Thursday, November 14, 2024
Homeحالات حاضرہجمہوریت اور بدلتا ہندوستان

جمہوریت اور بدلتا ہندوستان

جمہوریت اور بدلتا ہندوستان

ہندوستان کی تاریخ میں26 جنوری کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ 1950 کے اسی 26 جنوری کے دن ہندوستان بطور ایک جمہوری ملک کے معرض وجود میں آیا تھا ۔ اسی مناسب سے ہر سال26 جنوری کو ” یوم جمہوریت” منا کر شہدان وطن اور دستور ہند کے مرتبین کو خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے۔ اس قومی جشن میں سبھی مذہب کے لوگ پورے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیتے ہیں۔ ہندوستا جیسے مختلف مذاہب، متعدد رنگ و نسل اور بے شمار زبان و قومیت والے ملک کے لیے جمہوریت ہی سب سے موزوں حکومت ہے ۔

یہاں کی گنگا جمنی تہذیب، دوستی ، محبت ، مسادات ،تحمل اور اخو ت اس ملک کی قدیم شناخت ہے۔ہمارے دستور نے ہندوستان کو ایک سیکولرملک قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا، نہ مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک کیا جائے گا اور ہرشہری کو مساوی انسانی حقوق حاصل ہوں گے ۔ جمہوریت کو انگریزی میں ڈیمو کر یسی کہتے ہیں۔ جس کا مطلب عوام کی حکومت، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لیےہے ۔

جمہوریت میں اقتدارکا حقیقی سر چشمہ عوام ہوتے ہیں ، جمہوریت میں عوام ہی اپنی مرضی کے حکمراں منتخب کرتے ہیں اور یہ حکمراں ان کے توقعات پر پورے نہ اترنے سے اگلے انتخابات میں حکومت سے باہر بھی ہو جاتے ہیں۔ امن و شانتی ، خوش حالی، آزادی، یکجہتی اور آپسی بھائی چارہ کو قائم رکھنے کے لیے جمہوریت سب سے پائیدار ذریعہ ہے ۔ جمہوریت کی اصل روح عوام کی بنیادی ضروریات کو پور ے کرنے اور ایک آزاد، منصفانہ اور نفرت و تفریق سے پاک معاشرہ کے قیام کو یقینی بنانا ہے۔

مضبوط ملک اور مضبوط جمہو ریت کے درمیان لازم وملزوم کا رشتہ ہے ، اسی لیے آج دنیا کے اکثر ملکوں میں اپنی سلامتی اور ترقی کو یقینی بنائےرکھنے کے لیے جمہوری حکومت پر عمل درآمد ہے۔ آزادی ایک ایسی عظیم نعمت اور قدرت کا ایسا انمول تحفہ ہے جسے دنیا کا ہر شخص سراہتا ہے۔

اس کے بر عکس غلامی ایک ایسا عذاب اور فطری برائی ہے جس کی خواہش وحمایت دنیا کا کوئی عقل مند نہیں کر سکتا ۔ شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ اجتماعی، قومی اور مذہبی آزادی بھی یکساں اہمیت کی حامل ہے ۔ جمہوری ملکوں میں ان آزادیوں کی حفاظت دستور کی سب سے بڑی اور اولین ذمہ داری مانی جاتی ہے۔

جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ وہ شہری و سیاسی اور انسانی حقوق کی پاسداری کرے ، متوازن معاشرہ تشکیل دے ،ملک میں برائی و بے چینی پھیلنے سے روکے، شہریوں کے درمیاں اتحاد و بھائی چارہ کو مضبوط بنائے ، سب کے ساتھ انصاف کیا جائے ، کسی پر ظلم نہ ہونے پائے ، یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کی جائے ، اقلیتوں پر اکثریت ظلم نہ کر سکیں ، کسی کی عبادت، ان کے رہن سہن اور کھان پان پر کسی کو اعتراض کا حق حاصل نہ ہو، ان کے خلاف بغض ، نفرت ، تنگ نظری اور منفی جذبات و خیالات کا قلع قمع کیا جائے ، بے سہاروں ، کسانوں، کمزوروں اور مزدوروں کے حقوق کوئی غصب نہ کر سکے ، پسماندہ طبقات کو خاص حقوق و مراعات دی جائیں اور ان کی ترقی کو یقینی بنایا جائے ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس ملک کے سارے شہریوں کی جان ومال اور عزت و آبرو کا تحفظ یقینی ہو ، کوئی کسی سے ڈرا سہما ہوا محسوس نہ کرے وغیرہ ۔

اگر جمہوریت اپنی ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کامیاب ہے تو اس کو ایک اچھی اور کا میاب جمہو ریت کہا جا سکتا ورنہ جمہوریت کے پر دے میں کچھ اور۔۔۔ اگر اس زاویہ سے ہندوستان کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو کسی بھی انصاف پسند شخص کے لیے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ہو گا کہ بدقسمتی سے بھارت بھی دنیا کی کمزور ہوتی جمہوریتوں میں شامل ہونے لگا ہے ۔ بلکہ بھارت میں جمہوری تنزلی حیران کن حد تک پہنچ چکی ہے ۔

یہ تنزلی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکہ میں قائم ایک ادارے ” فریڈم ہاؤس” نے بھارت کو آزاد جمہوریت سے جزوی طور پر آزاد اور خارج قرار دے دیا ہے ۔ کیوں کہ آئے دن سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں یہ خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ کہیں اقلیتوں پر اکثریتی طبقہ نے یہ ظلم ڈھایا، کہیں بے چارہ مسلمانوں کو نہایت درندگی اور بربریت کے ساتھ پیٹ ہیٹ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔

کسانوں اور مزدوروں کے حقوق غصب کر لیے گئے ،تو بے گناہوں پر لاٹھیا ں اور گولیاں چلائی گئیں۔ کبھی غیر آئینی کالے قانون لائے جارہے ہیں ، تو کبھی اقلیتوں کے عبادت خانوں اور ان کے مذہبی پیشواؤں پر حملے اور ظلم وستم کی حکومتی ارباب حمایت کرتے نظر آتے ہیں ۔ کہیں تعلیم و تربیت کا بحران ہے تو کہیں اپنے ہی ملک کے وفادار شہریوں کو ملک بدر کرنے کے نعرے گونجتے ہیں ۔ پسماندہ طبقات اپنے حقوق کی باز با بی کے لیے لڑائی لڑ رہے ہیں ، تو اقلیتی طبقوں کو اپنی جان ومال کے تحفظ کاخوف کھایا جارہا ہے ۔

الغرض اس وقت پورا ملک حیران و پریشان ہے، ایک عجیب کشمکش اور خوف کا ماحول طاری ہے ۔ اپنے ہی ملک میں ایک خاص طبقے کے لوگ اپنے آپ کو محفوظ نہیں محسوس کرپا رہے ہیں ۔ اور یہ بدامنی اور بے چینی روز بروز بڑھتی جار ہا ہے۔ لیکن یادرہے کہ ہمارے آباو اجداد نے اس ملک کی آزادی اور اس کی جمہوریت کے لیے پانی کی طرح خون بہایا ہے ۔

ان کی بے شمار قر بانیوں کے بعد یہ خوب صورت ملک معرض وجود میں آیا ہے۔ اس لیے حالات چاہیے کتنے ہی سنگین اور مخالف کیوں نہ ہوں ، ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے نہیں رہنا ہے ، بلکہ ہمیں خود کو اور اپنی نئی نسلوں کو علم و آگہی اور فکر ونظر کے ہتھیار سے لیس کرنا ہے ، انہیں مکمل آزادی کا یقین دلانا ہے، ملک کے تئیں اپنے فرائض و ذمہ داری ایمان داری سے ادا کرکے ہمیں ایک ذمہ دار شہری بننا ہے۔

ایسے ہی ایک انسانی اور علمی انقلاب بپاکرکے ہی ہم اپنے پیارے ملک میں پھر سے اس وشانتی ، اور محبت و ا خوت کا ماحول قائم کر سکتے ہیں، اور ہندوستان کی دم توڑتی جمہوریت کو بقا ودوام بخش سکتے ہیں ۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔

ہاشمی رضا مصباحی

نزیل حال: فیجی آئیلینڈز، ساؤتھ پیسیفک۔

ای میل :

hr.hashmi117@gmail.com

شب قدر عنایات الٰہی کی مقدس رات
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن