دینی مدارس طلبا اور مدرسین
مدارس دینیہ اسلامی علوم کے سرچشمہ ہیں۔ دین اور دینی علوم کے فروغ کا براہ راستہ تعلق دینی مدرسوں سے ہے۔ لیکن پچھلے چند سالوں سے عوام الناس کی جانب سے مدرسوں کے تعلق سے جو بے اعتنائی آئی ہے ، وہ نہایت ہی کرب ناک اور تشویش ناک ہے۔
ہم اس مضمون میں اس کے اسباب و علل جاننے کی کوشش کریں گے ؛ نیز اس کے لیے کچھ لائحے بھی تلاش کریں گے۔
زمانہ طالب علمی کے بعد سے تدریسی میدان میں ایک عشرہ مکمل کر چکا ہوں ، گو یہ عرصہ بہت زیادہ نہیں ہوا ، تاہم تلخ وشیریں جو تجربات ہوئے ، اس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ آج بھارت کے دینی مدارس اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اس کے چند اسباب ہو سکتے ہیں
: طریقہ تدرس
مدرسوں کی جانب طلبا اور سر پرستوں کی دل چسپی میں کمی کی ایک بڑی وجہ موجودہ طریقہ تدریس بھی ہے۔ ہمارا نصاب اپنے آپ میں مکمل ہے؛ پر حالات کے پیش نظر اس میں اضافے و ترمیم ناگزیر ہو جاتی ہے۔ ڈانٹ پلا کر، مار مار کر ، چمڑیا ادھیڑ کر ، کھال کھینچ کر یا رٹا رٹا کر پڑھانے کا پرانہ طریقہ اب بدلنا ہوگا۔ زمانہ بدل چکا ہے، حالات تبدیل ہو گئے ہیں ، آپشنس بڑھ گئے ہیں ، طبیعتیں پہلی جیسی سخت جان نہیں رہیں۔ ہمیں درس گاہوں میں رٹانے سے زیادہ مسائل ذہن میں اتارنے پر توجہ دینی ہوگی۔ ”کِیا اس ایک مرد نے“ جیسے ترجمہ و تمثیل کے بجائے جدید طریقے کی مثالیں دینی ہوں گی۔
کوالیٹی :
اہل مدارس جتنی جلدی یہ سمجھ لیں ، مستقبل کے لئے اتنا ہی بہتر ہوگا کہ ؛ مدرسوں کے ٹوائلیٹس ، حمام، ہال ، مطبخ اور بیڈ روم کی کوالیٹی بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔ در اصل بچوں کی اصل تربیت ان کے رہن سہن ہی میں ہوتی ہے۔ ایسا ابراہیمی نظر کا طالب علم بہت کم ملے گا جو اپنے معاشرے اور گرد و نواح سے بلند ہو کر سوچے۔ جدید طرز کے دار الاقامے اور ان میں طور طریقے نیز صاف صفائی کا نظم بالکل مہذب ہونا چاہیے۔ عوام اور خواص کو مدرسوں کی جانب راغب کرنے کے لیے ہمیں دار الاقامے ، مطبخ ، گلیارے اور درس گاہیں اس قابل کرنی ہوگی کہ ہم فخریہ قوم کو دکھا سکیں۔
اصول و ضوابط :
کسی بھی چیز کے مستقل اور کامیابی سے جاری رہنے کے لیے اصول و ضوابط اور ان کی تعمیل بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، پھر چاہے وہ ملک و ملت ہو ، تنظیم ہو یا تعلیمی ادارے۔ اصول و ضوابط کی لا پرواہیوں کی وجہ سے تاریخ نے بڑے بڑے اداروں کو تباہ ہوتے دیکھا ہے۔
داخلے میں ، تعطیلات میں، نصاب و نظام الاوقات میں اصولوں اور قوانین کا تحریری شکل میں ہونا بہت ضروری ہے۔
چاروں طرف صلح کلیت کی ہوا چلی ہوئی ہے ، ایسے میں اصول داخلہ میں اسلامی عقائد اور بدمذہبوں کے تعلق سے واضح طور ہر اقرار بہر صورت کرالیں۔
طلبہ کے تعلق سے چند اصول لکھ کر ادارہ کے صدر دروازے پر چسپاں کروا دیں۔ اساتذہ کے لئے جو اصول و ہدایات طے کیے جائیں ، انھیں طلبہ میں عام نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ وہ اساتذہ کو اقرار نامے کے ساتھ دے دیے جائیں! (جاری۔۔۔۔۔۔۔)
✍🏻 انصار احمد مصباحی
9860664476
aarmisbahi@gail.com