Tuesday, April 16, 2024
Homeحالات حاضرہکشت مدارس پر باران طلبہ کا قحط

کشت مدارس پر باران طلبہ کا قحط

کشت مدارس پر باران طلبہ کا قحط

از۔ فیاض احمد برکاتی مصباحی

‎ہندوستان میں مدارس اور مکاتب کی تاریخ اسی قدر پرانی ہے جس قدر اسلام قدیم ہے ۔ انسانی تاریخ میں اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے اپنی بنیاد ہی تعلیم پر رکھی ہے ۔ کسی کا بغیر سمجھے بوجھے کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے عربی کا جاننا بھی اور عربی سمجھ بوجھ ضروری ہے ۔ بغیر عربی دانی کے اسلام کی تفہیم نا صرف یہ کہ ناممکن ہے بلکہ اسلام پر کماحقہ تعمیل بھی ناممکن کی حد تک محال ہے ۔

اس پریشانی سے نجات کے لیے خود رحمت للعلمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ابتدائی دعوت سے ہی تعلیم کا نظم جاری فرمایا اور مدینہ منورہ میں اس نظام نے اصحاب صفہ کی صورت اختیار کی جو آگے چل کر مدارس اور مکاتب کے نظام میں تبدیل ہوگیا اس کے بعد داعیان اسلام جہان بھی پہونچے انہوں نے تعلیم کے انتظام کو اولیت دی ۔ اسپین ، غرناطہ ، قرطبہ ، افریقی صحراء ، انڈونیشیائی جزائر کی تعلیمی تاریخ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔

خاص کر ہمارے ملک ہندوستان میں جہان تعلیم پر خصوصی اجارہ داری قائم تھی ، عمومی تعلیم کا پورے ملک کے طول و عرض میں ایک انمٹ نظام قائم کیا گیا ۔ مدارس کی تعلیم بنیادی اور ٹھوس ہوا کرتی تھی ۔ ذہن ودماغ کی تربیت اور جلاء کے لیے مدارس کی تعلیم کا کوئی نعم البدل آج تک دنیا نہ پیش کرسکی ۔ آج کا جدید تعلیمی رجحان اپنی تمام تر آسائشوں اور فراوانیوں کے بعد بھی اس بوریہ نشیں نظام تعلیم کے سامنے بونا معلوم ہوتا ہے ۔

آج کے نظام تعلیم کے جزوقتی فوائد اور دائمی بے اثراتی سے اہل دانش کا طبقہ واقف ہے ۔ میرا یہ موضوع نہیں ہے ورنہ موازناتی گفتگو اس موضوع پر بھی کی جاسکتی ہے ۔

‎انگریزی دور سے پہلے سے ہندوستان کی ہر مساجد مسلمانوں کی تعلیم کا مرکز ہوا کرتی تھیں ۔ جہاں چھوٹے بچوں سے لے کر نوجوانوں کی تعلیم وتربیت کا انتظام ہوتا تھا ۔ مکاتیب میں ترتیل قرآن اور تفہیم قرآن دونوں کی درسگاہیں ہوا کرتی تھیں اور دونوں کی تعلیم لازمی ہوتی تھی ۔

قرآنی تعلیم کی بات کریں تو تفہیم قرآن کے لیے لغت ، بلاغت ، معانی ، ادب ، شاعری ، علم الافلاک( اس دور کا سائنس )، علم الحساب ، جغرافیہ ، تاریخ ، شاعری ، ہر ایک کے لیے لازم تھے ۔ زبان وادب میں اس زمانے کی مروج بین الاقوامی زبانیں ان مساجد کی چٹائی پر پڑھائی جاتی تھیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ زبانیں پلائی جاتی تھیں ۔ تعلیم بالغان کے لیے عشاء کے بعد کی لمحہ بھر کی اجتماعی نششت کسی سیمینار سے کم نہیں ہوتی تھی ۔۔

زکوٰة احادیث کے آئینے میں
زکوٰة احادیث کے آئینے میں

جس وقت انگریزوں نے ملک کو آزاد کیا تھا اس وقت غیر منقسم ہندوستان کے پاس تعلیم کے نام پر صرف مکاتب تھے یا مسلمانوں کے مدارس ۔ گروکل وغیرہ کے دروازے عام ہندوستانیون کے لیے بند تھے ۔ دھرم شالاؤں میں صرف اونچی ذات کے بچے ہی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ۔

نیچی ذات پر تعلیم اس وقت بھی حرام تھی البتہ انگریزوں کی مساویانہ فکر کی وجہ سے مال دار قسم کے نچلی ذاتی کے خاندان کے میں تعلیمی فکر بیدار ہونے لگی تھی اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس کے پیچھے بھی مدارس اور مکاتب کا ہاتھ تھا ۔ کیونکہ مدارس نے بلا تفریق مذہب وملت اور ذات پات کے ہر ایک انسان کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے تھے ۔

مدارس کی تعلیم کس قدر مضبوط اور بنیادی ہوتی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ماضی قریب میں دوعظیم شخصیت ڈاکٹر اے پی جی عبد الکلام اور ڈاکٹر من موہن سنگھ جیسی شہرہ آفاقی شخصتیں مدارس کی گود سے برآمد ہوئی تھیں ۔ مولانا ابو الکلام آزاد جیسا وسیع المطالعہ مدبر ، مصنف ، ادیب ، سیاست داں ، مفکر اور ماہر تعلیم مدارس کی فضاء سے برآمد ہوئے تھے ۔

‎دورافتادہ گاؤں میں مدارس کی تعلیم کے اثرات ۔

‎آج کے ترقی یافتہ دور میں جب کہ ہر طرف بل کھاتی سڑکیں ہیں ، سفرکی صعوبتیں آسان ہوگئیں ہیں ، ٹرانسپورٹنگ کی سہولت ہر ایک کے لیے مہیا ہے ۔ اس زمانے کا تصور کریں جب ملک میں صرف چند ایک ہی ملکی شاہ راہیں تھیں ، اونٹ کی گردن کی طرح راستے تھے یا پھر پچاسوں میل کا سفر پگڈنڈیوں سے طے ہوتا تھا ۔

کتاب کی فروانی نہیں تھی ۔ کاغذ نہیں ملا کرتے تھے ۔۔ علوم یا تو اساتذہ کے سینے میں محفوظ تھے یا پھر دور دراز کی لائبریریوں میں قلمی نسخوں میں چھپاکر رکھے گئے تھے ۔ لکڑی کی تختی پر مٹی پوت کر مختلف قسم کی دیسی سیاہی سے بانس یا نرکٹ کے قلم سے لکھنے کا بھاری بھرکم کام ہوتا تھا ۔ بچے لکڑی کی تختی پر نہیں بلکہ دل کی تختی پر لکھا کرتے تھے ۔

اساتذہ کی جاں سوز محنتیں ، طلبہ کی جگر کاوی ، علوم وفنون کی تحصیل کے لیے دیوانگی اور والدین کی اولاد فراموشی اور اپنے بچوں پر اساتذہ کو کلی اختیار دینے کا دل ربا منظر کہ بغیر اساتذہ کی اجازت کے طلبہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتے تھے ۔

میں سودوسوسال پہلے کی بات نہیں کرررہاہوں بلکہ یہ سب کچھ ہم لوگوں نے دیکھا ہے ۔ بیس پچیس سال پہلے کا ایسا نظام تھا ۔ ان بوریہ پر بیٹھ کر تعلیم دینے والے اور تعلیم حاصل کرنے والے کی جفاکشی کو آج کی نسل دیوانگی سے تعبیر کرے گی ۔

اس تعلیم کا حال یہ تھا کہ جیومیٹری اور الجبرا کے بڑے ادق مسائل اساتذہ کو بغیر کتاب کے یوں ازبر ہوتے گویا وہ اس سبجیکٹ پر پی ایچ ڈی ہوں ۔ کھیتوں میں کام کرنے والے بہت سے کسان علم الافلاک کے ماہر ملتے تھے ۔ فارسی زبان وادب تو گویا گھر کی میراث تھی خواتین بھی اپنی بول چال اور محاورے میں فارسی یا عربی کے محاورے استعمال کرتی تھیں ۔ اقلیدس اور فیثاغورس پڑھانے والے سیدھے سادے انسان ہوا کرتے تھے ۔ فلسفے کی باریک گتھی کو عام سا دکھائی دینے والا انسان سمجھادیا کرتا تھا ۔

یوپی ، بہار اور بنگال کی درس گاہیں اپنی مثال آپ تھیں ۔ انہی مدارس سے شبلی ، حالی ، سر سید ، ڈپٹی نذیر ، سید سلیمان ندوی ، سید سلیمان اشرف بہاری جیسے نابغہ روز گار وجود میں آئے تھے ۔ ان کے لیے یونیورسٹی ، کالج ، فیکلٹی سب کچھ وہی مدارس اور مکاتب تھے ۔ اساتذہ کا ادب تھا ، احترام تھا ، معاشرے میں عزت تھی اور ان کا وقار تھا ۔ طلبہ پر ان کا رعب ودبدبہ تھا خاص بات یہ تھی کہ تدریس عبادت تھی تجارت نہیں تھی ۔

‎آج ملک بھر میں مدارس کا تعلیمی نظام متاثر ہے ۔ درسگاہیں اچھی ہیں ۔ انتظامات عمدہ ہیں ۔ عمارتیں ہیں ، سہولتیں ہیں لیکن نظام تعلیم نہیں ہے ۔ چند ایک مدارس ہی ہیں جو اپنی سانسیں لینے کے لیے طلبہ کا آکسیجن حاصل کرلے رہے ہیں ورنہ اکثر مدارس آئی سی یو میں ہیں ۔ ہر گاؤں ، ہر محلے میں مکتب قائم ہیں لیکن اثرات کے اعتبار سے بالکل بے اعتبار ہیں ۔ اساتذہ بے وقعت بنادیئے گئے ہیں ۔

کمیٹی کے نام پر اوباشوں نے نظام سنبھال رکھا ہے ۔ مدارس کو طلبہ میسر نہیں ہیں ۔ بڑے مدارس کو بہار، بنگال ، یوپی سے طلبہ ملا کرتے تھے لیکن اب ان علاقوں میں مدارس کے طلبہ کی قحط ہے ۔

بہار کا کوسی ژون ، سیمانچل ، میتھلی ژون بنگال کا بیر بھوم مالدہ ٹاؤن ، یوپی کا بہرائچی علاقہ اور نیپال کے متصل اضلاع مدارس کے لیے بڑے زرخیز مانے جاتے تھے لیکن مدارس کے انتظامیہ کی بے حسی، آپسی ناچاقی اور حب جاہ نے مدارس کے طلبہ کی زندگی کے ساتھ گذشتہ دس بارہ سالوں میں ایسا بھونڈا مذاق کیا ہے کہ اب ان علاقوں میں طلبہ کا قحط پڑ چکا ہے ۔

جہاں سے ہزاروں طلبہ آیا کرتے تھے اب پچاس بھی نہیں آرہے ہیں ۔ ‎دوسری طرف اسکول کی تعلیم کے اوقات اور اسکول کی بے جا تعلیمی تجارت نے تعلیم کو بے حد متاثر کیا ہے ۔ بنیادیں کھوکھلی ہوتی جارہی ہیں ۔ شمالی ہند کے مدارس نے پھر بھی اپنی تعلیمی شناخت بچانے کی کوشش کی ہے لیکن جنوبی ہند نے تو مدارس کی تعلیم کے نام پر مسلم بچوں کو چند سورتیں اور دعائیں زبانی یاد کرانے پر ہی اکتفا کررکھا ہے ۔

صورت حال اتنی بھیانک ہے کہ جو اساتذہ فراغت کے بعد پڑھانے آتے ہیں انہیں ناظرہ خوانی نہیں آتی ہے ۔

یہ سنی سنائی باتیں نہیں ہیں ۔ آپ کو بھی موقع ملے تو تجربے کرکے دیکھ لیں ۔ اپنی تہذیبی روایات کے ساتھ علم کو بچانے کی بھی سخت ضرورت ہے ۔

‎مدارس دم توڑ رہے ہیں ، وینٹی لیٹر پر ہیں ، حالانکہ وسائل پہلے سے زیادہ ہیں ۔ آسائشئں بھی خوب ہیں ۔ عمارتیں عالی شان بن رہی ہیں ۔ لیکن پڑھنے والوں کی دل چسپی ختم ہوگئی ہے ۔ یا تو ہم یہ مان لیں کہ دھیرے دھیرے پوری نسل ارتداد کی طرف بڑھے گی یا یہ مان لیں کہ کوئی معجزہ ہی پھر مدارس کی مردہ رگوں میں زندگی کی رمق دوڑا پائے گا ۔

از۔ فیاض احمدبرکاتی مصباحی

نورالعلوم عتیقیہ ، گنج بازار ترائی بلرام پور

Email.faiyazmisbahi@gmail.com

 

یہ مضامین نئے پرانے مختلف قلم کاروں کے ہوتے ہیں۔

ان مضامین میں کسی بھی قسم کی غلطی سے ادارہ بری الذمہ ہے۔

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن