Wednesday, December 11, 2024
Homeحالات حاضرہیونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ

یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ

یونیورسٹی جاتے علما ایک تجزیہ

تحریر :محمد زاہد علی مرکزی

چیرمین :تحریک علمائے بندیل کھنڈ

آج کل مدارس کے طلبہ اور علما میں یونیورسٹی جانے کی لیے دھن سوار ہے، جن طلبہ /علما کو بھی موقعے میسر آرہے ہیں وہ مدرسہ چھوڑ کر یونیورسٹی نکل جانے کو ہی کامیابی سمجھ رہے ہیں – بات صرف اتنی ہی ہوتی تب بھی ٹھیک تھا، لیکن معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ یونیورسٹی جانے کے بعد اکثر طلبہ کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ہم کسی کنویں کے مینڈک تھے، سیکڑوں سالوں سے جن عقائد پر علما متفق ہیں وہ انھیں بے کار لگنے لگتے ہی

ایک مشت داڑھی پر دلائل طلب کرنے لگتے ہیں، اکابرین کی تحقیقات لایعنی سمجھ کر اپنی تحقیقات پر وقت صرف کرتے ہیں، جو وقت کسی مثبت کام لگانا چاہیے تھا وہ نئی تحقیق پر لگاتے ہیں، خود ساختہ معمولات پر ہی عامل ہوتے ہیں، نیز انھیں اپنی فکر کے آگے سبھی بَونے نظر آتے ہیں، بسا اوقات روشن خیالی اور بھائی چارے کا “چورن” ایسا اثر دکھاتا ہے کہ مذہب بھی بَونا نظر آتا ہے، گویا خود ہی احکام شرع وضع کرکے اسی پر عامل ہوتے ہیں، اگر کوئی عالم تفہیم کی کوشش کرتا ہے تو ٹَکا سا جواب دیا جاتا ہے “میاں ہمیں نہ سمجھائیں ہم بھی عالم ہیں” مزید زور دینے پر وہ تاویلات نکل کر سامنے آتی ہیں کہ شیطان بھی ایسی تاویلات دیکھ کر شرما جائے –

خیر! ہمارا مقصد یہ ہے کہ مدارس کے طلبہ اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھیں، آپ اللہ و رسول کے چنندہ ہیں، “من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین” برہان مبین ہے، اللہ کے پیارے نبی ارشاد فرماتے ہیں ایک عالم ایک ہزار عابدوں پر بھاری ہے، یہ بھی فرماتے ہیں عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسی میری تمہارے ادنیٰ پر – آپ کی فضیلتوں کے چرچے قرآن و حديث میں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں، رزاق اللہ ہے اسی پر توکل فرمائیں اور مایوس نہ ہوں – کیوں کہ /امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں –

ہم تحریر میں یونیورسٹی جانے کے دینی، دنیوی دونوں پہلوؤں پر غور کریں گے اور فیصلہ قارئین /طلبہ کرام پر چھوڑیں گے تاکہ وہ درست فیصلہ کر سکیں اور ایک ایسی راہ چن سکیں جس میں وہ خسارہ نہ اٹھائیں، اس تحریر پر مجھے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جانا یقینی ہے ، اس لئے جوابی کارروائی کے لئے بھی تیار ہوں، حالیہ سالوں میں ایسے حادثات پیش آئے ہیں کہ لکھنا ضروری ہوگیا ہے اس لیے لکھ رہا ہوں

/شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات –

مدرسہ جانے والے طلبہ کی تعداد کتنی ہے؟

Figures from the National Council for Applied Economic Research (NCAER) “indicate that only about four percent of all Muslims students of the school going age group are enrolled in madrassas. “At the all-India level this works out to be about three percent of all Muslim children of school going age.05-Dec-2006

سچر کمیٹی کی رپورٹ کہہ رہی ہے کہ انڈیا میں اسکول جانے والی عمر کے بچے مدارس میں صرف تین سے چار فیصدی جاتے ہیں – یہ رپورٹ 2006 کی ہے- چوں کہ یہ رپورٹ پرانی ہے اس لیے ہم 2016 کے بعد کی تعداد کا جائزہ بھی لیتے چلیں تاکہ بات مزید واضح ہوجائے، اتر پردیش مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے اور یہاں حصول تعلیم کے لئے پورے ملک سے طلبہ آتے ہیں، لیکن یہاں مدارس میں داخلہ لینے والوں کی تعداد حیران کن طور پر گھٹی ہے

Take a look at how the number of students enrolled in UP madrasa has decreased since 2016:

-In 2016, a total of 4 lakh 22 thousand 667 students were registered in the Madrasa Board examinations

-In 2017, this number came down to 3 lakh 71 thousand 52 students

-In 2018, this number came down to 2 lakh 70 thousand 755 students

-In 2019, this number came down to 2 lakh 6 thousand 337 students

-In 2020, this number came down to 1 lakh 82 thousand 259 students

-In 2021, this number came down 1 lakh 82 thousand students

-In 2022, this number came down 1 lakh 63 thousand 999 students

2016 – چار لاکھ 22 ہزار 667.

2017 – تین لاکھ 71 ہزار 52.

2018 – دو لاکھ 70 ہزار 755

2019 – دو لاکھ 6 ہزار 337

2020ا – ایک لاکھ 82 ہزار 259. 2021 – ایک لاکھ 82 ہزار.

2022 – ایک لاکھ 63 ہزار 999 –

2022 میں جن طلبا نے امتحانات میں شرکت کی ان کی تعداد رجسٹریشن کی تعداد سے 23000 کم رہی تھی –

ابھی بھی آپ کو لگ رہا ہوگا کہ قریب ڈیڑھ لاکھ کی تعداد کیا کم ہے، تو یاد رکھیں اس تعداد میں سنی، دیوبندی اہل حدیث، رافضی مدارس کے طلبا بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ کثیر تعداد میں عام مسلمان طلبا، طالبات شامل ہوتے ہیں، علما یا مدارس میں درس نظامی، حفظ و قرأت سے متعلق تعداد آٹے میں نمک برابر بچتی ہے –

ان اعداد و شمار کے بعد مجھے لگتا ہے کہ کووڈ کے بعد مدارس میں جانے والے طلبا ایک سے آدھا فیصد ہی رہ گیے ہیں – جس طرح اتر پردیش میں کمی دیکھنے کو ملی ہے یہی حالت پورے ملک کی ہے –

والدین کے ساتھ دھوکا –

سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا ارشاد فرماتے ہیں “پہلے ایک عالم اٹھتا تھا ہزار نائب چھوڑتا تھا، اب ہزار اٹھتے ہیں ایک نائب نہیں ملتا “

عیش پسندی کے اس دور میں جہاں روزی روٹی ہی لوگوں کی زندگی کا مقصد رہ گیا ہو، جہاں جائز ناجائز کے اصول طاق پر رکھ دیے گیے ہوں، جہاں أمرا اپنے بچوں کو دین سے دور رکھنا اپنا فرض منصبی سمجھ رہے ہوں ایسے ماحول میں اگر چند لوگ اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات کے حصول کے لیے مدارس بھیج رہے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم انھیں مدارس تک ہی محدود رکھیں، ایسے خواب نہ دکھائیں جس سے بعد میں پچھتاوا ہو، آپ کا خواب دکھانا کسی کا دین بھی تباہ کر سکتا ہے اور دنیا بھی –

مدارس سے یونیورسٹی کا رخ دکھانے والے یا انھیں کسی بھی طرح اس طرف مائل کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس بات پر بھی غور فرمائیں کہ ان کے والدین نے انھیں دینی تعلیم کے لئے مدارس بھیجا تھا، عصری تعلیم کے لیے نہیں، انھوں نے اپنے ایک بچے کو راہ خدا میں پیش کردیا تھا مگر ہم اسے کسی اور جانب بھیج کر ان والدین کے ساتھ بھی دھوکا کر رہے ہیں

اللہ جل شانہ سورہ بقرہ میں حضرت مریم کا واقعہ بیان فرماتا ہے – اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْۚ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۳۵)

جب عمران کی بی بی نے عرض کی اے رب میرے میں تیرے لیے منت مانتی ہوں جو میرے پیٹ میں ہے کہ خالص تیری ہی خدمت میں رہے تو تُو مجھ سے قبول کرلے بے شک تو ہی ہے سنتا جانتا -(: کنزالایمان)

یہاں والدین اپنے بچوں کو عصری تعلیم کی اہمیت و افادیت جاننے کے بعد بھی دینی تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں،وہ چاہتے ہیں کہ ہمارا ایک بچہ دینی تعلیم حاصل کرے تاکہ ہماری دنیا و آخرت سنور جائے، ایسے میں انھیں یونیورسٹی بھیجنا درست نہیں لگتا –

اہل سنت کے مدارس میں طلبہ کی تعداد کتنی؟

ملک کی مسلم آبادی قریب پچیس کروڑ بتائی جاتی ہے، جس میں سے آدھی آبادی خواتین کی ہے، ساڑھے بارہ کروڑ کی کل آبادی میں سے دیگر فرقوں کی آبادی الگ کردیں تو دس کروڑ کی آبادی بچے گی، دس کروڑ کی آبادی میں صرف دس یا بیس ہزار لوگ مدارس آرہے ہیں اور بقیہ عصری اداروں میں جارہے ہیں، ایک سروے کے مطابق پورے ملک میں سنیوں کا سب سے بڑا ادارہ الجامعۃ الإشرفیہ (مبارک پور) ہے، جس میں طلبا کی تعداد کم و بیش 1500 ہے، اس کے بعد قریب دس اداروں میں یہ تعداد اوسطاً سات سے آٹھ سو ہے، تین سے پانچ سو کے ادارے بھی شامل کر لیے جائیں تو یہ تعداد قریب پندرہ ہزار بنتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس کل تعداد کا آدھا حصہ حفاظ ہیں، ایسے میں مدارس کے طلبا کو حسین خواب دکھا کر یونیورسٹی لے جانا دین کا نقصان نہیں تو اور کیا ہے؟

اب اگر ان دس، بیس ہزار میں سے بھی عصری اداروں میں بھیج دیں گے تو ہمارے پاس کیا بچے گا؟ اب سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا کا قول ایک بار پھر پڑھیے “پہلے ایک عالم اٹھتا تھا ہزار نائب چھوڑتا تھا، اب ہزار اٹھتے ہیں ایک نائب نہیں ملتا ” اللہ کے پیارے نبی ارشاد فرماتے ہیں اِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ العِلْمَ اِنْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ ، وَلٰكِنْ يَّقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ ، حَتّٰى اِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ اِتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا ، فَسُئِلُوا فَاَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ ، فَضَلُّوا وَاَضَلُّوا “

یعنی ﷲ پاک علم کو بندوں(کے سینوں ) سے کھینچ کر نہ اٹھائے گا بلکہ علما کی وفات سےعلم اٹھائے گا ، حتّٰی کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ، جن سے مسائل پوچھے جائیں گے وہ بغیر علم فتویٰ دیں گے ، تو وہ خودبھی گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو بھی) گمراہ کریں گے۔

امام بخاری علیہ الرحمہ نے نوے ہزار شاگرد چھوڑے، امام اعظم نے ایک ہزار، لیکن آج حال کیا ہے ہم سب دیکھ رہے ہیں، وہ علما جن کی فقاہت، دینی سمجھ اور علمی حیثیت سے اہل ایمان کے قلوب و جگر منور اور عوام اہل سنت کے لیل و نہار روشن ہیں پورے ملک میں انگلیوں میں شمار کیے جا سکتے ہیں، یہ تب ہے جب ہمارے اداروں میں قریب پندرہ ہزار طلبا آرہے ہیں، ان پندرہ ہزار میں سے پندرہ بھی فقیہ /محدث بن جائیں تو ہماری خوش قسمتی ہے، اب اگر اسی تعداد سے ہم آدھی تعداد یونیورسٹی لے جائیں تو علم کی سطح کتنی گر جائے گی یہ آپ سجھ سکتے ہیں، جہاں ہم 15 فقیہ، 15 محدث بنا رہے تھے وہاں یہ تعداد آدھی رہ جائے گی، بتائیے یہ دین کا نقصان ہے یا نہیں؟

علما ہی سے دین کا کام چل رہا ہے، یہی شرک سے لے کر صغائر تک کی تنبیہ کرنے والے ہیں، عوام کو عقائد اہل سنت پر کاربند رکھنے والے ہیں، گاؤں گاؤں تک اگر دین پہنچ رہا ہے تو انھیں علما کی دین ہے، ادیان باطلہ، فرقہاے باطلہ سے یہی لوگ مقابلہ کرتے ہیں ۔ قلیل تنخواہوں پر جو کام یہ علما کر رہے کوئی دوسرا نہیں کر سکتا – اکثر علما /طلبا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی یونیورسٹی جاکر دین کی ہی خدت کریں گے، دین چھوڑ نہیں رہے، دین کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ہم یونیورسٹی کا رخ کر رہے ہیں، لیکن یہ کھلا ہوا شیطانی دھوکا ہے، یونیورسٹی جانے والے علما یا اسکول، کالج جیسے اداروں میں حکومتی ملازمت کرنے والے پروفیسر علما کو دیکھ لیجیے اور ان کی خدمات کا جائزہ لیں تو سمجھ آجائے گا کہ انھوں نے دین کی کتنی خدمت کی ہے. (الا ماشاء اللہ)

یونیورسٹی جانے کے چند فوائد. عمومی طور پر علما کو حکومتی ملازمت نہیں ملتی کیوں کہ وہ اس کے اہل نہیں ہوتے، نیز جو اہل ہیں ان میں اکثر توجہ نہیں دیتے، جب کہ یونیورسٹی جانے والے علما /طلبا اس جانب توجہ دیتے ہیں اور بسا اوقات ملازمت مل جاتی ہے، جنھیں ملازمت مل جاتی ہے وہ سرکاری ملازم ہو کر 60/65 سالوں کے لئے بندھ جاتے ہیں، ملازم ہونے کی حیثیت سے بہت سارے کام ہوتے ہیں جن میں وہ مصروف رہتے ہیں، عصری اداروں کی ملازمت اور دینی اداروں کی ملازمت میں فرق ہے

اس لیے ایک کو دوسرے پر قیاس نہ کریں، عصری اداروں میں ملازمت سے فقہ و حدیث کا مطالعہ مشکل ہوجاتا ہے، بل کہ علما سے بھی دوری ہوجاتی ہے، دھیرے دھیرے بندہ دینی خدمات سے دور ہوتا جاتا ہے، اکثر لوگوں کو لگتا ہے کہ جب پیسہ ہوگا فکر معاش سے بری ہونگے تو خدمت دین زیادہ کریں گے، لیکن یہ اکثر لوگوں کے لیے خیال ہی خیال ہے حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے

جنھیں ملازمت نہیں ملتی وہ گھوم پھر کر واپس درس و تدریس، امامت کی لائن میں آجاتے ہیں، اس طرح وہ کئی سال جو یونیورسٹی میں گزارے بے کار جاتے ہیں، ان سالوں میں دینی تحقیقات، دینی مطالعہ پر جو وقت صرف ہو سکتا تھا وہ ہاتھ سے جاتا رہا، اس طرح بھی دین ہی کا نقصان زیادہ ہوتا ہے – جاری…..

نوٹ : تحریر سے آپ کا اتفاق ضروری نہیں –

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن