا جو آتا حضرت سے بیعت ہو کر واپس ہو جاتا تمام لوگوں کے ساتھ میں بھی بیعت ہوگیا مجھے تاڑی پینے کی عادت تھی حضرت نے بیعت کے وقت تاڑی سے توبہ کرایا تو میں نے عرض کیا کہ تاڑی کی اجازت دی جائے اس لیے کہ میں اسے چھوڑنے پر قادر نہیں ہوں معذور ہوں آپ نے فرمایا اچھا میرے سامنے نہ پینا میں خوش ہو گیا لیکن ہوا یہ کہ میں جب بھی تاڑی پینے کے ارادے سے ہاتھ میں گلاس لیتا حضرت مولانا سید احمد اشرف اشرفی علیہ الرحمہ کی نورانی شکل سامنے نظر آنے لگتی ایک ایسی حالت میں آپ نے فرمایا کہ باز نہ آؤ گے اس جملہ کا اثر مجھ پر اتنا گہراہوا کہ میرے دل سے تاڑی کا خیال ایسا محوہوا کہ پھر تا زندگی میں نے اسے منہ نہیں لگایا اورنہ مجھے اس کا احساس و خیال ہوا۔ (شیخ اعظم نمبر ج1ص80) عالم ربانی کے خلفاء و مریدین
آپ کے مریدین کی تعداد تو نہیں بتاسکتے کہ کتنے تھے اسی سے اندازہ لگا ئے کہ جہاں بھی آپ خطاب کے لیے تشریف لے جاتے آپ کی تقریر سے لوگ اتنے متاثر ہوتے کہ بعد تقریر جماعت درجماعت لوگ آپ کے دست حق پرست پر تائب ہوجاتے مولانا محمد ہاشم اشرفی نے بیان کہ حضرت مولانا سید احمد اشرف اشرفی علیہ الرحمہ حج کو تشریف لے گئے تھے تو کثیر تعداد میں اہل عرب نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی تھی اسی طرح ایک مرتبہ میمن سنگھ تشریف لے گئے تو تقریباً تیس ہزار لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس طرح خلفا کے سلسلے میں بھی نہیں بتایا جاسکتا کہ کتنے ہیں چند خلفاے کرام کے اسماء یہ ہیں۔
(1)آپ کے بھانجے حضور محدث اعظم ہند سید محمد اشرفی علیہ الرحمہ
(2) آپ کے برادر خرد سید شاہ مصطفیٰ اشرف اشرفی جیلانی
(3) آپ کے بھتیجے حضرت مولانا سید شاہ محی الدین اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ عرف اچھے میاں جنکی آخری زندگی جذب میں گزری مزار آپ کا مرزاپور میں مرجع خلائق ہے۔
(4) حضرت مولانا حکیم سید شاہ حامد اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ، اشرف چک، سہرسہ بہار۔
وفات مبارک
١٤، ربیع الثانی ١٣٤٧ھ میں طاعون کی مرض میں شہادت پائی۔
الله پاک ان کے مرقد انور پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور ان کے صدقے ہماری اور اور ہمارے اہل خانہ کی اور میرے معاون ومددگارکی مغفرت فرمائے۔ مزار پاک
آپ کا مزارمبارک نِیرشریف (جو مخدوم کچھوچھہ کے نیچے ہے) اس کے جنوبی کنارے حضرت مولانا سید شاہ محمد اشرف حسین اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ اور اعلی حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے درمیان واقع ہے۔
تحریر: اسیرشیخ اعظم ابوضیاء غلام رسول سعدی آسوی کٹیہاری
خلیفہ حضور شیخ الاسلام ،حضور قائد ملت و ناشرمسلک اعلیٰ حضرت مفتی انوار الحق نوری، لیچی باغ، بریلی شریف ۔
بانی : شیخ شیر محمد اکیڈمی، بوہر، تیلتا ، کٹیہار بہار
وخطیب وامام، مسجد علی، بلگام کرناٹک
8618303831
یہ مضامین نئے پرانے مختلف قلم کاروں کے ہوتے ہیں۔
ان مضامین میں کسی بھی قسم کی غلطی سے ادارہ بری الذمہ ہے۔