Tuesday, May 21, 2024
Homeحالات حاضرہاہل مساجد و مدارس تبلیغی ذمہ داری بھی ادا کریں

اہل مساجد و مدارس تبلیغی ذمہ داری بھی ادا کریں

اہل مساجد و مدارس تبلیغی ذمہ داری بھی ادا کریں !

یہ ہے دامن یہ گریباں آؤ کوئی کام کریں

موسم کا منہ تکتے رہنا کام نہیں دیوانوں کا

اپنے محبوب ملک بھارت میں آج کل بلکہ ایک طویل زمانے سے دین کی تبلیغ کے لیے تنظیموں اور خطاب و بیان کی کمی نہیں، بعض تنظیمیں یا خطبا، ملکی پیمانے پر کام کرنے کا دعوی کرتے ہیں، تو دوسری بعض تنظیمیں یا خطبا، عالمی سطح پر کام کرنے کے مدعی ہیں، اور بعض اپنے علاقے اور شہر تک محدود نظر آتے ہیں، مگر ملکی یا عالمی تنظیموں یا خطبا میں دو چند کے سوا، دیگر تنظیمیں یا خطبا، اپنے دعوی پر کھرے اترتے دکھائی نہیں دیتے۔

البتہ علاقائی اور شہری تنظیمیں یا خطبا ایک حد تک کام یاب ہیں، مگر وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ میرے خیال سے ہر تنظیم یا خطیب کو اتنا ہی بوجھ اٹھانے کا دعوی کرنا چاہیے، جتنا وہ برداشت کرسکیں، ورنہ وجود سے پہلے عدم کی منزل میں چلے جائیں گے یا پھر کھانے پینے کا ذریعہ بننے کے علاوہ، ان کا کوئی دینی، ملی و سماجی فائدہ نظر نہیں آئےگا، مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ عالمی یا ملکی پیمانے پر کام کرنے کے لیے تنظیمی ڈھانچے نہ بنائے جائیں یا ایسے خطبا پیدا نہ ہوں، جو عالمی یا ملکی پیمانے پر کام کرسکیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ اپنے دائرے میں رہ کر، آہستہ آہستہ، قدم بڑھایا جائے، پہلے گاؤں۔

پھر شہر، پھر متعدد شہر، پھر ملک اور اس کے بعد عالمی سطح پر تنظیم یا خطاب کے ذریعے کام کیا جائے؛ تو کام یابی مل سکتی ہے، لیکن عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ کوئی بھی تنظیم یا خطیب، ابتداء بڑے فعال، مخلص اور متحرک نظر آتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ، وجود سے عدم کی طرف کوچ کرجاتے ہیں یا پھر اپنا اصل مقصد بھول جاتے ہیں۔ اس کے بہت سارے اسباب ہوسکتے ہیں اور شاید یہ اسباب قارئین پر واضح بھی ہوں؛ اس لیے اب ہماری قوم کو کسی دوسرے زاویہ سے سوچ کر، ان کا بدل تلاش کرنا چاہیے، جس سے عموما قوم کی صحیح رہ نمائی ہوسکے اور دین کی نشر و اشاعت کا حق ادا کیا جاسکے۔

موجودہ دور میں میرے نزدیک اس کا بہترین بدل، ہر علاقے کے مساجد اور دمدارس اسلامیہ ہیں، یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے، جہاں مکمل نظام موجود ہے، مختلف مزاج و صلاحیت کے لوگ ایک ساتھ مل بیٹھ کر کام کرتے ہیں، صحیح یا غلط مگر ایک نظام کے تحت یہاں کام ہوتا ہے، اگر منتظمین، ائمہ اور اساتذہ، اپنا تھوڑا مزاج بدل لیں؛ تو بہت آسانی سے تبلیغ دین، گھر گھر ہوسکتی ہے، بچے بچے کے دل میں دین کی اہمیت بیٹھ سکتی ہے اور ان کو راہ راست پر لایا جاسکتا ہے؛ کیوں کہ کوئی ایسا شہر نہیں، جہاں دو چند بڑے مدارس یا وہاں اثر و رسوخ والی مساجد نہ ہوں، اگر ہر علاقے کے اہل مساجد و مدارس، عملی طور پر حرکت میں آجائیں؛ تو ہمیں اپنی قوم کو ہر اعتبار سے حفاظت فراہم کرنے میں بڑی آسانی ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے ذیل میں کچھ چیزیں درج کی جاتی ہیں:

(۱)مساجد و مدارس کے انتظام کار، اپنے نظام میں یہ داخل کرلیں کہ کم از کم ہفتہ میں ایک دن، ان کے مسجد کا امام اور ان کے مدرسے کا استاد، دین کی تبلیغ کے لیے نکلے گا، اب اس کے لیے انہیں چاہے امام یا استاد کو الگ سے تعاون پیش کرنا پڑے یا پھر جمعہ کے علاوں ہفتہ میں ایک دن مزید، استاد کی چھٹی کرنے کی گنجائش نکالی جائے؛ کیوں کہ امام و استاد، عالم و مفتی کا مقصد زندگی، لوگوں کی ہدایت ہے، اب اس کے لیے منتظمین کو خواہ جمعہ کے علاوہ مزید چھٹی کرنی پڑے یا پھر تعاون کی صورت میں روپیے کی مزید قربانی دینے کی گنجائش نکالی جائے۔

اور یہ کام کوئی مشکل بھی نہیں؛ کیوں کہ جب مہینے دو مہینے میں بہتر مرتبہ قرآن خوانی کے لیے چھٹی دی جاسکتی ہے اور مختلف جلسہ، جلوس اور دیگر مجالس کے لیے لاکھوں روپیے پانی کی طرح بہاے جاسکتے ہیں؛ تو دین و سنیت کی نشر و اشاعت کے لیے منتظمین، ان اہم کاموں کی گنجائش کیوں نہیں نکال سکتے اور ائمہ و اساتذہ ان نتیجہ خیز امور کے لیے فعال و متحرک کیوں نہیں ہوسکتے؟! بالکل ہوسکتے ہیں، بس شرط یہ ہے کہ حقیقت میں دین و سنیت کا درد رکھنے والا بن جائیں اور نائب رسول ہونے کا حق ادا کرنے کا جذبہ شوق پیدا کرلیں۔

(۲) ائمہ و اساتذہ، خطاب کرکے روپیے کمانے یا خطاب کے ذریعے دین کی تبلیغ کرنے کا مزاج بدلیں؛ کیوں کہ خطاب و بیان کا اصل مقصد، لوگوں کی اصلاح کرنا تھا مگر عموما، موجودہ دور کے خطاب و بیان، اپنی معنویت کھوچکے ہیں، کوئی خطاب روپیے کے لیے کرتا ہے، تو کوئی عزت کے لیے مرتا ہے اور کوئی واہ واہی لوٹنے کے لیے سرگرداں رہتا ہے، بہت کم ہی بیان کرنے والے ایسے ہیں، جن کا مقصود، اصلاح معاشرہ ہوتا ہے۔

اسی طرح ائمہ و علما کا خطاب سننے والوں کا حال ہے کہ یہ صرف اِنجواے کرنے کے لیے شرکت کرتے ہیں، منورنجن کیا اور چلتے بنے، عام طور سے انہیں اپنی اصلاح سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور نہ ہی خطاب و بیان کے ذریعے اپنے آپ کو سدھارنا مقصود ہوتا ہے۔ یہ ساری خرابیاں اپنی جگہ مگر سو بات کی ایک بات کہتا ہوں کہ اگر مروجہ خطاب و بیان سے قوم مسلم کی اصلاح ہونی ہوتی؛ تو آج اکثر لوگ، غازی و نمازی ہوگئے ہوتے، مگر نتیجہ تقریبا صفر ہے۔ کیا یہ نتیجہ، ہمارے ائمہ اور علما کو اس بات کی دعوت نہیں دیتا کہ انہیں تبلیغ دین کے لیے، خطاب و بیان کا بدل تلاش کرنا لازم و ضروری ہوگیا ہے؟ یقینا ضروری ہوگیا ہےمگر احساس زیاں جاتا رہے؛ تو اس کا کوئی علاج نہیں۔

میں نے پہلے ہی ذکر کیا ہے کہ میرے نزدیک بروقت اس کا بدل،ہر علاقے کے مساجد و مدارس کے منتظمین، ائمہ و اساتذہ ہیں۔اگر آج اہل مدارس و مساجد اپنے نظام میں تبلیغ دین کو داخل کرلیں اور اس کا باضابطہ نظام بنادیا جائے؛ تو لوگوں کے ایمان و عقیدے اور اعمال کے تحفظ کے لیے نہ تو ہمیں عالمی تنظیم کا منھ تکنے کی ضرورت پڑےگی اور نہ ہی ملکی سطح پر ڈھنڈورا پیٹنے کی حاجت ہوگی، شرط یہ ہے کہ منتظمین اور اساتذہ بیدار ہوجائیں اور عملی طور پر اپنے اپنے علاقے کو سنبھال لیں۔ آپ ذرا خود اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ اگر کسی ادارے سے ہر دن، کوئی ایک استاد یا امام شہر کے کسی محلہ یا کسی گاؤں میں جاتا ہے؛ تو تقریبا ہفتہ میں چھ محلے یا چھ گاؤں میں پہنچ سکتا ہے اور مہینے میں کم از کم چوبیس گاؤں میں تبلیغ دین کی خوشبو پھیلاسکتا ہے

پورے سال کا حساب قارئین خود لگالیں۔ یاد رہے اس طریقے پر دین کی نشر و اشاعت کا نتیجہ خطاب و بیان کی طرح صفر یا نہ کے برابر نہیں رہے گا بلکہ تجربہ بتاتا ہے کہ جو لوگ سالوں تقریریں، سن کر نماز پڑھنے نہیں آتے، وہ اس طرح کی تبلیغ دین سے متاثر ہوکر، مسجد آتے ہیں، ان کے اندر خوف خدا پیدا ہوتا ہے، دین و سنیت سے ان کا لگاؤ مضبوط ہوتا ہے؛ جس کی وجہ سے ان کی اصلاح کافی حد تک آسان ہوجاتی ہے۔ میں آپ ائمہ و علما سے عرض گزار ہوں کہ اگر آپ بمبئی، کلکتہ، بنگلور اور بھارت سے نکل کر دوسرے ممالک، خطاب و بیان کے لیے نہیں جائیں گے؛ تو چل سکتا ہے مگر آپ کے آس پاس اور علاقے کے لوگ، اگر آپ کے علمی جلالت سے فائدہ نہ اٹھائیں، آپ کے دینی تبلیغی مزاج کی خوشبو، ان کو نہ پہنچے۔

آپ کی علمی جلالت کے باوجود، آپ کے ارد گرد، بد مذہبیت بڑھتی رہے اور آپ کی کوشش، اس کے اصلاح کی طرف متوجہ نہ ہو؛ تو میرے خیال سے یہ چلنے کے لائق نہیں؛ کیوں کہ رب تعالی نے علم دین حاصل کرنے کے بعد، سب سے پہلے اپنے آپ، اپنے اہل و عیال اور اپنی قوم کو ڈرانے اور سمجھانے کا پیغام دیا ہے؛ اس لیے خدا را، منتظمین، ائمہ مساجد و مدارس، اپنے اپنے علاقے کو سنبھالیں، ان شاء اللہ پورا ملک سنبھل جائے گا۔

اگر تبلیغ دین کا علاقائی حق ادا کیا گیا اور ہمارے منتظمین، ائمہ اور اساتذہ، اس طریقے پر مستقل کام کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں؛ تو عنقریب، ہر چہار جانب، اسلام اور مسلمان کے عقیدہ پر حملہ کرنے والے، ان شاء اللہ بیک فٹ پر ہوں گے، بدمذہبیت خود بخود دم توڑتی دکھائی دے گی، اسلام و سنیت کا بول بالا ہوگا، گھر گھر سنیت عام ہوگی اور لامذہبیت اور بدمذہبیت سمٹتی نظر آئےگی، ساتھ ہی دینی و سماجی تعلیم، جس سے آج بھی ہمارا اکثر معاشرہ محروم ہے، مزین ہوگا اور ان کے دل و دماغ میں دین و سنیت کی خوشبو سماتی و بستی دکھائی دےگی۔ بس ہم یہ ٹھان لیں کہ مخالف کو رو، دھوکر نہیں بلکہ شریعت کے دائرے میں رہ کر، وقت کے تقاضے کے مطابق، عملی اقدام کے ذریعے جواب دینا ہے۔

 

زکوٰة احادیث کے آئینے میں
زکوٰة احادیث کے آئینے میں

اے ائمہ و اساتذہ ! یاد رہے تبلیغ کے میدان میں اترنے کے لیے صبر و تحمل کا پیکر بننا پڑےگا؛ کیوں کہ اس میدان میں شاید نعرے سے استقبال کرنے والے، آپ کو نہ ملیں، بہترین گدے والے، مخملی بستر، دستیاب نہ ہوں، ہاتھ چومنے والے نظر نہ آئیں، آپ کی ایک آواز پر لبیک کہنے والا، دکھائی نہ دے، آپ کو گلدستہ بناکر بیٹھا نے والا نہ ملے اور مزید، آئے دن ترش روئی و تلخی برداشت کرنی پڑے، گالی گلوج کا بھی سامنا کرنا پڑجائے، مگر اس سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے تبلیغ دین کے لیے پتھر کھائے اور خون مبارک سے نعلین مبارک، لت پت ہوگئیں۔

مگر شاید آپ کو اس طرح پتھر کھانا نہ پڑے اور نہ ہی اپنا خون بہانے کی ضرورت پیش آئے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اپنی جان کی بازی لگائی مگر شاید آپ کو اپنی جان کی بازی لگانی نہ پڑے اور شہدا ے کرام علیہم الرحمۃ و الرضوان نے اپنی جانوں کی قربانی دی مگر شاید آپ کو ان کے مثل اپنی جانوں کی قربانی نہ دینی پڑے، ہاں اگر بہانا ہے تو عموما پسینہ بہانا ہے، بر محل روپیے پیسے اور وقت صرف کرنا ہے، حکمت و مصلحت سے کام لینا ہے اور صبر و تحمل کا پیکر بن کر سامنے آنا ہے۔

اے وارث انبیا ! وقت ڈھلتے ہر شخص اپنے نظام کا بدل تلاش کرتا ہے، اگر آپ نے وقت رہتے، دین متین کی نشر و اشاعت کے لیے، خطاب و بیان کا بدل تلاش نہیں کیا، تو رب تعالی آپ کو کبھی معاف نہیں کرےگا، آپ ہی بتائیں، آپ ذمہ دار ہیں اور آپ ہی نے اگر قوم مسلم کے ایمان و عقیدے کی حفاظت کے لیے، کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا؛ تو رب تعالی کو کونسا منھ دکھائیں گے۔

اپنے آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے، اپنے نائبیت کا کونسا منھ لے کر جائیں گے، اٹھو اور اپنی ذمہ داری نبھاؤ، آپ کی ذمہ داری، صرف دولت کمانا نہیں ہے، آپ کی مسؤلیت صرف بلڈگیں بنانا نہیں ہے، آپ کی کوشش صرف زمین خریدنا نہیں، آپ کی سعی، محض تین وقت، روٹی و بوٹی کھانا نہیں، آپ کی ذمہ داری فقط نذرانے، عزت اور واہ واہی لوٹنا نہیں۔

نائب ہونے کی حیثیت سے اگر آپ کی سب سے پہلے کوئی ذمہ داری ہے؛ تو وہ اپنے بال بچوں کے ساتھ، اپنی قوم کے ایمان و عقیدے کی حفاظت کرنی ہے، انہیں شرعی اعمال کا خوگر بنانا ہے، اسی کی حیثیت، اولیں ہے اور دوسری چیزیں، ثانوی حیثیت کی ہیں، مگر آج ہم عموما برعکس کرنے کی وجہ سے اپنی ذمہ داری سے کوسوں دور ہوگئے ہیں، اب بھی وقت ہے، پلٹ آئیں اور کما حقہ اپنی اپنی ذمہ داری سنبھال لیں؛ کیوں کہ:

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

جو طوفانوں میں پلتے جارہے ہیں

وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں

ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و بانی ٹرسٹ فلاح ملت، اوجھاگنج، بستی۔

مقیم حال، اشراق المدائن، الدور الرابع، کمرہ نمبر ۴۰۲، مدینہ منورہ۔

یہ مضامین نئے پرانے مختلف قلم کاروں کے ہوتے ہیں۔

ان مضامین میں کسی بھی قسم کی غلطی سے ادارہ بری الذمہ ہے۔

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن