قرآن کی بے ادبی کیوں؟
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
جس وقت دنیا بھر کے مسلمان ارکان حج ادا کرنے اور عید الاضحٰی کی نماز پڑھنے میں مصروف تھے عین اسی وقت اتری یوروپ میں واقع سویڈن(sweeden) نامی ملک میں قرآن عظیم کو جلانے کا بدترین عمل کیا جارہا تھا۔
مغربی ممالک قرآن کی بے ادبی کا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی قرآن کی بے ادبی کے بہت سارے معاملات سامنے آچکے ہیں
لیکن یہ معاملہ اس لیے بہت زیادہ سنگین ہوجاتا ہے کہ حالیہ واقعے میں سویڈن کی کورٹ نے باضابطہ قرآن سوزی کی اجازت دی تھی جس کی بنیاد پر پولیس کی حفاظت میں راجدھانی اسٹاک ہوم(stockholm) کی جامع مسجد کے سامنے سلوان مومکا نامی ملعون نے کمیروں کے سامنے قرآن سوزی کی بدترین حرکت کو انجام دیا۔ سویڈن حکومت اور کورٹ کے طرز عمل نے مسلمانوں کے تئیں مغربی دنیا کے دوغلے کردار کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے۔ مغربی دنیا کی قرآن سے نفرت_
مغربی دنیا میں آئے دن شعائر اسلام اور مقدسات اسلام کے خلاف ایسی حرکات ہوتی رہتی ہیں۔اس سے قبل 2010 میں امریکہ کے فلوریڈا میں ایک پادری ٹیری جونز، 2011 میں پادری میگن فلپس، 2012 میں بگرام ائیر بیس اور گوانتا ناموبے جیل میں امریکن فوجیوں کے ذریعے قرآن کریم کی بے ادبی کے واقعات منظر عام پر آئے تھے۔
سویڈن کے پڑوسی ملک میں ڈنمارک میں سٹرام کرس(stram kurs) نامی سیاسی پارٹی باضابطہ کئی شہروں میں اجتماعی طور پر قرآن سوزی کی بدترین حرکتیں کرتی رہی ہے۔اپریل 2022 میں اس پارٹی کے لیڈر راسموس پالوڈن(Rasmus paludan) نے ڈنمارک کے مختلف شہروں میں قرآن کریم کو جلایا تھا جس کی وجہ سے ڈنمارک میں شدید فسادات برپا ہوئے تھے۔ان واقعات کا سب سے بدترین پہلو بھی یہی تھا کہ ان سارے حادثات کو ان ممالک کی عدالتوں نے آزادی اظہار رائے (Freedom of expression) کے تحت قانوناً جائز قرار دیا تھا۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر مغربی دنیا قرآن کریم کی بے ادبی کیوں کرتی ہے؟ ان کے اس جارحانہ اقدام کو رد عمل کا نام بھی نہیں دیا جا سکتا کہ آج تک مسلم دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی بھی مذہبی شخصیت یا مذہبی کتاب کی توہین کا کوئی ایک واقعہ بھی دیکھنے/سننے میں نہیں آیا۔
حتی کہ قرآن سوزی کے مسلسل واقعات کے بعد بھی انتقامی طور پر بھی کس مسلمان کی جانب سے مذکورہ افراد/ممالک کی مذہبی کتب/شخصیات کی توہین کرنا تو دور اس کی دھمکی بھی نہیں دی گئی۔اس کے باوجود اگر غیر مسلم حکومتیں/تنظیمیں اور افراد یہ حرکات کرتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ دو ہیں:
1۔اسلام کے مقابلہ سے عاجزی
2۔سیاسی مفادات کا حصول
سیاسی وعسکری محاذ پر مسلمانوں کی کمزوری کے باوجود مذہبی ترویج واشاعت کے میدان میں مسلمان دیگر اقوام سے میلوں آگے ہیں۔
طبقہ أول سیاسی وعسکری غلبے اور تمام تر سازشوں کے باوجود اسلام کے مقابلے سے خود کو عاجز محسوس کرتا ہے۔اسلام کی مقبولیت اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اُنہیں بہت زیادہ کھٹکتی ہے۔
مخالفین جب اسلام کا علمی وعقلی مقابلہ کرنے سے عاجز ہو جاتے ہیں تو اپنی جھلّاہٹ اور غصہ نکالنے لیے شعائر اسلام/مقدسات دین کی توہین اور بے ادبی پر اتر آتے ہیں۔مسلمان خاموش رہیں تو ان کی ہمتیں اور بڑھتی ہیں اور رد عمل ظاہر کردیں تو شدت پسندی اور دہشت گردی کا الزام لگا کر معصوم بننے کی ایکٹنگ کرنے لگتے ہیں۔
طبقہ دوم میں وہ لوگ ہیں جو اپنے ممالک/حلقوں میں سیاسی قوت حاصل کرنے کے لیے اسلام دشمنی کو ایک ٹول(Tool) کی طرح استعمال کرتے ہیں تاکہ جذباتیت کے سہارے کم وقت اور بغیر کسی محنت کے اقتدار اور شہرت مل جائے۔اس گندی ذہنیت کے حاملین ان ممالک میں بھی اسلام کے خلاف مہم چلاتے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد برائے نام ہے، لیکن مسلم دشمنی کے نام پر انہیں سیاست کرنے میں آسانی ہوتی ہے اس لیے یہ لوگ آئے دن ایسی بدتمیزیاں کرتے رہتے ہیں۔
اس کا حل کیا ہے؟
مغربی دنیا میں آئے دن ایسی بدتمیزیاں ہوتی رہتی ہیں۔اس کے جواب میں کچھ اسلامی ممالک وقتی طور پر متعلقہ ملک سے سفارتی شکایت درج کراتے ہیں، یا بطور احتجاج اپنا سفیر(Ambassador) واپس بلا لیتے ہیں۔زیادہ کرتے ہیں تو مسلم ممالک کی متحدہ تنظیم او آئی سی (organization of islamic cooperation) کا اجلاس بلا کر ایک مذمتی قرار داد پاس کر دی جاتی ہے۔
ان تمام تر کاروائیوں کے باوجود إسلاموفوبيا کے تناسب میں کوئی کمی نہیں آئی۔اس کا مطلب صاف ہے کہ مرض جیسا ہے علاج ویسا نہیں ہو پارہا ہے اس لیے مرض گَھٹنے کی بجائے دَم بدم بڑھتا جارہا ہے۔
کہنے کو او آئی سی میں 57 مسلم ممالک شامل ہیں۔کئی ممالک اقتصادی اور فوجی اعتبار سے خاصے مضبوط بھی ہیں لیکن نظریاتی کمزوری اور ملکی و ذاتی مفادات کی وجہ سے ضروری اقدامات کرنے سے خود کو عاجز سمجھتے ہیں اس لیے اپنے قیام سے لے کر آج تک یہ تنظیم اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کر سکی۔
اس کا کام صرف مذمتی قرار داد پاس کرنا ہے اور کچھ نہیں۔اس لیے اس محاذ پر امت مسلمہ خود کو بے بس اور بے سہارا محسوس کرتی ہے۔رہ جاتے ہیں مسلم عوام اور تنظیمیں، ان میں سے اکثریت جلسہ وجلوس کی شکل میں احتجاج کرکے اپنے حکمرانوں کا ضمیر بیدار کرنے اور مخالفین اسلام کو غیرت ایمانی دکھانے کی مخلصانہ کوشش کرتے ہیں۔یہ احتجاجات جذبہ ایمانی کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن اب ہمیں اس سے آگے بڑھ کر کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔اس محاذ پر یہ اقدامات مخالفین اسلام کا بہتر جواب ہوسکتے ہیں:
🔸ہر مسلمان قرآن سے عملی وابستگی اختیار کرے۔
🔹غیر مسلموں تک قرآن کے تراجم پہنچائے جائیں۔
🔸اہل علم خاص موضوعات پر اچھے اسلوب میں تحریر وتقریر تیار کریں۔
🔹غیر مسلموں کے مابین قرآنی موضوعات پر سیمینار اور سمپوزیم منعقد کیے جائیں۔
🔸قرآنی اسلوب کے مطابق غیر مسلموں کے اعتراضات کے جوابات علمی اور عقلی انداز
میں تیار کیے جائیں اور انہیں منظم انداز میں عام کیا جائے۔
🔹قرآن سوزی کے واقعات کو معروضی انداز میں مرتب کرکے دستاویزی شکل میں عام کیا جائے۔
🔸اس کام کے لیے تحریر وتقریر کے ساتھ ساتھ ڈاکومنٹری بھی تیار کی جائیں۔
🔹تبلیغ اسلام اور تعلیم قرآن کو ایک مشن کے طور پر اپنا نصب العین بنائیں
🔸قرآنی موضوعات کو ترتیب وار درج کیا جائے اور اس پر ماہرین سے کام کرایا جائے۔
🔹تدوین قرآن، نظم قرآن اور اسلوب قرآن پر بہترین پیش کش کے ساتھ مسلسل محفلیں منعقد کی جائیں۔
🔸مدارس میں تفسیر قرآن کے نصاب میں نئی اور مفید کتابیں شامل کی جائیں۔
🔹بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور ہر عمر کی خواتین کے لیے قرآنی واقعات اور احکام سے مفید اور آسان کتابیں/رسالے تیار کئے جائیں۔
یاد رکھیں!
موجودہ دور میں امت مسلمہ سیاسی وعسکری محاذ پر بے حد کمزور ہے ایسے میں علما اور عوام کو اپنی سطح پر ہی اقدامات کی ضرورت ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جہاں سیف وسنان کام نہیں آتے وہاں مبلغین کی تبلیغ پتھروں میں شگاف ڈال دیا کرتی ہے۔ہمیں ایک بار پھر اپنے بزرگوں کے اسی مشن اور جذبہ کو زندہ اور بیدار کرنا ہے جس کے بوتے انہوں نے دشمنوں میں گھس کر ان کے دلوں کو موم کر ڈالا تھا۔
جذبات سچے اور ارادے پکے ہوں تو رب کائنات کسی سے بھی اپنے دین کا کام لے لیا کرتا ہے۔اپنے حصے کا کام کرتے رہیں اور رب تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں کہ انصاف پسند حکمرانوں کا دور آئے۔
نظام عدل قائم ہو اور ظالموں سے ان کے ظلموں کے پورا پورا حساب لیا جائے۔یقیناً دور انصاف آئے گا کہ ایسی کوئی رات نہیں جس کی صبح نہ ہو اور ایسی کوئی مشکل نہیں جو آسان نہ ہو۔
مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود