ایسے تھے میرے مرشدِ گرامی
(عرس تاج الشریعہ کے موقع سے یاد مرشد میں چند سطریں)
از: محمد فیضان رضا علیمی، رضا باغ گنگٹی
(جماعت رضائے مصطفی سیتامڑھی)
حضور تاج الشریعہ، بدرالطریقہ مرشدِ کامل مفتی محمد اختر رضا قادری ازہری علیہ الرحمہ کی ذات با برکات پوری دنیاے سنیت کے لیے مشعل راہ اور منبع برکات تھی، آپ نے پوری زندگی استقامت فی الدین پر بسر کی اور دوسروں کو بھی اس جانب ہمیشہ مبذول کرتے رہیں، شریعت پر اس قدر مضبوطی سے قائم تھے کہ زمین و آسمان تو اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوسکتے تھے، اس کا اعتراف اپنے تو کیا غیروں نے بھی کھلے دل سے کیا۔ ان کی زندگی کا سب عظیم حصہ دین و سنت پر ثابت قدمی ہی تھا۔ وہ عزیمت پر سختی سے عمل پیرا تھے۔
عشق رسول مقبول صلى الله عليه وسلم میں اس حد تک وارفتہ تھے کہ اپنے وقت کے مقبول عاشق رسول ہوئے اورزندگی کا ہر لمحہ سنت نبوی کے سانچے میں گزارنا اپنا پیشہ بنائے ہوئے تھے۔ آقا کریم صلى الله عليہ وسلم کی محبت کا درس اکثر مجلسوں میں دیتے اور امت کو اسی پر عمل کی تلقین کرتے، خود وارفتگی محبت میں نعت رسول کریم صلى الله عليه وسلم ہمیشہ گنگناتے اور لکھتے تھے جس پر آپ کا نعتیہ دیوان ” سفینۂ بخشش” شاہد ہے۔ نبی کی محبت و الفت میں مر مٹنے کا جذبہ اپنے اس شعر سے دیا۔ نبی سے جو ہو بیگانہ اس سے دل سے جدا کردیں پدر مادر برادر مال و جاں ان پر فد ا کریں
علمی جلالتِ شان اس قدر بلند تھا کہ کتنا ہی پیچیدہ مسئلہ ہو منٹوں میں حل کردیا کرتے تھے ایسا لگتا کہ یہ مسئلہ ان کے ذہن میں پہلے سے کسی نے رکھ دیا ہو۔ فقہی سیمیناروں میں بارہا ایسا ہوا کہ جہاں سارے اجلہ فقہا کا علم و فقہ جواب دے دیتا وہاں سے آپ کا علم شروع ہوتا اور تشریف لاتے ہی اس اچھوتے انداز سے اس کو بیان کرتے کہ سارے مندوبین حیران ہوتے کہ اتنا آسان مسئلہ یہ تھا۔ علمی رعب کی بات کی جائے تو ایسا تھا کہ وقت کے بڑے بڑے فقیہ گھٹنہ ٹیکتے ہوئے نظر آئے اور آپ کے علمی فیضان سے سیرابی حاصل کی۔
ذہانت اس قدر بلند رب العزت نے آپ کو عطا کیا تھا کہ جو کتاب پڑھتے اس کا صفحہ اور سطر تک ہمیشہ یاد رہتا اورکوئی دوسرا شخص اگر عبارت پڑھتا تو عبارت ختم ہوتے ہی پوری عبارت کی تشریح بغیر کتاب دیکھے مدلل انداز میں کرتے جاتے ایسا لگتا کہ سامنے کتاب ہے اور تشریح کیے جا رہے ہیں۔ جب بینائی جاتی رہی تو اکثر مسائل کسی سے لکھواتے اور پھر تسلی کے لیے بغور سنتے اور اس کی اصلاح فرماتے تھے۔ آپ کی ذہانت و فطانت کے اعلی ہونے کا ہی ثمرہ ہے کہ محض چھے مہینہ میں صرف سن کر قرآن مجید کو حفظ کرلیا۔
طریقت کے میدان میں ان کے زمانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا اللہ رب العزت اس قدر بارونق اور فیض رسا بنایا تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں بیک وقت لوگ قطاریں لگا کر مرید ہونے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ آپ کے مریدوں میں عصر حاضر کے نامور مشائخ، فقہا، علما، دانشور کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ کہیے کہ اگر ایک جگہ پانچ علما موجود ہیں تو اس میں ایک ہر صورت تاج الشریعہ کے مرید ہیں۔ اس طریقت کے ذریعہ آپ نے سیکڑوں لوگوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت کی اور ان کو مسلک اہل سنت و جماعت معروف بہ مسلک اعلیٰ حضرت پر سختی سے قائم کیا۔
چہرہ ایسا وجیہ اور پر ضیا تھا کہ سراپا جمیل و حسین کا سہرا آپ کے سر سجتا ہے۔ جس جگہ تشریف لے جاتے علما و عوام کا جم غفیر ایک دیدار کے لیے الٹ جاتا اور دیکھتے ہی اپنے دل میں تسکین پاتا، اللہ پاک نے آپ کے رخ زیبا میں ایسی جاذبیت اور کشش رکھی تھی کہ لاکھوں کی بھیڑ میں بھی ہر جگہ سے آپ صاف و شفاف طور پر نظر آتے تھے۔ آپ کی شخصیت ان خدا رشیدہ بزرگوں میں سے ایک تھی جنہیں دیکھ کر خدا یاد آجائے۔
فقہ اور حدیث پر ایسا عبور تھا کہ کس مسئلہ کا جزئیہ کہاں ملے گا، صفحہ و سطر کیا ہوگا سب بتاتے اور حدیث دانی ایسی کے کون سی حدیث کس کتاب میں ہے اور اس کا مقام کیا ہے، راوی کون ہے، سند کس کی ہے، راوی ثقہ ہیں یا نہیں، حدیث صحیح ہے یا ضعیف، اس حدیث سے کون سا مسئلہ مستنبط ہوتا ہے یہ ساری باتیں فوراً بتا دیا کرتے تھے۔
آپ پوری زندگی اپنے اباؤ اجداد کے علمی وارث اور امین بن کر رہے اور تعلیمات اعلی حضرت و مفتی اعظم ہند کو ملک و بیرون ملک میں عام کرتے رہے بالآخر ۶؍ ذی القعدہ بروز جمعہ ۱۴۳۹ھ مطابق ۲۲؍ جولائی۲۰۱۸ء کا دن گزار کر عین مغرب کی اذان کے وقت داعی اجل کو لبیک کہ گئے اور پوری دنیاے اسلام کو ایک نہ ختم ہونے والا درد دے کر چلے گئے۔ وہ کیا گئے کہ پوری مجلس سونی ہوگئی، آج تک نہ وہ بہار ہے نہ وہ رونق ہے۔
آج پانچ سال ہوگئے اس دنیا سے آپ کو گئے ہوئے لیکن ہزاروں دلوں میں آپ کی یادیں اور باتیں زندہ و تابندہ ہیں، ایسا لگتا ہے آپ آج بھی فرما رہے ہیں۔ آپ کی علمی و تعمیری خدمات ہم سب کے لیے بہترین تحفہ ہے لہذا آپ کے مریدین و متوسلین ان سے استفادہ کریں اور آپ کی تصنیفات و تالیفات کو عام کریں، آپ نے دس جلدوں میں ضخیم فتاوی لکھ کر حضور اعلی حضرت کے فتاوی رضویہ کے بعد ایک عظیم تحفہ عطا کیا ہے لہذا ہم سب اس سے اپنے مسائل حل کریں اور دین و سنت پر مضبوطی سے قائم رہیں۔ حضور مرشد گرامی کا مشن مسلک اعلی حضرت کا فروغ تھا لہذا ہم بھی وہی کریں !!!
از: محمد فیضان رضا علیمی
مدیر اعلیٰ: سہ ماہی پیامِ بصیرت، سیتامڑھی
مدرس: مدرسہ قادریہ سلیمیہ چھپرہ بہار
حضورتاج الشریعہ اور مرکز اہل سنت کا دور ششم
تاج الشریعہ رحمہ اللہ علیہ کی فقہی بصیرت
حضور تاج الشریعہ کی مقبولیت کا راز
علم کا شیدائی حضور تاج الشریعہ
تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
علم ریاضی میں امام احمد رضا کی مہارت
یادگار سلف حضرت علامہ عبد المبین نعمانی حفظہ اللہ تعالیٰ کی آپ سے چند باتیں
یہ مضامین نئے پرانے مختلف قلم کاروں کے ہوتے ہیں۔
ان مضامین میں کسی بھی قسم کی غلطی سے ادارہ بری الذمہ ہے۔