یوم آزادی اور جلتا ہندوستان
تحریر :_ محمد رضوان احمد مصباحی
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
آج ہم آزادی کا جشن منا رہے ہیں اور ملک و ملت کی خاطر اپنی جان و پران کی قربانی دینے والے جان باز سپاہیوں کی بارگاہ میں خراج عقیدت و نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔
کیوں کہ ٹھیک ٧٦/ سال پہلے ١٩٤٧ء کو ہمارا ملک انگریزوں کے ظلم و جبر اور جبری استعداد والی حکومت کے چنگل آزاد ہوا تھا ۔یہ کسی پر مخفی نہیں کہ اس جنگ و لڑائی میں کتنی جانوں کی قربانیاں پیش کی گئیں، کتنے لوگ اس آزادی کے لےبے گھر ہو گئے، کتنوں کو صولیوں پرچڑھا کر شہید کیا گیا اور سیکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو زندہ نذر آتش کیا گیا، دہلی کی شاید ہی کوئی گلی اور چوراہے تھے
جو ان شہیدوں کے خون سے لت پت ہو کر رنگین نہ ہو گئے ہوں۔ اس جنگ میں ہر طبقے اور مذاہب کے لوگوں کی شمولیت ہوئی۔ جب سارے مذاہب کے ماننے والوں نے بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب وملت اپنی آواز بلند کی تبھی جاکر اس ملک کو آزادی ملی ہے۔
لیکن میں سمجھتا ہوں جس مقصد کے لیے اتنی بڑی آزادی کی لڑائی لڑی گئی تھی
ایک علم کے تحت سارے لوگ یکجا ہو گئے تھے نہ کسی نے کہا تھا اس وقت کہ تو ہندو ہے، مسلم ہے، سیکھ ہے وغیرہ وغیرہ بلکہ سب کی ایک آواز بلند ہورہی تھی کہ ہم سب ہندوستانی ہیں ہمارا ملک ایک ہے اور ہم اسی ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرنے کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دے رہیں۔ کہیں نہ کہیں اس مقصد کو آج بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔
جب ہم ایک نظر آج سے ٧٦ سال پہلے والے ہندوستان کو دیکھتے ہیں اور ایک نظر آج کے ہندوستان پر ڈالتے ہیں تو بہت ہی زیادہ فرق اور تبدیلی نظرآتی ہے۔ آج کے موجودہ ہندوستان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر خود ہی فیصلہ کریں اور بتائیں کہ ہندوستان کو کس طرح آگ میں جھونک دیا گیا ہے ۔
بالخصوص جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آئی ہے فرقہ وارانہ فسادات کو دن بدن بڑھاوا دیا جارہا ہے۔
آئے دن مذہب کے نام پر دسیوں لوگوں کی جانیں ان دھرم کے ٹھیکیداروں کی نذر ہو جایا کرتی ہیں۔ ہندوستان کی بھائی چارگی کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے کہ فسادات رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ “بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ” کا نعرہ دینے والے آج خود ہی بیٹیوں کی عصمت کی حفاظت نہیں کر پا رہے ہیں ہیں۔
بلکہ محافظ آج خودہی ڈاکو بن گئے ہیں بلفظ دیگر رچھک خود ہی بھچھک (रक्षक खुद ही भक्षक बन गए हैं ) بن گئے ہیں۔ اس کی زندہ جاوید مثال منی پور کا حالیہ حادثہ ہے جس نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ کس طور پر ایک عورت کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کر کے انہیں ننگا پوری جماعت کے ساتھ گھما کر اس کی آبروریزی ریزی کی جا رہی ہے ۔
مگر حکومت کی کرسی پر قبضہ جمائے ہوئے ان ڈاکوؤں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ سینکڑوں مسلمانوں کے گھر پر بلڈوزر جلایا جا رہا ہے، گڑگاؤں کی مسجد کو آگ لگا کر امام صاحب سمیت تین لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا گو کہ پورا ملک جل رہا ہے ۔
نفرت کا بازار گرم کیا جارہا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دیا جارہا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر محاذ پر صرف ایک ہی مذہب کے ماننے والے مسلمانوں کو ہی ٹارگیٹ کیا جاتا ہے ۔
پھر ان فسادات کا الزام مسلمان ہی کے سر پھوڑا جاتا ہے ۔مگر افسوس کہ اتنا ہونے کے باوجود بھی ہمارے وزیرا اعظم اپنی چپی اور خاموشی کو نہیں توڑتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے خاموشی کا روزہ رکھا ہوا ہے ، زبان گونگ ہوگئی ہے ۔
مسلمانوں کی جانیں آئے دن تحفے اور نذرانے کی شکل میں پیش کی جاتی ہیں۔ ابھی حالیہ ٹرین کا معاملہ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف لوگوں کے دلوں میں کتنی نفرت اور زہر گھول دیا گیا ہے۔
ایک محافظ پولیس کانسٹیبل(چیتن سینگھ ) اپنے سینئر سمیت تین مسلمانوں کو بندوق کی گولیوں سے دن دہارے بھون دیا ، اس پر مستزادیہ کہ اس بے شرم نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ اس ملک میں رہنا ہے تو مودی اور ہوگی کہنا ہے ۔
اتنا ہونے کے باوجود آج تک نہ تو وزیر اعلیٰ نے مرنے والوں کی تعزیت کی اور نہ ہی اس واردات کو غلط قرار دیا ۔
حد تو یہ ہے کہ آج تک نہ اس کے خلاف کوئی ٹھوس اور مضبوط قدم اٹھایا گیا اور نہ ہی اب تک کوئی سزا سنائی گئی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم ملک کے وزیر اعظم نہیں بلکہ وہ تو صرف ایک مخصوص طبقہ اور مذہب کے ماننے والوں کے وزیر اعظم ہیں ۔ ان چند لوگوں نے نفرت کی آگ اتنی تیزی کے ساتھ اس قدر پھیلا دیئے ہیں کہ اب محفوظ جگہ اور محافظ سے بھی ڈر لگنے لگتا ہے۔ پھونک پھونک قدم رکھنا پڑتا ہے ۔
کہیں جانے سے پہلے اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لینے کی نوبت آ گئی ہے۔ یہ نفرت کی آگ اب کب بجھے گی خدا ہی جانے ۔
امید کی ایک کرن ٢٠٢٤ء کا الیکشن ہے اگر اس بار سب لوگ مل کر بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل مجاہدین آزادی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے موجودہ حکومت کے خلاف آواز بلند کیا اور ان کے خلاف ووٹ کیا تو نہ صرف بی جے پی کی شکست ہوگی بلکہ نفرت کی شکست و ہار ہوگی اور مجبت کی جیت ہوگی ایک بار پھر پورے ملک میں امن و امان، اخوت و مساوات اور بھائی چارگی کی فضا قائم ہوگی ان شاء اللہ ۔
لہذا آزادی کے اس جشن اپنے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی عہد کر لیں کہ ہم سب کو ایک ہوکر اس ملک کو ان ظالموں سے بچانا ہے، موجودہ حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر ملک کی خوبصورتی اور جمہوریت کی حفاظت کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ اس چمن کی حفاظت فرمائے۔ آمین
تحریر :__محمد رضوان احمد مصباحی
صدر مدرس :_ مدرسہ مظاہر العلوم ،صفتہ بستی ،راج گڑھ ،بارہ دشی ،جھاپا ،نیپال
رکن البرکات ویلفیئر ٹرسٹ ٹھاکر گنج، کشن گنج ،بہار