خانوادہ برکات کی نوری کرن : سراج السالکین سید شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی
از: محمدعارف رضا نعمانی مصباحی
مارہرہ مطہرہ ضلع ایٹہ ،مغربی اترپردیش کا وہ مردم خیز خطہ جسے صوفیوں کی بستی بھی کہا جاتا ہےاہل معرفت و طریقت کے درمیان شہرت رکھتاہے۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں تقریباً تین صدی پیشتر زیدی سادات کے خانوادے کےایک فرزند جلیل سید شاہ برکت اللہ عشقی پیمی مارہروی علیہ الرحمۃ(ولادت۱۰۷۰ھ ؍وصال۱۱۴۲ھ) نے اس خطے کو اپنا دائمی مسکن بنایا ۔ پھر یہیں پر عشق الٰہی اور معرفت ربانی کی شمع روشن کی جس کی روشنی ملک اور بیرون ملک میں پھیلی اوراس خانوادے کے فرزندان گرامی آج بھی برکاتی فیضان سے عالم کو منور کر رہے ہیں۔
اس خانوادے میں یکے بعد دیگرے تصوف و معرفت کے لعل وگہر پیدا ہوتے رہے اور اپنی پرنور ضیا سے عالم کو منور کرتے رہے۔انھیں میں ایک اہم نام ’’نور العارفین سراج السالکین سید شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی علیہ الرحمۃ ‘‘(ولادت :۱۹؍شوال المکرم ۱۲۵۵ھ ،وصال ۱۱؍رجب۱۳۲۴ھ)کا ہے ۔آپ ’’میاں صاحب اور نوری میاں‘‘ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں ۔
آپ نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں حق ھو کی صدائیں صبح و شام گونجا کرتی اور ذکر ومراقبے سے معرفت الٰہی کا جام پلایا جاتا ۔اوائل عمر میں ہی والدین کا سایہ عاطفت سر سے اٹھ گیا ۔آپ کے جد امجد واقف اسرار معرفت سید شاہ آل رسول احمدی علیہ الرحمۃ والرضوان نے آپ کی تعلیم و تربیت کا انتظام فرمایا اور سلوک و معرفت کی منزلیں طے کرائیں ۔
حضرت نوری میاں صاحب تقریباً اکتالیس برس اپنے جد امجد کی تربیت میں رہے،ان کی اعلیٰ تربیت نے آپ کو کندن بنا دیا ۔آپ کے بچپن کی ریاضت ومجاہدے کو دیکھ کر آپ کی دادی گھبرا جاتیں اور روکنا چاہتیں لیکن آپ کے جد امجد ارشاد فرماتے ’’ان کو عیش وآرام سے کیا کام؟یہ کچھ اور ہیں اور ان کو کچھ او رہونا ہے۔یہ اقطاب سبعہ میں سے ایک قطب ہیں جن کی بشارت حضرت شاہ بوعلی قلندری پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اورحضرت شاہ بدیع الدین قطب مدار رحمۃ اللہ علیہ نے دی ہے اور یہی اس سلسلہ بشارت کے خاتم ہیں ۔(تذکرہ نوری،ص ۱۴۸)
حضرت نوری میاں علیہ الرحمۃ کو اپنے جد امجد شیخ طریقت سید شاہ آل رسول احمدی علیہ الرحمۃ والرضوان سے شرف بیعت و خلافت حاصل ہے۔آپ کے پیر ومرشد نے بچپن ہی میں آپ کی پرنور پیشانی پر نور ولایت ملاحظہ فرما لیا تھا اسی لیے تبھی سے اپنے پوتے کو میدان سلوک ومعرفت میں شہسواری کےلیے تیار کر رہے تھے ۔آپ کی شان و عظمت آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور برکاتی فیضان سے اپنے قلوب و اذہان کوضیا بخش رہی ہے ۔
حضرت نوری میاں صاحب قبلہ نے قرآن کریم، صرف و نحو، فقہ و اصول منطق، حدیث تفسیر نیک استادوں اور عمدہ عالموں سے پڑھی۔ علوم ظاہری مولوی شاہ تراب علی صاحب لکھنوی و مولوی فضل اللہ صاحب جلیسری و مولوی نور احمد صاحب بدایونی و مولوی محمد سعید صاحب بدایونی و مولوی عبد القادر صاحب بدایونی و مولوی فضل رسول صاحب بدایونی و مولوی احمد حسن صاحب صوفی مراد آبادی و مولوی حسین شاہ صاحب بخاری سے پڑھے۔
علوم باطینہ کے اساتذہ میں سر عنوان نام پاک حضور خاتم الاکابر سید شاہ آل رسول احمدی قدس سرہٗ زینت افزا ہے چھوٹے دادا حضرت سید شاہ غلام محی الدین عرف امیر عالم صاحب قدس سرہٗ سے اوراد و اشغال خاندانی کی اجازت پائی قواعد فن تکسیر بھی سیکھے۔
حضرت شاہ شمس الحق عرف تنکا شاہ رحمۃ اللہ علیہ مرید و خلیفہ حضور اچھے میاں صاحب قدس سرہٗ سے بعض فوائد تکسیر و اعمال احضار و دفع جنات اور فن عمل کے حقائق حاصل فرمائے۔ مفتی سید عین الحسن صاحب بلگرامی اور مولوی احمد حسن صاحب مرادآبادی سے بعض فوائد علم تصوف حاصل فرمائے۔ حضرت حافظ شاہ علی حسین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضور خاتم الاکابر سے اجازت عمل حرزیمانی اور سلسلہ قادریہ منوریہ اور سند تسبیح ملی۔(سراج العوارف فی الوصایا والمعارف،ص ۹، ۱۰،برکاتی پبلشرز)
آپ علوم ظاہری و باطنی میں باکمال،عارف باللہ اور شیخ کامل تھے۔آپ فنا فی الشیخ تھے ۔مخلوق خدا سے محبت فرماتے۔ ان کی حاجت روائی کو محبوب رکھتے ۔غربا اور فقرا کی دعوتوں کو امرا پر ترجیح دیتے ۔غربا خدام کے مکانوں قیام فرماتے ۔ان کی دل جوئی کرتے ۔ مریدین و متوسلین کو ہمیشہ صبر وضبط کی تلقین کرتے ۔ان کی مشکلات دور کرنے کی فکر کرتے ۔
سخاوت و عطا کا یہ عالم کہ سائل اپنی ضرورت و سوال سے زیادہ لے کر جاتا۔ بعض مفلس خدام کی ضرورت کی خراب و خستہ چیزیں پسند فرما لیتے اور ان کو نئی عمدہ چیزیں عطا کر دیتے کہ اس نمونے کی ہم کو مدت سے تلاش تھی یہ ہم کو بہت پسند ہے۔ ارشاد عالی تھا کہ ’’بخیل کی صحبت سے بچنا اور ان سے بچنے کی عمدہ تدبیر یہ ہے کہ ان سے کوئی مالی فرمائش کر دی جائے وہ خود دوبارہ قریب نہ پھٹکیں گے‘‘۔(ایضاً ،ص۹)
تصنیف اور اس کی شہرت سے سرکار نوری میاں قدس سرہٗ کو خاص دل چسپی نہ تھی بعض تحریرات بطور رسالہ بھی خدام کے التماس پر مرتب ہوئے۔
( ۱ ) ۔ العسل المصطفیٰ لی عقاید ارباب سنۃ المصطفیٰ:آسان اردو زبان میں عقائد حقہ اہل سنت کے بیان میں نہایت مختصر اور مفید بچوں کی تعلیم کے لیے مناسب بلکہ ضروری رسالہ ہے۔
(۲) سوال و جواب: یہ بھی اردوز بان میں مختصر مسئلہ تفضیل کا فیصلہ ہے آج تک حضرات تفضیلہ سے اس کا جواب نہ بن پڑا۔
(۳)۔ اشتہار نوری: یہ ایک مفید مختصر تحریر ہے جس وقت بعض علماے اہل سنت مکید اہل ندوہ سے دھوکا کھا کر شامل ندوہ ہو گئے تھے ان کی تنبیہ اور اکثر فوائد جلیلہ پر مشتمل ہے۔
(۴)۔ تحقیق التراویح: یہ دفع فتنہ بعض غیر مقلدین میں بیس رکعت تراویح کے اثبات میں تحریر فرمایا۔
(۵)۔ دلیل الیقین میں کلمات العارفین: تفصیل کلی حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کا اثبات حضرات تفضیلیہ کے شبہات کا ازالہ نہایت ضرروی وضاحت سے فرمایا۔ لا جواب تھا لہٰذا لا جواب ہے۔
(۶)۔ عقیدہ اہل سنت نسبت محاربین جمل وصفین و نہر وان: یہ رسالہ بزبان اردو ہے اور حسب الحکم حضور خاتم الاکابر تحریر فرمایا۔
(۷)۔ لطایف طریقت کشف القلوب: یہ رسالہ بیان کسب ابتدائی سلوک میں بزبان اردو ہے۔
(۸)۔ النور والبہاء فی اسانید الحدیث و سلاسل الاولیاء: اس رسالے میں سلاسل و اسناد احادیث صحاح و مسلسل بالاولیہ و حصن حصین و دلائل الخیرات، اسماء اربعینہ مصافحات اربعہ مشابکہ حدیث مسلسل بالاضافہ و اسناد حرزیمانی و قرآن کریم و تسبیح و سلسلہ عالیہ قادریہ قدیمہ واحدیہ و کالپویہ جدیدہ و رزاقیہ و منوریہ و چشتیہ سہروریہ و نقشبندیہ و مداریہ و علیہ جو چند طریقوں سے پہنچے ہیں درج ہیں۔ بزبان عربی نہایت مفید رسالہ ہے۔
(۹)۔ سراج العوارف فی الوصایا والمعارف: یہ وہ پر نور تصنیف ہے جس کا اردو ترجمہ ناظرین کے ہاتھوں میں ہے جو فوائد اس میں مندرج ہیں ان کا مجموعہ کسی ایک جگہ نہیں ملے گا۔ خانوادہ برکاتیہ کے جملہ مریدین و متوسلین کو اس کا دیکھنا پڑھنا پاس رکھنا نہایت ضروری ہے ۔
(۱۰)۔ الجفر: ایک مختصر رسالہ بزبان اردو ہے جس میں جفر کا ایک خاص قاعدہ مفصلاً مذکور ہے۔
(۱۱)۔ النجوم: ایک نہایت مختصر رسالہ نجوم ہے وہ چیزیں جن کا جاننا ایک عامل اور جفار کو ضروری ہے اس میں درج ہیں۔
(۱۲)۔ تخییل نوری: مجموعہ اشعار عربی و فارسی واردو جو گاہ گاہ اتفاقیہ نظم فرمائے گئے۔ تخلص سرکار نور کا پہلے سعید تھا پھر نوری فرماتے تھے۔(ایضاً،ص ۱۳-۱۵)
۱۱؍رجب المرجب ۱۳۲۴ھ مطابق ۳۱؍اگست ۱۹۰۶ء کو سرکارنورعلیہ الرحمۃ والرضوان نے اس دنیاے فانی کو خیربادکہا۔ درگاہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ میں مزار مقدس زیارت گاہ خلائق ہے۔ سال وفات خاتم اکابر ہند سے نکلتا ہے۔ یہ تحریر حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ کی مشہور و معروف کتاب ’’سراج العوارف فی الوصایا والمعارف‘‘کی مدد سے ترتیب دی گئی ہے ۔
یہ کتاب۱۳۰۹ھ میں فارسی زبان میں تصنیف کی گئی۔اور پہلی بار ۱۳۱۳ھ میں بدایوں سے زیور طبع سے آراستہ ہوئی پھر ۱۴۰۲ ھ میں اردو ترجمے کے ساتھ طبع ہوئی۔آپ کی اس کتاب میں راہ حق کے طلب گاروں کے لیے بیش بہا نقوشِ ہدایت موجود ہیں۔ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیےیہ کتاب بہت مفید اور معاون ہے۔اس کی پی ڈی ایف آرکائیوپر دستیاب ہے۔شائقین علم ومعرفت مطالعہ کرکے اپنی روحانیت کو جلا بخشیں ۔
از: محمدعارف رضا نعمانی مصباحی
ایڈیٹر : پیام برکات، علی گڑھ
رابطہ: 7860561136
مختصر سوانحِ حیات صاحبِ عرس قاسمی حضرت سید شاہ ابو القاسم اسماعیل حسن میاں قدس سرہ
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ بحیثیت استاذ
تعلیمات حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور اصلاح معاشرہ
حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور خلق خد ا کی خدمت
حیات غوث اعظم کے چند تابندہ نقوش
سرکار غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی دریا دلی