امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مختصر تعارف
نام و نسب
نام : نعمان
کنیت : ابوحنیفہ
لقب : امام اعظم ، امام الائمہ ، سراج الامہ ، کاشف الغمہ
نسب : صاحب حدائق الحنفیہ نے نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے نعمان بن ثابت بن نعمان بن مرزبان بن ثابت بن قیس بن یزدگرد بن شہریار بن پرویز بن نوشیرواں لیکن جمہور ائمہ کے نزدیک متفق علیہ سلسلہ نسب یہ ہے نعمان بن ثابت بن زوطی (نعمان) بن ماہ (مرزبان) آپ نسلاً فارسی تھے – آپ کے پوتے اسماعیل بن حماد رحمہ اللہ کہتے ہیں: نَحنُ مِن ابْنَاء فَارس الحرَار آپ کی کنیت ابو حنیفہ کسی صاحبزادی کی وجہ سے نہیں تھی کیوں کہ آپ کے اولاد میں صرف ایک صاحب زادے حماد ہیں یہ کنیت معنی وصفی کے لحاظ سے ہے علامہ ابن حجر ہیتمی مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
وَعَلى انّ كُنيَته ابُو حنِيفَة مُؤنَّث حَنِيف وَهُو النَاسِك اَو المُسلِم لِاَن الحَنف المِيل والمُسلِم مَائل اِلى الدِّينِ الحَق ترجمہ : آپ کی کنیت ابو حنیفہ ہونے پر اتفاق ہے جو حنیف کا مونث ہے حنیف کا معنیٰ ناسک (عبادت گزار) یا مسلم ہے کیوں کہ حنفی کا معنیٰ مائل ہونا ہے اور مسلم دین حق کی طرف مائل ہوتا ہے
ولادت
امام اعظم کے ولادت کے بارے میں تین اقوال ہیں پہلا (٨٠ھ) دوسرا (٧٠ھ) اور تیسرا (٦١ھ) جس میں سے جمہور ائمہ کے نزدیک قول مقبول و معروف و مختار (٨٠ھ) ہے جس کے قائل اسماعیل بن حماد بن ابو حنیفہ نعمان , امام ابو نعیم , امام ابراہیم بن علی شیرازی , امام محمد بن طاہر بن قیسرانی , امام ابن جوزی , امام ذہبی , امام عبد القادر بن ابی الوفا قرشی , امام ابن حجر ہیتمی مکی اور احمد بن محمد ادنروی رحمہ اللہ تعالیٰ اجمعین ہیں
(٧٠ھ) کا قول کرنے والے امام ابن حبان ابو القاسم سمنانی امام سمعانی اور علامہ بدر الدین عینی ہیں (٦١ھ) کا قول کرنے والے امام مزاحم ہیں
ابن خلکان نے (٨٠ھ) کو اصح بتایا ہے امام اعظم کے پوتے اسماعیل بن حماد رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: وُلدَ جَدّي فِي سَنة ثمَانِين
ترجمہ : میرے دادا امام اعظم (٨٠ھ) میں پیدا ہوئے امام ابن حجر ہیتمی مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اَلاكثَرُونَ عَلى اَنه وُلدَ سَنة ثمَانين بِاالكُوفَةِ في خِلافَة عَبد المَلك بن مَروَان
ترجمہ : اکثر ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ امام ابو حنیفہ کوفہ(عراق) میں عبدالملک بن مروان کے زمانہ خلافت میں (٨٠) میں پیدا ہوئے
کوفہ
کوفہ آپ کا وطن تھا آپ کے زمانہ میں کوفہ تعلیمات اسلامی کا زبردست مرکز تھا – جس میں تین سو اصحاب رضوان اور ستر افراد بدر نازل ہوئے – اور ایک ہزار سے زیادہ صحابہ کرام نے رہائش اختیار فرمائی آپ کے وطن کوفہ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے رُمح اللّٰه (اللہ کا نیزہ) کَنزُ الِایمَان (ایمان کا خزانہ) اور جُمجُمةُ العَرب (عرب کا دماغ) کہا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے سَیفُ اللّه (اللہ کی تلوار) اور رَاسُ الاِسلَام (اسلام کا سر) کہا ہے – حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ نے قُبَّة الاِسلَام (اسلام کا گھر) کہا ہے
حضور ﷺ کی بشارت امام اعظم کے لیے
حضور سرور کونین ﷺ نے کس طرح اپنے اس عظیم غلام اور محبوب ہستی کے بارے میں خوش خبری دی ہے صحیح مسلم میں ابو ہریرہ سے روایت ہے حدیث شریف : لَو كَانَ الدِّينُ عِندَ الثُّريَّا لذَهَبَ بِه رَجُل مِن فَارِس اَو قَال مِن ابْنَاء فَارس حَتّى يَتنَاولَه
ترجمہ : اگر دین اوج ثریا پر بھی ہوا تو اہل فارس یا فرمایا ابنائے فارس میں سے ایک شخص اسے وہاں سے بھی پالے گا (صحیح مسلم , کتاب فضائل الصحابه , باب فضل فارس ٤, ١٩٧٢ , رقم ٢٥٤٦)
محدثین نے اس حدیث میں بشارت نبوی ﷺ کا اطلاق امام اعظم پر کیا ہے حجۃ الاسلام امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے تبییض الصحیفة میں باب باندھا جس کا عنوان ہے تَبشِیر النَّبی ﷺ اور لکھتے ہیں
اَقُولُ فَقد بشر بالامام ابي حَنيفة فِي الحديث الّذي اخرجه ابو نعيم في الحليَة
ترجمہ : میں کہتا ہوں اس حدیث میں امام ابو حنیفہ کی بشارت دی گئی ہے جسے امام ابو نعیم نے الحلیة الاولیاء میں روایت کیا ہے
یہ جملہ نقل کرنے کے بعد امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث مبارکہ کو تین صحابہ کرام سے پانچ مختلف کتب سے چھ عبارات مختلفہ سے تخریج کیا ہے جو اس حدیث کی ثقاہت پر پختہ دلیل ہے – آخر میں امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا تبصرہ ان الفاظ میں فرمایا ہے فَهٰذا اَصل صَحيح يَعتَمد علَيه فِي البشَارة والفضِيلة نظِير المحدِّثين الذِين في الاِمامين ويستغنى به عَن الخَبر الموضُوع
ترجمہ : امام اعظم کے حق میں بشارت اور فضیلت پر یہ حدیث اصل اور صحیح ہے جس پر اعتماد کیا جاتا ہے جس طرح کے پہلی روایت میں دونوں امام (امام مالک و امام شافعی) کی بشارت تھی امام اعظم کے حق میں صحیح حدیث موضوع روایت سے بے نیاز کر دیتی ہے امام ابن حجر ہیتمی مکی شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی خیرات الحسان میں باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے فِيمَا وردَ تَبشِيرُ النَّبي ﷺ بالامام ابي حنيفة رحمه الله امام ابن حجر ہیتمی مکی رحمہ اللہ نے اس باب کے ابتدائیہ میں امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کے درج بالا تحقیق درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ امام سیوطی کے بعض تلامذہ نے کہا ہے اور اسی کی ہمارے شیخ نے توثیق کی ہے أنّ الامام ابا حَنيفه هُو المُراد مِن هٰذا الحديث ظَاهر لا شَكّ فيه لانه لَم يبلغ احَد أي فِي زمَنهٖ مِن ابناء فَارس فِي العِلم مبلغه وَلا مبلغ اصحَابه
ترجمہ : یقینا اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ مراد ہے کیونکہ آپ کے زمانہ میں اہل فارس میں سے کوئی شخص بھی آپ کے مبلغ علم اور آپ کے شاگردوں کے درجۂ علم تک نہیں پہنچا
لہذا اںٔمہ حدیث امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ اہل فارس میں سے جس خوش نصیب فرد واحد کے بارے میں حضور اکرم ﷺ نے بشارت دی تھی وہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ ہی ہیں –
شرف تابعیت
امام ابو حنیفہ بلاریب تابعی تھے – اور یہ عظیم شرف اور سعادت کبریٰ ان کے معاصر فقہاء و محدثین کسی کو نصیب نہ ہوئی امام اعظم وہ خوش نصیب ہیں جنہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زیارت نصیب ہوئی – حضور نبی کریم ﷺ کی شہادت کے مطابق امام صاحب طبقات تابعین میں شامل ہوگئے
جیسا کہ آقا ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے جو کہ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا خَيرُ النّاسِ قَرنِي ثم الَّذين يَلُونهُم ثم الَّذين يَلونَهم
تحصیل علم
امام اعظم کا وطن کوفہ علم و فن کا مرکز تھا – جامع کوفہ کی ہر محراب کسی نہ کسی شیخ کی درسگاہ تھی – ابتدا میں امام صاحب باقاعدہ تحصیلِ علم کی طرف توجہ نہ کر سکے ضرورت کے مطابق کچھ پڑھنے لکھنے کے بعد آبائی پیشہ خزبافی سے منسلک ہوگئے اور خزبافی کا ایک کارخانہ کھول لیا – اپنی تجارت کو خوب چمکایا مگر قدرت کو آپ سے فروغ علم اور تدوین فقہ کا مہتم بالشان کام لینا تھا اس لیے فطری طور پر تحصیل علم کا ذوق بیدار ہونا لازمی تھا – بغرض خرید و فروخت بازار آنے جانے کا معمول تھا بازار میں امام شعبی سے ملاقات ہوئی انہوں نے امام اعظم کو نصیحت کی :
لاَ تَغفَل وعَليكَ بِاالنَّظرِ في العِلم وَمجَالسَةُ العُلمَاءِ فانِّي ارَى فِيك يَقْظة وَ حَركَة ترجمہ : تم غفلت میں نہ پڑو علم میں اپنے کو لگاؤ علماء کی مجلسوں میں جایا کرو میں تم سے بیدار مغزی اور کھوج لگانے کا مادہ پاتا ہوں آپ نے فرمایا : فَوقَع فِي قلْبي مِن قَوله تَركتُ الاختِلَاف الَى السُوقِ واَخذتُ في العِلْم فنَفعنِى اللّٰه تعالىٰ ترجمہ : امام شعبی کی بات کا میرے دل پر اثر ہوا میں نے بازار جانا چھوڑ دیا اور کسب علم کی راہ اختیار کی تو اللہ نے مجھ کو فائدہ پہنچایا
امام اعظم نے پھر مروجہ علوم و فنون کے مبادیات پر اکتفا کیا اور علم الکلام کو اپنی فکری نگاہ قرار دیا – اس دور کے فلسفیانہ اور منطقی مباحث اور اختلاف مذاہب کے متعلق بھی کافی واقفیت حاصل کی یحییٰ بن شیبان روایت کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے فرمایا مجھے جدل و مناظرہ سے خصوصی لگاؤ تھا میں کافی عرصہ تک اس میں لگا رہا ان دنوں بصرہ جدل ومناظرہ کا اکھاڑا تھا
میں بیس ٢٠ سے زائد مرتبہ بصرہ گیا – ایک زمانہ تک بحث ومناظرہ اور جدل و مناقشہ میں منہمک رہنے کے بعد دل کلامی جھگڑوں سے اچاٹ ہو گیا اور انہوں نے تحصیل فقہ اسلامی کی طرف توجہ کی – فقہ کی طرف متوجہ ہونے کے بعد مسائل شرعیہ کی تخریج و استنباط میں منطقی استدلال کا جو کمال دکھایا وہ اسی نظری و فکری تربیت کا اثر تھا
فقہ کی تحصیل کے لیے امام صاحب نے حضرت حماد کی درسگاہ کا انتخاب کیا امام صاحب حلقۂ درس کے بائیں صف میں بیٹھے رہے مگر چند روز کے بعد جب حضرت حماد کو تجربہ سے معلوم ہوا کہ پورے حلقۂ درس میں کوئی تلمیذ حافظہ اور ذہانت میں آپ کا ہمسر نہیں تو حکم دیا کہ ابو حنیفہ سب سے آگے بیٹھا کریں – حضرت حماد کی درس گاہ میں فقہ کی تحصیل کے ساتھ کوفہ کے دوسرے شیوخ سے حدیث و سنن کا درس بھی لیتے رہیں
اصول علم کے لیے رحلت و سفر ناگزیر ہے چنانچہ امام صاحب نے ذوق علم کی تسکین کے لیے بصرہ , مکہ , مدینہ کے متعدد سفر کیے حرمین شریفین میں کافی دنوں تک قیام کیا جو علماء و مشائخ کے گہوارے اور حدیث و فقہ کے عظیم مرکز تھے ایام حج میں تمام بلاد و امصار اسلام کے مشائخ اور ماہرین علوم کا اجتماع ہوتا تھا امام صاحب نے پچپن (٥٥) حج کیے اور انہوں نے ائمہ حدیث و فقہ سے خوب خوب استفادہ کیا – امام اعظم نے جس ذوق شوق کے ساتھ علوم اسلامی کی تحصیل کی وہ اپنے وقت کے بے نظیر فقیہ، مجتہد، امام الحدیث اور عبقری عالم بن گئے
اساتذہ و شیوخ
امام اعظم کے مشائخ و اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے امام موفق نے لکھا ہے :
امام احمد بن حفص معروف به ابوحفص کبیر شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی کے صاحبزادے ابو حفص صغیر ابو عبداللہ محمد بن احمد کے زمانے میں شافعیہ اور حنفیہ میں معارضہ ہوا کہ ابو حنیفہ اور امام شافعی میں افضل کون ہے ابو حفص صغیر نے کہا دونوں حضرات کے مشائخ کا شمار کر لیا جائے جس کے مشائخ زیادہ ہوں وہ افضل ہے امام شافعی کے اسّی (٨٠) مشائخ شمار میں آئے اور امام ابو حنیفہ کے چار ہزار (٤٠٠٠) خطیب بغدادی آپ کے اہم شیوخ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
امام اعظم نے انس بن مالک کو دیکھا اور عطا بن رباح , ابو اسحٰق سبیعی , محارب بن دثار ,حماد بن ابی سلیمان , ہیثم بن حبیب صواف , قیس بن مسلم ,محمد بن مکندر ,نافع مولیٰ ابن عمر , ہشام بن عروہ , یزید الفقیر , سماک بن حرب , علقمہ بن مرثد , عبدالعزیز بن رفیع , عبد الکریم ابو امیہ وغیرہم سے سماع حدیث کیا
امام اعظم کے اساتذہ میں سے بلند پایہ اور ممتاز استاذ امام ابو اسماعیل حماد بن ابی سلیمان الاشعری بھی ہیں – امام صاحب سے لوگوں نے پوچھا آپ کے اتنے جلیل القدر اور بے شمار اساتذہ ہیں مگر سب سے ممتاز اور بلند پایا فقیہ کون ہے ؟
آپ نے فرمایا عالم اسلام میں امام حماد سے بڑھ کر کوئی اور بڑا فقیہ نہیں دیکھا سیرت و خصائص __ حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے وقت کے فقیہ ہی نہیں تھے بلکہ فقیہانِ وقت کے امام تھے – تقوی اور ورع میں آپ بے مثال تھے مال و دولت کے مالک ہونے کی وجہ سے غرباء و مساکین کے مددگار تھے – آپ کے پاس جو بھی مفلوک الحال آتا اسے خالی نہ جانے دیتے
آپ خصوصی طور پر طلبا و اساتذہ پر بڑا خرچ کرتے تھے – رات دن محنت کرتے شب بیداری میں مصروف رہتے ، کم گو اور خاموش طبع تھے حلال و حرام کے مساںٔل پر بڑی تفصیل سے گفتگو فرماتے اور اس سلسلے میں خاص خیال رکھتے تھے آپ بادشاہ اور امراء کے مال و دولت سے دور رہا کرتے تھے ۔
ابن صباح رحمۃ اللّٰہ علیہ نے آپ کے اخلاق و عادات پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ سے جب کوئی سوال کرتا تو سب سے پہلے صحیح حدیث بیان فرماتے ، پھر صحابۂ کرام اور تابعین کے عمل سے دلاںٔل دیتے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ قیاس کرتے اور قیاس کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرتے ۔
امام محمد بن ادریس شافعی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : النّاسُ عِيَالٌ فِي الفِقهِ عَلي أَبي حنِيفَة مأ رَأيتُ احَداً افَقَه مِنهُ ترجمہ : لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کے محتاج ہیں میں نے فقہ میں ان سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا
امام عبداللہ بن داؤد فرماتے ہیں : لاَ یَتکلّم فِی ابِی حَنِیفَۃ اِلاّ اَحد رَجُلین امّا حَاسِد لِعِلمہ وامّا جَاھِل بِالعِلمِ لَایَعرِف قَدر حملتہ’’
ترجمہ : ابو حنیفہ پر ردوقدح کرنے والا یا تو ان کے علم سے حسد کرنے والا ہے یا علم کے مرتبہ سے جاہل ہے وہ علم کے حاملوں کی قدر سے بے خبر ہے ۔
امام عبدالعزیز بن ابی رواد فرماتے ہیں : آپ سے محبت اہل سنت کی علامت ، اور آپ سے بغض اہل بدعت کی علامت ہے ۔ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے حدیث کے تمام انواع و اقسام پر اجتہادی نوعیت سے کام کیا ہے ۔ ان کے حلقۂ درس میں شریک ہو کر نہ جانے کتنے افراد دنیائے علم و فضل میں اَمر ہوگئے ۔
ان کے تلامذۃ کی عظمت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ذروں کو اٹھایا تو رشک ماہتاب بنادیا ، یہ حنفی سلسلہ کی کڑیاں تھیں جو احادیث رسول سے قرناً فقرناً ائمہ و مشائخ کے سینوں کو منور کرتی چلی گئیں ۔ آج دینی علوم کے تمام شعبوں میں انہیں کے فیض کے دھارے بہہ رہے ہیں ۔ جب تک درس گاہوں میں فقہ و حدیث کا چرچا رہے گازمانہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو سلام کرتا رہے گا ۔
وصال مبارک
آپ رضی اللّٰه تعالىٰ عنہ کو عہدۂ قضا قبول نہ کرنے کی پاداش میں زہر دے کر شہید کردیا گیا ۔ اکثر ارباب تاریخ کا بیان ہے کہ آپ کی سن وفات (١٥٠ھ) رجب کے مہینے میں ہے اور بعض نے شعبان کا قول کیا ہے امام ابن حجر ہیتمی مکی شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں : اَصح انِّه لَمَّا اَحَسّ بِالمَوتِ سَجَدَ فَخَرجْت نَفْسه وَ هُو سَاجِدٌ ترجمہ : صحت کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ جب آپ کو موت کا احساس ہوا تو آپ سجدے میں گر پڑے اور سجدے کی حالت میں ہی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی – آپ کا مزار مبارک بغداد شریف (اعظمیہ) عراق میں فائضُ الاَنْوار مَرجَعِ خَلائِق ہے –
تحریر —- محمد عرفان قادری
چاپدانی, ہگلی, مغربی بنگال
متعلم : جامعہ مرکز الثقافۃ السنیہ الاسلامیہ