کشمیری تعزیے اور پس ماندہ مسلمان !!
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
محرم کے پہلے عشرہ میں ہمارے لوگ تعزیہ اٹھانے/ڈھول بجانے/جلسے کرنے/علم پھرانے/کرسی خطابت ہلانے/مردہ یزید کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور اپنے اپنے موقف کی تائید میں تیر وتلوار لہرانے میں مصروف تھے، اس درمیان ملک میں دو ایسے کام انجام دئے گیے جن کی شاید ہی کسی کو امید رہی ہو، وہ کام تھے:
1 وادی کشمیر میں 33 سال بعد شیعوں کے جلوس محرم کا نکلنا۔
2 بی جے پی کی مجلس عاملہ میں پروفیسر طارق منصور کو قومی نائب صدر بنایا جانا۔
خاص بات یہ ہے کہ دونوں ہی ‘حادثات’ کا تعلق حکمراں جماعت سے ہے۔بظاہر مذکورہ معاملات میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی لیکن اگر باریک بینی سے جائزہ لیں گے تب آپ کو نظر آئے گا کہ ہم اپنی توانائیاں غیر ضروری امور میں خرچ کر رہے ہیں جب کہ اغیار نہایت منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی چالیں چلنے اور ہمیں بے حیثیت بنانے میں دل وجان سے جٹے ہوئے ہیں۔
کشمیر میں شیعوں کا جلوس
خطہ کشمیر میں شیعوں کی جانب سے آٹھویں اور دسویں محرم کو جلوس نکالا جاتا تھا۔بھارت مخالف نعرے بازی اور 1989 میں حکومت مخالف مسلح جدوجہد کے بعد محرم کے جلوس پر پابندی عائد کر دی گئی۔یہ پابندی گذشتہ تیس سالوں سے جاری تھی۔
سال 2019 میں کشمیر کی خصوصی دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بی جے پی کشمیر میں پہلا ہندو وزیر اعلیٰ بنانے کی جی توڑ کوشش میں لگی ہوئی ہے۔
اسی منصوبے کے تحت جموں کشمیر میں نئے سرے سے حد بندی(Delimitation) کرا کر اسمبلی کی سات نئی سیٹوں کا اضافہ کیا گیا۔ان سات سیٹوں میں چھ سیٹیں ہندو آبادی والے خطے جموں کو دی گئیں جب کہ مسلم اکثریتی خطے کشمیر کے حصے میں محض ایک سیٹ آئی، تاکہ مسلم اکثریتی وادی کشمیر کے مقابلے جموں سے خاطر خواہ سیٹیں جیتی جاسکیں۔
اس کے بعد کشمیر کے ڈی ڈی سی(District Development council) انتخاب میں تمام تر کوششوں کے باوجود بھی بی جے پی وادی میں جڑیں جمانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔اس لیے بی جے پی نے اس بار مسلکی کارڈ کھیلتے ہوئے شیعوں کا کندھا استعمال کیا اور تین دہائیوں سے بند جلوس کی اجازت اور بھرپور سیکورٹی دے کر جلوس نکلوایا تاکہ اسی بہانے بی جے پی کشمیری شیعوں کو سنی مسلمانوں کے خلاف استعمال کر سکے اور مسلکی تفریق بڑھا کر انتخابی فائدہ اٹھا سکے۔بس اسی منصوبہ بندی کے تحت کشمیر میں تعزیوں کے جلوس کی اجازت دی گئی۔
اس جلوس سے بی جے پی کی وابستگی اسی سے ظاہر ہے کہ بی جے پی کے نامزد گورنر منوج سِنھا جلوس میں شامل ہوئے اور شیعوں کو خصوصی مبارک باد دے کر اشاروں کنایوں میں دیگر کشمیری مسلمانوں سے بدظن کرنے کی کوشش بھی کی۔
عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف سری نگر کی جامع مسجد میں اگست 2021 سے جمعہ کی نماز پر پابندی لگی ہوئی ہے دوسری جانب شیعوں کا جلوس نکالا جارہا ہے۔یہی وہ خاموش پیغام ہے جس کے ذریعے مسلکی تفریق بڑھانے کی کوشش ہورہی ہے۔
