Friday, November 15, 2024
Homeحالات حاضرہمیر آزاد بلگرامی کی شاعرانہ عظمت پر شبلی نعمانی کی یلغار

میر آزاد بلگرامی کی شاعرانہ عظمت پر شبلی نعمانی کی یلغار

میر آزاد بلگرامی کی شاعرانہ عظمت پر شبلی نعمانی کی یلغار

میر سید غلام علی آزاد بلگرامی واسطی علیہ الرحمہ (۲۴ ذی القعدہ ۱۲۰۰ھ) کو امیر خسرو کے بعد بھارت کے سب سے بڑے شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے۔ تاریخ کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ یہاں میر آزاد بلگرامی ہوئے ہیں۔ آزادؔ بلگرامی عربی، فارسی اور ہندوی زبان کے ماہر شاعر و ادیب، ایک خانقاہی صوفی، ایک مؤرخ، سیاح اور سچے عاشق رسول ﷺ تھے۔

ملا نظام الدین، قاضی محب اللہ بہاری، سید عبد الجلیل بلگرامی(علیھم الرحمہ)، شیخ علی حزیں، داغستانی، خان آرزو جیسے معاصر فضلا اور نکتہ سنجوں نے ان کے تبحر علمی اور شاعرانہ کمال کا لوہا مانا ہے۔ صاحب حدائق الحنفیہ اور نزہۃ الخواطر نے تفصیل سے آپ کا ذکر خیر کیا ہے۔ عشق رسول ﷺ آپ کے رگ رگ خون بن کے گردش کرتا تھا۔ اسی والہانہ لو نے ”حسان الہند“ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ ؎ ہر گز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما

خود لکھتے ہیں :

چوں مدح رسول ﷺ کام من شد

حسان الہند نام من شد

سیاحت بھی کی، سفر حج کیا، طائف وغیرہ مقامات مقدسہ کی زیارت کی، بلگرام سے دہلی، سندھ، الہ آباد، مالوہ، سورت وغیرہ کا سفر کیا. اورنگ آباد آئے تو پھر یہیں کے ہوکے رہ گئے۔

کئی زبانیں سیکھی۔ حب الوطنی کا ایسا جذبہ تھا کہ ہندوی زبان (آج کی اردو) کا ایک لفظ ”آزاد“ تخلص کیے اور مدت العمر اس پر نازاں رہے۔ لقب سن کر آپ کے استاد حدیث حضرت علامہ طنطاوی نے فرمایا:

”انت من عتقاء الله“۔ (تم اللہ کے آزاد کردہ میں سے) خانقاہ بلگرام کو نئی شناخت دینے نیز مدینۃ الاولیا خلد آباد کے کئی صاحب کمال بزرگوں کے مزارات کی دریافت کرنے والے آپ خود تاعمر گمنامی کی چادر میں لپٹے رہے اور خلد آباد، آبادی سے دور خلیفہ محبوب الٰہی میر حسن علاء سجزی علیہ الرحمہ (مزار شریف شکر چاٹنے کی درگاہ سے مشہور ہے) کےپہلو میں اپنی آخری آرام گاہ بنایا۔ (شریعت کی مکمل پاس داری میں آج عرس کی تقریبات جاری ہیں)

تصانیف میں:

(۱) سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان

(۲) مآثر الکرام تاریخ بلگرام

(۳) خزانئہ عامرہ

(۴) سبعہ سیارہ

(۵) سرو آزاد

(۶) روضۃ الاولیاء

(۷) سند السعادات فی حسن خاتمۃ سادات

(۸) ید بیضا

(۹) شرح بخاری (نامکمل) وغیرہ مشہور ہیں.

شبلی نعمانی کے رقیق حملے:

شبلی نعمانی (1914-1857ء) کو جدید اردو تنقید کا بانی کہا جاتا ہے اور انہیں اردو ادب کا ایک ستون سمجھا جاتا ہے۔ وہ ایک کامیاب مؤرخ بھی تھا۔ سیرۃ النبی ﷺ ، شعر العجم، الفاروق، المامون، سیرت النعمان، الغزالی وغیرہ مشہور کتابیں تصنیف کی۔ افسوس کہ وہ میر غلام علی آزاد بلگرامی کے تعلق سے اپنی تنقیدی بصیرت کا صحیح استعمال نہ کر سکے او بے جا نیز بے سرو پا باتیں تک کہ دیں۔

(۱) شبلی نعمانی صاحب لکھتے ہیں، ”اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ (آزاد) عربی زبان کے بہت بڑے ادیب ہیں… لیکن کلام میں اس قدر عجمیت ہے کہ اس کو عربی کہنا مشکل ہے“ (مقالات شبلی ج ۵) قارئین! اسے تنقیدی تشدد نہیں تو اور کیا کہا جائے کہ موصوف اپنے اسی مضمون میں (میر صاحب پر موصوف کا مضمون الندوہ میں اپریل 1905 میں شائع ہوا۔ مقالات کی پانچویں جلد میں موجود ہے) دوسری جگہ یہ شکایت کرتےنظر آتے ہیں کہ مسلمان دوسری زبانوں کے اثر کو بالکل قبول نہیں کرتے۔

(۲) شبلی صاحب کا یہ کہنا بھی بے جا ہے کہ ”آزاد کا عربی کلام اگرچہ بکثرت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے چہرہ کمال کا داغ ہے“ (ایضا)

اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت آزاد سے عربی اور فارسی کلام کو جدا کر دیا جائے تو اہل علم کے نزدیک آزاد میں وجہ کمال کچھ بھی نہیں بچتی۔

(۳) ایک جگہ تو یہ کہ کر حد ہی کردی کہ ”سیکڑوں ہزار (فارسی) اشعار ہیں، ایک شعر بھی ایسا نہیں نکلتا جو اہل زبان کا کلام سمجھا جائے“ (ایضا) شبلی صاحب ”شعر العجم“ کی پانچوں جلد میں کہیں بھی آزاد بلگرامی کو جگہ دینے سے معذور رہے یہ ان کے اصول و نظریات تھے، لیکن ہر منصف مزاج کو یہ کہنے کا حق ہے کہ علامہ آزاد بلگرامی کی فارسی دانی پر اس طرح کا نشتر چلانا بالکل غیر منصفانہ عمل تھا۔

(۴) ایک اور جگہ خزانہ عامرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ”افسوس اور صد افسوس کہ جو چیز تذکرہ کی جان ہے وہی نہیں“ (ایضا)۔ مراد انتخاب کلام ہے۔ اس مقام پر میں شبلی صاحب کی روح سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا تذکرہ اور انتخاب دونوں ایک ہی چیز ہیں!

شبلی پرستوں کا کردار

عرب کے مشہور شاعر متنبی اور معری کے تعلق سے مشہور مؤرخ اسلام ابن خلدون نےلکھا تھا،

”ليس هو من الشعر شيئ لانهما لا تجريا علي اساليب العرب“ ان کے اشعار عرب کے اسلوب پر جاری نہیں ہوتے اس لئے ان کے اشعار صحیح معنی میں اشعار ہیں ہی نہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ کسی نے بھی ابن خلدون کے اس اقتباس کو بطور سند پیش نہیں کی۔

شبلی نعمانی نے اگر آزاد بلگرامی پر ایسے رقیق حملے کیے تو وہ اپنی عادت سے مجبور تھے، ان کی تنقید میں جرح کا پہلو نمایاں تھا بلکہ ان کا جارحانہ تیور کبھی کبھی تشدد تک پہنچ جاتا تھا. اسی جارحانہ پن کی وجہ سے اپنے بیگانے کہیں جم نہ سکے اور ”دھوبی کا گدھا گھرکا نہ گھاٹ کا“ جیسی کیفیت سے دوچار ہوئے۔ ستم تو یہ ہے کہ ان کے دم بھرنے والوں نے انصاف سے کام نہیں لیا اور ”لکیر کے فقیر“ کی طرح آنکھ بند کرکے وہ سارے ریمارکس نقل کرلیے۔ اور یہ روایت آج تک قائم ہے۔

انصار احمد مصباحی

دار العلوم رضاے مصطفی، اورنگ آباد

aarmisbahi@gmail.com

9860664476

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن