اعلی حضرت کی تصنیفی خدمات
از: قطب الحسن نظامی
متعلم: جامعةالمدینہ فیضان عطار نیپال گنج (نیپال)
ہر زمانے میں علماے اسلام نے اپنے اپنے انداز میں دین متین کی خدمات سرانجام دی ہیں۔ کسی نے اپنا راہ عمل جہاد کو بنایا تو اپنے جان ومال سے دین کو سیراب کردیا ، کسی نے میدان اجتہاد کو چنا تو اپنی عرق ریزی اور دماغ سوزی سے احکام دین کو روشن آفتاب بنادیا، کسی نے تدریس کو اپنا مشغلہ بنایا تو دین و ملت کو ماہرین درسیات کی ایک عظیم جماعت دے دی
کچھ میدان تصنیف کے شہسواروں نے قلم اٹھایا تو ضخیم کتابوں کا عظیم سرمایہ ملت کے سپرد کردیا، انہیں چمکتے اور دمکتے ہوے تاروں کی جھرمٹ میں جلوہ نما وقت کا قطب تارا، جسے اللہ تعالی نے تمغہ ولایت سے نوازا ، جس کے ماتھے طرہ مجددیت سجایا ، نبوی ترکہ اور ناٸل العلم من الثریہ کا صدقہ عطاکیا ، گدڑی کالعل علوم وفنون میں باکمال بنایا ، ہاں وہی جسے دنیاۓ سنیت نے اعلی حضرت عظیم المرتبت ماحی بدعت حامی سنت الشاہ ” امام احمد رضا “ کے نام سے جانا اور پہچانا۔
آج ا سی مرد قلندر علوم و فنون کے سمندر کی دینی اور ملی خدمات بصورت تصنیفات و تالیفات کے چند گوشوں سے بغرض حصول فیوض و برکات خوشہ چینی کی سعادت حاصل ہوگی ۔ ان شاء اللہ
آپ رحمةاللہ تعالی علیہ کی ولادت ١٠ شوال ١٢٧٢ھ مطابق ١٤جون ١٨٥٦ بروز اتوار شہربریلی کے محلہ جسولی میں ہوٸی، پیداٸشی نام محمد اور تاریخی نام المختار ہے۔ جدا مجد حضرت مولانا رضا علی خاں نے آپ کانام احمدرضا رکھا۔( آپ خود اپنے نام کے ساتھ عبدالمصطفی لکھتے تھے۔)
٢٥ صفر ١٩٢٠ ٕ بروز جمعةالمبارک دو بج کر ٣٨ منٹ پر آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ادھر مؤذن نے ” حی علی الفلاح “ کی صدا بلند کی، ادھر آپ نے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی، جس وقت آپ کا وصال ہوا
اسی وقت بیت المقدس کے ایک شامی بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ نبی پاک ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے ساتھ تشریف فرماہیں اور آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے منتظر ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: حضور! کس کا انتظار ہے؟ فرمایا: احمد رضا کا۔ (مقالات سعیدی ملتقطا بحوالہ سوانح امام احمد رضا)
آپ رحمةاللہ تعالی علیہ کے تصنیفی شاہکار کی چوٹی کو رب جل وعلا نے اس قدر بلند فرمایاہے کہ اس تک رساٸی کے لیے بہت سے بلند پروازوں نے شاہین کی اڑان بھری، کہنہ مشق شہسواروں نے زین کسی، ماہرین سمندر نے آپ کے اس بحر بے کراں میں تیراکی اور غوطہ زنی بھی کی،
غرض کہ جہان علم و فن کے سیاحوں نے جب آپ کے علمی اور فنی دنیا میں رخت سفر باندھا تو آپ کے فقروں اور جملوں میں ایسے ایسے رموزو اشارات ، فواٸدو نکات اور کمالات و عجاٸبات کے لعل و جواہر پاۓ کہ محو حیراں اور انگشت بدنداں رہ گٸے بالآخر بادیہ پیماٸی اور طبع آزماٸی کے بعد عجز و انکساری میں بھلاٸی نظر آٸی تو سب نے اپنے حربے ڈال دیے اور بیک زبان پکار اٹھے
ذالک فضل اللہ یٶ تیہ من یشا۶ [پ ٦ الماٸدہ ٥٤]
اسی کمال کا اعتراف داغ دہلوی نے یوں کیا ہے :
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگۓ ہو سکے بٹھا دیۓ ہیں
(بقول بعض اہل ادب و تحقیق کے یہ مقطع خود امام کا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! جہان امام احمد رضا ج١ ص٤٢٤ ” حیات و خدمات “)
آپ رحمةاللہ علیہ کی ہر تصنیف جوہر الہامی و گوہر نایابی سے بھرپور اور فہم القاٸی و علم عطاٸی سے معمورہوتی ہے ، یہ ثمرہ ہے اس اعانت نبوی اور حمایت قادری کا جو وقت تصنیف آپ کے رفیق و عنیق ہوتے ۔ آپ نے اپنی تصنیف لطیف میں تحقیق انیق ، نظر دقیق اور فکر عمیق کا ایسا جوہر لٹایا کہ صدیوں کے اختلافات کو دلاٸل کے زیورات سے آراستہ کردیا سونے پہ سہاگا یہ کہ زیادات و افادات کے قمقمے بھی لگاۓ ۔
علاوہ ازیں اپنی بے مثل تشریحات و توضیحات اور حسن تعبیرات و تفہیمات کے ذریعے ، تقریب مرام، ازالہ ابہام اور ازہاق اوہام کو اس حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا کہ ہزاروں دلوں کو تسلی اور آنکھوں کو تجلی کی نعمت مل گئی ۔
جب آپ کے انہیں احسانات و کمالات پر ایک زیرک و داناں کی نظرپڑتی ہے تو بے ساختہ پکار اٹھتاہے
وادی رضا کی کوہ ہمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھیےوہ علاقہ رضاکاہے
اگلوں نے توبہت کچھ لکھاہےدین پر
جوکچھ ہےاس صدی میں وہ تنہارضاکاہے
وہ کون ساکمال تھاجس میں نہ تھاکمال بیٹھا ہوا قلوب پہ سکہ رضا کا ہے خیرالاذکیا حضرت علامہ محمد احمدمصباحی دام ظلہ العالی اپنے ایک مقالہ میں آپ رحمةاللہ تعالی علیہ کی تصانیف کی تقسیم کاری کچھ یوں فرماتے ہیں:
” چودہویں صدی کے مجدد امام احمدرضا قادری بریلوی علیہ الرحمة( ١٢٧٢/ ١٣٤٠ ھ) کی تصنیفات تین اہم حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہیں ۔ جس کی روشنی میں ان کی تجدیدی ، اصلاحی اور علمی خدمات کااجمالی نقشہ سامنے آجاتا ہے۔
١ اصلاح عقاٸد اور تصحیح نظریات
٢ اصلاح اعمال اور تصحیح عادات
٣ علمی افادات اور فنی تحقیقات “
حضور خیرالاذکیا دام ظلہ العالی نے ان میں سے ہرایک کو وضاحت کے ساتھ تحریر فرمایا ہےمیں یہاں صرف ایک اقتباس نقل کرتاہوں ملاحظہ ہو !
حضور خیرالاذکیا دامت برکاتھم العالیة رقم فرماتے ہیں :
” امام احمد رضا قدس سرہ کی فنی تحقیقات ابداع و ایجاد تک پہونچی ہوٸی ہیں ۔ آج کے تحقیقی مقالات پر ان کی تمام تحقیقات کو قیاس نہ کرلیناچاہیے ۔ انہوں نے پچاس سے زیادہ علوم و فنون میں نادر علمی تحقیقات کے موتی لٹاۓ ہیں ۔
علاوہ ازیں تمام کتب متداولہ ، مثلا بخاری شریف ، مسلم شریف اور دیگر کتب حدیث وتفسیر ، کتب فقہ ، کتب تاریخ و سیر پر حواشی لکھے ہیں ۔ ان کے حواشی بھی ذاتی تحقیقات اور بے مثال شرح کا درجہ رکھتے ہیں ۔ جیساکہ ان کے مطالعہ کرنے والوں کاتجرباتی بیان ہے۔ “
( تقریب، المصنفات الرضویہ)
میں امیدکرتاہوں کہ ان مختصرعبارات و اقتباسات سے ہمارے ناظرین و قارٸین کو آپ رحمةاللہ تعالی علیہ کی تصنیفی خدمات کا قدرے اندازہ ہوگیا ہوگا، اور رہا کماحقہ احاطہ تو اس دنیاۓ علم وفن کے مجھ جیسے نوزاٸدہ ، بے مایہ اور پاپیادہ سے لامحالہ بہت بعید ہے ۔
لیکن ان شاء اللہ بفضلہ تعالی کچھ چنندہ گوشوں پر روشنی ڈالنے کاشرف حاصل کروں گا۔ چوں کہ اللہ تعالی نے آپ کی فقاہت کو ایسا عروج و ارتقا اور علوکمال بخشا ہے کہ آپ کے مخالفین و معاندین کوبھی سر تسلیم خم کرنا پڑاہے، گویارب صمدنے آپ کو ” الفضل ما شھدت بہ الأعدا۶ “ کی سند عطا فرمادی، آپ کی یہ صفات و کمالات تو ہر صاحب علم و دانش پر ابین من الأمس و أظھر من الشمس ہیں
جس سے نہ کسی کو انکار اور نہ ہی تسلیم کے سوا کوٸی راہ فرار ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر مدرس اپنی تدریس میں ، ہرمقرر اپنی تقریر میں ، ہرمصنف اپنی تصنیف میں ، اور ہر محقق اپنی تحقیق میں آپ کا ثناخواں اور آپ کے محامدو محاسن کے ذکر و بیان سے تر زبان و رطب اللسان نظرآتاہے۔
چناں چہ آپ رحمةاللہ تعالی علیہ کے بیش بہا تصانیف کا تذکرة کرتے ہوے بانی دعوت اسلامی امیر اہل سنت حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالہ ” تذکرہ امام احمد رضا “ میں تحریر فرماتے ہیں :
” آپ (اعلی حضرت) نے کم و بیش مختلف عنوانات پر ایک ہزار کتابیں لکھی ہیں ۔ یوں تو آپ نے ١٢٨٦ ھ سے ١٣٤٠ ھ تک لاکھوں فتوے لکھے ، لیکن افسوس! کہ سب کونقل نہ کیاجا سکا ، جو نقل کر لیے گٸے تھے ان کانام ” العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ “ رکھاگیا ۔ “
آپ علیہ الرحمة نے رسائل و فتاوی کا ایسا حسین گلدستہ امت کو دیا جس کی بھینی بھینی خوشبووں نے جہان فکر و فن کو معطر اور مشام قلب و جاں کو منور کردیا، دنیاۓ علم و فن کے سور ماٶں کو اپنا گرویدہ بنا لیا، پھر کیا عرب! کیا عجم! دنیا کے اطراف و اکناف سے علم و فن کے متلاشی وارفتگٸی شوق میں پروانہ وار حاضر دربار ہونے لگے
آپ کی ذات بابرکت کی مقبولیت و محبوبیت اس وقت اور بام عروج کو پہنچ گئی جب آپ نے تحقیقی فضامیں شاہین کی اڑان بھری اور سر زمین علم و فن پر عقابی نگاہ ڈالی تو نقد و نظر کے ایک ہی کمند میں سیکڑوں غبار آلود موتیاں زد میں آگٸیں، آپ نے انہیں نقاحت کے سمندر میں غوطہ دیا اور وضاحت کا جامہ پہناکر ملت کے سپرد کردیا۔
لیکن اس سلسلے میں آپ کی ایک خوبی نمایاں نظر آتی ہے جو طہارت قلبی کی عکاسی کرتی ہے، جسے خلیفہ تاج الشریعہ مفتی عیسی رضوی دام ظلہ العالی نے اپنی تصنیف ” تعظیم نبی اور امام احمد رضا “ میں یوں رقم فرمایا ہے :
” علمی وفقہی ابحاث و مسائل کی تحقیق و تدقیق کے ضمن میں امام احمد رضا بریلوی نے بہت سارے ائمہ و علما کے رجحان و خیال کے خلاف اپنی تحقیق و راے پیش کی ہے مگر کسی کے لیے کوئی ایسا لفظ نہیں لکھا جو ان کی عظمت کے خلاف اور ان کے رتبہ کے نامناسب ہو… اگر کسی کی عبارت پر کچھ گرفت و مواخذہ کا کہیں موقع ملتاہے تو اپنی عرض و گذارش کو ” تطفل“ یا ” معروضہ“ کے عنوان سے تعبیر کرکے اپنی بات کہتے۔“ یہ ابتک جو کچھ ذکر ہوا ، آپ رحمة اللہ تعالی علیہ کی فقہ میں تحقیقی خدمات کی چند جھلکیاں تھیں۔ جنہیں اختصار کے طور پر میں نے ذکر کیا۔ اب کچھ علم تفسیر و علم حدیث میں آپ کی خدمات و تحقیقات کا تذکرہ کرلیتے ہیں۔
تحقیق نعمانی (صاحب ”المصنفات الرضویة“) کے مطابق فن تفسیر و اصول تفسیر میں آپ کی مصنفات کی تعداد ١٧ ، حدیث و اصول حدیث میں ٥٩، اور فقہ و اصول فقہ میں ٢٦٦ ہیں۔ (المصنفات الرضویہ )
فیض ملت حضرت علامہ محمد فیض احمد اویسی رضوی دام ظلہ العالی شرح حداٸق بخشش بنام ” الحقاٸق فی الحداٸق “ میں آپ رحمةاللہ علیہ کی فن تفسیر میں تصنیفات کی تعداد مع اسما بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : آپ (اعلی حضرت) نے اگرچہ مستقل کوٸی تفسیر نہیں لکھی لیکن آپ کی تصانیف مبارکہ سے مواد جمع کیا جاۓ تو ایک ضخیم تفسیر تیار ہوسکتی ہے فقیر نے چند تصانیف سے چند آیات کو مرتب کرکے تفسیر احمد رضا کے نام سے موسوم کیاہے ۔ اگر کسی صاحب ثروت نے اشاعت کا ذمہ اٹھایا تو اہل علم بہرہ ور ہوکر یقینا بے ساختہ کہ اٹھین گے کہ آج اگر امام فخر الدین رازی رحمةاللہ علیہ زندہ ہو تے تو رضوی قلم کو چوم لیتے۔ “
اسکے بعد ہی متصلا فن حدیث میں آپ کی تصانیف کا تذکرہ کرنے کے بعد اپنے تأثرات اور قلبی احساسات کااظہار کچھ یوں کرتے ہیں :
” کاش اس بحر ذخاٸر کی مذکورہ بالا حواشی آج مطبوعہ ہوتے ۔ تو جیسے وہ (معاندین) اعلی حضرت قدس سرہ کے فتاوی رضویہ جلداول کے مطالعہ سے متأثر ہوکر آپ کو ابوحنیفہ ثانی کہنے پر مجبور ہوگۓ ، تو آپ کے تبحر فی الحدیث کودیکھ کر ثانی امام بخاری کہنا پڑتا۔ “
اب تک جوکچھ گزرا وہ سب ان فنون کے متعلق تھا جو مروج و مستعمل اور متداول بین الخاص و العام ہیں ۔ رہے وہ علوم و فنون جو بے التفاتی و بے توجہی کے سبب قریب المفقود اور نیست و نابود کے دہانے پر پہنچ چکے تھے ۔ آپ نے انہیں اپنی تحقیق و تصنیف سے سیراب اور سر سبزو شاداب کیا ۔ آپ کی انہیں تحقیقات کی نسبت ، حضور خیرالأذکیا دام ظلہ العالی فرماتے ہیں:
” امام احمد رضا قدس سرہ کی فنی تحقیقات ابداع و ایجاد تک پہونچی ہوٸی ہیں۔ اب آٸیے آپ رحمةاللہ علیہ کی انہیں ایجادات و تحقیقات کی چند جھلکیاں بلا قطع و برید اور بلا حذف و اثبات بعینہ آپ ہی کے الفاظ و عبارات میں سماعت کرتے ہیں ۔ علم توقیت سے تعلق رکھنے والے ایک سوال کے جواب کی تمہیدی عبارت کچھ یوں تحریر فرماتے ہیں :
” اب ہم بتوفیق اللہ صبح کاذب کے شروع سے صبح صادق کے انتشار تک جو صورتیں اس سپیدی کی پیش آتی ہیں ان کا واضح بیان کرتے ہیں ، جو آج تک کسی کتاب میں نہ لکھاگیا ، جو ہمارابرسوں کا مشاہدہ ہے ۔ اور جسے بغور سمجھ لینے والا ان شاء اللہ بہت جلد صبح کاذب وصادق میں امتیاز کا ملکہ پیداکرسکتا ہے۔ “ (فتاوی رضویہ ج ١٠ رمضان کے احکام)
اس مسٸلہ میں آپ نے بہت سے علماۓ کبار کے خلاف اپنا ذاتی اور تجرباتی موقف پیش کیاہے ۔ چنانچہ ایک مقام پر لکھتے ہیں : ” بعض کتب ہیٸت اور ان کے اتباع سے بعض کتب فقہ مثل ردالمحتار میں لکھ دیا … مگر ہزاروں بار کا مشاہدہ ہے کہ یہ محض غلط ہے ۔ “ (فتاوی رضویہ) ایک دوسرے مقام پر یوں لکھتے ہیں : ” صبح صادق کے سالہاسال سے فقیر کا ذاتی تجربہ ہے … اورصبح کاذب کہ جس سے کوٸی حکم شرعی متعلق نہ تھا ، اب تک اہتمام کا موقع نہ ملا ۔ “ (فتاوی رضویہ )
اس اقتباس سے ضمنا چند باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔ کچھ کا ذکر کرتاہوں باقی اہل علم پر چھوڑتاہوں ۔ ١ دین و ملت کےلیے آپ نے سالہاسال اپنی میٹھی نیند قربان کی ہے ۔ ٢ صبح کاذب سے کسی شرعی مسٸلے کاتعلق نہیں ۔ ورنہ اس کےلیے بھی قربانی دینے کو تیار تھے ۔ ٣ جس چیز کا تعلق شریعت سے نہ ہوتا ۔ اس کے بحث و مباحثہ میں آپ نہیں پڑتے تھے ۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جاۓ تو آج کے مرتب کردہ نماز کے نظام الاوقات بھی آپ ہی کی کاوشوں کا نتیجہ اور صدقہ ہے ۔ جیساکہ آپ کی اس عبارت سے اشارہ ملتاہے ۔ لکھتے ہیں :
” جن کی جدول فقیر نے اپنی تحریرات ہندسہ میں دی ہے اس کے ملاحظہ سے پھر انہیں قوانین (علم ہیٸت و توقیت) نے راہ پاٸی ۔ اور ہر روز کےلیے وقت عشا پیش از وقوع ہمیں بتانا آسان ہوا ۔ (فتاوی رضویہ)
اللہ تعالی آپ کو سلامت رکھے گلشن رضا کی سیر میں آپ میرے ہم سفر بنے، باغ رضا کی ہر کلی اور غنچہ سے پھوٹتی خوشبووں نے شوق کو دوبالا کردیا اسی شوق میں چاشنی لانے کے لیے حدیث پاک کے اس نسخے ( ”زُرغِبًّا تزدَد حُبًّا“ وقفہ کے ساتھ ملاقات کرو کہ یہ محبت کو بڑھاتا ہے۔) پر عمل کرتے ہوۓ اب رخصت کی اجازت چاہتا ہوں، لیکن اس حدیث پاک ( تم ایک دوسرے کو تحاٸف دیتے رہا کرو، کہ اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔) کی برکت بھی حاصل ہوجاۓ اس لیے موقع کی مناسبت سے آپ کی خدمت میں ایک تحفہ وداعیہ پیش کرتا چلوں۔
مولانا جمال الدین احمد خاں بارگاہ رضوی میں گلہاے عقیدت یوں پیش کرتے ہیں: اگر آپ کے تصنیفی، تحقیقی اور علمی کارناموں کو آپ کی اڑسٹھ (٦٨) سالہ زندگی پر تقسیم کیاجاۓ تو آپ ہر پانچ گھنٹے میں ایک مستقل و جامع کتاب دیتے ہوے نظر آٸیں گے ، آپ کٸ علوم کے ایسے عالم تھے جن میں آپ کی
مہارت ایک موجد تک پہنچی ہوٸی ہے۔ آپ کے علمی کارنامے وسعت مضامین کی بلندی ، جودت فکر اور تعداد کی کثرت کے لحاظ سے ایک پوری اکیڈمی کے صد سالہ خدمات پر بھی بھاری ہیں۔ ایک سر گرم ری سرچ انسٹی ٹیوٹ کا جو کام تھا امام احمد رضا محدث بریلوی نے تن تنہا انجام دے کر اپنی ہمہ گیر و جامع تحقیقات کا سکہ لوگوں کے دلوں پر بٹھا دیاہے۔
(جہان امام احمد رضا ج٦ ص٤٠ مضمون ” امام احمد رضا کی تصانیف میں تحقیقی عظمتیں“)
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیےاس بحر بیکراں کےلیے
✍ قطب الحسن نظامی