اجمیرِ معلیٰ درگاہِ عالیہ غریب نواز بارگاہ معین الملۃ والدین والحق تمام ہندوستانی مسلمانوں کی راجدھانی ہے ۔ امرا وغربا علما مشائخ وزراء وحکمراں ،کون ہے جو وہاں سر کے بل حاضری نہیں دیتا ، شاہ وگدا سب دامن پسار کر جھولیاں پھیلا کر حاضر ہوتے ہیں اور من کی مرادیں پا کر واپس ہوتے ہیں ۔ روز بھیڑ لگی رہتی ہے۔ ہر چھٹی شریف کو تو اور مجمع ہوتا ہے۔ اسی اجمیر معلیٰ میں اعلیٰ حضرت کی حاضری کا تذکرہ ہے
اجمیر معلیٰ میں اعلیٰ حضرت
عرس پاک میں تو پورا ہندوستان امنڈ آتا ہے۔ غیر ملکی زائرین کی قطار لگی رہتی ہے۔ غریب نواز داتا ہین ہمارے۔ لجپال ہیں ہمارے، اجمیر دارالحکومت ہے۔ خواجہ شہنشاہ ہیں ہمارے، ہم منگتا ہیں، وہ دیالو ہین ہمارے، خواجہ خواجگان زندہ باد، سلطان ہندوستان زندہ باد ۔
حضرت خواجہ کی سرکار میں وقت کا مجدد بھی حاضر ہوتا ہے اور جان و دل کا نذرانہ لیے حاضری دیتا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے خواب میں حاضری دی ہے۔ درد چشم کافور ہوا ہے۔ بیداری میں کم از کم دو بار حاضر ہوئے ہیں۔ اور خواجہ کی چوکھٹ چوم کر اپنی قسمت چمکائی ہے۔
ذرا دیکھیے وقت کا مجدد کیسا فدائی ہے ، کیسا شیدائی ہے اور وارفتہ ہے۔ مجدد اعظم کی یہ وارفتگی، وابستگی، ربودگی،فتادگی، فنائیت، فدائیت سب کے لیے سزاوارِ تقلید ہے۔
اعلیٰ حضرت بریلی شریف سے چلتے ہین ،سلطان المشائخ محبوب الٰہی کے بافیض آستانے پر حاضری دیتے دیتے ہیں۔ اور کیا فرماتے ہیں ۔
اما بعد ! گدائے سرکار غوثیہ، سگ کوئے قادریہ عبد المصطفیٰ احمد رضا محمدی سنی حنفی قادری برکاتی بریلوی( اللہ اس کا حشر سگانِ مولیٰ میں فرمائے)عرض پرداز ہے کہ فقیر نے ماہ مبارک ربیع الآخر 1303ھ میں سراپا طہارت، حضور پرنور،صاحب فضلِ بلند سلطان المشائخ محبوب الٰٗہی علیہ الرضوان کی زیارت کے قصد سے بریلی سے شد حال سفر کرکے بارگاہِ غیاث پور کی خاک بوسی کی، تین دن کے بعد وہاں سے آکر شاہ جہاں آباد دہلی میں قیام کا عزم کیا۔(قصیدہ اکسیر اعظم مع ترجمہ۔طبع بمبئی۔)۔
اب دیکھیے درد دل دوائے چشم کیسے ہوتی ہے۔ خوب صورت خواب اور اس کی تعبیر اعلیٰ حضرت سے سنیئے رقم طراز ہیں۔
اس سے دو سال قبل میری داہنی آنکھ میں کثرت مطالعہ کے باعث کچھ ظعف آگیا تھا ، دل نے کہا آنکھ کی شفا و صفا کی امید پر دل کا مشورہ قبول کر لیا ۔ لیکن چالیس دن تک پہاڑ کھودا، سوکھی گھاس بھی ہاتھ نہ آئی۔( کوئی چوہیا بھی نہ ملی)۔ سلطان المشائخ کے فضل راسخ کی جانب توجہ کی۔ از راہِ محبت و شوق حضرت کی مدح میں چند اشعار لکھے۔ رات کے وقت جب سر تکیے سے لگایا۔ اب خواب مجھے کس دروازے سے اور کس بارگاہ میں لے گیا،(اب سنیئے)۔
ایک رنگین جنت نشان مقام ہے جس کے جنوب میں مسجد ہے اور شمال میں ایک درگاہ ہے بخت رسا کے ہمراہ جب وہاں پہنچا، تو اس احاطے میں رین تربتین نظر آئیں۔ قبلی کی جانب حضرت کا رساز خواجہ غریب نواز، سلطان الھند، وارث نبی قدس سرہ العلیٰ کا مزار با امتیاز ہے۔
اسی کے پیچھے ایک ہاتھ کے فاصلے پر ایک ایسے چاند کی منزل ہے جس کی تابند سورج کی طرح ہے جیسے آفتاب اور وقتِ چاشت اور چاند جب سورج کی پیچھے آئے، یعنی درجات بخشنے والے صاحب برکات سیدنا برکت اللہ مارہروی روح روحہ المک القری کا مخزن برکات مرقد مبارک ہے۔اس کی پشت پر ایک اور قبر ہے جسے میں پہچان نہ سکا ۔ سرِ عقیدت کو قدم بنایا جب پہچنے کے قریب ہوا تو دیکھا کہ پہلے خواجہ پاک کا مزار ہے مین پائتانے بیٹھ گیا۔
اب دیکھتا ہوں کہ مرقد کا بالائی حصہ چاک ہوتا ہے اور حضرت خواجہ کے اوپر قبلہ رو آرام فرما ہیں، چشم مبارک کھلی ہوئی ہے ،قوی،تناور،دراز قامت، شخصیت ہے۔ رنگ سرخ ہے ساتھ ہی ایک دبدبہ اور شوکت دلیری بھی عیاں ہے۔
آنکھیں کشادہ، داڑھی کے بال سیاہ وسفید، عیب سے دور، محاسن سے بھر پور ذات مبارک ہے۔ بے خود ہو کر دوڑا اور اپنے آپ سے بڑھ گیا۔ وہ خاک پاک ، جو مزار کے چاک ہونے سے بر آمد ہوئی تھی، چہرے اور آنکھ پر لگائی، پھر کیا تھا اپنی خوش قسمتی پر ناز کرنے لگا ور سورہ کہف کی تلاوت پر ترش رو ہوگئے کہ نماز کا وقت ہے اور اس سخص نے تلاوت کا باب کھول دیا۔
میں نے اپنے دل میں کہا، سبحان اللہ! ایک بندہ ایک خواجہ کے سامنے تلاوت میں مصروف ہے۔ ان کے دل پر کیوں گراں گزر رہا ہے۔ اس خیال کا دل میں آنا تھا کی خواجہ قدس سرہ کے لب اقدس پر تبسم کی شیرنی نمایاں ہو جاتی ہے۔ گویا مجھے اشارہ فرمارہے ہیں کی انہیں چھوڑدو، تم پڑھو اور خبرادار! اے فقیر! ان کی بات کا خیال نہ کرنا اس التفات کی تلاوت نے میرے دل سے ان ترشرو بول کی تلخی مٹادی۔
اب مجھے یا د نہیں کہ ربنا آتنا لدنک رحمۃ و ھئی لنا من امرنا رشدا سورہ کہف آیت نمبر 10 تک پہنچا تھا یا ینشر لکم ربکم من رحمتہ ویھئی لکم امرکم مرفقا۔ تک کہ میری آنکھ کھل گئی اور وہ باب بند ہوگیا ۔
بحمد للہ ادھر یہ خواب دیکھا اور ادھر مرض میں نمایاں تخفیف ہوئی، میں نے کہا ا س پاک تربت کی خاک ملنے کی برکت ہے اور خواجہ کی یہ بندہ نوازی حضرت ٘حبوب الٰہی کی مدحت کی بدولت ہے۔ میرا دل جوش میں آیا اور صدا لگائی کہ اے شخص ! تو نے آنکھ سے دیکھ لیا اور آنکھ پر آزما لیا ،تو کوئی پتھر ہی ہوگا اگر اب بھی تیرے یقین میں اضافہ نہ ہوا؟۔ (قصیدہ اکسیر اعظم مع رتجمہ، طبع ممبئی)۔
یہ خواب تھا اس کی تعبیر تھی اب حالت بیداری میں آئیے۔ اعلیٰ حضرت ثانی سفر حرمین شریفین سے واپس ممبئی تشریف لائے شاہ عبد السلام جبل پوری نے جبل پور جانے کی گزارش کی ، تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا، برہان ملت مفتی برہان الحق رضوی لکھتے ہیں ۔
۔” والد (شاہ عبد السلام) نے جبل پور تشریف لے جانے کے لیے عرض کیا تو (اعلیٰ حضرت) نے فرمایا۔ ابھی تو اجمیر شریف حاجری دیتا ہوں بریلی شریف جاؤں گا ، ان شاء اللہ پھر کبھی جبل پور آؤں گا”۔ (اکرام امام احمد رضا)۔
سید شاہ حسین علی وکیل جاورہ درگاہ خواجہ اجمیر شریف تحریر فرماتے ہیں۔” میرے پیر و مرشد مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت فاضل ہندوستان مولانا احمد رضا خاں قدس سرہ العزیز بھی دو بار دربار خواجہ غریب نواز میں حاضر ہوئے ہیں ۔ دوسری حاضری اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ آپ 1325ھ میں حج قوزیارت کی سعادت حصل کرکے جب ساحل ہندوستان اترے ،تو آپ کے فدائی مختلف بلاد وامصار سے آپ کو لینے کے لیے بمبئی پہنچ گئے تھے۔
علاوہ وطن کے اور بھی کئی جگہ سے تار دیے گئے تھے۔ کہ آپ ہمارے وطن کو اپنے قدم والا سے منور فرمادیں ۔آپ نے کسی کی نہ سنی۔آپ سیدھے غریب نواز کے آستانہ پر حاضر ہوئے اور خواجہ عالم ﷺ کی دربار کی حاضری کے بعد آپ نے ان کے شہزادے حضرت خواجہ ہند کے دربار میں حاضری دی۔
یہ حضری ایسی عقیدت و محبت کی حامل تھی کہ ہم خدام آستانہ اور تمام مسلمانان اجمیر کے دلوں پر نقش ہو کر رہ گئی۔ آج تک ہم خدام میں اس حاضری کے چرچے ہوتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ جب اعلیٰ حضرت فاضل ہندوستان کا صفر 1340ھ میں وصال ہوا اور آستانہ پر ان کے وصال کی خبر پہنچی، تو اجمیر کےسارے مسلمانوں نے کافی تعداد مین جمع ہوکر قرآم اور کلمہ طیبہ سے ایصال ثواب کیا اور اس کے بعد جید علماء و مقررین نے انکے زریں کارنامے حاضرین کے سامنے پیش کیے اور دنیائے اجمیر کو یہ بتایا کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی علمی فوقیت کو آج دنیائے اسلام مانتی ہے۔
علماے عرب وعجم ان کو اس صدی کا مجدد اور تمام علوم فنون کا ماہر اور یگانہ روزگار مانے ہوئے ہیں ان ک اشعبہ حیات اتباع سنت کی وجہ سے اسلامی زندگی کا ایک بہترین نمونہ ہے اور ان کے مذہبی رسائل اور کتابیں عقائد و اعمال کا قولِ فیصل اور شریعتِ مطہرہ کا اس دور مین آخری فتویی ہیں۔
غرض اس موقع پر مسلمانانِ اجمیر اور دیگر زائرین نے بڑی عقیدت مندی کا اظہار کیا جو ایک زمانہ تک یادگار رہے گا”۔ (دربار چشت اجمیر)۔
مولانا الحاج سید شاہ فرقان علی رضوی چشتی گدی نشین آستانہ عالیہ اجمیر شریف لکھتے ہیں۔
” اعلیٰ حضرت جب زیارت حرمین شریفین سے ہندوستان واپس تشریف لائے تو بمبئی کی بندرگاہ سے سیدھے اجمیر شریف خواجہ ہند کی بارگاہ میں حاضری دینے آئے۔ وابستگان و اہل عقیدت کا ایک گھر کو ان کے وجود سے مشرف کرنے کی سعادت حاصل کرنے کا اصرار کرتا رہ گیا۔ مگر آپ سارے عقیدت مندوں کی عقیدت پر حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ اپنی عقیدت و شیفتگی کو ترجیح دی۔ چنانچہ وہاں کے عقیدت گزار وگدی نشین سید حسین علی رضوی اجمیری وکیل جاورہ، جو اعلیی حضرت کے وکیل، دعا گو ومرید خاص تھے۔
انہوں نے اپنی مرتبہ کتاب ،دربار چشت کے صفحہ 10 پر لکھا ہے کہ یہ حاضری ایسی عقیدت و محبت کی حامل تھی کہ ہم خدامِ آستانہ اور تمام مسلمانِ اجمیر کے دلوں پر نقش کر گئی”۔ (ماہنامہ سنی دنیا دسمبر 2008)۔
رضویات کے دیرینہ خدمت گار ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی نے لکھا ہے۔
” امام احمد رضا 1904ء میں اپنے دوسرے حج و زیارت سے واپسی پر احمد آباد اور نو ساری (سورت صوبہ گجرات) کا سفر کرتے ہوئے اجمیر شریف پہنچکر بارگاہِ خواجہ میں حاضر ہوئے۔ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ العزیز نے سرکار خواجہ غریب نواز اجمیری رضی اللہ تعالیٰ کے مزار مبارک کی حاضری دی۔ انہیں حضرت خواجہ سے بڑی عقیدت و محبت تھی۔ وہ سرکار خواجہ کے فیوض و برکات، اختیارات و تصرفات اور کرامات بیان کرکے ان کی عظمت و بزرگی ظاہر کرتے ہیں۔ مزار خواجہ کو مقامات اجابت میں شمار کرتے ہیں۔ انہیں سلطان الہند اور غریب نواز مانتے ہیں”۔( ماہنامہ جہان رضا لاہور)۔
شیداے اعلیٰ حضرت علامہ سید حسینی ناگور لکھتے ہیں۔
” اعلیٰ حضرت بریلوی کے قیام اجمیر مقدس کے دوران جمعہ مباکہ پڑا۔ اعلان ہوا کہ مجددِ دین وملت اعلیی حضرت بریلوی درگاہِ معلیٰ اجمیر مقدس میں مسجد شاہ جہانی کے اندر قبل جمعہ حضرت خواجہ ہندوستان کی شانِ ولایت پر بیان فرمائیں گے۔ اس جمعہ کو کئی گھنٹہ پہلے ہی نمازیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہاں تک کہ مسجد عظمیٰ پوری بھر گئی اور آس پاس کی خالی جگہیں بھی بھر گئیں۔
اعلیٰ حضرت کا حسب اعلان قبل جمعہ خواجہ پاک کی عطمت پر وعط شروع ہوا وعظ اتنا بصیرت افروز پر مغز تھا کہ حاضرین جھوم اٹھے۔ انہیں میں شہنشاہِ دکن میر عثمان علی صاحب نظام سابع حیدرآباد بھی موجود تھے۔ وہ اعلیٰ حضرت کا بیان دل آفریں سن کر مچل اٹھے۔
کافی تاخیر سے جمعہ ہوا۔ اعلان ہوا کہ باقی بیان بعد نماز عشا اسی مسجد شاہ جہانی میں ہوگا۔ لوگ خوشی سے جھوم اٹھے۔ چنانچہ بعد نماز عشا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ نے بیان شروع فرمایا۔ رات کا کافی حصہ گزر گیا۔ مجمع کے اندر نظام حیدر آباد بھی بیٹھے سنتے رہے۔
چوں کہ نظام حیدر آباد حضرت سیدنا خواجہ پاک کے بہت زیادہ معتقد تھے۔ عرس مقدس میں شریک ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ سال میں کئی بار اجمیر شریف حاضر ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی عقیدت کی یادگار درگاہِ معلیٰ میں “نظام گیٹ” کی صورت میں تعمیر کرکے ظاہر کیا جو آج بھی موجود ہے۔
نظام حیدرآباد اپنے مرکزِ عقیدت حضرت پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سلسلے میں اعلیٰ حضرت امام بریلوی قدس سرہ کے دلائل و براہین سے مزین بیان سن کر جھوم اٹھے اور اعلیٰ حضرت کے معتقد ہوگئے۔ وعظ کے بعد نظام حیدرآباد اعلیٰ حضرت امام بریلوی قدس سرہٗ کی قیام گاہ پر حاضر ہوئے۔ تمام حاضر باش لوگوں میں بلا امتیاز وہ خود بھی بیٹھ گئے۔ درمیان میں موقع پاکر نظام حیدر آباد نے اعلیٰ حضرت سے التجا کیا کہ حضور ! میں آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ اعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا: کہئیے، تو نظام حیدر آباد نے عرض کیا کہ حضور ! میری مملکت دکن میں کو اپنے وجود بافیض سے رونق بخشیئے، میں آپ کی خدمت میں مملکت کے صدور الصدور کا عہدہ جلیہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اعلیٰ حضرت قدس سرہ بالکل مظہرِ امام اعظم رضی اللہ عنہ تھے، آپ کے اتباع میں فرمایا کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں نظام سکتے میں رہ گئے، پھر تھوڑی دیر کے بعد یہی عرض کیا ، اعلیٰ حضرت نے یہی جواب دیا۔ اسی طرح تین مرتبہ کہا۔ اعلیٰ حضرت نے یہی جواب دیا۔ بادشاہوں کا مزاج پل پل میں بدلتا رہتاس ہے۔ کبھی سلام سے رنجیدہ ہوتے ہین اور کبھی گالی پر انعام دیتے ہیں۔
اسی شاہانہ مزاج سے متاثر ہو کر نطام حیدرآباد بھی متاثر ہوگئے۔ (ثنائے حضرت خواجہ بزبان امام احمد رضا ،از مفتی عابد حسین نوری، مطبوعہ رانچی ۲۰۱۳)۔
امام احمد رضا کا وصال ،بارگاہِ خواجہ میں فاتحہ سوم اور ایسال ثواب کا انعقاد ،مولانا سید شاہ غلام علی خادم آستانہ عالیہ اجمیر معلیٰ رقم طراز ہیں۔
۲۵ صفر ، مطابق ۲۸ اکتوبر یوم جمعہ (۱۳۴۰ھ ۱۹۲۱ء)۔ کو بوقت شب سید حسین علی صاحب ولد سید صدیق علی صاحب وکیل جناب نواب صاحب بہادر والی ریاست جاورہ درگاہ معلیٰ سرکار اعظم اجمیر شریف کے نام ایلک تار مرسلہ حضرت قبلہ مولانا مولوی شاہ محمد حامد رضا خاں صاحب بریلی سے آیا جس میں تحریر تھا کہ اعلیٰ حضرت قبلہ کا وصال ہوگیا۔
اس حادثہ ہوش ربا کو معلوم کرکے تمام مریدین و معتقدین کو جو اور جتنا رنج و الم ہوا، اس کا حال تو عالم الغیب ہی خوب جانتا ہے۔ اس حادثہ کی سب احباب کو اطلاع دی گئی اور سید حسین صاحب نے فاتحہ سوم کا نظام کیا اور اول بروز اتوار ۲۸ صفر کو آستانہ عالیہ حضور خواجۂ خواجگان سرکار خواجہ غریب نواز نواز رحمتہ اللہ علیہ کے دروازۂ جنوب، واقع دالان نواب ارکاٹ بعد نماز صبح قرآن خوانی ہوئی۔
جس میں صاحب زادگان و چند مدرسین و طلبہ مدرسہ معینیہ عثمانیہ و مدرسین معینیہ اسلامی ہائی اسکول شریک رہے۔ اس کے بعد ڈھائی بجے موافق قاعدۂ صاحبزادگان درگاہِ معلیٰ فاتحہ سوم کے واسطے شرقی دروازہ درگاہِ معلیٰ میں آکر ختم کیا گیا۔
اس وقت صاحبانِ مذکورہ کے حضرت جناب سید نثار احمد صاحب متولی درگاہ اور چند اشخاص مدرسہ حنفیہ صوفیہ ویتامیٰ اجمیر شریف بہ تعداد کثیر شریک تھے۔ بعد ختم تبرک تقسیم ہو ا۔ اور اس طرح اعلیٰ حضرت مجدد ماتۂ حاضرہ مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب قبلہ رحمتہ اللہ علیہ کی فاتحۂ سوم سرکار اعظم شریف میں کی گئی۔( ہفت روزہ دبدبہ سکندری رام پور ۱۹۲۱ء)۔
علامہ نور احمد قادری (اسلام آباد ) اپنے دادا حاجی عبد النبی قاددری رضوی متوفی۱۹۴۹) کی زبانی سنا ہوا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں ۔ یہ راوی حاجی عبد النبی قادری رضوی امام احمد رضا بریلوی کے مرید تھے اور یہ واقعہ امام احمد رضا بریلوی کے آخری ایام حیات کا ہے ۔ علامہ نور احمد قادری لکھتے ہیں ۔
“ہوا یوں تھا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کا سلطان الہند خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری کی خانقاہ میں عرسِ غریب نواز کے موقع پر وعظ ہو اکرتا تھا اور اس وعظ کا اہتمام خود خانقاہ شریف کے دیوان صاحب کیا کرتے تھے۔ جس میں علما و فضلا اور دور دور سے آکر وعظ سننے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔
بعض دفعہ دکن کے حکمراں نظام دکن میر محبوب علی خاں اور میر عثمان علی خاں بھی اس وعظ میں شریک ہوتے رہے، اعلیٰ حضرت کا وعظ سننے کے لیے بے شمار خلقت وہاں ہوا کرتی۔
اس مرتبہ جب اعلیی حضرت بریلی شریف سے اجمیر شریف عرسِ خواجہ غریب نواز میں حاضری کے لیے جانے لگے، تو ان کے ہمراہ دس گیارہ ان کے مریدین بھی تھے، انہیں میں ایک راقم الحروف کے استاذ محترم مولانا شاہ عبد الرحمٰن قادری بھی تھے۔ جو اعلیٰ حضرت کے شاگرد بھی تھے اور خلیفہ بھی اور دوسرے خود راقم الحروف کے دادا محترم حاجی عبد النبی قادری تھے، بقیہ اور حضرات تھے۔
دہلی سے اجمیر شریف تک جانے کے لیے” بی بی اینڈ سی آئی آر” ریل چلا کرتی تھی، جب یہ ریل گاڑی “پھلیرہ جنکشن” پر پہنچی تو قریب قریب مغریب کا وقت ہوجاتا تھا پھلیرہ اس دور کا بہت بڑا ریلوے جنکشن ہواکرتا تھا جہاں سانبھر،جودھ پور اور بیکانیر سے آنے والی گاڑی کا بھی کراس ہوا کرتا تھا۔
ان تمام دوسری لائینوں سے آنے والے ،سافر اجمیر شریف جانے کے لیے اسی میل گاڑی کو پکڑتے تھےن اس لیے یہ میل گاڑی پھلیرہ اسٹیشن پر تقریبا منٹ ٹھہرا کرتی تھی، خود راقم الحروف نے بھی اس پارٹیشن (۱۹۴۷ء) سے قبل کے اجمیر شریف حاضری دینے کے لیے اسی گاڑی سے کئی بار سفر کیا اور پھلیرہ جنکشن کا حال دیکھا۔
اجمیر شریف درگاہ کا نقشہ اور دیگر ضروریات کی چیزیں آن لائن منگواسکتتے ہیں ابھی آڈر کریں
بہر کیف! جب اعلیٰ حضرت سفر کر رہے تھے، تو پھلیرہ جنکشن پر پہنچتے ہی مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا، اعلیٰ حضرت نے اپنے ساتھ والے مریدین سے فرمایا کہ نماز مغرب کے لیے جماعت پلیٹ فارم ہی کر لی جائے، چنانچہ چادریاں بچھا دی گئی اور لوگوں میں سے جن کا وضو نہ تھا انہوں نے تازہ وضو کرلیا۔
اعلیٰ حضرت ہر وقت با وضو رہتے، چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ میرا وضو ہے اور امامت کے لیے آگے بڑھے اور پھر فرمایا کی آپ سب لوگ پورے اطمینان کے ساتھ نماز ادا کریں ،ان شاء اللہ گاڑی ہرگز اس وقت تک نہ جائے گی، جب تک کہ ہم لوگ نماز پورے طور سے ادا نہیں کر لیتے ہیں ۔آپ لوگ قطعا اس بات کی فکر نہ کریں اور پوری یکسوئی کے ساتھ نماز ادا کریں ۔
یہ فرما کر اعلیٰ حضرت نے امامت کرتے ہوئے نماز پڑھنا شروع کردی۔ مغرب کے فرض کی جب ایک رکعت ختم کر چکے تو ایک دم گاڑی نے سٹی دے دی پلیٹ فارم پر دیگر بکھرے ہوئے مسافر تیزی کے ساتھ اپنی اپنی سیٹوں پر گاڑی میں سوار ہوگئے۔
مگر آپ کے پیچھے نمازیوں کی یہ جماعت پورے استغراق کے ساتھ نماز میں اسی طرح برابر مشغول رہی دوسری رکعت مغرب کے فرض کی ہورہی تھی کہ گاڑی نے اب تیسری اور آخری وِہسل بھی دے دی، مگر ہوا کیا کہ ریل انجن آگے کو نہ سرکتا تھا۔ میل گاڑی تھی کوئی معمولی پسنجر غاڑی نہ تھی س لیے ڈرائیور اور گارڈ سب پریشان ہوگئے کہ آخر یہ ہوا کیا کہ گاڑی آگے نہیں جاتی؟۔
کسی کی سمجھ میں نہیں آیا انجن کو ٹیسٹ کرنے کے لیے ڈرائیور نے گاڑی کو پیچھے کی طرف ڈھکیلا تو گاڑی پیچھے کی سمت چلنے لگی انجن ٹھیک تھا مگر جب ڈرائیور اسی انجن کو آگے کی طرف ڈھکیلتا تو انجن رک جاتا تھا۔
آخر اتنے میں اسٹیشن ماسٹر جو انگریز تھا اپنے کمرے سے نکل کر پلیٹ فارم پر آیا اور اس نےڈرائیور سے کہا کہ انجن کو گاڑی سے کاٹ کردیکھو آیا چلتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا انجن کو گاڑی سے کاٹ کر چلایا تو بخوبی پوری رفتار سے چلا کوئی بھی خرابی اس میں ںظر نہ آئی مگر جب ریل کے ڈبوں کے ساتھ جوڑ کر اسی انجن کو چلایا گیا تو وہ پھر اسی طرح جام ہوگیا اور ایک انچ بھی آگے کو نہ چلا ریل کا ڈرائیور اور سب لوگ بڑے حیران و پریشان کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے کہ انجن ریل کے ساتھ جڑ کر آگے کو نہیں جاتا؟۔
اسٹیشن ماسٹر نے گارڈ سے پوچھا جو نمازیوں کے قریب ہی تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ انجن الگ کرو تو چلنے لگتا ہے اور ڈبوں کے ساتھ جوڑو تو بالکل پٹری پر جام ہو کر رہ جاتا ہےؕ۔
وہ گارڈ مسلمان تھا اس کے ذہن میں بات آگئی اس نے اسٹیشن ماسٹر کو بتایا کہ سمجھ میں یہ آتا ہے یہ بزرگ جو نماز پڑھا رہے ہیں کوئی بہت بڑے ولی اللہ معلوم ہوتے ہیں یقینا اس کے علاوہ اور کوئی ٹیکنیکل وجہ نہیں ۔
اب جب تک کہ یہ بزرگ اورا ن کی جماعت نماز ادا نہیں کرلیتے یہ گاڑی مشکل ہے کہ چلے یہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ان ولی اللہ کی کرامت معلوم ہوتی ہے ، بس اب ان کے نماز ادا کرنے تک تو انتظار ہی کرنا پڑے گا۔
اسٹیشن ماسٹر کو یہ بات سمجھ میں آگئی اور وہ کہنے لگے کہ بلا شبہ یہی بات معلوم ہوتی ہے، چنانچہ وہ نمازیوں کی جماعت کے قریب آکر کھڑا ہوگیا، نماز میں اعلیٰ حضرت کا اور ان کے مریدین کا اس قدر استغراق عبادت اور خشوع وخضوع کا یہ روح پرور منظر دیکھ کر وہ بے حدمتاثر ہوا انگریزی اس کی مادری زبان تھی مگر وہ اردو اور فارسی کا بھی ماہر تھا اور بے تکلف اردو میں کلام کرتا تھا گارڈ کے ساتھ اس کی یہ ساری گفتگو اردو ہی میں تھی۔
غرض اعلیٰ حضرت عظیم البرکت نے سلام پھیرا اور بآواز بلند درود شریف پڑھ کر دعا مانگنے میں مصروف ہوگئے، جب یہ دعا سے فارغ ہوئے تو آگے بڑھ کر نہایت ادب کے ساتھ اسٹیشن ماسٹر انگریز نے اردو ہی میں عرض کیا کہ: حضرت! ذرا جلدی فرمائیں یہ گاڑی آپ ہی کی مصروفیت عبادت کے سبب چل نہیں رہی ہے۔
اعلیٰ حضرت نے فرمایاکہ: بس ابھی نماز پڑھ کر ہم لوگ تھوڑی دیر میں فارغ ہوں گے اور ان شاء اللہ پھر گاڑی چلے گی، آپ جانتے ہیں کہ یہ نماز کا وقت ہے کوئی بھی سچا مسلمان نماز قضا نہیں کرسکتا، نماز ہر مسلمان پر فرض ہے فرض کو کیسے چھوڑا جائے؟۔
گاڑیی ان شاء اللہ نہیں جائے گی، جب تکک ہم لوگ اطمینان کے ساتھ نماز ادا نہیں کر لیتے۔ اسٹیششن ماسٹر پر اسلام کی ہیبت طاری ہوگئی اعلیٰ حضرت اور ان کے مریدین نے سکون کے ساتھ جب نماز پورے طور پر ادا کر لی اور دعا پرھ کر فارغ ہوئے تو اعلیٰ حضرت نے پااس ہی کھڑے ہوئے انگریز اسٹیشن ماسٹر سے فرمایا کہ :ان شاء اللہ اب گاری چلے گی ہم سب لوگ نماز سے فارغ ہوگئے۔ یہ کہا اور مع اپنے سب ہمرائیوں کے گاڑی مین بیٹھ گئے گاڑی نے سیٹی دی اور چلنے لگی اسٹیشن ماسٹر نے اپنے انداز میں سلام کیا اور آداب بجا لایا مگر واقعۂ کرامت کا اس کے ذہن و دل پر بڑا اثر پڑا۔
بہر کیف! گاڑی کے ساتھ اعلیٰ حضرت اورا ن کے یہ چند مریدین اجمیر شریف روانہ ہوگئے مگر اسٹیشن ماسٹر سوچ میں پڑ گیا رات بھر وہ اسی غور وفکر میں رہا اس کو نین نہین آئی صبح اٹھا توچارج اپنے ڈپٹی کے حوالے کرکے اپنے افرادِ خاندان کے ساٹھ حاضری کے لیے اجمیر شریف کو چل پڑا تاکہ واہں درگاہِ خواجہ گریب نواز میں حاضر ہو کر اعلیٰ حضرت کے دستِ پاک پر اسلام قبول کرے۔
جب اجمیر شریف پہنچا تو دیکھا کہ درگاہ شریف کی شاہجہانی مسجد میں اعلیٰ حضرت کا ایمان افروز وعظ ہو رہا ہے وہ وعظ میں شریک ہوا بیان سنا اور جب وعظ ختم ہوا۔ قریب پہنچ کر اس نے اعلیٰ حضرت کے ہاتھ چوم لیے اور عرض کیا کہ : جب سے ااپ پھلیرہ اسٹیشن سے ادھر روانہ ہوئے ہیں میں اس قدر بے چین ہوں کہ مجھے سکون نہیں آتا ۔
آخر اپنے افرادِ خاندان کے ہمراہ یہاں حاضر ہوگیا ہوں اور آپ کے دست مبارک پر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں آپ کی یہ روحانی کرامت دیکھ کر مجھے اسلام کی آسمانی صداقت کا یقین کامل ہوگیا ہے اور مجھے پتہ چل گیا ہے کہ بس اسلام ہی خدائے تعالیٰ کا سچا دین ہے۔
چناں چہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے ہزاروں زائرین دربار خواجہ گریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے اس انگریز کو اور اس کے نو افرادِ خاندان کو وہیں کلمہ پڑھایا اور مسلمان کیا اور کود اس اسلامی نام بھی غوث پاک کے نام پر عبد القادر رکھا، اس کا انگریزی نام رابرٹ تھا اور وہ رابٹ صاحب کے نام سے مشہور تھا آپ نے اس کو مسلمان کرنے کے بعد سلسلۂ قادریہ میں اپنا مرید بھی کیا اور یہ ہدایت فرمائی کہ ۔
” ہمیشہ اتباع سنت کا خیال رکھنا نماز کسی بھی وقت نہ چھوڑنا ،نماز روزہ کی پابندی بہت ضروری ہے اور جب موقع ملے تو حج پہ بھی ضرور جانا اور زکوٰۃ ادا کرنا اورہمیشہ خدمتِ دین کا خیال رکھنا اس لیے کہ اسلام کا پھیلانا بھی قراان پاک نے ہر مسلمان کے لیے ضروریقرار دیا ہے۔
اب اپنے وطن بھی جاؤ تو وہاں بھی دین کو پھیلانے کی خدمت انجام دینا۔ یہ بہت بڑی سعادت ہے اب خود بھی قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرو اور اپنے تمام افراِ خاندان کو بھی تعلیم دلواؤ۔
غرض آپ نے اسلام اس کے دل مین اتار دیا اور اپنی عارفانہ جنبشِ نگاہ سے اس کے شیشۂ دل کو عشق رسول پاک ﷺ کے عطر سے بھر کر اس کی روح تک مہکا دیا۔ وہ اسلام کا شیدا و وارفتہ ہوگیا۔
اس انگریز کے قبولِ اسلام کا یہ واقعہ اس وقت کا ایک اہم واقعہ تھا اس لیے کہ یہ انگریز کوئی معمولی درجہ کا انگریز نہ تھا بلکہ ایسے گھرانے کا فرد تھا جس کے بہت سے افراد ہندوستان میں اور اسی طرح انگلستان میں مناسب جلیلہ پر فائز تھے۔
اہل علم اور باقار لوگ تھے اور عیسائی مشن کی بڑی سرپرستی کیا کرتے تھے، اس انگریز کے مع افرادِ خاندان مسلام ہو جانے کے اس واقعہ سے عیسائی مشنریوں کے جرگہ میں ہل چل پڑ گئی۔ یعنی گورے گھبرا گئے ان کے پادری بوکھلا گئے یہ کیا کم انقلابی واقعہ تھا؟۔
پھر اس نو مسلم ان گریز نے جیسا کہ بزرگوں نے بتا یا زندگی بھر اسلام کی بڑی خدمت کی ۔ وہ قرآن کریم ختم کرنے کے بعد ہندوستان سے وظن واپس لوٹ گیا اور وہاں جا کر اسلام کی خدمت کے لیے وقف پوگیا۔
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ کی روحانی کرامت اور عارفانہ جنبشِ نگاہ نے اس کی ساری کایا پلٹ دی۔ منزل پر پہنچا دیا اور اس کو ملتِ اسلامیہ کا مستحکم ستون بنادیا “۔
اللہ رب العالمین ان بزرگان دین کا صدقہ عطا فرمائے اور ہمیں بھی دین اسلام کو پھیلانے اور اتباع رسول ﷺ میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسین ﷺ ۔
( سالنامہ معارف رضا۔۔: کراچی مظبوعہ 1404ھ ۔۔۔1983 ص 157 تا 161 ، ادارہ تحقیقات امام احمد رضا ، کراچی)
ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی پورنوی
(بحوالہ۔۔۔ماہنامہ سنی دعوتِ اسلامی ممبئی۔۔ جولائی 2014)