پس ماندہ مسلمان کا داؤں
عرصہ دراز سے مغربی دنیا دین اسلام کو دو حصوں “صوفی اسلام اور وہابی اسلام” میں بانٹنے کی سازش میں مصروف ہے ٹھیک اسی طرز پر حکمراں پارٹی بی جے پی نے بھارتی مسلمانوں کو دو حصوں میں بانٹنے کا منصوبہ بنایا ہے۔اسی منصوبے کے تحت مسلمانوں کی دو کٹیگری میں بانٹا گیا ہے:
1اشراف
2پس ماندہ
اشراف یعنی اعلی ذات کے مسلمان۔اس کیٹیگری میں سید/شیخ پٹھان وغیرہ شامل مانے جاتے ہیں۔
پس ماندہ مسلمان یعنی کمزور طبقات کے مسلمان۔اس زمرے میں انصاری/منصوری/بنجارے/سیفی وغیرہ شامل مانے جاتے ہیں۔
اس منصوبے کے تحت یہ پروپیگنڈہ پھیلایا جارہا ہے کہ اعلی ذات کے مسلمانوں نے پس ماندہ مسلمانوں کو سیاسی/سماجی/اقتصادی اور تعلیمی سطح پر دبائے رکھا اور آگے بڑھنے نہیں دیا جس کی وجہ سے اقلیت میں ہونے کے باوجود اشراف مسلمان ہر لحاظ سے بڑے بنے رہے جب کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود پس ماندہ مسلمان اشراف مسلمانوں کے ماتحت اور غلام بنے رہے۔
اپنی باتوں کو ثابت کرنے کے لیے وہ مقامی/صوبائی/ملکی سطح کے ان لیڈروں کا نام پیش کرتے ہیں جن کا تعلق اشرافیہ سے ہے اور وہ پس ماندہ مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود لیڈر بنے ہوئے ہیں۔
مثلاً رامپور کی مثال دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ رامپور میں انصاری/بنجارے اور دیگر پس ماندہ برادریوں کی اکثریت ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کی سیاسی قیادت پہلے نوابین رامپور اور اب اعظم خان کے ہاتھوں میں ہے۔نوابین اور محمد اعظم دونوں کا تعلق اشرافیہ یعنی پٹھان قوم سے ہے۔
مرادآباد کی مثال میں کہا جاتا ہے کہ یہاں انصاری برادری اکثریت میں ہے مگر یہاں ڈاکٹر سید طفیل حسن(ایس ٹی حسن) میئر اور ممبر آف پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں۔اسی طرح ملک کے دیگر علاقوں میں موجود مسلم لیڈروں کو پیش کرکے مسلمانوں کی بڑی آبادی کو یہ باور کرانے کی کوشش ہورہی ہے کہ کانگریس اور علاقائی پارٹیوں نے ہمیشہ بڑی ذات کے مسلمانوں کو آگے بڑھایا ہے اس ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے بی جے پی پس ماندہ
مسلمانوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔اسی منصوبے کے تحت بی جے پی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کو پہلے ایم ایل سی بنایا اور اب ترقی دے کر قومی نائب صدر بنا دیا ہے۔
طارق منصور بھی خود کو پس ماندہ مسلمان بتاتے ہیں۔بی جے پی جیسی متعصب پارٹی میں ایک مسلم چہرے کو اتنا بڑا عہدہ ملنے سے صاف ہوجاتا ہے کہ بی جے پی ان کا چہرہ آگے رکھ کر مسلمانوں میں ذات برادری کی خلیج کو بڑھائے گی۔اس سے بی جے پی کو دہرا فائدہ ہوگا اول مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہوں گے، دوسرے ذات پات کے تعصب میں بہت ساری قومیں ان کے جال میں پھنس جائیں گی۔
حکومت کی چالوں کو سمجھیں
یہ بات صحیح ہے کہ مسلمانوں میں مسلکی اختلافات موجود ہیں۔ان میں کہیں رسمی سی لاتعلقی ہے تو کہیں شدت بھی پائی جاتی ہے۔مسلمانوں میں برادری اور طبقاتی تقسیم سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا مگر اب تک یہ ساری تقسیم اندرونی نوعیت کی رہی ہے لیکن اب حکومت اس تفریق کو باضابطہ سرکاری سرپرستی میں بڑھانا چاہتی ہے تاکہ بنام مسلم ہماری بچی کھچی طاقت اور حیثیت بھی ختم ہوجائے اس لیے اس نے نہایت چالاکی کے ساتھ مسلمانوں میں مسلک اور برادری کا جال پھینکا ہے۔
مسلمانوں کے درمیان ہندوؤں کی طرح طبقاتی کش مکش بڑھانے کے لیے پہلے کشمیر میں گوجر بکروال برادری کے غلام علی کھٹانا کو راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کیا۔ اس کے بعد یوپی میں دانش آزاد انصاری کو اقلیتی امور کا وزیر بنایا۔
مدرسہ بورڈ کی چئیرمینی سیفی برادری کے ڈاکٹر جاوید کو سونپی تو شیعہ سماج کے محسن رضا کو حج کمیٹی کا صدر مقرر کیا۔اس طرح بی جے پی ایک طرف مسلکی کارڈ کے ذریعے اور دوسری طرف برادری واد کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان خلیج اور دوریاں بڑھانے کی پر زور کوشش میں مصروف ہے۔
سوال یہاں کسی برادری/مسلک کو نمائندگی دینے کا نہیں ہے، ہر حکومت اپنی صواب دید کے مطابق مختلف لوگوں کو سیاسی مناصب دیتی ہے لیکن بی جے پی ان تقرریوں کو دوسرے طبقات اور مسالک کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
اور یہ کام کوئی ڈھکے چھپے انداز میں نہیں بل کہ کھل کر کیا جارہا ہے۔پس ماندہ کو نمائندگی دینے کے ساتھ ہی دوسری قوموں کو ولین(Villain) کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس سے دیگر قوموں میں ان کے تئیں تعصب ونفرت بڑھنے کا پورا اندیشہ وخدشہ ہے۔
اس سے قبل صوفی کانفرنس کے ذریعے یہ کوشش ہوئی اور ابھی کچھ دن پہلے “صوفی سنواد” یعنی صوفی مکالمہ کے عنوان سے مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقے کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
جس کے تحت بہت سارے صوفیوں کو بی جے پی سے جوڑا گیا اور اس وقت تصوف کے نام پر درجنوں تنظیمیں اور سیکڑوں افراد بی جے پی کے لیے جی جان سے کام میں جٹے ہوئے ہیں۔
یہ لوگ ہر ایسے عنوان پر ضرور بولتے ہیں جس سے حکومت کو تقویت ملے لیکن جیسے ہی اسلام اور مسلمانوں سے جڑا کوئی مسئلہ آتا ہے تو یہ لوگ گونگے کا گڑ کھا کر خاموش ہوجاتے ہیں۔
اس لیے نہایت سنجیدگی اور تحمل کے ساتھ ماحول پر نگاہ رکھیں۔برادری یا مسلک کے نام پر حکومت کا آلہ کار نہ بنیں۔بات برادری کی نمائندگی کی ہو یا مسلکی معاملات کی، جو کریں اپنے طور پر کریں، وقتی نفع کی خاطر استعمال نہ ہوں کیوں کہ جو لوگ آپ کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں
وہ آپ کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں۔جب تک ان کی غرض وابستہ ہے اس وقت تک تھوڑی بہت پوچھ گچھ ہوگی کام نکلتے ہی یہ لوگ بھی اسی جگہ پہنچا دئے جائیں گے جہاں پہلے والے پڑے ہوں گے۔