Tuesday, December 3, 2024
Homeنعتمثنوی پس چہ باید کرد کا نعتیہ پہلو

مثنوی پس چہ باید کرد کا نعتیہ پہلو

”  مثنوی پس چہ باید کرد کا نعتیہ پہلو  :

( طفیل احمد مصباحی )

” مثنوی پس چہ باید کرد ” شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال ( وفات : ۱۹۳۸ ء ) کی ایک لازوال مثنوی ہے ۔ اس مثنوی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ” ڈاکٹر اقبال کی جملہ شاعری جسم کی حیثیت رکھتی ہے اور ‘ مثنوی پس چہ باید کرد ‘ دل کی حیثیت رکھتی ہے ” ۔ مجموعی طور پر اقبالؔ کی شاعری کا رنگ و روپ اسلامی یا بلفظِ دیگر قرآنی ہے ۔

ایک فلسفی ، مذہب پسند اور مصلح شاعر کی تمام خصوصیات ان کے اردو و فارسی کلام میں موجود ہیں ۔ ڈاکٹر اقبالؔ پہلے پہل ایک محبِ وطن شاعر کے طور پر متعارف ہوئے اور اپنی قوم کی حریت و آزادی کے لیے کوشاں رہے ۔

بعد میں ان کی تہہ دار فکر و شخصیت پر فلسفیانہ رنگ چڑھا اور مرورِ ایام کے ساتھ ان کے اسلامی فکر و فلسفہ میں دین و مذہب کا عنصر حاوی ہوتا گیا اور آخر میں وہ اسلامی شاعری کے ایک نمائندہ بن گئے ۔ یہ فارسی مثنوی ( پس چہ باید کرد ) ان زندگی کے آخری دور کا کلام ہے ، جس میں ” اسلامیات و نعتِ سلطانِ کائنات علیہ افضل الصلوات و اکرم التسلیمات ” کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے ۔

ان کی نعتیہ شاعری اپنے اندر بڑی کشش اور جامعیت رکھتی ہے ۔ ڈاکٹر عبد الشکور احسن کے بیان کے مطابق ” جوں جوں زمانہ گزرتا گیا ، علامہ اقبال کے کلام میں دینی اور قرآنی حقائق کے اظہار کا رجحان بڑھتا گیا ……… مثنوی پس چہ باید کرد میں ملی جہت کا تعین بہت روشن ہے ” ۔ مثنوی پس چہ باید کرد ” پہلی بار ۱۹۳۶ ء میں شائع ہوئی ۔ اس مثنوی کی شانِ نزول اور اس کے وجود میں آنے کا سبب یہ ہے کہ ڈاکٹر اقبالؔ اپنے علاج کے لیے بھوپال گئے ہوئے تھے ۔

وہاں ایک رات انہوں نے خواب میں سر سید احمد خان ( بانی مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ ) کو دیکھا جو اقبالؔ سے کہہ رہے تھے کہ تم اپنی علالت اور بیماری کا ذکر حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیوں نہیں کرتے ? جب ان کی آنکھ کھلی تو یہ شعر وردِ زبان تھا :

با پرستارانِ شب دارم ستیز

باز روغن در چراغِ من بریز

( شرح مثنوی پس چہ باید کرد ، ص : ۳ ، مطبوعہ : سنگ میل پبلیکیشنز ، لاہور )

مثنوی کا آغاز درج ذیل شعر سے ہوتا ہے :

سپاہِ تازہ برانگیزم از ولایتِ عشق

کہ در حرم خطرے از بغاوتِ خرد است

” ولایتِ عشق ” اور ” در حرم خطرے ” جیسی ترکیب بتا رہی ہے کہ مثنوی پر اسلامیات کا رنگ غالب ہے ۔ مثنوی میں شامل موضوعات کچھ اس طرح ہیں : بخوانندۂ کتاب ، تمہید ، خطاب بہ مہرِ عالم تاب ، حکمتِ کلیمی ، حکمتِ فرعونی ، لا الہٰ الاّ اللہ ، فقر ، مردِ حُر ، اسرارِ شریعت ، اشکِ چند بر افتراقِ ہندیاں ، سیاستِ حاضرہ ، حرفِ چند با امتِ عربیہ ، پس چہ باید کرد اےاقوامِ مشرق ، در حضورِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ۔

اقبالؔ نے اس مثنوی میں ایک جگہ لکھا ہے کہ تعمیرِ فکر سے پہلے تطہیرِ فکر ضروری ہے ۔ اقبالؔ کی شاعری نے تعمیری فکر کی ترویج میں مؤثر کردار کیا ہے اور یہ تعمیری فکر در اصل ان کی تطہیرِ فکر کی زائیدہ ہے ۔ اردو کی طرح ان کی فارسی نعتیہ شاعری بھی ان کی تطہیرِ فکر و فن کا قابلِ قدر نمونہ ہے ۔

پس نخستیں بایدش تطہیرِ فکر

بعد ازاں آساں شود تعمیرِ فکر

مثنوی کا اہم ترین نعتیہ پہلو اور توصیفی حصہ وہ ہے ، جو ” در حضورِ رسالت مآب علیہ السلام ” کے عنوان سے ہے ۔ اس کا ہر بند عشق و وارفتگی اور سوز و گداز سے لبریز ہے ۔ جذبات کی پاکیزگی ، خیالات کی طرفگی ، مؤدبانہ اسلوب اور دلنشیں طرزِ اظہار نے پوری مثنوی کو لالہ زار بنا دیا ہے ۔

ڈاکٹر اقبالؔ نے عام نعت گو شعرا سے علاحدہ اندازِ بیان اختیار کیا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند ترین مقام اور اعلیٰ مرتبے کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے اور آپ کے پیغمبرانہ مشن کے نتائج و ثمرات کو خصوصیت کے ساتھ اجاگر کیا ہے ۔ وہ اپنے ممدوح کو کہیں ” ماویٰ و ملجا ” کہتے ہیں تو کہیں ان کو ” نمازِ صبح اور بانگِ اذاں ” کہہ کر پکارتے ہیں ۔

کہیں حضور کو ” بیکسوں کا سرمایہ اور مسافروں کی منزلِ مقصود ” سے خطاب کرتے ہیں اور کہیں حضور علیہ السلام وجودِ مسعود کو ” کائناتِ کہنہ کو تازگی فراہم کرنے والے ” سے تعبیر کرتے ہیں ۔ غرض کہ نوع بہ نوع آداب و القاب سے حضور کو یاد کر کے اپنی غلامی اور عشق و عقیدت کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ ایک عاشقِ پُر سوز اور طوطیِ گلشنِ بطحا کی نغمہ سنجی ملاحظہ کریں :

اے تو ما بیچارگاں را ساز و برگ

وا رہاں ایں قوم را از ترسِ مرگ

سوختی لاتؔ و مناتِؔ کہنہ را

تازہ کر دی کائناتِ کہنہ را

در جہانِ ذکر و فکرِ انس و جاں

تو صلوٰۃِ صبح ، تو بانگِ اذاں

ذکرِ تو سرمایۂ ذوق و سرور

قوم را دارد بہ فقر اندر غیور

اے مقام و منزلِ ہر راہ رو

جذبِ تو اندر دلِ ہر راہ رو

( مثنوی پس چہ باید کرد ، ۶۴ ، ۶۵ )

ترجمہ : اے سرورِ کائنات علیہ السلام ! آپ ہم بیکسوں کا قیمتی سرمایہ ہیں ۔ امتِ مسلمہ کو موت کے خوف سے نجات دلائیے ۔ آپ نے پرانے بت جلا دیے اور پاش پاش کر دیے اور فرسودہ نظام کو زندگی و تابندگی بخشی ۔ جنّ و انس کے ذکر و فکر کی دنیا کی نمازِ صبح اور اذان کی آواز ، آپ ہی کی ذاتِ عالی صفات ہے ۔ حضور ! آپ کا مبارک ذکر ، ذوق و سرور اور عشق و مستی کا سرمایہ ہے ، جو امتِ مسلمہ کو فقیری میں میں خود دار اور غیرت مند بنا رکھا ہے ۔ آپ ہر مسافر کے مقامِ اصلی اور منزلِ مقصود ہیں ۔ ہر مسافر کے دل میں آپ ہی کا عشق کار فرما ہے ۔

استغاثہ ، استعانت ، استمداد ایک ہی حقیقت کے مختلف نام ہیں ۔ تینوں کا لغوی معنیٰ ہے : مدد مانگنا ، مدد طلب کرنا ، تکمیلِ حاجت کی درخواست کرنا ، پریشانیوں کے ازالے کی گذارش کرنا ۔

سورۂ فاتحہ کی آیت ہے : ایاک نعبد و ایاک نستعین یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے قرآن میں ارشاد فرمایا : یا ایھا الذین استعینوا بالصبر و الصلوٰۃ ۔ اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد طلب کرو ۔ پہلی آیت میں خاص طور پر اللہ سے مدد مانگنے کی بات کہی گئی ہے اور دوسری آیت میں اہلِ ایمان کو غیر اللہ یعنی صبر اور نماز سے مدد طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

یہیں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا جائز ہے اور یہی ” استعانت و استمداد و استغاثہ ” ہے ۔ استعانت و استمداد نعت کے موضوعات میں سے ایک ہے ، جس میں شاعر اپنے ممدوح جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نہایت عاجزی کے ساتھ مدد مانگتا ہے اور اپنی پریشانیوں کا ذکر کر کے ان کے ازالے کی درخواست کرتا ہے ، جو دینی و شرعی نقطۂ نظر سے جائز و درست ہے ۔ اس کو ناجائز و حرام کہنا ، فکری کج روی اور جہالت کی دلیل ہے ۔

شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبالؔ نے اپنی اس مثنوی میں جہاں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شایانِ شان تعریف و توصیف کی ہے ، وہیں حضور علیہ السلام سے ” استعانت و استمداد ” کرتے ہوئے آپ سے رحم و کرم کی بھیک بھی طلب کی ہے اور آپ سے اپنی بیماری کے ازالے کی درخواست کی ہے ۔ استمداد و استعانت کے مسئلے کو لے کر اہل سنت و جماعت پر کفر و شرک کا فتویٰ لگانے والے وہابیہ کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر اقبالؔ پر بھی کفر و شرکت کا فتویٰ لگائیں ۔ بہر کیف ! استعانت و استمداد سے متعلق اقبالؔ کے یہ پُر کیف اور روح پرور اشعار ملاحظہ فرمائیں :

گردِ تو گردد حریمِ کائنات

از تو خواہم یک نگاہِ التفات

ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی

کشتی و دریا و طوفانم توئی

آہوئے زار و زبون و ناتواں

کس بہ فتراکم نہ بست اندر جہاں

اے پناہِ من ! حریمِ کوئے تو

من بامیدے رمیدم سوئے تو

چوں بوصیرؔی از تو می خواہم کشود

تا بہ من باز آید آں روزے کہ بود

مہرِ تو بر عاصیاں افزوں تر است

در خطا بخشی چوں مہرِ مادر است

ترجمہ : حضور ! پوری کائنات آپ کے ارد گرد گھومتی ہے ۔ میں آپ کی ایک چشمِ التفات ( نظرِ کرم ) کا طالب ہوں ۔ میرا ذکر و فکر اور میرا علم و عرفان آپ ہی کی ذاتِ گرامی ہے ۔ میری کشتی ، میرا دریا اور میرا طوفان حضور ہی ہیں ۔ میں ایک کمزور ، پریشان حال اور نحیف و ناتواں ہرن کے مانند ہوں ، جسے دنیا میں کسی نے اپنے فتراک ( مراد پناہ دینا ) میں باندھنا پسند نہیں کیا ۔ حضور ! آپ ہی میرے ماویٰ و ملجا اور پناہ گاہ ہیں ۔ بڑی امید لے کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں ۔ رحم کریں اور میری پریشانیوں کا ازالہ فرمائیں ۔ امام بوصیرؔی کی طرح میں بھی آپ سے استغاثہ کرتا ہوں اور مشکل کا حل چاہتا ہوں ، تاکہ میں اپنی پہلی حالت ( صحت و تندرستی ) پر لوٹ جاؤں ۔ حضور ! آپ کی شفقت و رحمت گنہگاروں پر بہت زیادہ ہے ۔ عفو و در گذر کرنے کے معاملے میں آپ بچوں سے محبت کرنے والی ماں سے زیادہ رحیم و شفیق ہیں ۔

ڈاکٹر اقبالؔ مزید کہتے ہیں کہ آہ ، افسوس ! میں رنج و اضطراب اور درد و کرب میں مبتلا ہوں ۔ میرے جسم و جان کو روگ لاحق ہو گیا ہے ۔ حضور ! آپ کی ایک ادنیٰ سی توجہ میرے دکھ درد کا مداوا کر سکتی ہے اور آپ کی ایک چشمِ عنایت میری بیماریوں کا علاج کر سکتی ہے ۔ لہٰذا نظرِ کرم فرمائیں اور مجھے کلفتوں سے نجات عطا فرمائیں ۔ حضور ! آپ کا مقدس وجود پوری کائنات کے لیے مژدۂ نو بَہار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ آپ گلشنِ کونین کی بَہارِ جاں فزا ہیں ۔ اپنے ظلِّ ہمایونی اور سایۂ عاطفت و رحمت کو مجھ سے دور نہ کریں ۔ یعنی آپ پوری کائنات کے ماویٰ و ملجا اور زخمِ انسانیت کے مسیحا ہیں ۔ حیاتِ کائنات آپ کے دم سے وابستہ ہے ۔ آپ ہر خزاں کو بہار میں تبدیل فرمانے والے رسول ہیں ۔ میری خزاں ( بیماری ) کو بَہار ( صحت ) میں تبدیل فرما دیں ۔

آہ زاں دردے کہ در جان و تن است

گوشۂ چشمِ تو داروئے من است

اے وجودِ تو جہاں را نو بَہار

پرتوِ خود را دریغ از من مدار

عشق ، والہانہ اظہار چاہتا ہے ۔ نعت گوئی اسی عشقِ صادق کا روح پرور عملی اظہار ہے ۔ ڈاکٹر اقبالؔ ایک سچے عاشقِ رسول تھے ۔ ان کی شاعری میں اسلامیات کی گونج صرف اس لیے سنائی دیتی ہے کہ انہوں نے اپنا ایمانی و روحانی رشتہ سرورِ کونین ، فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے استوار کر رکھا تھا ۔ ان کے سینے میں ایک حسّاس دل تھا ، جو ہر لمحہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبت میں مچلتا اور دھڑکتا رہتا تھا ۔

وہ بلبلِ حجاز بھی تھے اور گلشنِ بطحا کے طوطیِ ہزار داستاں بھی ، جس کی نوا سنجیوں اور نغمہ طرازیوں نے اہلِ اسلام کے دلوں کو اب تک مسحور کر رکھا ہے ۔ وہ خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ ” اگر چہ میری زندگی کی کھیتی محاصل اور پیداور سے خالی ہے ، لیکن اس میں ایک دل ہے ، جو عشقِ حقیقی اور محبتِ رسول کے جذبوں سے سرشار ہے ۔ اس دل کو میں نے دنیا والوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھا ہے ، کیوں کہ یہ ایک قیمتی سرمایہ ہے اور اس میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و الفت کا نقش مرتسم ہے ۔

اے خواجۂ کونین ! بندہ اقبالؔ مال و دولت کا خواہش مند نہیں ہے ۔ یہ غلام صرف اس بات کا طالب ہے کہ اس کو اپنا قرب اور حضوری عطا فرمائیں ۔ کیوں کہ آقا سے غلام کی دوری ، موت کے برابر ہے ” ۔ اللہ اکبر ! نعت گوئی کا کیا ہی پیارا انداز ہے :

گر چہ کشتِ عمرِ من بے حاصل است

چیزے کہ دارم کہ نامِ او دل است

دارمش پوشیدہ از چشمِ جہاں

کز سمِ شہدیزِ تو دارد نشاں

بندۂ را کو نہ خواہد ساز و برگ

زندگانی بے حضورِ خواجہ مرگ

” مثنوی پس چہ باید کرد ” کا ایک اہم ترین نعتیہ حصہ وہ بھی ہے جو ” حرفِ چند با امتِ عربیہ ” کے عنوان سے ڈاکٹر اقبالؔ نے عرب قوم سے خطاب کیا ہے اور اہلِ عرب کی خوبیوں اور ان کے انقلابی کارناموں کو بڑے اچھوتے انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے ۔ اہلِ عرب کا تذکرہ ہو اور شہنشاہِ عرب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ جمیل نہ ہو ، یہ ممکن ہی نہیں ۔ اقبالؔ امتِ عربیہ کو خطاب کرتے ہوئے اچانک اپنا روئے سخن رسولِ اکرم ، شہنشاہِ عرب و عجم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف موڑ دیتے ہیں اور حضور کی مدح و ثنا میں یوں رطب اللسان ہوتے ہیں :

از دمِ سیرابِ آں امی لقب

لالہ رست از ریگ صحرائے عرب

حرّیت پرورۂ آغوشِ او یعنی امروزِ امم از دوشِ او

او دلے در پیکرِ آدم نہاد

او نقاب از طلعتِ آدم کشاد

ہر خداوندِ کہن را او شکست

ہر کہن شاخ از نمِ او غنچہ است

گرمیِ ہنگامۂ بدر و حنین

حیدرؔ و صدیقؔ و فاروقؔ و حسین

سطوتِ بانگِ صلوٰۃ اندر نبرد

قرأتِ ” الصّافّات ” اندر نبرد

علم و حکمت ، شرع و دیں ، نظمِ امور

اندرونِ سینہ دل ہا نا صبور

حسنِ عالم سوز الحمراؔء و تاجؔ

آں کہ از قدوسیاں گیرد خراج

ایں ہمہ یک لحظہ از اوقاتِ او

یک تجلی از تجلیّاتِ او

ظاہرش ایں جلوہ ہائے دل فروز

باطنش از عارفاں پنہاں ہنوز

حمدِ بے حد مر رسولِ پاک را

آں کہ ایماں داد مشتِ خاک را

( مثنوی پس چہ باید کرد ، ص : ۵۲ ، ۵۳ )

یعنی اس امّی لقب ( حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے اپنے فیض بخش دم سے صحرائے عرب کی ریت پر نوع بہ نوع پھول کِھلائے ۔ حرّیت اور آزادی آپ کی آغوشِ کرم کی پروردہ ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کی تبلیغی مساعی نے انسانی پیکر میں ایک دھڑکتا ہوا دل پیدا کیا ، جو بت پرستی سے خدا پرستی کی طرف مائل ہوا ۔ انہوں نے انسان کے چہرے سے نقاب اٹھایا یعنی اسے اشرف المخلوقات ہونے کا احساس دلایا اور اس کو اصل منزل ( توحید پرستی و آخرت ) کا پتہ بتایا ۔

پیغمبرِ انسانیت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر پرانے آقا / بت کو توڑ دیا ۔ آپ کی پیغمبرانہ فراست کی نمی سے پژمردہ شاخوں سے کلیاں پھوٹ پڑیں ۔ معرکۂ بدر و حنین کی گرمی اور حضرتِ صدیق اکبر ، حضرت فاروقِ اعظم ، حضرتِ مولیٰ علی اور امام حسین رضی اللہ عنہم کی تہہ دار شخصیت اور اعلیٰ کردار آپ کی بدولت ہے ۔ یعنی ان حضرات کو جو بلند مقام حاصل ہوا ، وہ حضور علیہ السلام کی بدولت ہوا ۔

میدانِ جنگ میں نماز کے لیے اذان کی ہیبت ہو یا سورۂ ” و الصّافّات ” کی تلاوت ، یہ سب حضور کی تعلیم و تبلیغ کا ثمرہ ہے ۔ یہ علم و حکمت ، دین و شریعت ، نظمِ عالم اور سینے کے اندر کے دلِ نا صبور ( جذبۂ عشق سے سرشار دل ) حضور علیہ السلام کے فیضِ تعلیم کا نتیجہ ہیں ۔ الحمراء اور تاج محل کی خوب صورتی جو فرشتوں سے بھی خراجِ تحسین وصول کرتی ہے ، یہ اور مذکور بالا انقلاب و اثرات حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک لمحات میں سے ایک لحظہ کی صورت اور آپ کی تجلیات میں سے ایک تجلی کی شکل ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر تو ان دل فریب جلوؤں کی صورت میں نمایاں ہے اور جہاں تک آپ کے باطن کا تعلق ہے ، وہ عارفوں سے بھی مخفی ہے ۔ یعنی اس کائناتِ رنگ و بو کی جملہ رعنائیاں و دل فریبیاں حضور کے ظاہری حسن و تجلی کی وجہ ہیں اور آپ کے باطنی حسن و کشش کو علما و حکما تو دور عارفین و کاملین بھی کما حقہ نہیں جان سکے ۔ اللہ عز و جل کے بعد ہر قسم کی مدح و ستائش نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی زیبا ہے ، جنہوں نے مشتِ خاک ( انسان ) کو ایمان کی دولت سے سرفراز کیا ۔

نعت گوئی کا کمال اور اس کی ایک معنوی خوبی یہ بھی ہے کہ شاعر ، ممدوحِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فضائل و کمالات کے تذکارِ جمیل کے ساتھ لوگوں کو آپ کی سیرت و سنت پر عمل پیرا ہونے کی تعلیم و تلقین بھی کرے ۔ ڈاکٹر اقبالؔ کی فارسی نعتیہ شاعری بھی اس حوالے سے اچھا خاصہ مواد موجود ہے ۔

چناں چہ اس مثنوی میں ایک مقام پر وہ مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ذوق و شوق اور سوز و درد سے تمہارا وجود خالی ہو چکا ہے ۔ تمہیں معلوم ہی نہیں کہ عصرِ حاضر نے ، جو مغربی تہذیب و ثقافت کا نمائندہ ہے ، تمہارے ساتھ کیسا برا سلوک کیا ہے ۔ عصرِ حاضر نے تمہیں خود تم سے بیگانہ کر دیا ہے اور خود شناسی کے ساتھ خدا شناسی اور جمالِ مصطفیٰ ( یعنی جمالِ سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کی آشنائی کا جوہر تم سے چھین لیا ہے اور یہی چیز مسلمانوں کی ذلت و پستی اور عالمی سطح پر ان کے ادبار و انحطاط کا بنیادی سبب ہے :

اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد

می شناسی عصرِ ما با ما چہ کرد

عصرِ ما ، ما را ز ما بیگانہ کرد

از جمالِ مصطفیٰ بیگانہ کرد

” مثنوی پس چہ باید کرد ” کے یہ اشعار بھی دیکھیں کہ اقبالؔ کس قدر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہوں تو شرم کے مارے میرا وجود پانی پانی ہو جاتا ہے ۔ کیوں کہ اغیار کی کاسہ لیسی و محکومی سے میرا سینہ بت خانہ بنا ہوا ہے ۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے سچا عشق اور سچی وابستگی نہیں ہے تو پھر رسمی درود بھیج کر حضور کے اسمِ گرامی کے تقدس کو پامال کرنا مناسب نہیں ہے ۔

چوں بہ نامِ مصطفیٰ خوانم درود

از خجالت آب می گردد وجود

عشق می گوید کہ اے محکومِ غیر

سینۂ تو از بتاں مانندِ دیر

تا نداری از محمد رنگ و بو

از درودِ خود میالا نامِ او

غرض کہ ” مثنوی پس چہ باید کرد ” اپنی نوعیت کی ایک منفرد مثنوی ہے ، جو امتِ مسلمہ کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے اور ” بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل” والی بات کو دوہراتی ہے ۔ اس کا نعتیہ پہلو بڑا طرب انگیز ، عشق آفریں اور روح پرور ہے ۔ نعت گو شعرا اور اسلامی ادب کے طلبہ کو اس مثنوی کا ایک بار ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ اللہ رب العزت اپنے حبیبِ پاک ، صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے امتِ مسلمہ کو اس کے مندرجات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !!

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن