عالی جاہ! اپنے تفردات سنبھالیے
یہ ہماری قسمت ہے کہ ہماری جماعت میں پیشہ ور مقرروں کی بڑی تعداد ہے اور یہ شراب دو آتشہ کہ یہ جیسے تیسے تعلیم یافتہ عوامی علامہ موقع پر چوکا لگانے سے نہیں چوکتے اور بزعم خویش کبھی غیر ضروری طور پر اسلامی مفکر اور کبھی اسلامی متکلم بھی بن بیٹھتے ہیں
یہ ہر ایک کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنا کوئی خاص موقف/ نظریہ رکھے اور مناسب موقع پر پیش کرے لیکن یہ کسی کو حق نہیں ہوتا کہ اپنے نظریے کو پوری جماعت کا نظریہ یا اسلامی نظریہ بنا کر پیش کرے
یہ باتیں اس لیے کہی جا رہی ہیں کہ ہمارے یہاں تقریروں میں کچھ خاص بیماریوں نے اپنی مستقل جگہ بنا لی ہے جیسے:
(الف) کچھ لوگوں کو نوٹ کیا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ عوام کو کوستے رہتے ہیں اور وہ بھی اس بھونڈے انداز میں کہ ذوق سلیم پر گراں گزرے۔
ان مہاشوں سے اتنی گزارش کی جا سکتی ہے کہ: حضور والا! تنقید ضروری ہوتی ہے لیکن برائے اصلاح، ورنہ ایک صالح صنف کب توہین بن جاتی ہے اور توہین کب جرم، آپ کو یہ علم بھی نہ ہوگا اور آپ نہ صرف اخلاقی بلکہ شرعی حدیں بھی پھلانگ چکے ہوں گے۔
اس لیے بنا تولے بول کر کی جانے والی معذرتوں/ توباؤں اور بد احتیاطیوں سے کہیں بہتر ہے، اپنے جوش کو لگام اور جذبات کو سنجیدگی کا جامہ پہنائیں تاکہ محسوس نقصانات کے علاوہ، ان دیکھے خساروں سے بھی بچا جا سکے۔
(ب) غربت و امیری دونوں اللہ کی طرف سے ہیں اور دونوں ہی الگ الگ زاویوں سے نعمت یا زحمت بن سکتی ہیں۔
اسلامی اصولوں کے مطابق اگر بے لگام سرمایہ داری محبوب نہیں تو بارہا غریبی بھی کفر کا سبب بن جاتی ہے، اس لیے مال داروں اور مال داری پر پھبتیاں کسنا، یا بنا فرق مراتب امیروں کو ٹارگیٹ کرنا، نہ صرف ہتک آمیز ستم ہے بلکہ موجودہ تناظر میں بڑا اسلامی خسارہ بھی ہے۔
اس کی بجائے ہونا یہ چاہیے کہ اگر ہم اپنے مطالعے اور دانش وری سے سرمایہ داروں کو مثبت جہت اور غربت کو واقعی اسلامی مزاج دے سکیں تو دیں، ورنہ غیر معقول اور غیر عملی باتوں سے نہ خود کا ٹھٹھہ بنائیں اور نہ اسلامی اصولوں کو روندیں۔
(ج) آج کل ایک عمومی چلن ہو گیا ہے:
میرا یہ تو یہ ماننا ہے، میں تو یہ کہتا ہوں، میری تحقیق تو یہ ہے، میرا وجدان تو یہ کہتا ہے۔ کمال حیرت یہ ہے کہ تفردات اور امتیازات کی اس دوڑ سے مسلمات بھی محفوظ نہیں رہے۔
ایسے میں ایسے کسی بھی محقق اور وجدانی کو یہ تاریخ کبھی نہیں بھولنا چاہیے، بارہا فتنوں کی پرداخت اور بارہا گم راہی کی ابتدا کے پیچھے بھی کچھ ایسے ہی بے تکے تفردات اور خود ساختہ تحقیقات کی کار فرمائی رہی ہے۔
بے شک یہ بات بولنے میں بہت بھلی معلوم ہوتی ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا اور نہ ہی انسانی عقل نے پرواز چھوڑی ہے لیکن اگر جذباتی استحصال اور بلیک میلنگ سے اوپر اٹھ کر ہدایت حق کے جذبے سے دیکھا جائے تو حق پسند طبیعت کو اس قبول حق میں ذرا تامل نہیں ہوگا کہ نہ کوئی عقل، نہ کوئی تحقیق اور نہ کوئی وجدان، شریعت کی پہرے داری اور گرفت سے کوئی بالا نہیں۔
(د) ابھی ایک جوشیلے مبلغ خطیب کو سنا، جو برملا رطب و یابس بیان کرتے اور خود کے ساتھ پوری جماعت کی تضحیک کا سبب بنتے ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام کا کاروبار ریوڑ بکریوں کا پالن بتا رہے تھے۔
کچھ دنوں پہلے یہی مہاشے پبلک پلیٹ فارم پر حضرت رسالت ماٰب ﷺ کی نبوی قوت کے اثبات کے لیے حضرات ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن سے عصر و مغرب کے درمیان ازدواجی ملاقات کی گاتھا گا رہے تھے۔
بارہا دیکھا جا چکا ہے کہ سوشل میڈیائی متعصب مشرک اور ملحدین اس طرح کے بیانات کو لے اڑنے کے لیے ہمہ تن گوش منتظر رہتے ہیں، کیا پھر بھی ایسے بیانات محض اس لیے نہ روکے ٹوکے جائیں کہ جناب عوامی حدتک مقبولیت رکھتے ہیں؟
اگر یہی معیار رہا تو وہ دن دور نہیں، جب اسلام کے نام پر فدا کاری کے دعوے، تبلیغ اسلام کی راہ کا روڑا بن رہے ہوں گے۔
(ھ)اس میں کیا شک ہے کہ ہم ہندی مسلمانوں کی رگ رگ ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے بلکہ ہر طلوع آفتاب کے ساتھ ہی ظلم و بیداد کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہے، لیکن چھلنی چھلنی بدن کا کوئی معقول اور عملی درماں تلاش کرنے، یا کوئی معقول تجویز سجھانے کی بجائے جوشیلے انداز میں محض بیماریوں کا راگ الاپتے رہنا، یا صرف تقریروں سے ہی ہر دنیا فتح کر لینے کا خواب دیکھنا، خود فریبی، ضیاع وقت، تحریک بے حسی نہیں تو کیا ہے!
(و) قسمت کا کرنا کہ ہم ہر علاقے/مشرب میں کوئی نہ کوئی “قائدملت” رکھتے ہیں اور جتنے جوش کے ساتھ لفظ “قیادت” اشتہارات کی زینت بنتا ہے، اتنے ہی ٹھنڈے جذبات کے ساتھ اپنے آبا و اجداد کی قبروں کے محافظ یہ اصحاب قیادت اے سی کمروں میں آرام فرما اور ملت خود فریب ہے۔
شاید ہمارے حق میں یہ قدرت کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ ہم نہ صرف صالح سیاسی اور سماجی قیادت سے محروم کر دیے گئے ہیں بلکہ اب تو مثبت ذہن مذہبی قیادت بھی دم توڑے جاتی ہے۔ لیکن بایں ہمہ کسی بھی بد سے بدتر عہد خزاں میں بھی اپنی محرومیوں/ نا کامیوں کا ڈھنڈورا پیٹنا ،ایک اور محرومی / ناکامی کا ہی حصہ ہو سکتا ہے، علاج غم نہیں۔
اس لیے شکوہ ظلمت شب سے زیادہ، اپنے حصے کی شمع جلانے کی کوشش ہونی چاہیے اور در اصل یہی ہمت و پیش رفت صبح نو کی نوید بنتی ہے۔
(ز) یہ بھی شاید محرومی/ ناکامی کا حصہ ہے کہ ہم غیروں سے بہت جلد اور بہت بری طرح متاثر بلکہ مرعوب ہو جاتے ہیں۔ عام ازیں کہ وہ غیر خود کو اہل ایمان کہتے ہوں، یا نہیں۔ جبکہ خود اعتمادی یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، مرعوب ہونے کی بجائے ان سے نپٹنے کی ہمت کی جائے/ ہمت دی جائے۔
(ح) تقریری بازار میں احساس محرومی کی تیسری نشانی یہ نوٹ کی جاتی ہے کہ ہمارے یہ جذباتی خطیب جو پولیٹکل سائنس، انٹرنیشنل افیئرس اور ڈپلومیسی کے ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے
مقررانہ اعزاز کے ساتھ ہی خود کو ہر فن کا ماہر سمجھتے ہوئے، ان نازک ایشوز پر بھی اپنی رائے زنی بلکہ عوامی تحکیم سے باز نہیں آتے جبکہ جس طرح غیر حکیم کو دوا دارو تجویز کرنا روا نہیں سیاسیات -جو اب مستقل اور نہایت پیچ دار فن بن چکی ہے- میں بھی ہر کسی کو اپنی رائے زنی کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے چند فیصلوں، کسی بڑے سیاست داں کے چند بیانوں، حضرت اویسی کے جذباتی ٹویٹس اور حضرت اردغان کے غیر عملی ایکشن سے اپنے/ دوسروں کے جذبات کا دھارا موڑنا، نہ صرف حکمت عملی کے خلاف ہوگا
بلکہ سیاسی اور ڈپلومیسی کے شعور کی نا پختگی کی بھی نشانی ہوگی۔ کیوں کہ سیاست ایک مستقل فن اور فلسفہ ہے، چند وقتی حادثات کا نتیجہ نہیں، اس لیے اس بابت کوئی رائے بھی اصول پر مبنی ہونی چاہیے، حادثات کے ری ایکشن پر نہیں۔
حاصل
مدعا یہ کہ قوم کی امامت، چوں کہ اہم ترین فرض منصبی ہے، اس لیے اسے بقول اقبال لذت شوق سے بے نصیبی کے ساتھ انجام نہیں دیا جا سکتا، اس لیے ایسے ہر طبقے کو خود کو نہایت حساس، با شعور اور ذمہ دار بنانے کی ضرورت ہے
ورنہ وہ خود اپنا، یا قوم ان کا احتساب کرے، کرے، نہ کرے، قوموں کو خلقت، خلقت کو گویائی اور گویائی کو شعور دینے والا رب ضرور محاسبہ کرے گا اور در اصل وہی سب سے مشکل گھڑی ہے۔
خالد ایوب مصباحی شیرانی