بچوں کی تربیت میں ماں کا کردار
از قلم: محمدعامرحسین مصباحی
استاذ: جامعہ ضیائیہ فیض الرضا ددری سیتامڑھی
بچوں کی تعلیم و تربیت اورنشوو نما میں والدین،خاندان اور اساتذہ کے ساتھ سماج اور قوم کے افراد اور گرد و پیش کے ماحول کا بھی بہت اہم کردار ہوتا ہےمگر اُن سب میں ماں کا کردار سب سے اہم مانا جاتا ہے۔
کیوں کہ باپ اپنے زیادہ تر اوقات کسبِ معاش کے سلسلے میں گھر سے باہرگزارتا ہے اور سماج سے بھی بچوں کا تعلق کچھ بڑے ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے مگر ماں سے بچے کا تعلق اُس کی پیدائش سے قبل ہی ہوجاتا ہے اور پیدائش کے بعد تو یہ تعلق بہت ہی گہرا اور خاص ہوجاتا ہے
کیوں کہ ماں پیار و محبت ، ایثارو قربانی، دعا و وفا، پاکیزگی اور ہم دردی کی پیکر ہوتی ہے اور بچوں کو ابتدا میں ان چیزوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور جو ماں ان صفات سے متصف ہوتی ہے اُن سے بچوں کی انسیت بھی بڑھ جاتی ہے۔
ایسے میں ضروری ہے کہ ماں اپنے لاڈلے سے صرف پیار ہی نہ کرے بلکہ پیار اور ممتا نچھاور کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی بہترین تربیت پر بھی توجہ دے۔
بچہ جب دھیرے دھیرے بڑا ہونے لگتا ہے تو اپنے اطراف کا جائزہ لے کر سوچنے سمجھنے اور بولنے کی کوشش کرنے لگتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بچوں کی بہترین تربیت کی جائے، کیوں کہ اس عمر میں دی گئی بہترین تربیت کا اثر پوری زندگی باقی رہتا ہے بلکہ بچپن کی تربیت ’’نقش کالحجر‘‘ ہوتی ہے، ابھی جیسی تربیت ہوگی ویسا ہی اثر مستقبل میں دیکھنے کو ملے گا، جیسا پودا لگائیں گے ویسا ہی پھل کھائیں گے۔
لیکن بیش تر والدین اور خاندان کے افراد اس عمر میں بچوں کی غلط کاریوں کو نظر انداز کردیتے ہیں بلکہ بچوں کو گالیاں بولتے ،جھگڑا کرتے، جھوٹ بولتے اور الٹی سیدھی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھنے پربھی خوش ہوتے ہیں جس کی وجہ سے عمداً اُن کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے یا کبھی اُن کی غلط حرکات وسکنات پر خاموشی اختیار کرلینے یا مناسب انداز میں تنبیہ نہ کرنے پر اُن کی حوصلہ افزائی ہوجاتی ہے اور پھر یہی چھوٹے چھوٹے غلط کام اُن کی عادت میں شامل ہوکر بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کرنےکی طرف انھیں گامزن کردیتی ہیں۔
ایسے میں والدین بالخصوص ماں کو ہر وقت نگرانی کرنی چاہیے اور گرد و پیش کے ماحول پر نظر رکھنی چاہیے اور مکمل کوشش کرنی چاہیے کہ آس پاس کا ماحول بہتر اور دینی ہو ورنہ غلط چیزوں کے دیکھنے سننے کے بعد ان کے بگڑنے کا قوی اندیشہ ہوگا۔
وضعِ حمل سے قبل ماں کا کردار
اللہ عزوجل اور اُس کے حبیبِ مکرم ﷺکی اطاعت و فرماں برداری تو ہمیشہ کرنی چاہیے مگر بطورِ خاص ماؤں کو چاہیے کہ جب وہ حالتِ حمل میں ہوں تو خود کو نیک سیرت بنائیں، دل میں خوفِ خدا اور محبتِ رسول کے چراغ روشن کریں، اپنے خیالات کو پاکیزہ رکھیں،کیوں کہ ماہرین کے مطابق بچہ ماں کے پیٹ سے ہی اثرات قبول کرنا شروع کردیتا ہے اور ماں کے اچھے بُرے اعمال و اعتقادات کا اثر اُس پر مرتب ہونے لگتاہے۔
اس مرحلے میں دیگر عورتوں کی طرح سیریلز، مووی ،گانے، فحش کمیڈیوں کے سننے،دیکھنےاور اسی طرح جھوٹ بولنے، غیبت کرنے اورچغلی کھانے سے ہر حال میں پرہیز کرنا چاہیے کیوں کہ ان تمام اُمور کی وجہ سے بچے پر غلط اثر ہوگا ۔
ایامِ حمل میں نمازوں کی پابندی اور حسبِ استطاعت تلاوتِ قرآن مقدس کی جائے، اس کے علاوہ ذکر و اذکار، تسبیح و تہلیل، اوراد و وظائف اور دُرود پاک کی کثرت کرنی چاہیے کہ ان تمام اعمالِ حسنہ کی بدولت ان شاء اللہ بچہ باحیا ، پاک باز اور نیک طینت پیدا ہوگا۔
بعدِوضعِ حمل ماں کا کردار:
اولاد خواہ بیٹا ہو یا بیٹی اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے اس نعمت کے حصول پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرے اور اس نعمت کی خوب قدر کرے۔ جس طرح کی خوشیاں لڑکے کی پیدائش کے بعد ہوتی ہے اُسی طرح لڑکی کی پیدائش کے بعد بھی خوشیوں کا اظہار کرے، بیٹیاں کبھی زحمت نہیں ہوتیں سماج کی بُری رسموں اور رواجوں نے بیٹیوں کو بوجھ جیسا محسوس کرنے پر مجبور کردیا ہےمگر ایسے ماحول میں صبر کرنا بھی الگ اجر کا مستحق بنادیتا ہے۔
خیر پیدائش کے بعد ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے ایک بہترین ماں کا کردار ادا کرےکیوں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت ،پرورش و پرداخت ، کردار سازی میں سب سے اہم اور مرکزی کردار ماں کا ہی ہوتا ہے
اس لیے یہاں ماں کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے،بچے کوسردی گرمی سے بچانا ، وقت پر دودھ دینا،گندگی سے دور رکھنا ، اس کے بدن کو صاف ستھرا اور پاکیزہ رکھنا ،حسبِ ضرورت تیل مالش وغیرہ کرناوغیرہان تمام اُمور کے ساتھ ماں کو خود اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا بے حد ضروری ہے، وضعِ حمل کے بعد بدن کمزور ہوجاتا ہے، لہٰذا مائیں اپنے بچے کی صحت کے ساتھ اپنی صحت کا بھی خیال رکھیں اس میں زچہ بچہ دونوں کی صحت کا راز مضمر ہے۔
ایامِ رضاعت میں ماں کا کردار
پیدائش کے بعد بچے کو دودھ پلانا دیانۃً ماں کے ذمہ ہے۔ شریعت مطہرہ نے بچوں کو دودھ پلانے کی مدت دو سال مقرر کی ہے اور ثبوتِ رضاعت میں ڈھائی سال تک کی مدت معتبر ہے۔دوسال تک ماں اپنے بچوں کو دودھ پلائے اگر کسی مجبوری کے تحت مکمل دو سال تک نہ پلاسکے تو کم از کم چھ ماہ اس کا التزام کرنا بچے کی صحت کے لیے مفید ہے۔
ماں کا دودھ قدرت کا انمول تحفہ ہے اس میں موجود تمام اجزا جسمانی اور ذہنی نشو و نما کی ضرورت کے عین مطابق پائے جاتے ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق بچے کے لیے پہلی بہترین خوراک ماں کا دودھ ہوتا ہے اور کم از کم چھ ماہ کی عمر تک بچے کو اُس کے علاوہ کچھ اور نہیں دینا چاہیے ۔ ماں کے دودھ کے بنیادی اجزا میں پانی، چربی،(فیٹ) لحمیات (پروٹین) کے علاوہ مختلف وٹامنز ، معدنیات ، خوراک ہضم کرنے والے اینزائم اور ہار مونز شامل ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ماں کے دودھ میں بیماریوں سے بچاؤ کے لیے قدرتی طور پر اینٹی باڈیز بھی پائی جاتی ہیں جو کسی بھی ڈبے والے دودھ میں نہیں ہوتیں، ماں کا اپنے بچوں کو دودھ پلانا بچوں کے ساتھ ساتھ ماں کے لیے بھی فائدہ مند ہے مثلاً ماؤں کو بریسٹ اور بچے دانی کےسرطان (کینسر) ذیابطیس اور دِ ل کے امراض سے تحفظ فراہم کرنےنیز ایک رپورٹ کے مطابق بریسٹ کینسر کے سبب سالانہ ۲۰؍ ہزار ماؤں کی شرحِ اموات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ (مذکورہ مواد انٹرنیٹ سے اخذ کیا گیا ہے۔)
اگر ممکن ہو تو مائیں اپنے بچوں کو باوضو ہوکر دُرود شریف پڑھتے ہوئے دودھ پلائیں اس سے قلب و روح ،جذبات و احساسات اور اخلاق و کردار پر بہترین اثرات مرتب ہوں گے ۔
ایامِ رضاعت کے بعد ماں کا کردار
ایامِ رضاعت کے بعد بھی بچے ماں کی گود میں کھیلتے اور اِدھر اُدھر سے آنے کے بعد بھی اُسی ٹھکانے پر پہنچتے ہیں کیوں کہ وہ ماں کی گود میں دنیا بھر کا سکون پاتے ہیں اور اپنی توتلی زبان میں ماں سے بات چیت کرنے کی کوشش کرتےہیں، قصے کہانیاں سنتے اور اِ دھر ُدھر کی باتوں کے متعلق سوال کرتے ہیں، قریب سے ماں کو دیکھ کر اس کی عادتوں سے متاثر ہوکر اُسے اپنی زندگی میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ایک اچھی ماں کے لیےسب سے بہترین موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے لاڈلے کی بہترین تربیت کرے ۔
ماں کی گود بچوں کے لیے پہلی درس گاہ اور ماں پہلی معلمہ ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ مائیں خود بھی دین دار ،پرہیز گار، امانت دار ، وفاشعار ، نیک سیرت،بلند اخلاق و کردار رکھنے والی اور تعلیمی اعتبار سے باوقار اور تربیت یافتہ ہوتبھی وہ اپنی اولاد کو انسانیت کی بقا اوربہترین معاشرے کی تشکیل میں اپنا بہترین کردار ادا کرنے کے قابل بناسکیں گی،چھوٹی عمر میں بچوں کا ذہن شفاف آئینہ اور سادہ روئی کی مانند ہوتا ہے جیسا عمل سامنے ہوگا اسی کی تصویر نقش ہوگی اور جیسی صحبت ملے گی اسی کی مانند خوشبو جذب ہوگی ۔
گھر میں نظم و ضبط کا مکمل خیال ہو،کھلانے پلانےاور کھیل کود وغیرہ کا وقت متعین ہو تاکہ نظم و نسق کی پاس داری کرنا ابتدا ہی سے ذہن میں نقش ہو۔ والدین اور بطورِ خاص ماں کو چاہیے کہ وہ عملی طور پراچھے کاموں کا نمونہ پیش کریں تاکہ دیکھ کر بچے اثر قبول کریں ۔
کھانے پینے کا خاص خیال رکھیں
بچوں کو وقت پر کھلانا ، پلانا بھی ماں کی ذمہ داری ہے، صحت بخش ، مقوی اور صاف ستھری غذائیں کھلائیں ۔ بازارو دکان وغیرہ میں ملنے والی اشیاء جیسے چائنیز فوڈ،میگی، برگر،پزا،فاسٹ فوڈ اور کول ڈرنکس وغیرہ سے پرہیز کرنا ہی زیادہ بہتر ہے کیوں کہ یہ چیزیں ذائقہ دار تو ہوتی ہیں مگر صحت پراُس کا بُرا اثر بھی پڑتا ہے۔ ان چیزوں کی جگہوں پر قدرتی پھل اور بادام ، اخروٹ،کشمش وغیرہ حسبِ استطاعت دیں۔
انبیاء ،صحابہ ، اولیا اور صالحینِ امت کے سچے واقعات سنائیں
بچے عام طور پر میں قصے کہانیوں میں بہت زیادہ شغف رکھتے ہیں اور قصے کہانیوں کو دل چسپی اور پوری توجہ سے سنتے ہیں۔ اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے اور قصے کہانیوں کی جگہ انبیاومرسلین کے سچے واقعات جیسے موسیٰ و خضر علیہماالسلام کی ملاقات، حضرت عزیرعلیہ السلام کا واقعہ ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدئش کا تذکرہ اور حضرت یحیٰ علیہ السلام کی پاک دامنی کے قرآنی واقعات اور بالخصوص ہمارے آقا علیہاالصلوٰۃ و السلام اور صحابۂ کرام، خلفائے راشدین کی سیرتِ مبارکہ ،اُن کے واقعات ،اسلام کی نشر و اشاعت میں جدو جہد، قربانیوں اور جاں فشانیوں کو بتائیں نیز بزرگوں کےاُن واقعات کو ضرور سنائیں جو جھوٹ سے پرہیز کرنے، خوفِ خدا دل میں بسانے ، نماز وں کی طرف رغبت دلانے اور دیگر لغویات سے پرہیز کرنےمیں معاون ثابت ہوں۔
دلیری اور بہادری کا جذبہ بیدار کریں
عام طور پر ماں ،بہن یا قریبی لوگ بچوں کو کسی چیز سے باز رکھنے کے لیے بھوت، پریت،جن ،آسیب اور مختلف جانوروں کا خوف دلاتے ہیں تاکہ بچے خوف زدہ ہوکر وہ کام نہ کریں مگر یاد رہے کہ ان چیزوں سےبچے بُزدل اور ڈرپوک ہوجاتے ہیں اور جوان ہوجانے کے بعد بھی اُن کے دل مضبوط نہیں ہوپاتے اور وہ اندھیرے ،تنہائی وغیرہ سے سخت خوف زدہ رہتے ہیں
اولاد خواہ لڑکا ہو یا لڑکی کوشش کرنی چاہیے کہ دل مضبوط رہیں اور اس کے لیے سرفروش مجاہدینِ اسلام کے عظیم جنگی کارنامے ، فتوحات وغیرہ کے بارے میں بتائیں خاص طور سے صحابۂ کرام کی دلیرانہ کاوشیں سنائیں ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم، حضرت خالد بن ولید ، حضرت ابوعبیدہ بن جراح،حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہم کے علاوہ طارق بن زیاد،قتیبہ بن مسلم ، محمد بن قاسم ،سلطان نور الدین زنگی،سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہم اللہ وغیرہ کی داستانِ شجاعت بچوں کو شیر دل بنانے میں معاون ثابت ہوں گی۔ اسلامی جنگوں اور اُن کے پس منظر وغیرہ کا بیان بھی مفید ثابت ہوگا۔
بہترین تعلیم و تربیت کا نظم و نسق
بچوں کے لیے سب سے اہم اور ضروری چیز اُن کی بہترین تعلیم و تربیت کا نظم و نسق کرنا ہے۔جب وہ چار سال چار ماہ دس دن کے ہوجائیں تو رسمِ بسم اللہ خوانی کے ذریعے اُن کی تعلیم کا آغاز کرائیں اور بہترین استاذ کی نگرانی میں پہلے دینی علوم سے روشناس کرائیں۔
کم از کم فرض علوم کی جانکاری تو انھیں ہر حال میں دیں تاکہ وہ شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں ،نماز ، روزہ ، زکات ،حج وغیرہ ارکانِ اسلام کی ادائیگی میں انھیں کوئی دشواری نہ ہو۔ اس کے بعد ضرورت کے مطابق عصری تعلیم بھی دلائیں تاکہ دین کے ساتھ دنیا بھی اچھی گزرے۔
ان تمام چیزوں کاتعلق اگرچہ باپ یا استاذ سے ہے مگر ماں بھی اس میں اہم کردار ادا کرسکتی ہےکہ وہ اپنے طور پرکھانے پینے، پہننے اوڑھنے،پاکی ناپاکی ، غسل ، وضو اور نماز وغیرہ کے کچھ مسائل عملی طور پر کرکے سکھا سکتی ہے جس سے ان چیزوں کےدقیق مسائل کے سیکھنے میں بچوں کی دلچسپی بڑھے گی اور مسائل کے سیکھنے کے ساتھ اُس پر عمل کرنے کی بھی عادت بنے گی۔
عقائد و اعمال پر خصوصی توجہ ہو
تعلیم و تربیت کے دوران عقائدو معمولاتِ اہلِ سنت کی جانکاری دینا نہایت ضروری ہے کیوں کہ عقائد کی خرابی کی وجہ سے انسان ضلالت و گمراہی بلکہ بسااوقات اپنے ایمان سےبھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہےجب کہ معمولاتِ اہلِ سنت کی بجاآوری سے بے شمار دینی و دنیوی فوائد کا حصول اور دین سے الفت و محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اُن کی برکات سےعقائد کی حفاظت بھی ہوجاتی ہے۔
ماں باتوں ہی باتوں میں عقائد یعنی اللہ رب العزت ، اس کے ملائکہ ، اس کی کتابوں، رسولوں ،بعث بعد الموت ،قبرو حشر و نشر وغیرہ کے متعلق بتائے ، عقائد کی باتوں میں بطورِ خاص ہمارے نبی ﷺ کے آخری نبی ہونے،علمِ غیب ، اختیارات وتصرفات ،تعظیم و توقیر وغیرہ کے بارے میں بنیادی باتیں بھی ذہن نشیں کرائے۔
یہ مختصر انداز میں کچھ ایسی باتیں ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر مائیں اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرسکتی ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ساری ذمہ داریاں ماں کے ہی اوپر ہے بلکہ یہ تمام ذمہ داریاں بحسن و خوبی بچے کا باپ ادا کرتا ہے مگربچے کی ماں کی معاونت حاصل ہوجائے تو اس کا کام بہت آسان ہوجائے گا۔
اللہ کریم ماؤں کو بہترین ماں اور باپ کو بہترین باپ بننے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین۔