Wednesday, December 11, 2024
Homeحالات حاضرہاعلی حضرت ہمارے لیے بہترین مشعل راہ ہیں

اعلی حضرت ہمارے لیے بہترین مشعل راہ ہیں

اعلی حضرت ہمارے لیے بہترین مشعل راہ ہیں

اعلی حضرت آقائے نعمت تاجدار اہل سنت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی عليه الرحمة 14/ جون، 1856ء کو بریلی شریف میں پیدا ہوئے، اور 25/ صفر المظفر، 1340ھ مطابق 28/ اکتوبر، 1921ء، جمعۃ المبارکہ کے دن وفات پائی۔

تقریبا 65 سال کی مختصر سی زندگی میں انھوں نے حصول علم و فن اور تعمیل احکام قران و سنت کی جو مثال قائم فرمائی ہے، ان میں ہمارے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کے بے شمار نمونے اور بہترین نقش راہ ہیں۔

انھوں نے قرآن مقدس کو پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے سمجھانے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔اور آقائے کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالی شان مصداق بنے کہ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ أُلْبِسَ وَالِدَاهُ تَاجًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ضَوْءُهُ أَحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ، فَمَا ظَنُّكُمْ بِالَّذِي عَمِلَ بِهَذَا۔(رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد)

جس نے قرآن پڑھا اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا، تو قیامت کے دن اس کے والدین کو ایک تاج پہنایا جائے گا، جس کی چمک سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی۔ تو پھر اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو احکام قرآن پر عمل کرتا ہے۔ اللہ اکبر اس کی شان کتنی بلند ہوگی جو خود قرآن پڑھے سمجھے اور اس پر عمل کرے۔

یقینا اعلی حضرت کے والدین کریمین کو بروز قیامت تاج پہنایا جائے گا۔ اور اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی عظمت و بزرگی کے کیا کہنے جن کی زندگی کا ہر ہر لمحہ قرآن و سنت کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے میں ہی گزری۔ بے شک انھوں نے قرآن کو پڑھاہے، سمجھاہے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزاری ہے۔ یقینا آپ علیہ الرحمہ مذکورہ حدیث پاک کے سچے مصداق ہیں۔

دنیا کے سارے علوم و فنون کا مخزن قران ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے صرف عربی جاننا کافی نہیں ہے۔اور اسی لیے اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جو پچپن علوم و فنون پر عبور حاصل کیا تھا وہ قرآن مقدس کو سمجھنے کے لیے ہی حاصل کیا تھا۔ یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے قرآن کے ذریعے سے ہی وہ پچپن علوم و فنون پہ عبور حاصل کی تھی۔

اعلی حضرت جس طرح خود ماہر علم و فن تھے وہ چاہتے تھے کہ ہر مسلمان ایسے ہی ماہر علم و فن بنے۔ اسی لیے انھوں نے اپنے لوگوں کو علم و ہنر کی ترویج و اشاعت کے لیے دس نکاتی پروگرام دیا تھا، اور اس پر عمل کرنے کی ہدایت دی تھی۔

ہمیں فخر ہوتا ہے جب ہم اعلی حضرت کی حیات طیبہ کو پڑھتے ہیں۔ اور ندامت ہوتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اب تک ہم نے صرف ان کی ذات،ان کی محنت و جاں فشانی، ایثار و قربانی اور ان کے نام و نسب کو صرف اپنی دنیا چمکانے کے لیے استعمال کیا اور کر رہے ہیں۔

ہوٹل ،گیٹ، ہاسپیٹل اور اپارٹمنٹس تک میں ان کے نام کی برانڈنگ ہو رہی ہے، جب کہ اعلیٰ حضرت کی شخصیت ان چیزوں کے لیے نہیں تھی۔ یہ ان کے نام اور کارناموں کو بیچنے اور اس کے سہارے بزنس کرنا ہے اور کچھ بھی نہیں۔

آپ علیہ الرحمہ نے جو راہ عمل اور نقش راہ ہم کو دیا تھا اس پر ہماری توجہ نہ رہی۔ اگر ہم اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے ہدایات پر عمل پیرا ہوئے ہوتے، تو بر صغیر ہندو پاک میں کم از کم سیکڑوں یونیورسٹی ہماری ایسی ضرور ہوتی جہاں وہ سارے علوم و فنون پڑھائے جاتے۔

جن پر اعلی حضرت کو عبور حاصل تھا۔ اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے اسکالرز ہوتے جو ان علوم و فنون کے ساتھ قران مقدس کی تفسیر و تشریح کر کے دنیا کے سامنے عظمت قران کو پیش کر رہے ہوتے۔

پوری دنیا میں عرس پر تو ہر سال کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن ان کی تعلیمی مشن پر؟۔۔۔ان کے دس نکاتی پروگرام پر؟۔۔۔۔ ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانوں کی آنکھوں سے سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری

محمد شہادت حسین فیضی

9431538584

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن