اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ایک اسلامی سائنس داں
غلام مصطفیٰ رضوی(نوری مشن،مالیگائوں)
سائنس ایک تجرباتی علم ہے ۔ یہ مشاہدہ و تجزیہ ، اسباب و علل او ر گہرائی وگیرائی پر بحث کرتا ہے اور ٹھوس وواضح اسباب ودلائل کے ساتھ نتائج کا استخراج کرتا ہے تا ہم اس کا تعلق عقل سے ہے بایں ہمہ اس کے نتائج کو حتمی قرارنہیں دیا جاسکتا ۔حواس خمسہ کا تعلق بھی عقل سے ہی ہے ۔دیکھنا ، سونگھنا ، چکھنا ، چھونا ، سننا ان سے بھی غلطیوں کا احتمال ہے ۔
لہٰذا ایسے قانون اور دستور کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو عیب و شبہ اور نقص سے بری ہو اور انسانوں کا تشکیل کردہ نہ ہو۔ قرآن مقدس جو مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل ہوا اور جس کا سر چشمہ ’’ وحی‘‘ ہے جو دستور حیات اور قانون کا ئنات ہے ۔
دستور العمل ایسا کہ اس کی روشنی میں ہر مسئلہ و علم ، مشاہدہ و فکر کی گتھیاں سلجھائی جاسکتی ہیں ۔ سائنس جو دور حاضر کی ضرورت بن چکی ہے اس کے نتائج و فیصلے کا انحصارو اطلاق قرآن مقدس کی روشنی میں ہوتو یہی علم راحت ووجہِ سکون بن جائے گا۔
بعض ارباب عقل مذہب اورسائنس کو جداجدا خانوں میںتقسیم کرتے ہیں اور ان میں تضاد مانتے ہیں ۔ درحقیقت وہ مذاہب جو اوہام اور فاسد عقائد کا مجموعہ بن کررہ گئے ہیں یا انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں یقینا وہ سائنس سے متصادم ہیں ۔مثلاً عیسائیت ویہودیت جن کی تعلیمات کو ان کے قائلین نے مسنح کرڈالاہے۔
جب اسلام ابتدائی صدی ( پہلی و دوسری صدی ہجری ) میں دنیا کے بہت سے ملکوں اور خطوں میں پھیل گیا اور جہاں جہاں مسلمان گئے علم و فن ، سائنس وحکمت کو ترقی اور عروج و فروغ عطا کیا تب ان مذاہب کے ماننے والوں کی یہ حالت تھی کہ جہالت کے اندھیروں میں بھٹک کر انسانیت کے اصولوں سے روگرداں ہو کررہ گئے تھے۔
علم و فن اور تجرباتی و مشاہداتی اصولوں کا ان کے یہاں کوئی تصور نہیں تھا۔ بعد کو مسلمانوں کے مدون کردہ علوم اور کتب علمیہ سے استفادہ کرکے وہ ترقی کے مدارج طے کرتے گئے اور مسلمانوں کی غفلت و بے توجہی نے ان کے اپنے رشتے علم و فن سے کمزور کرڈالے ۔
اسلام مذہب حق ہے اور فطرت کا دین ہے اس لیے اصلاً سائنس و حکمت سے یہ کہیں متصادم نہیں بلکہ سائنس ہر جگہ اسلام کی تائید و حمایت پر مجبور ہے بشرطیکہ دیانت دارانہ تحقیق ہو۔ اسلام کے سوا دیگر مذاہب کے حاملین کا مطالعہ و تحقیق انہیں ’’ شتربے مہار‘‘ کی مثل بنادیا اور وہ دھریت کاشکار ہو بیٹھے۔ اپنے معاشی واقتصادی اور سیاسی استحکام کے لیے نت نئے نظریات و افکار کا سہارا لیا ، سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی کے بل بوتے پرانسانیت کو راحت پہنچانے کے بجائے تباہی و بربادی کے دہانے پرپہنچادیا۔
انیسویں و بیسویں صدی عیسوی کا مذہبی و سیاسی ، معروضی و جغرافیائی او رتاریخی مطالعہ ان حقائق کی نشان دہی کرتا ہے کہ کس طرح مذہب پر ( باالفاظ دیگر اسلام پر ) سائنس و فلسفہ کے ذریعے حملے کیے گئے اور اسلامی معاشرے میں نمودپانے والے بعض ایسے افراد بھی خرید لیے گئے جنہوں نے ترقی اور جدید تہذیب کی آڑ میں اسلامی عقائد کی نئی تعبیریں گڑھ لیں اور عقائد حقہ سے انحراف کیاایسے وقت میں کسی ایسے مرد مجاہد اور غزالیِ وقت کی ضرورت تھی جو سائنس و فلسفہ کے ذریعہ ہونے والے حملوں کا جواب دیتا اس تناظر میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ( ولادت: ۱۲۷۲ھ / ۱۸۵۶ء وصال: ۱۳۴۰ھ / ۱۹۲۱ء) کی دینی و علمی خدمات کا تجزیہ اور تحقیقی و تصنیفی سرمائے کا مطالعہ گہرائی وگیرائی کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔
تمہیدی پیرائے میں سائنس کے پس پردہ جن یہودی و نصرانی عزائم کی طرف اشارے کیے گئے اس پر کیمبرج یونیورسٹی کے انگریزنو مسلم پروفیسر ڈاکٹر محمد ہارون (م ۱۹۹۸ء) کا درج ذیل تبصرہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو موصوف نے اپنے ایک انگریزی مقالہ میں درج کیا ہے :
’’ یہ جدید دور نئی تہذیب کی کامیابی او رپھرنا کامی کا دور ہے ۔ سوسال پہلے سائنس پر بہت گہرا اعتقاد تھا اس وقت سے اب تک ہم سائنس کی تنگ دامنی اور بہتر دنیا کی تعمیر میں ناکامی کا مشاہدہ کرچکے ہیں بلکہ سائنس نے اور بھی نئے خدشات کو جنم دیاہے جس سے سائنس پر یقین ختم ہوکررہ گیا ہے ۔ اس عہد نے سرمایہ داری کا بحران بھی دیکھا ہے اور سرمایہ داری کے مغربی متبادل کی ناکامی بھی ۔ ‘‘ ۱؎
اعلیٰ حضرت قدس سرہ مسلمانوں کے تعلیمی عروج کے خواہش مند تھے ۔ وہ خود ۵۰؍ سے زیادہ علوم وفنون میں مہارت تامہ رکھتے تھے ۔ ان کے نزدیک اصل علم’’ علم دین ‘‘ ہی تھا بقیہ تمام علوم کو اسی علم کا مرہون منت جانتے تھے ۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :
’’ فقیر غفراللہ تعالیٰ لہ ۔ قرآن و حدیث سے صدہا دلائل اس معنیٰ پر قائم کرسکتا ہے کہ مصداق فضائل (علم) صرف علوم دینیہ ہیں وبس ۔ ان کے سوا کوئی علم شرع کے نزدیک علم نہ آیات و احادیث میں مراد ۔ اگرچہ عرف ناس ( لوگوں کے عرف) میں یابا عتبارلغت اسے علم کہا کریں ۔ ہاں آلات و وسائل کے لیے حکم مقصود کا ہوتا ہے ۔ ‘‘ ۲؎
پے درپے ناکامی وپسپائی نے مذاہب باطلہ کو اسلام کے تئیں مضطرب و بے چین کردیا۔ انہوں نے عقیدے میں انتشار پیدا کرنے کے لیے اپنی عقلی تحریک کے توسط سے اسلامی افکار پر حملے کئے کہ لاشعوری طور پر مسلمان طالب علم غلط نظریات کو فکرو خیال میں بسالے ۔ علوم و فنون سے ہمارے رشتوں کی کمزوری اس حد کو پہنچی کہ آج علوم جدیدہ سائنس و حکمت میں موشگافی کے لیے مغرب سے رجوع ہونے پر مجبور ہیں ۔ بایں ہمہ ان کے باطل نظریات بھی دل میں گھرکرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ قرآن مقدس نے فکری و سعت دی ہے او ریہ درس دیا ہے: وَاَنْزَ لْنَا فِیْھَآ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَ کَّرُوْنَ o ’’ اور ہم نے اس میں روشن آیتیں نازل فرمائیں کہ تم دھیان کرو‘‘ ۳؎
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُ وْامِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ط لَاتَنْفُذُوْنَ اِلَّابِسلْطٰنٍ o ’’ اے جن وانس کے گروہ اگر تم سے ہوسکے کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جائو تو نکل جائو جہاں نکل کر جائو گے اسی کے سلطنت ہے ‘‘ ۴؎
زندگی کا کوئی بھی گوشہ تشنۂ قانون نہیںہے ۔ اسلام نے ہر ہر گوشے کے لیے اصول و ضابطے متعین کئے ہیں اس لئے قرآن مقدس کی روشنی میں علم و فن کا مطالعہ صحیح سمت رہنمائی کرتا ہے ۔ اور فکر کو متزلزل ہونے سے بچائے رکھتا ہے ۔اعلیٰ حضرت نے یہی تعلیم قوم کو ازبر کروائی کہ کسی بھی نظریے کو اسلام کی کسوٹی پر پر کھاجائے جسے مخالف پایا جائے اسے مسترد کردیا جائے ۔ اس لحاظ سے اعلیٰ حضرت کی دینی خدمات کا یہ باب بھی تابندہ و فروزاںہے کہ آپ نے جہاں معاشرتی برائیوں اور رسوماتِ قبیحہ کا سدباب فرمایا ، بدعات و منکرات کا رد کیا وہیں سائنس کے راستے وار د ہونے والی فکر ی بے راہ روی اور نظریاتی تخریب کاری پر بھی قدغن لگایا۔ اس میں کسی طرح کی مداہنت یا مصلحت کو راہ نہ دی ۔
سائنس کا نظریہ ہے کہ زمین محوگردش ہے ۔ ارباب سائنس دو گرد ش کے قائل ہیں محوری اور مداری، گردش ارض کا نظریہ اسلام کے منافی ہے ۔ لہٰذا اعلیٰ حضرت نے اس عقیدے کا سخت نوٹس لیا۔ سائنس کے اس نظریے سے متعلق ایک سوال پروفیسر مولوی حاکم علی بی ۔ اے نقشبندی، پروفیسر سائنس اسلامیہ کالج لاہور نے ۱۴؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۳۹ھ کو اعلیٰ حضرت کی خدمت میں بھیجا اور مذکورہ نظریے کی موافقت میں لکھا : ’’ غریب نواز کرم فرما کر میرے ساتھ متفق ہوجائو تو پھر ان شاء اللہ تعالیٰ سائنس کو اور سائنس دانوں کو مسلمان کیا ہوا پائو‘‘ ۵؎ جواب میں اعلیٰ حضرت نے ایک تحقیقی کتاب ’’نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان ‘‘ (۱۳۳۹ھ) تحریر فرمائی جس میں نظریۂ حرکت زمین کی مخالفت میں قرآن مقدس ، احادیث ، تفاسیر ، اقوال فقہا سے استدلال فرمایا ۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
’’ قرآن کے وہی معنیٰ لینے ہیں جو صحابہ و تابعین و مفسرین و معتمدین نے لئے ۔ ان سب کے خلاف وہ معنیٰ لینا جن کا پتہ نصرانی سائنس میں ملے مسلمان کو کیسے حلال ہوسکتا ہے ۔ ‘‘ ۶؎ کتاب کے اختتام میں پروفیسر مولوی حاکم علی بی ۔ اے نقشبندی سے مخاطب ہو کر بڑی دل پذیر تعلیم تلقین فرمائی ہے جو ایمان افروز بھی ہے اور عہد جدید کے لا دینی نظریات کی یلغار میں رہنما بھی ملاحظہ فرمائیں :
’’اور بفضلہ تعالیٰ آپ جیسے دین دار اور سنی مسلمان کو تو اتنا ہی سمجھ لینا کافی ہے کہ ارشاد قرآن عظیم و نبی کریم علیہ افضل الصلاۃ و التسلیم و مسئلہ اسلامی باجماع امت گرامی کے خلاف کیوں کر کوئی دلیل قائم ہوسکتی ہے ۔ ‘‘ آگے مزید فرماتے ہیں :
’’ محبِ فقیر سائنس یوں مسلمان نہ ہوگی کہ اسلامی مسائل کوآیات و نصوص میں تاویلات دوراز کار کرکے سائنس کے مطابق کرلیا جائے ۔ یوں تو معاذ اللہ اسلام نے سائنس قبول کی ، نہ کہ سائنس نے اسلام ۔ وہ مسلمان ہوگی تویوں کہ جتنے اسلامی مسائل سے اسے خلاف ہے سب میں مسئلہ اسلامی کو روشن کیا جائے ۔ دلائل سائنس کو مردود و پامال کردیا جائے ۔ جابجا سائنس ہی کے اقوال سے اسلامی مسئلہ کا اثبات ہو ۔ سائنس کاا بطال و اسکات ہو۔ یوں قابو میں آئے گی ۔ اور یہ آپ جیسے فہیم سائنس داں کو باذنہٖ تعالیٰ دشوار نہیں۔ ‘‘ ۷؎
حرکت زمین سے متعلق عقلی و سائنسی دلائل پر مبنی ایک کتاب ’’ فوزمبین در رد حرکت زمین ‘‘ کے نام سے قلم بندکی جس میں ۱۰۵ ؍ دلائل سکونِ زمین پر قائم فرمائے اور اسلامی نظریہ ظاہر فرمایا۔ کتاب کے تعارف کو اعلیٰ حضرت ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں :
’’ یہ رسالہ بنام تاریخی فوزمبین دررد حرکت زمین ( ۱۳۳۸ھ) ایک مقدمہ اور چار فصل اور ایک خاتمہ پر مشتمل ۔ مقدمہ میں مقررات ہیئات جدیدہ کا بیان جن سے اس رسالہ میں کام لیا جائے گا۔ فصل اول میں نا فریت پر بحث اور اس سے ابطال حرکت زمین پر بارہ دلیلیں۔ فصل دو م میں جاذبیت پر کلام اور اس سے بطلان حرکت زمین پر پچاس دلیلیں ۔
فصل سوم میں خود حرکت زمین کے ابطال پر اور پینتالیس دلیلیں ۔ یہ بحمدہٖ تعالیٰ بطلان حرکت زمین پر ایک سوپانچ دلیلیںہوئیں جن میں پندرہ اگلی کتابوں کی ہیںجن کی ہم نے اصلاح و تصحیح کی اور پورے نوے دلائل نہایت روشن و کامل بفضلہ تعالیٰ خاص ہمارے ایجاد ہیں ۔ فصل چہارم میں ان شبہات کا رد جو ہیئات جدیدہ اثبات حرکت زمین میں پیش کرتی ہے ۔ خاتمہ میں کتب الٰہیہ سے گردش آفتاب و سکون زمین کا ثبوت والحمدللّٰہ مالک الملک والملکوت‘‘ ۸ ؎
اعلیٰ حضرت کی یہ کتاب انگریزی میںترجمہ کی جاچکی ہے جسے ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی نے شائع کیا ہے بعنوان: A fair success refuting motion of Earth یوںہی اعلیٰ حضرت نے مشیگن یونیورسٹی امریکہ کے سائنٹسٹ پروفیسر البرٹ پورٹا کی ایک باطل پیشین گوئی کے رد و ابطال میں ایک کتاب تصنیف فرمائی بعنوان : ’’ معین مبین بہر دور شمس و سکون زمین‘‘ (۱۳۳۸ھ) یہ کتاب بھی مقبول ہوئی اس سے عقائد راسخ ہوئے۔
اس کتاب کے بہت سے ایڈیشن ہندو پاک سے شائع ہو چکے ہیں ۔ انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا ہے بعنوان: the revolving Sun and the static Earth A fair guide on فلسفہ کے قدیم نظریات جو اسلامی عقائداور اصولوںکے خلاف تھے ان کے ابطال میں بھی اعلیٰ حضرت نے کتاب تصنیف کی جس کا نام’’ الکلمۃ الملھمۃ فی الحکمۃ المحکمۃ ‘‘ (۱۳۳۸ھ) ہے ۔
اس لحاظ سے ہم اعلیٰ حضرت کی خدمات کا سن ۱۳۳۸ھ / ۱۹۱۹ء دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سال اعلیٰ حضرت نے خصوصیت سے علوم عقلیہ کے نظریات باطلہ کی تردید کی اور سائنس کی اصلاح فرمائی اور حق کو ظاہر فرما کر سائنس کے صالح مطالعے کی سمت رہنمائی کی گویا ہم ۱۹۱۹ء کو سائنس کی اصلاح کا سال کہہ سکتے ہیں ۔
گرچہ یہ ہماری کوتاہی ہے کہ ہم نے اعلیٰ حضرت کے ان علمی ورثوں سے وہ استفادہ حاصل نہیں کیا جیسا کہ کیا جانا چاہیے تھا۔ اور دنیا کو علم وحکمت کی وہ قدیم دانش دینی تھی جو مسلمان علما و حکما نے پیش کی اور سائنس کو معرفت الٰہی کا ذریعہ بنایا ۔ اعلیٰ حضرت نے سائنسی علوم کے تقریباً تمام شعبوں سے متعلق رسائل و کتب تحریر فرمائے ہیں ۔ شاہ محمد تبریزی لکھتے ہیں:
’’ آپ نے سائنس اور علم سائنس سے متعلق ہرفن پر کوئی نہ کوئی کتاب یادگار چھوڑی ہے ۔ آپ کی تحریریں لازوال ہیں ۔آپ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اسے اس کی انتہا تک پہنچایا۔ ‘‘ ۹؎
اعلیٰ حضرت مسلمانوں کے رشتوں کو سائنس و حکمت سے جوڑکر اس وقار کو بحال کرنا چاہتے تھے جو بغدادو قرطبہ کی تباہی کے بعد مسلمان کھوچکے تھے ۔ اور جس فکر کی بنیاد قرآن مقدس ، احادیث نبوی اور علماے اسلام کی تحقیقات علمیہ پر تھی ۔ ماضی کا مطالعہ گرچہ تلخی بھی رکھتا ہے لیکن گزری صدی (۲۰؍ ویں صدی) میں عالم اسلام بالخصوص بر صغیر کے مسلمانوں کو اعلیٰ حضرت جیسی قیادت میسرآئی یہ یقینا اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام و اکرام ہے ۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر جمیل قلند ر کا یہ ریمارک قابل غور ہے :
’’ تقسیم پاک و ہند سے پہلے ہندوستان میں علامہ امام احمدرضا خاں بریلوی دینی پلیٹ فارم پر غالباً وہ واحد شخصیت نمودار ہوئے ، جنہوں نے نرے اسپیشلائزیشن کی روش سے ہٹ کر علوم و فنون کے بارے میں وہی انسائیکلوپیڈیائی ، موسوعاتی ، انٹرڈسپلینری اورہولسٹک رویہ اپنایا جو مشرق کے قدیم سائنس دانوں ، فلسفیوں، علما ، فقہا ، اور مؤرخین کا وطیرہ اور معمول رہا ہے ۔‘‘ ۱۰؎
جدید سائنس نے عقلیت کو اس قدر بڑھا وا دے دیا کہ فکری وسعتیں سمٹ کر مادیت کو محیط ہو کر رہ گئی ہیں ۔یہاں مادی زندگی تو پیش نظرہے لیکن روحانی زندگی کا کوئی تصور نہیں نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کو خوشیوں سے بھرنے کے لیے ناجائز اور باطل ذرائع کا سہارا لیا جارہا ہے ۔ دنیا میں ظلم اور جبرو استبداد کے لیے انسانی جانوں کا ضیاع کوئی معیوب فعل نہ رہا ۔
استبداد کا جواز فراہم کرنے والی دنیا کی ان باطل قوتوں کا دائرۂ فکر سائنس کے ذریعے سے نمودار ہونے والے نظریات مادیت (Materialism) واقعیت(Realism) تجریبیت (Empiricism) الحادی وجودیت (Existentialism) وغیرہ کے گرد گردش کرتا ہے ماڈرنائزیشن کی اصطلاح بھی دور جدید کی اختراع ہے ۔ اعلیٰ حضرت نے اپنی تحقیقات میں ان افراد کی بھی سرزنش کی جو مغرب کے باطل نظریات کو اسلامی سوسائٹی میں داخل کررہے تھے یا ان کی تائید میں اپنے قلم کو جنبش دے رہے تھے۔ نیچری فتنہ اس کی واضح مثال ہے ۔
دور جدید میں جبکہ فاصلوں کی وسعتیں سمٹ چکی ہیں ۔ سائنس کی ترقی نے معیشت و سیاست ، حکومت و امارت سب پراپنے اثرات مرتب کئے ہیں ۔ اور سائنس کے فوائد و نقصانات دونوں ہی ظاہر ہوچکے ہیں ۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو بیدار ہولینا چاہیے ۔ مغرب کا دریوزہ گربننے کے بجائے اس حکمت سے تعلقات کی بحالی کرنی چاہیے جس کا مبدا قرآن مقدس ہے اس سے ایمان کو بھی تازگی ملے گی۔
اعلیٰ حضرت یہی چاہتے تھے کہ مسلمان پہلے مسلمان بنیں اور اپنے ایمان و عقیدے کو پختہ کرلیں ، قرآن مقدس کی روشنی میں علوم وفنون کو پر کھیں ، عقائد حقہ و اسلامی علوم سے مرصع ہونے کے بعد دیگر علوم ( مثلاً سائنس و حکمت ، معاشیات و اقتصادیات ) کا درس لیں اس طرح ان علوم کے شرسے محفوظ رہ کر خیر کا فروغ کرسکیں گے ۔ بایں سبب مطلق عقلی علوم کی تعلیم کو ناجائز بتانے والوں کی مذمت میں رقم طراز ہیں :
’’ مطلقاً علوم عقلیہ کی تعلیم و تعلّم کو ناجائز بتانا یہاں تک کہ بعض مسائل صحیحہ مفیدہ عقلیہ پر اشتمال کے باعث توضیح و تلویح جیسے کتب جلیلہ عظیمہ دینیہ کے پڑھانے سے منع کرنا سخت جہالت شدیدہ و سفاہت بعیدہ ہے ۔ ‘‘ ۱۱؎
سائنس کی اہمیت و افادیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ضروری ہو گیا ہے کہ مسلمان خود کو دینی علوم سے سنوار کر سائنس وٹکنالوجی کے شعبوں میں آگے بڑھیں ۔ قوم کی تعمیرو ترقی اور عقائد حقہ کی ترویج و اشاعت کا پہلو پیش نظر رہے اس خصوص میں اعلیٰ حضرت کی کتابوں اور تحریروں کامطالعہ فکری ٹھوکر سے محفوظ رکھے گا۔ ؎
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
مصادر (۱) امام احمد رضا کی عالمی اہمیت ، از ڈاکٹر محمد ہارون ، مترجم ڈاکٹر ظفراقبال نوری ، مطبوعہ نوری مشن مالیگائوں ، ص ۴
(۲) علم دین و دنیا ، از مولانا عبدالمبین نعمانی مصباحی ، بحوالہ فتاویٰ رضویہ جلد ۹، مطبوعہ رضا اکیڈمی مالیگائوں ، ص۷
(۳) القرآن الکریم ، النور : ۱، کنزالایمان از امام احمد رضا ، مطبوعہ رضااکیڈمی ممبئی
(۴) القرآن الکریم ، الرحمن : ۳۳، کنزالایمان از امام احمد رضا ، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی
(۵) نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان ، از امام احمد رضا ، مطبوعہ ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی ، ص ۱۵
(۶) ایضاً ، ص۲۰
(۷) ایضاً ، ص۵۵۔۵۶
(۸) فوزمبین در رد حرکت زمین ، از امام احمد رضا ، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی ، ص۳۰
(۹) روزنامہ جنگ لندن، ۵؍ اگست ۱۹۹۹ء
(۱۰) امام احمد رضا ایک موسوعاتی سائنس داں ، از پر وفیسر جمیل قلندر ، معارف رضا سالنامہ ۲۰۰۳ء کراچی ، ص ۸۵
(۱۱) فتاویٰ رضویہ ( جدید)از امام احمد رضا ، جلد ۲۳ ، مطبوعہ مرکز اہلسنت برکات رضاپور بندر گجرات ، ص ۶۳۴
منقبت در شان امام احمد رضا علیہ الرحمۃ
از:مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی
تمہاری شان میں جو کچھ کہوں اُس سے سوا تم ہو
قسیم جام عرفاں اے شہ احمد رضا تم ہو
غریق بحر اُلفت مست جام بادۂ وحدت
محبّ خاص منظور حبیب کبریا تم ہو
جو مرکز ہے شریعت کا مدار اہل طریقت کا
جو محور ہے حقیقت کا وہ قطب الاولیا تم ہو
یہاں آکر ملیں نہریں شریعت اور طریقت کی
ہے سینہ مجمع البحرین ایسے رہنما تم ہو
حرم والوں نے مانا تم کو اپنا قبلہ و کعبہ
جو قبلہ اہل قبلہ کا ہے وہ قبلہ نما تم ہو
مزین جس سے ہے تاج فضیلت تاج والوں کی
وہ لعل پُر ضیا تم ہو وہ درّ بے بہا تم ہو
عرب میں جاکے اِن آنکھوں نے دیکھا جس کی صولت کو
عجم کے واسطے لاریب وہ قبلہ نما تم ہو
تمہیں پھیلا رہے ہو علم حق اکناف عالم میں
امام اہل سنت نائب غوث الوریٰ تم ہو
علیمؔ خستہ اک ادنیٰ گدا ہے آستانہ کا
کرم فرمانے والے حال پر اُس کے شہا تم ہو
مرسلہ:نوری مشن،مالے گائوں
Address: Noori Mission, Madina Kitab Ghar, Old Agra Road,Malegaon-423203 India Mobile;9325028586 E-mail: noori_mission@yahoo.o.com