Friday, October 4, 2024
Homeحالات حاضرہکربلا کا پیغام امت مسلمہ کے نام

کربلا کا پیغام امت مسلمہ کے نام

کربلا کا پیغام امت مسلمہ کے نام

تحریر : محمد رضوان احمد مصباحی

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ماہ محرم الحرام یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا تذکرہ چھڑتے ہی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں، کربلا کے خونی منظر کا نقشہ جب ذہن میں آتا تو امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ اہل و عیال و رفقائے جانثار کی قربانیاں یاد آنے لگتی ہیں، دنیا کا ہر وہ انسان یہاں تک کہ غیر بھی جب کبھی حق و باطل کے اس عظیم اور خونریز معرکہ کربلا کی داستان سنتا، پڑھتا یا لکھتا ہے تو سبط رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم

جگر گوشہ بتول، علی کے لعل امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ، آپ کے اہل و عیال اور آپ کے جانثاروں کا جذبئہ جہاد، شوق شہادت، پرچم اسلام کی سر بلندی کی خاطر مرنے مٹنے کا سرفروشانہ و مجاہدانہ کردار، اعلیٰ ترین صبر و رضا کا مظاہرہ اور میدان کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ثبات قدمی کی عظیم کارنامہ کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ جاتا ہے۔

پزید پلید جب تخت نشین ہوا، گناہوں کو ہلکا اور کمتر سمجھ کر اس میں ڈوب گیا، جب دولت و ثروت، تخت و تاج اور حکومت و بادشاہت کا نشہ اس کے سر پر چڑھا تو مذہب اسلام کے دامن کو داغدار اور تار تار کر کے ظلم و جبر اور عیاشی کا بازار گرم کرنے لگا ۔

سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں کو زر اور زن کا لالچ دے کر لوگوں کے ایمان کو خریدنے لگا اور اپنے ناپاک ہاتھ پر بیعت کرنے لگا، جب اس پر بھی اس کے دل کو سکون میسر نہ آیا تو اب امام عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنے ہم نواؤں اور چیلے چپاٹوں کے ذریعہ خط لکھ کر گورنر سے بیعت کرانے کو کہا ۔

کیوں کہ یزید پلید جانتا تھا کہ اگرچہ میں لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کا حاکم بن جاؤں لیکن اگر امام حسین رضی اللہ عنہ نے میری حکومت کو نہ سراہا، تائید نہیں کی، میری بیعت کو ٹھکرا دیا تو پھر میری حکومت و بادشاہت کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، سب پا در ہوا ہے۔

یزید پلید کی تخت نشینی اور قیامت کے سامان ہجرت کا ساٹھواں سال اور رجب کے مہینہ میں شقی القلب، یزید پلید نے اپنی حکومت کی مضبوطی ، اپنی ذلیل عزت کی ترقی اس امر میں منحصر سمجھی کہ اہل بیت کرام کے مقدس و بے گناہ خون سے اپنی نا پاک تلوار رنگے ۔

اس جہنمی کی نیت بدلتے ہی زمانے کی ہوانے پلٹے کھائے اور زہر یلے جھونکے آئے کہ جاوداں بہاروں کے پاک گریباں، بے خزاں پھولوں، نوشگفتہ گلوں کے غم میں چاک ہوئے، مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ والہ سلم کی ہری بھری لہلہاتی پھلواڑی کے سہانے نازک پھول مرجھا مرجھا کر طر از دامن خاک ہوئے۔ (آئینہ قیامت، ص:_20)

یزید پلید اور اس کے ہم نواؤں سے امام حسین کا خطاب:_

امام عالی مقام اشقیا کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے: “ذرا میرا نسب تو بیان کرو اور سوچو تو میں کون ہوں؟ اپنے گریبان میں منہ ڈالو، کیا میر اقتل تمہیں روا ہوسکتا ہے؟

میری بے حرمتی تم کو حلال ہو سکتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبی (صلی اللہ تعلی علیہ والہ وسلم) کا نواسہ نہیں؟ کیا تم نے نہ سُنا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے مجھے اور میرے بھائی کو فرمایا: تم دونوں جوانانِ اہل جنت کے سردار ہو؟ کیا اتنی بات تمہیں میری خوں ریزی سے روکنے کو کافی نہیں ؟…”

شمر مردک نے کہا: ”ہم نہیں جانتے تم کیا کہہ رہے ہو ۔ “ حبیب بن مظہر نے فرمایا: اللہ عزوجل نے تیرے دل پر مہر کر دی تو کچھ نہیں جانتا ۔

پھر امام مظلوم نے فرمایا: “خدا کی قسم ! میرے سوا روئے زمین پر کسی نبی کا کوئی نواسہ باقی نہیں۔ بتاؤ تو میں نے تمہارا کوئی آدمی مارا یا مال لوٹایا کسی کو زخمی کیا؟ آخر مجھ سے کس بات کا بدلہ چاہتے ہو ؟” “کوئی جوابدہ نہ ہوا، تو نام لے کر فرمایا: ” اے شیث بن ربعی ! اے حجاز بن ابجر ؟ اے قیس بن اشعث ! اے زید بن الحارث! کیا تم نے مجھے خطوط نہ لکھے؟ وہ خبیث صاف مکر گئے۔ فرمایا: ” ضرور لکھے ۔

پھر ارشاد ہوا: ”اے لوگو! اگر تم مجھے نا پسند رکھتے ہو تو واپس جانے دو۔“ اس پر بھی کوئی راضی نہ ہوا۔ پھر فرمایا:_ ”میں اپنے اور تمہارے رب عزوجل کی پناہ مانگتا ہوں اس امر سے کہ مجھے سنگسار کرو اور پناہ مانگتا ہوں اس مغرور سے جو قیامت کے دن پر ایمان نہ لائے ۔ یہ فرما کہ شریف سے اتر آئے۔” (آئینہ قیامت )

پوری تاریخ کتابوں کا عمیق نظر سے مطالعہ کر لیں آپ کو کہیں نہیں ملے گا کہ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خلاف شرع کوئی بھی کام کیا، نہ کسی پر ناحق ظلم کیا، نہ نا حق کسی کا خون بہایا، نہ دولت و ثروت اور کسی جاہ و منصب کے حریص وہ دلداہ تھے، اور نہ ہی یزید پلید کا تخت و تاج چاہیے تھا ۔

میرے امام تو ہمیشہ شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے شریعت کے محافظ اس طور پر بنے رہے کہ کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار میں بھی ایک وقت کی نماز قضا نہ ہونے دی، نانا کے دین کی بلندی کی خاطر ہمیشہ باطل قوت کا قلع قمع کرتے رہے ۔

یہی وجہ ہے کہ امام نے سر کٹانے کو گوارا سمجھا لیکن شریعت اسلام کی باگ ڈور ایسے فاسق و فاجر کی بھینٹ چڑنے نہ دیا جو نہ نماز کا پابند تھا، نہ روزے کی فکر تھی اور نہ ہی شریعت کا پاسدار تھا۔

آج ہم امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام بہت لیتے ہیں، ان کے نام کی تسبیح کرتے ہیں، یا حسین کے نعروں کی صدائیں بلند کرتے ہیں،

اب سوال یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کے نام کا دم تو بھرتے ہیں مگر کیا ان کے فرامین پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟؟

کیا ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں؟؟؟

کیا امام حسین کی طرح ہم بھی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں؟؟

کیا ہم بھی کسی پر ناحق ظلم و جبر نہیں کرتے؟؟

کیا ہماری مستورات بھی امام حسین رضی اللہ عنہ کے گھرانے کی دو شیزاؤں کی طرح با حیا اور با پردہ رہتی ہیں؟؟

کیا ہم بھی حق و باطل کے درمیان خط امتیاز کھینچتے ہیں؟؟

اگر ہاں تو ماشاءاللہ، اور نہیں تو کیوں؟؟ کیا یہی کربلا کا پیغام نہیں ہے؟؟؟

جب ہم ہم کربلا والے کو مانتے ہیں تو کربلا والے کی بات اور ان کے فرامین کیوں مانتے؟؟ کسی شخص سے محبت کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ ان کی ایک ایک بات پر اپنا سر تسلیم خم کر دیا جائے،

جب آپ امام حسین رضی اللہ عنہ کے مشن کی پیروی کریں گے، ان کے نقش قدم پر عمل پیرا ہو جائیں گے تبھی آپ سچے عاشق امام حسین رضی اللہ عنہ کہلائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو امام حسین رضی اللہ عنہ نے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم

اللہ اللہ پیکر صبر و رضا سجدے میں ہے

مرد حق یعنی شہید کربلا سجدے میں ہے

نرغئہ اعداء میں بھی چھوٹی نہیں ہر گز نماز

دیکھیے ابن علی شیر خدا سجدے میں ہے

طالب دعا : محمد رضوان احمد مصباحی

صدر مدرس : مدرسہ مظاہر العلوم ،صفتہ بستی ،راج گڑھ ،بارہ دشی ،جھاپا ،نیپال

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن