نفاذ یکساں سول کوڈ کے امکانات
درپردہ سازشوں کی تہہ تک پہنچ کر حکمت عملی سے اسے ناکام بنایاجاسکتاہے
ڈاکٹر غلام زرقانی چیئرمین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکا
اپنے اہداف ومقاصدپر نگاہ رکھتے ہوئے کبھی توکسی مسئلہ پر صدائے احتجاج بلند کیجیے ، کبھی حکمت عملی سے درپردہ سازشوں کو سبوتاز کیجیے اور کبھی خاموشی سے اپنے حلقہ احباب کے درمیان تحریک جاری رکھیے ۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ایک حکیم ودانا طبیب کی طرح کبھی توصرف پرہیز سے بیماری دورکرنے کی کوشش کی جائے، کبھی دواؤں کے ذریعہ علاج تلاش کیا جائے اور کبھی نشتر لگا کر زخم کریدےجائیں ، بس خیال رہے کہ مقصود حاصل ہوجائے ۔
اب آئیے سرنامہ سخن کے حوالے سے کچھ بات کرتے ہیں ۔ آئین ہند کی دفعہ ۴۴ کے چوتھے حصے میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے حوالے سے بات کی گئی ہے اور حکومت وقت کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ ملک کے ہر شہری کے لیے ایک ضابطہ اور ایک قانون بنانے کی کوشش کرے ، اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے پرسنل لا کے خاتمے کی طرف سلسلہ جنبانی کرے ۔
خیال رہے کہ متذکرہ قانون سے نہ صرف مذہبی روایات زد میں آئیں گے ، بلکہ علاقائی رسوم اور تہذیبی رواج بھی ، اس لیے حقیقت میں یہ ملک کے ایک سوبیس کرور انسانوں سے متعلق حساس معاملہ ہے ۔
تاہم ماضی میں مسلمانوں نے یکساں سول کوڈ پر اپنے تحفظات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے کہ جس سے ایسا محسوس ہونے لگا کہ متذکرہ قانون کے نفاذ سے صرف مسلمان زد میں آئیں گے، اس لیے ملک کی فرقہ پرست پارٹی نے اسے اپنے انتخابی منشور میں شامل کرلیا، تاکہ اکثریتی طبقے کی رائے اپنے حق میں ہموار کی جاسکے۔ اور کوئی شک نہیں کہ اس کا خاطر خواہ فائدہ اسے پہنچا بھی ۔
انتخابی منشور میں کیے گئے وعدے کی روشنی میں حکومت نےجس طرح کئی دوسرے اقدامات کیے ہیں ۔
ٹھیک اسی طرح یکساں سول کوڈکے نفاذ کے لیے بھی پارلیمنٹ میں بل پاس کرانے کی کوشش کی جاسکتی تھی، لیکن ارباب اقتدار اچھی طرح جانتے ہیں کہ متذکرہ قانون سے ملک کی اکثریت ناراض ہوجائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ لاکمیشن کو رائے عامہ طلب کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔
خیال رہے کہ پہلے بھی دوبار لاکمیشن نے عوام سے رائے لی ہے ، جس کے نتیجے میں جو رپورٹ جمع کرائی ہے ، اس میں صراحت کے ساتھ تحریر ہے کہ ملک میں یکساں سول کوڈ کے لیے ماحول ساز گار نہیں ہے اور اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جارہی ہے ۔
حقیقی تصوف اسلام کی سچی تصویر ہے
اس لیے ہونا تویہ چاہیے تھا کہ متذکرہ معاملے کو ڈھنڈے بستے میں ڈال دیا جائے اور جب ذرائع ابلاغ کے نمائندے سابقہ انتخابی منشور میں کیے گئے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے حوالے باز پرس کریں ، توسیدھا سا جواب دیا جائے کہ ملک کی اکثریت اسے ناپسند کرتی ہے ،لہذا اس کا نفاذ ممکن نہیں ہے،لیکن چوں کہ آنے والے انتخابات سے پہلے پرسکون ماحول میں نفرت کی آمیزش ذاتی مفاد کے لیے نہایت ہی ضروری ہے ، اس لیے اسے از سر نوتازہ کیا جارہاہے ۔
کیسی عجیب بات ہے کہ جس مسئلہ کو حکومت وقت کے نمائندے خود ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں ، اس کے حوالے سے ہمارا ردعمل بھی ایسا ہی ہونا چاہیے کہ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے ۔
لیکن جان کی امان ملے توعرض کروں کہ سابقہ معاملات کی طرح اس بار بھی ہمارے شعلہ بیان سیاست داں اور مذہبی رہنما جگہ جگہ جلسے کریں گے اور جلوس نکالیں گے
نیز سستی شہرت حاصل کرنے کے شوق میں بعض نام نہاد اسکالر ٹی وی پر مباحثے میں شرکت کریں گے اورکچھ مسلم تنظیمیں اخبارات میں احتجاجی بیانات جاری کریں گی ۔ اب ہوگا یہ کہ آہستہ آہستہ ماحول میں تلخی پیدا ہوجائے گی ، جس کا براہ راست فائدہ فرقہ پرست عناصر کو پہنچے گا۔
تنہائی میں فرصت کے مواقع میسر آجائیں توغور کیجیے گا کہ متذکرہ احتجاجی اجلاس اورجلوس میں لاکھوں خرچ بھی ہوں گے ، نیز ٹی وی مباحثے میں شرکت کے ذریعہ دریدہ دہنوں کو اسلامی شریعت پر تکلیف دہ جملے کسنے کا بہانہ بھی ملے گااور مسلم معاشرے میں بے چینی بھی پھیلے گی ۔
یعنی ہماری دولت وثروت ، طاقت وتوانائی بھی برباد ہوگی اورقیمتی اوقات بھی ضائع ہوں گے، اور فائدہ فرقہ پرستوں کو پہنچے گا، جو چاہتے ہی یہ ہیں کہ کچھ ہو یا نہ ہو، مگر حالات زہر آلودہ رہیں ، تاکہ انھیں انتخابات کے وقت اچھی طرح بھنایا جاسکے ۔
اور یہ کوئی ایسی بات بھی نہیں ہے ، جسے ممکنہ توقع سے تعبیر کریں ، بلکہ ہم نے کئی بار اپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کچھ لوگ کیاکیا کرتے ہیں اور کیسے کیسے جھوٹ اور فریب کو عین حقیقت بنا کر پیش کردیتے ہیں ۔
آپ محسوس کررہے ہوں گے کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ کسی کے مفاد میں نہیں ہے ، نہ حزب اقتدار کے ، نہ حزب مخالف کے ، نہ اکثریتی طبقے کے اور نہ ہی اقلیتوں کے ، لیکن پھر بھی اسے باربار زندہ کرنے کے پس پردہ جو اہداف ومقاصد ہیں ، وہ سب پر عیاں ہیں ، اس لیے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم اپنی حکمت عملی سے ان کے مذموم مقاصدواہداف ناکام بنادیں ؟ اس کےلیے ہمیں
چند باتوں پر توجہ دینی ہے۔ پہلی یہ کہ یکساں سول کوڈ کے حوالے سے ٹی وی پر ہونے والے کسی بھی مباحثے میں حصہ نہ لیا۔ دوسرا یہ عوامی طورپر احتجاجی اجلاس اور جلوس سے اجتناب کیا جائے اور تیسر ا یہ کہ اخبارات میں بھی اس حوالے سے ایسے بیانات نہ دیے جائیں
جن سے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہو، اور ساتھ ہی ساتھ لاکمیشن نے جس ویب سائٹ پر آپ کی رائے طلب کی ہے ، اسے خاموشی سے بھرا جائے اور برقی ذرائع کے توسط سے اپنے احباب سے اسے پرکرنے کی درخواست کی جائے ۔
اس طرح دوفائدے یقینی ہیں ؛ ایک تویہ کہ لاکمیشن کے سروے میں منفی پہلو غالب رہے گااور دوسرا یہ کہ فرقہ پرست عناصر نے امن وسکون کی فضا میں زہر کھولنے کے لیے جو چال چلی ہے ، وہ سرتاسر ناکام ہوجائے گی۔
یاد رہے کہ روئے زمین کے کسی بھی جمہوری یا نیم جمہوری ملک میں سیاسی پارٹیاں ایسے اقدامات سے گریز کرتی ہیں ، جن سے اکثریتی طبقہ ناراض ہوجائے ۔
ظاہر ہے کہ جب اکثریت میں غم وغصہ اور بے چینی پھیل جائے ، تواس کے منفی اثرات انتخابات کے وقت سامنے آجائیں گے اور سیاسی کامیابی کا خواب دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ یہ حقیقت اچھی طرح ہمارے علم میں ہے کہ ہندوستان اپنے آپ میں ایک براعظم ہے ، جہاں ایسے لوگ بستے ہیں ، جن کے ادیان و مذاہب ، تہذیب وتمدن، زبان وبیان اور رسم ورواج باہم مختلف ہیں ۔
اور اس پر تماشہ یہ ہے کہ بہتیرے قبائل ایسے بھی ہیں ، جنھیں اپنی تہذیب ورسم جان سے بھی زیادہ عزیز ہے ۔ اس لیے ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی ایسا ضابطہ بنایا جائے ، جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔یقین نہیں آتا تواپنے اطراف وجوانب پر توجہ فرمائیے اور ہوسکے توقبائلی رسم ورواج پر بھی نگاہ ڈالیے ۔
شادی بیاہ ، طلاق، لین دین ، تجارت،زبان وبیان، عبادت وریاضت سے لے کر تقسیم وراثت تک ہر معاملے میں باہم اختلافات صاف دکھائی دیں گے۔ اس لیے روئے زمین کی ایک بولتی ہوئی حقیقت سے نبرد آزمائی کی جرأت کس میں ہوسکے گی؟
صاحبو! یکساں سول کوڈ کے حوالے سے سابقہ تجربات اور زمینی حالات صاف چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ اسے دوبارہ زندہ کرنے کے پس پردہ مقاصد واہداف کیا ہیں ؟
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ظاہر کو نہ دیکھیں ، بلکہ مسئلے کی تحت تک پہنچیں اورفرقہ پرست عناصر کی شاطرانہ چالوں کو ناکام بنادیں ۔ یہی تقاضائے وقت بھی ہے ، عمدہ حکمت عملی بھی ہے اور مفاد شریعت اسلامیہ بھی ۔