Friday, March 22, 2024
Homeمخزن معلوماتطیبہ کالج کی کامیابی اور ایک دعوت

طیبہ کالج کی کامیابی اور ایک دعوت

طیبہ کالج کی کامیابی اور ایک دعوت

طیبہ کالج کی کامیابی اور ایک دعوت

از: ظہور مصباحی 

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے،اس میں ہرطرح کی رہ نمائی موجود ہے۔ دنیاےانسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے اسلام نے تاریخ، ہندسہ،جغرافیہ،فلکیات اور دیگر علوم کی جدید راہوں کی طرف رہ نمائی کرنے والےکئی سائنس داں دیے ہیں۔ عباسی خلیفہ ہارون رشید(۷۶۳ء- ۸۰۹ء) کے دور اقتدار میں علمی اعتبار سے مسلمانوں کو اتنا عروج حاصل ہوا تھا کہ مسلمانوں نے یوروپ کے سیاہ دور کو روشن دور میں تبدیل کردیا تھا۔ آج اسی قوم کی حالت یہ ہے کہ؂

نشان ِراہ دِکھاتے تھے جو ستاروں کو

ترس گئے ہیں کسی مرد ِراہ داں کے لیے

(ڈاکٹر اقبال)

قوم مسلم کی اس علمی زبوں حالی کے بہت سارے اسباب ہیں ،جن کو ماہرین نے خوب اجاگر کیا ہے۔ان میں سےایک سبب جس پر تمام ماہرین متفق ہیں وہ ہماری نوجوان نسل کا بیک وقت دینی اور عصری دونوں تعلیم سے بے بہرہ ہونا ’ہے۔ اندلس کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کا دینی علوم سے دور ہونا ہی اندلس کی وجہِ بربادی بنی تھی جب کہ موجودہ دور میں بقدر ضرورت عصری علوم سے ناوابستگی مسلمانوں کی ہلاکت و بربادی کا سامان بنی ہوئی ہے۔

اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ بدلتے وقت اور حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے علوم و فنون کے حصول پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے، بنو عباس کی دور حکومت میں جب یونانی علوم کے ذریعہ اسلامی عقائد و معمولات پر حملے ہورہے تھے تو اس وقت کےعلما بالخصوص امام غزالی علیہ الرحمہ(۴۵۰ھ- ۵۰۵ھ) نے جدید علوم کو نصاب میں داخل کیا اور انھیں اسلام کے دفاع کا ذریعہ بنایا۔جس طرح یونانی علوم، اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں تھے لیکن ضرورت کے پیش نظر مسلمانوں نے انھیں سیکھا اور مہارت پیدا کرکے اسلام مخالف طاقتوں کو جواب دیا۔اسی طرح موجودہ دور میں دینی علوم کےساتھ عصری علوم کاشامل ِنصاب ہونا وقت کا اہم تقاضا ہے۔یہ اسلام میں کوئی نئی چیز نہیں ہوگی بلکہ اپنی ہی گمشدہ میراث کی بازیابی ہوگی ؛ کیوں کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے ایک منظم سازش کے تحت علم کو دینی اور دنیوی دو خانوں میں تقسیم کردیا تھا۔

جب کبھی دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کو شامل کرنےکی بات کی جاتی ہے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مدارس کے نصاب میں پورے طور پر عصری علوم کا نصاب شامل کردیا جائےیا اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں مدارس کا بھی نصاب داخل کردیا جائے۔کلی طورپرایسا کرناکسی طرح ممکن نہیں ،اس کے جو نتائج سامنے آئیں گے وہ اہل علم بخوبی سمجھتے ہیں۔اس خلیج کو اس طور پر پاٹا جاسکتاہے کہ اسکول کے نصاب میں دینی علوم کا اتنا حصہ شامل کیاجائے جتناکہ ہرمسلمان مر دو عورت پر فرض عین ہے اور مدارس کے نصاب میں جدید علوم کو اس حد تک ضرور داخل کیا جائے کہ طلبہ زمانے کی ضرورتوں اور تقاضوں کو سمجھنے کے اہل ہوجائیں ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کیا جائے کہ ہندوستان کے تمام اضلاع اور ریاستوں میں ایسے مدارس اور کالجوں کا قیام عمل میں لایا جائے، جہاں بچوں کو دونوں علوم و فنون پردسترس دلائی جائے اورقوم و ملت کی ضرورت کے اعتبار سے انھیں تیار کیا جائے۔ اس کا بہترین نمونہ اورمثال جامعہ مرکز الثقافۃ السنیۃ ، کیرالا ہے ، جہاں کے فارغ التحصیل علما درس نظامی کے ساتھ ساتھ عصری علوم پربھی واقفیت رکھتے ہیں اور مدارس اور کالجزمیں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان میں ہزاروں کی تعداد ایسی ہے کہ ایک کامل عالم وفاضل ہونے کے ساتھ ساتھ  ڈاکٹر، انجینئر، سائنس داں، جج ، وکیل ، موٹیویشنل اسپیکر، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لیکچرار اور پروفیسر بھی ہوتے ہیں۔

جامعہ مرکز الثقافۃ السنیۃ،کیرالا، حالات اوران کی ضروریات کی نباضی کرتے ہوئے ہندوستان کے مختلف صوبے، اضلاع اور بیرون ممالک میں اس طرح کے ادارے کی بنیاد رکھ کر علمی میدان میں تجدیدکاری کر رہاہےجب کہ ہمارے کچھ قائدین اور رہنما اب تک اسی سوال کا جواب تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ ایک ساتھ دونوں تعلیم حاصل کرنا ممکن ہے بھی یا نہیں؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ درست ہے کیوں کہ مدارس کی کتابیں از خود اتنی مشکل ہیں کہ تمام اوقات ان کی باریکیوں کے سمجھنے میں صرف کردیاجائے تب بھی شایدان کو کما حقہ نہ سمجھا جاسکےاور ادھر کچھ یہی صورت حال اسکولوں کی کتابوں کا بھی ہے۔ان سب کے باوجود یقین کیجیے کہ دونوں تعلیم کا حصول ایک ساتھ ممکن ہے ۔بعض افرادکو ایسا لگ سکتا ہے کہ اس طرح کی تعلیم صرف جنوبی علاقوں کے باشندگان ہی کے لیےممکن ہے کیوں کہ ان کی علمی آب و ہوا قدرے مختلف ہے ۔ اس فرسودہ خیال کی تبدیلی کے لیے ہم مدھیہ پردیش کا پہلا ادارہ طیبہ کالج آف انٹگریٹڈ اسٹڈیز،جس کے نبضوں میں یہی فکر لہو بن کر دوڑتی ہے، کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں۔

طیبہ کالج آف انٹگریٹڈ اسٹڈیز :

یہ ادارہ ہندوستان کےصوبہ مدھیہ پردیش کے مشہور شہر اندورمیں واقع ہے۔ گرانڈ مفتی آف انڈیاشیخ ابوبکرصاحب قبلہ حفظہ اللہ کی زیر سرپرستی چلنے والا یہ ایک تعلیمی،سماجی، ثقافتی، رفاہی اور غیر سیاسی ادارہ ہے،جو جامعہ مرکز الثقافۃ السنیۃ ،کیرالا کی ایک عظیم شاخ بھی ہے۔اس کا افتتاح۲۳؍مارچ ۲۰۱۴؁ء کوحضور تاج الشریعہ الشاہ مفتی اختر رضا خان علیہ الرحمہ کے دست مبارک سے ڈالی گئی تھی۔

اس ادارے میں فی الحال ۲؍کورسز چل رہے ہی:

۱۔ طیبہ دعوہ کالج، جو ۸؍سالہ کورس ہے، جس میں طلبہ عالم کورس کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم میں گریجویشن بھی مکمل کرتے ہیں۔

۲۔طیبہ مدنی ہاسٹل ،جو صرف یتیم طلبہ کے لیے شروع کیا گیا ہے۔

طیبہ کا اولین مقصد:

اس ادارے کا اولین مقصد قوم مسلم کےبچوں کو دینی وعصری تعلیم سے بہرہ ور کرنا،پیشہ وارانہ طور پر ماہر اورمذہبی اعتبار سےگریجویٹیڈمثالی داعیان اسلام کو تیار کرنا،اخلاقی اقدار وثقافت کے ساتھ ترقی کرنے کا ہنر سکھانا،دین و ملت اور وطن کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کرنااور مستقبل میں معاشرہ ،ملت اور ملک کو بہترین قائد اور رہنما فراہم کرنا ہے۔

طیبہ کامشن:

اس ادارے کا مشن یہ ہے کہ دین و ملت کےبچوں کوقیام و طعام، کتب اور جملہ سہولیات بالکل مفت فراہم کرکے ایک ایسا ماحول دیاجائےجس میں وہ اپنی تمام تر خوبیاں،خصوصیات،مہارتیں اور ہنر کو بروئے کار لائیں، عہد جدید کے تقاضوں پر کھڑا اتر یں، دعوت و تبلیغ کے میدان میں آج اور کل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں۔ان کےاندر ایسی لیاقتیں اورصلاحیتیں پیدا کی جائیں،جن سے وہ مختلف میدانوں میں ملت اسلامیہ کی نمائندگی کرسکیں،مدارس میں پڑھانے اور مساجد میں اذان دینےاورامامت وخطابت کی ذمہ داری ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جدید عصری تعلیم گاہوں میں تدریسی فرائض انجام دینے کے قابل ہوں، سائنس ، طب،سماجی و عِمرانی علوم، آئی ٹی اور دیگرپروفیشنل شعبہ جات میں اپنی خدمات انجام دینے کے لائق ہوں۔

 

کالج آف اسلامک سائنس اینڈ دعوہ :

طیبہ کالج کے ماتحت چلنے والا یہ ایک رہائشی اور معیاری تعلیمی پروگرام ہے ،جس میں پورے۸؍سال میں طلبہ کو عالم کورس کے ساتھ ساتھ گریجویشن کورس بھی کرایا جاتاہے۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر اپلی کیشنز، شخصیت سازی،الگ الگ سبجیکٹس میں ڈپلوما،عملی دعوت و تبلیغ،اسٹڈی ٹور،اسٹوڈینٹس کلب اور متعدد زبانوں کی غیر معمولی تربیت بھی دی جاتی ہے۔اس طرح سے کالج آف اسلامک سائنس اینڈ دعوہ میں طلبہ کوایک ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے دینی اور عصری دونوں تعلیم کا خوگربنا دیا جاتا ہے۔

داخلے کی اہلیت:

جو طلبہ اس ادارے میں داخلے کے امیدوار ہوتے ہیں ،ان کا داخلہ تحریری اور تقریری امتحان کی بنیاد پر پورے ۸؍سال کے لیے لیا جاتا ہے۔اس میں زیادہ سے زیادہ ۲۵؍ان طلبہ کا انتخاب ہوتا ہےجو اعلی نمبرات کے ساتھ۷؍ویں کلاس پاس کرچکے ہیں۔

عالم کورس میں درج ذیل فنون شامل نصاب ہیں:

فارسی قواعد،ادب و انشا، اردو قواعد ،ادب و انشا،عربی صرف،عربی نحو،عربی ادب و انشا،فقہ،اصول فقہ،حدیث ،اصول حدیث ،تفسیر ،اصول تفسیر،منطق، فلسفہ،فلکیات، بلاغت ،عقائدوکلام،تجوید و قراءت،تاریخ ، تصوف، اخلاق، سیرت، فرائض، مناظرہ،تخریج حدیث،علم توقیت اور عام معلومات۔

۸؍ویں کلاس سے گریجویشن تک کانصاب درج ذیل ہے:

مدھیہ پردیش راجیہ شکشا کیندر،بھوپال کے تحت۸؍ویں کلاس سمیت۲؍سالہ ہائی اسکول کی تعلیم،دو سالہ ثانوی تعلیم، یو جی سی کی تسلیم شدہ مختلف اسٹیٹ یاسینٹرل یونیورسیٹیوں سےتین سالہ گریجویشن کورس۔

 

طیبہ مدنی ہاسٹل:

شریعت اسلامیہ میں یتیم بچوں کی خدمت کی اہمیت وفضیلت اور عظمت کو دیکھتےہوئےیتیم لڑکوں کے لیے طیبہ کالج کے ماتحت ‘‘طیبہ مدنی ہاسٹل’’قائم کیا گیاہے۔اس میں ہر سال ہندوستان کے مختلف صوبوں کےیتیم بچوں کاانٹریو کے ذریعہ انتخاب ہوتا ہے۔انھیں قیام و طعام کے ساتھ کپڑے،کتابیں ، دوائیاں اور تمام ضروریات بالکل مفت فراہم کی جاتی ہیں۔انھیں بھی عام بچوں کی طرح عالم کورس کے ساتھ گریجویشن کورس تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ اگر وہ مزیدتعلیم حاصل کرنا چاہیں تو طیبہ کالج اس کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرتا ہے۔

طیبہ کالج کی کامیابی اور ایک دعوت

طیبہ لائبریری :

اس لائبریری میں عربی ،اردو،فارسی،انگریزی اور ہندی زبان و ادب کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں سےنکلنےوالے اخبارات ،ماہنامےاور رسائل بھی دستیاب ہیں۔ طلبہ روزانہ عصرکی نماز کے بعد اور دیگر اوقات میں دینی، عصری، علمی، تاریخی، سیاسی اور ادبی کتب سے اپنی علمی تشنگی بجھانے کے ساتھ عام معلومات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔

طیبہ کالج کی کامیابی اور ایک دعوت

نادی دعوہ تنظیم(طلبہ یونین):

یہ طیبہ کیمپس کے طلبہ کی تنظیم ہے، طلبہ کی شخصیت سازی کے مقصدسےاس کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔ یہ تنظیم اساتذہ کی زیرنگرانی کام کرتی ہے۔اس کے تحت طلبہ کو تعلیمی،سماجی،ثقافتی،دعوتی، اصلاحی،تنظیمی،رفاہی، سیاسی اور صحافتی کاموں کے لیے ٹریننگ دی جاتی ہے اور وقتاً فوقتاً ورکشاپ بھی کرایا جاتاہے۔اس تنظیم کے عہدیداروں کا انتخاب طلبہ کے مابین الیکشن سے ہوتا ہے۔مختلف امور کی انجام دہی کے لیے سالانہ اوسطاً دو سے ڈھائی لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے۔

ٹیلینشیا (Talentia) :

یہ طلبہ یونین نادی دعوہ تنظیم کے ماتحت ہونے والا سالانہ ادبی پروگرام کا نام ہے ،جس میں تمام طلبہ کے درمیان مختلف زبان و ادب میں ۱۰۰؍سےزائد مقابلہ جات کرائے جاتے ہیں۔ اس میں طلبہ کی فطری صلاحیتوں کو نکھاراجاتاہے اور ان کےدل و دماغ کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

 

ایم پی بورڈاوریونیورسٹی میں طیبہ کالج کے طلبہ کی کارکردگی:

طیبہ کالج ایم پی بورڈ اور یونیورسٹی کے تمام امتحانات میں مسلسل حیرت انگیزطور پرصد فیصد کامیابی درج کرتا چلا آرہاہے۔ دراصل طیبہ کالج کےطلبہ کی یہ کارکردگی ایک خاموش پیغام دے رہی ہےکہ دینی تعلیمات کے ساتھ ساتھ جدید علوم کا حاصل کرنا کوئی محال کام نہیں ہےبلکہ محنت اور لگن سے دونوں تعلیم ایک ساتھ بہ آسانی حاصل کی جاسکتی ہے۔پچھلے کچھ سالوں کا رزلٹ درج ذیل خاکہ میں ملاحظہ کریں۔

اب جب کہ ہم اپنے مضمون کے اختتام پر آچکے ہیں تو ایک تلخ حقیقت بھی قارئین کے گوش گزار کردینا چاہتے ہیں کہ مدارس کے تمام طلبہ محقق ا ور مدقق نہیں ہوتے اور نہ ہی درس نظامی میں شامل علوم و فنون اور کتب درسیہ کا یہ مقصد ہے ۔

کسی بھی مدرسہ یا اسکول میں بچوں کو اس حد تک ہی پڑھا یا جاتا ہے کہ وہ پڑھی ہوئی کتابوں کی بدولت دیگر کتب کا مطالعہ کرنے کے اہل ہوجائیں اور انھیں سمجھ کراپنے کام میں لاسکیں۔
درس نظامی کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے ماضی قریب کے ایک فرنگی محلی عالم مفتی محمد رضا، انصاری (استاد شعبۂ دینیات، علی گڑھ مسلم یونیور سٹی، علی گڑھ۔یوپی۔متوفی۱۴۱۰ھ) لکھتے ہیں کہ: درس نظامی کا مقصود ہے:

طلبہ کو، ان کتب کی تعلیم دینا جن کے ذریعہ،متعلقہ علم و فن کی استعداد اور ملکہ ، ان کے اندر پیدا ہوجائےاور پھر، وہ اپنے طور پر، باقی کتب کا مطالعہ کرکے ،انھیں سمجھ سکیں۔
(کتاب: ممتاز علماے فرنگی محلی لکھنؤ،از علامہ یٰس اختر مصباحی،صفحہ: ۲۴، ناشر: اکبر بک سیلرز لاہور)

رئیس القلم علامہ یٰس اختر مصباحی صاحب،مفتی محمد رضا، انصاری ،فرنگی محلی کی اس عبارت کو اپنی کتاب میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
اس مقصود کی تحصیل میں درس نظامی کامیاب تھا ۔ اور اب بھی کامیاب ہے۔اور اگر ،طالب علم ،اپنی اپنی غفلت و کوتاہی سے دیگر کتابوں کا مطالعہ نہ کرے تو یہ اس کا نجی اور ذاتی قصور ہےجس سے درس نظامی کا دامن پاک ہے۔

درس نظامی کےاس مقصداور ایم پی بورڈ کےامتحانی نتائج کے اعتبار سے طیبہ کالج اپنے اہداف ومقاصد میں کامیاب ہے ۔ساتھ ہی حالات و ضروریات کی نباضی کرنے والوں کی بارگاہ میں عریضہ اور دعوت پیش کر رہا ہے کہ محض مدارس یا اسکولوں اور کالجوں ہی پرکام نہ کریں بلکہ قوم وملت کے لیے مسلم نسلوں کو دینی اور عصری تعلیم سے آراستہ کرنے والے ادارے کے قیام کو بھی فروغ دیں تاکہ آنے والی نسلیں ،جو کسی بھی زندہ قوم کی آنکھیں ہواکرتی ہیں،اپنی راہ آپ اختیار کرکےمنزل تک رسائی حاصل کرسکیں۔

ظہور مصباحی
استاد :طیبہ کالج آف انٹگریٹڈ اسٹڈیز،اندور
ZahurRazaQuadri@gmail.com
8604168868

آئیں! آپ سب بھی اس دینی کام میں طیبہ
کالج کے ساتھ جڑیں اور اپنی خصوصی دعاؤں اور تعاون سے نواز کر صدقۂ جاریہ میں حصہ لیں۔

Taibaonline.in

tecindore@gmail.com

8889995739

9644006854

طیبہ کالج کی کامیابی اور ایک دعوت

داخلہ کے لیے خواہش مند طلبا اس کو پڑھیں :

طیبہ کالج کی کامیابی اور ایک دعوت
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن