Sunday, October 6, 2024
Homeحالات حاضرہرافضیت کے فضلہ خوار

رافضیت کے فضلہ خوار

رافضیت کے فضلہ خوار

تحریر : محمد شاہد علی مصباحی

رکن – روشن مستقبل، دہلی۔

آج کل رافضیت نے اہل سنت کو دیمک کی طرح اندر اندر چاٹنا شروع کردیا ہے۔ جگہ جگہ دیکھا جا رہا ہے کہ خطبا رافضیوں کی کتابوں اور ان کے ذاکروں سے عبارتیں و روایتیں لینے کو جدت اور محبتِ اہل بیت کا نام دے رہے ہیں۔ اور شعرا رافضیوں کے مرثیہ خوانوں کے کلام ہو بہو یا ان کا چربہ پڑھنے کو محبت اہل بیت کی معراج تصور کر رہے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس سال عرس حضور حافظ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک موقع پر خانقاہ عالیہ چشتیہ صمدیہ پھپھوند شریف کے چشم و چراغ عالم ذیشان حضرت سید محمد مظہر میاں چشتی -دام ظلہ العالی والنورانی- نے ببانگ دہل اعلان فرمایا تھا:

“رافضیت خانقاہوں میں در آئی ہے، یاد رکھیں! خلیفۂ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے افضل ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، پھر سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پھر سیدنا سرکار حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ یعنی جو ترتیبِ خلافت ہے وہی ترتیبِ افضلیت ہے”۔ ساتھ ہی حضرت نے فرمایا: “یاد رکھو! ہمارا موقف وہی ہے جو میر سید عبدالواحد بلگرامی رحمہ اللہ تعالیٰ کا ہے”. (ملخصا)

اسی عاشورا کے موقع پر چشم و چراغ برکاتیت شہزادۂ حضور امین ملت، محب العلما حضرت سید محمد امان میاں صاحب قبلہ نے اپنے والد محترم حضور سید امین ملت دام ظلہ العالی والنورانی و دیگر ذمے داران کی موجودگی میں فرمایا:

“آج شیعہ حکومتوں نے دیکھا کہ ہم سنیوں کو ہرا نہیں پا رہے ہیں تو بہت سارے شیوخ و علما کو کانفرنس وغیرہ کے نام پر ایران بلا کر گھمانا شروع کر دیا۔ یہ ایک ٹِرِک ہے۔ سنیوں کو گھمایا جائے۔ تحائف دیے جائیں۔ اندر ہی اندر پیسے دیے جائیں۔ تاکہ وہ دھیرے دھیرے صحابہ کی تنقید کریں۔ جب صحابہ کو کمزور کیا جائے گا تو اسلام کمزور ہوگا۔ صرف اہل بیت کا دامن پکڑنے اور صحابہ کی گستاخی کرنے والے اسلام کو کمزور کر رہے ہیں۔

کسی ایسے آدمی کو اپنے اسٹیج پر نہ آنے دینا جو حضرات ابوبکر و عمر، عثمان و علی و معاویہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی گستاخی کرتا ہو۔ جب ہم ایک ہاتھ میں دامن صحابہ کو پکڑیں گے اور ایک ہاتھ میں دامن اہل بیت کو پکڑیں گے تب اسلام مضبوط ہوگا۔

محرم الحرام کا مہینہ ہے۔ بہت سے نوسکھیے مقرر اور وہ سادات جو علم سے دور ہیں، علم سے دوستی نہیں رکھتے وہ آپ کو غلط فکریں دینے کی کوشش کریں گے۔ ہمیں ان کی فکریں نہیں لینی ہیں۔

چاہے جان چلی جائے، ہمیں اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کرنی ہے۔ علمائے کرام اور بالخصوص اعلیٰ حضرت کے ماننے والے علماے کرام کے دامن سے وابستہ رہیں ان شاءاللہ تعالی آپ کا ایمان و عقیدہ محفوظ رہے گا” (ملخصا)

ان حضرات کے اقوال کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ کئی شعرا اور خطبا رافضیوں کے فضلے اور ان کی فکری غلاظتیں پِیروں کی موجودگی میں اہل سنت کے اسٹیجوں پر انڈیلتے ہیں اور اہل اسٹیج خواہ وہاں موجود درباری مولوی ہوں یا پیر حضرات سب اچھل اچھل کر داد دیتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر جناب سراج اجملی کا یہ شعر جس پر لوگ خوب داد دیتے ہیں:

بائے بسم اللہ کا نقطہ ہوں میں کس نے کہا

کس کو مستحضر ہے سب علمِ خدا اِلّا عَلِی

‘خدائے تعالیٰ کے کل علم کا استحضار’ سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے ثابت ماننا کیا اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے ؟ یقیناً یہ شعر رافضیوں کا فضلہ ہے۔

اسی طرح حال میں ایک مشہور فاسق شاعر شکیل عارفی نے بڑے بڑے صاحبان جبہ و دستار پیروں اور درباری مولویوں کے سامنے یہ شعر پڑھا:

خدا و نبی کے سوا عظمتوں میں

علی اس جگہ ہے جہاں انتہا ہے

کیا اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں، تو داد دینے والوں اور پڑھنے والوں کو کیا سمجھا جائے ؟

ابھی 7 محرم الحرام کو ایم پی کے شہر چھتر پور میں ایک پروگرام میں خادم بھی شریک تھا۔ اس مجلس میں یہی فاسق معلن شاعر بھی آ دھمکے، حالانکہ ان کا نام پوسٹر میں نہیں تھا۔ (وہ پوسٹر کمنٹ باکس میں بطور حوالہ پیش ہے)

جناب کھڑے ہوئے اور دوسرا ہی شعر پڑھا:

حسین تم نے نبی کی زبان چوسی ہے حسین آپ جو بولیں قرآن ہو جائے

اس شعر کی فنی حیثیت کی بحث میں نہ پڑتے ہوے صرف شرعی بات کرتے ہیں۔

کیا سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے نانا جان کی زبان چوسنے سے ان کا بولا ہوا قرآن ہو جائے گا ؟

اگر ایسا ہی ہے تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات کو الگ سے حدیث شریف کا نام دینے کی کیا ضرورت پڑ گئی ؟ یا پھر وحی الٰہی کا کیا معنی ؟

جب زبان چومنے سے نواسے کا کلام قرآن ہو سکتا ہے تو صاحب زبان نانا کا کلام تو بدرجہ اولی قرآن ہوگا۔

اس رافضیت زدہ شعر پر اسٹیج پر تشریف فرما علماے کرام بالخصوص حضرت مفتی اشتیاق

مصباحی، حضرت مولانا ممتاز احمد، حضرت مولانا سراج برہانی صاحبان اور راقمِ سطور نے جب گرفت کی اور کہا: “یہ شعر غلط ہے۔ اسے نہیں پڑھ سکتے”، تو جناب ڈھٹائی کے ساتھ کہنے لگے: “میں ثابت کروں گا اس بات کو۔ مگر پروگرام کے بعد”۔

علماے کرام نے فرمایا: “پروگرام کے بعد کیوں؟ ابھی ثابت کریں”!!! تو جناب بولے: “مولانا لوگ میرے خلاف سازش کر کے آئے ہیں”۔ پھر دلیل دیتے ہوے کہا: ” حسین قرآن پر قرآن رکھ کر چڑھ گئے تھے اپنی گیند اٹھانے کے لیے، تو وہ قرآن سے افضل ہوے نا”!!

پہلے تو اس فاسق کی جہالت پر ہنسی آئی کہ دعویٰ قول امام کے قرآن ہونے کا اور فرضی دلیل افضلیت پر!!! ہمارے یہاں مثل مشہور ہے: “مارے گُھٹنا، پھوٹے سر” یہ وہی والی بات تھی۔ پھر اس سے کہا گیا: “یہ کہاں لکھا ہے کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن پر چڑھ گئے” ؟؟

تو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی مصداق اسٹیج سے بھاگنے لگے اور جب جوتے پہن لیے تو ان کے حواری علما کو کہنے لگے کہ اسٹیج کے پیچھے آئیں تب بتاتے ہیں۔

اس پر ناظمِ جلسہ جناب حافظ نعیم صاحب کو جلال آ گیا اور انہوں نے جواباً کہا:

“گھر سے اٹھوا لوں گا اگر شریعت سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی”!!! اس موقع پر حافظ محمد سہیل، مولانا محمد سہیل، حافظ عرفان، حافظ رمضان، مولوی محمد عامر و دیگر احباب بھی موجود تھے۔

اس کے بعد جاہل لفنگے جو اس فاسق کو سننے آئے تھے انہوں نے ہنگامہ کرنا شروع کردیا، تب راقم السطور نے کھڑے ہوکر عوامی مفہوم میں قرآن و حدیث کی تعریف کرکے ان کے مابین فرق واضح کرتے ہوے سمجھایا کہ یہ شعر کیوں غلط تھا اور کہا کہ جب وجہ تخلیق کائنات ، رحمۃ للعالمین، حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان خود قرآن نہیں ہے وہ حدیث کہلاتا ہے تو ان کے نواسے سید الشہدا، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان کیسے قرآن ہو سکتا ہے ؟

اس طرح تو قرآن مقدس میں کچھ بھی داخل کرنے کا راستہ کھل جائے گا۔ تب جاکر کچھ معاملات سنبھلے بعدہ حضرت مولانا ارشد رضوی صاحب نے محفل سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں شرکت کی غرض سے آنے والوں کو محفل میں بیٹھنے اور رافضیت کے فضلہ خوار فاسق شاعر کو سننے آنے والوں کو چلے جانے کے لیے کہا۔ تب جا کر ماحول ٹھیک ہوا۔

یہ حالات ہیں۔ ایسے میں عوام و علما و حفاظ و ائمہ سے درد مندانہ اپیل ہے کہ اوپر بیان کیے گئے سادات کرام کے اقوال کو گلے کا ہار بنا کر پہن لیں اور جب بھی جلسہ کرانا ہو تو خوب چھان پھٹک کر خطبا و شعرا کا انتخاب کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا بلایا ہوا خطیب یا شاعر رافضیت پروس کر چلا جائے اور جو لوگ اس کے دام فریب میں آ جائیں ان کی ذمے داری آپ کے سر آئے۔

یاد رہے!! عقائد اہل سنت ہی ہمارے لیے سب کچھ ہیں۔ ان کے تحفظ کے لیے ہمیں جانوں کی قربانی پیش کرنی پڑے تو کردیں مگر ان کا تحفظ ضرور کریں۔

رافضیت جلسوں کے راستے بڑی آسانی سے ہمارے اندر داخل ہو رہی ہے۔ تمام ذمے دار علما کو چاہیے کہ جلسوں میں خطیب اور شاعر کا انتخاب پوری معلومات حاصل کرنے کے بعد کریں۔

رافضیت ہمارے اتنے اندر تک سرایت کر چکی ہے کہ اب اس کا مقابلہ کرنا ہے تو ذمے دار علما و سادات حضرات کو مل کر کوئی پلیٹ فارم تیار کرنا ہوگا۔ جس کے ذریعے موقع موقع سے رافضیت کے فضلہ خواروں کا تعاقب ہوتا رہے۔ ساتھ ہی عقائد و معمولات اہل سنت کی ترسیل و اشاعت بھی ہوتی رہے۔

روشن مستقبل دہلی

تحریک علماے بندیل کھنڈ

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن