اصلاح معاشرہ میں امام احمد رضا کا کردار
محمّد شمیم احمد نوری مصباحی
خادم: دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر (راجستھان)
بلاشبہ اعلیٰ حضرت، امام اہل سنت، مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمة اللّٰہ تعالیٰ علیہ ایک انتہائی نابغۂ روزگار عالم دین اور عبقری شخصیت تھے، آپ کی پوری زندگی اسلام کے علمی اور روحانی اقدار کو زندہ کرنے اور لوگوں تک اسلام کا آفاقی پیغام پہنچانے اوراحقاق حق و ابطال باطل میں گزری ۔
آپ کی دینی، علمی، فقہی، تحقیقی،تحریری وتصنیفی نیز اصلاحی خدمات کا اعتراف اپنےاور بیگانے سب نے کیا ہے ، اور آپ کی تحریروں، تصنیفات اور رشحات کو عالم اسلام تک پہنچانے میں مختلف جامعات کے اسکالرز اور بہت سی دینی تنظیموں اور ہمارے علمائے کرام نے بھرپور حصہ لیا-
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری محدث بریلوی علیہ الرحمہ چودہویں صدی کے مجدد اور امام تھے، ۱۰ شوال المکرم ۱۲۷۲ ہجری /۱۴ جون ۱۸۵۷ عیسوی کو بریلی شریف میں آپ کی ولادت ہوئی اور ۲۵ صفر ۱۳۴۰ ہجری/ ۱۹۲۱ عیسوی کو اس دنیائے فانی سے داربقاء کی طرف رحلت فرما گئے
اس ۶۸ سالہ مختصرعمر میں آپ نے احیا و تجدید دین کے حوالے سے جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں- آپ کی عظیم الشان خدادادتصنیفی خدمات کو دیکھ کرآج بھی بڑے بڑے اصحاب علم و فضل انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔
آپ نے جہاں بہت سارے علوم و فنون پر تحقیق و تدقیق کا باضابطہ حق ادا کیا وہیں معاشرہ کی اصلاح اور قوم و ملت کے درمیان مروجہ خرابیوں کو دور کرنے کی جو کوششیں کی ہیں وہ بھی بے مثال ہیں۔
آپ نے اپنی تحریروں کے ذریعہ امت مسلمہ کی بے راہ روی، خرافاتی رسم ورواج،ہرطرح کے بدعات سئیہ وقبیحہ،اسلام کے نام پرغیرشرعی امورپر ترجیح اور جاھل صوفیوں کے بے جا طرز تکلم پر خوب قدغن لگائی ہے۔
اب آئیے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے دور میں پائی جانے والی جن بدعات و خرافات اور خلاف سنت روایات کا مقابلہ فرمایا اور اپنے دور میں جن اصلاحی اقدامات کو عملی جامہ پہنایا ان میں سے چند اصلاحی کوششوں کوہم یہاں بالاختصار درج کر رہے ہیں
نسب پر تفاخر:
دور حاضر میں نسب پر فخر کرنے کی وبا عام ہے، ہر کوئی اپنے آپ کو نسب کے اعتبار سے بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس شرافت عرفی کو بنیاد بنا کر لوگ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو ذلیل سمجھتے ہیں-
جب کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ اس سلسلے میں یہ ارشاد فرماتے ہیں “شرع شریف میں شرافت قوم پر منحصر نہیں۔ اللہ عزوجل فرماتاہے : انّ اکرمکم عنداللّٰه اتقٰکم [ تم میں زیادہ مرتبے والا اللّٰہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ تقویٰ رکھتا ہے] ہاں! دربارۂ نکاح اس کا ضرور اعتبار رکھا جائے گا” – ( فتاویٰ رضویہ ج/۵ ص/۲۹۵)
“اگر کوئی چمار بھی مسلمان ہو تو مسلمان کے دین میں اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھنا حرام اور سخت حرام ہے- وہ ہمارا دینی بھائی ہوگا ” (ایضاً ص/۲۹۴)
کفار کے میلوں میں جانا:
ہندوؤں کے میلوں مثلا دسہرہ اور دیوالی وغیرہ میں جانے کے بابت اعلیٰ حضرت سے سوال کیا گیا کہ ہنود کے میلوں میں جانا کیسا ہے؟ کیا تجارت پیشہ لوگوں کا بھی جانا ممنوع ہے؟ تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ “ان کا میلہ دیکھنے کے لیے جانا مطلقاً ناجائز ہے
اگر ان کا مذہبی میلہ ہے جس میں وہ اپنے مذہبی نقطۂ نظر سے کفر و شرک کریں گے، کفر کی آواز سے چلائیں گے تو ظاہر ہے ایسی صورت میں جانا سخت حرام ہے،اور اگر مذہبی میلہ نہیں ہے، لہو و لعب کا ہے جب بھی نا ممکن منکرات وقبائح سے خالی ہو،اور منکرات کا تماشہ بناناجائز نہیں۔
اور اگر تجارت کے لیے جائے تو اگر میلہ ان کے کفر و شرک کا ہے تو جانا ناجائز و ممنوع کہ اب وہ جگہ ان کا معبد ہے اور معبدکفار میں جانا گناہ ہے-اور اگر لہو ولعب کاہے تو خود اس سے بچے- ہاں! ایک صورت جواز مطلق کی وہ یہ کہ عالم انہیں ہدایت اور اسلام کی دعوت کے لیے جائے۔ جب کہ اس پر قادر ہو۔ یہ جانا حسن و محمود ہے۔ اگرچہ ان کا مذہبی میلہ ہو، ایسا تشریف لے جانا خود حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بارہا ثابت ہے”(عرفان شریعت حصہ/۱ ص/۲۶،۲۷ ملخصاً)
محرم و صفر میں نکاح:
کچھ مسلمانوں میں یہ بات مشہور ہے کہ محرم اور صفر کے مہینے میں شادی نہیں کرنا چاہیے اس تعلق سے اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں “نکاح کسی مہینے میں منع نہیں ہے، یہ غلط مشہور ہے” (الملفوظ حصہ اول ص/۳۶)
طاقوں ودرختوں پر شہید مرد:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں درخت پر شہید مرد رہتے ہیں اور اس درخت اور طاق کے پاس جا کر ہر جمعرات کو چاول، شیرینی وغیرہ فاتحہ دلاتے ہیں، ہار لگاتے ہیں، لوبان سلگاتے ہیں اور مرادیں مانگتے ہیں اس بابت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی نے ارشاد فرمایا کہ: “یہ سب واہیات خرافات اور جاہلانہ حماقت اور بطالت ہیں،ان کاازالہ لازم”(احکام شریعت حصہ اول،ص/۱۳)
فرضی قبروں کا حکم:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی نے فرضی اور مصنوعی قبر کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا: “قبر بلا مقبور کی زیارت کی طرف بلانا اور اس کے لیے وہ افعال [چادریں چڑھانا وغیرہ] کرانا گناہ ہے”(فتاویٰ رضویہ ج/۴ ص/۵۱۱)
” فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا، ناجائز و بدعت ہے، اور خواب کی بات خلاف شرع امور میں مسموع نہیں ہوسکتی”(حوالۂ سابقہ)اور ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں کہ “جس قبر کا یہ بھی حال معلوم نہ ہو کہ یہ مسلمان کی ہے یا کافر کی
-اس کی زیارت کرنی، فاتحہ دینی ہرگز جائز نہیں کہ قبر مسلمان کی زیارت سنت ہے اور فاتحہ مستحب، اورقبر کافر کی زیارت حرام ہے اور اسے ایصال ثواب کاقصد کفر… توجوامرسنت وحرام یا مستحب وکفر میں متردد ہو وہ ضرور حرام و ممنوع ہے” (فتاویٰ رضویہ جلد /۴ ص/ ۱۴۱)
مزار کی چادریں:
عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ایک ہی مزار پر روزانہ بیسیوں چادریں چڑھا دیتے ہیں ،اعلیٰ حضرت نے نہ صرف یہ کہ ایسے لوگوں کو درست طریقہ بتایا بلکہ ان چادروں کا صحیح مصرف بھی یوں ارشاد فرمایا:
“جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے، بلکہ جو دام اس میں صرف کریں، اللہ تعالی کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کودیں” (احکام شریعت حصہ اول ص/۶۲)
عورتوں کامزارات اولیاء پر جانا:
عورتوں کے مزارات اولیاء اور عام قبروں پر جانے کے بارے میں سوالات کے جواب میں ارقام فرمایا:”عورتوں کے مزارات اولیاء،مقابر عوام دونوں پر جانے کی ممانعت ہے”(احکام شریعت دوم ص/۱۸)
…اصح[زیادہ صحیح] یہ ہے کہ عورتوں کو قبروں پر جانے کی اجازت نہیں” (فتاویٰ رضویہ جلد/۴ص/۱۶۵)شادی کی رسمیں: آج کل شادیوں میں طرح طرح کی غلط رسم و رواج عام ہو گئی ہیں
وہ مسلمان جو مغربی تہذیب و تمدن کا دیوانہ ہو گیا ہے ان رسموں کو بجا لانا اپنے لیے فخر سمجھتا ہے جب کہ اعلیٰ حضرت اس بابت فرماتے ہیں کہ” آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب براءت میں رائج ہیں بے شک حرام اور پورا حرام ہے۔ اسی طرح یہ گانے باجے کہ ان بلاد میں معمول ورائج ہیں بلاشبہ ممنوع و ناجائز ہیں۔
جس شادی میں اس طرح کی حرکتیں ہوں مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس میں ہرگز شریک نہ ہوں- اگر نادانستہ شریک ہوگئے تو جس وقت اس قسم کی باتیں شروع ہوں یا ان لوگوں کا ارادہ معلوم ہو تو سب مسلمان مرد اور عورتوں پر لازم ہے فوراً اسی وقت [محفل سے] اٹھ جائیں ” (فتاویٰ رضویہ/ھادی الناس ص/۳)
تاش وشطرنج کھیلنا:
“یہ سب کھیل ممنوع اور ناجائز ہیں اور ان میں چوسر اور گنجفہ بدتر ہیں۔ گنجفہ میں تصاویر ہیں اور انہیں عظمت کے ساتھ رکھتے ہیں اور وقعت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یہ اس امر کے سبب سخت گناہ کا موجب ہے” (فتاوی رضویہ ج/۱۰ ص/۴۴)سیاہ خضاب: اعلیٰ حضرت سے سوال کیا گیا کہ سیاہ خضاب لگانا جائز ہے یا نہیں؟ ۔
تو آپ نے ارشاد فرمایا: “سرخ یا زرد خضاب اچھا ہے اور زرد بہتر، اور سیاہ خضاب کوحدیث میں فرمایا:”کافر کا خضاب ہے”… دوسری حدیث میں ہے اللّٰہ تعالیٰ روزقیامت اس کامنہ کالا کرے گا-یہ حرام ہے-جواز کافتویٰ باطل ومردود ہے”(احکام شریعت اول ص/۷۲)
کھڑے ہوکر پیشاب کرنا:
آج کل مغربی تہذیب سے متاثر موڈرن مزاج کے نوجوان لیڈر کہلانے والے نام نہاد مسلمان اونٹ کی طرح کھڑے ہو کر پیشاب کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جب کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے بارے میں اعلیٰ حضرت سے جب استفسار کیاگیا توآپ نے فرمایا: “کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مکروہ ہے اور طریقۂ نصاریٰ ہے۔
رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں: بے ادبی و بد تہذیبی یہ ہے کہ آدمی کھڑے ہو کر پیشاب کرے” (فتاویٰ افریقہ ص/۹)
مردوں کاجٹادھاری چوٹی رکھنا:
آج کل کچھ لوگ جو اپنے آپ کو صوفی اور فقیری لائن کا کہتے ہیں ان لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ لمبی لمبی چوٹی رکھ لیتے ہیں جب کہ اعلیٰ حضرت ایسے لوگوں کی اصلاح کی غرض سے فرماتے ہیں کہ “مرد کو چوٹی رکھنا حرام ہے اگرچہ بعض فقیر رکھتے ہیں ۔
کیوں کہ حدیث میں آیا ہے: اللّٰہ کی لعنت ہے ایسے مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت رکھتے ہیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت پیدا کریں” (الملفوظ حصہ دوم)
تندرست کابھیک مانگنا:
دور حاضر میں میں بہت سے ایسے نام نہاد فقیر اور جوگی ہیں جو تندرست اور اعضاء وغیرہ صحیح سالم ہونے کے باوجود بھیک مانگتے نظر آتے ہیں جب کہ اگر وہ چاہیں تو محنت اور مزدوری کے ذریعہ اپنی ضروریات کی تکمیل کر سکتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے تعلق سے اعلیٰ حضرت ارشاد فرماتے ہیں “قوی تندرست، قابل کسب جو بھیک مانگتے پھرتے ہیں ان کو دینا گناہ ہے اور ان کا بھیک مانگنا حرام،اور ان کو دینے میں حرام پر مدد- اگر لوگ نہ دیں تو جھک ماریں اور کوئی حلال پیشہ اختیار کریں”( الکشف شافیہ ص/۸۹)
اور تحریر فرماتے ہیں “بے ضرورت شرعی سوال کرنا حرام ہے اور جن لوگوں نے باوجود قدرت کسب بلاضرورت سوال اپنا پیشہ بنا لیا ہے وہ جو کچھ اس سے جمع کرتے ہیں سب ناپاک و خبیث ہے، اور ان کا یہ حال جان کر ان کے سوال پر کچھ دینا داخل ثواب نہیں بلکہ ناجائز و گناہ، اور گناہ میں مدد کرنا ہے۔
جب انہیں دینا ناجائز تو دلانے والا بھی داعی علی الخیر نہیں بلکہ داعی علی الشر ہے” (فتاویٰ رضویہ ج/۴ ص/۴۹۸)
ضروریات دین کے منکر کا حکم:
فی الواقع جو بدعتی [بدمذہب] ضروریات دین میں سے کسی شئے کا منکر ہو باجماع مسلمین قطعاً کافر ہے، اگرچہ کروڑ بار کلمہ پڑھے، پیشانی اس کی سجدے میں ایک ورق ہو جائے- بدن اس کا روزوں میں ایک خاکہ رہ جائے، عمر میں ہزار حج کرے، لاکھ پہاڑ سونے کے راہ خدا میں دے… لاواللّٰه، ہرگز ہرگز کچھ قبول نہیں، جب تک حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ان تمام ضروری باتوں میں جو وہ اپنے رب کے پاس سے لائے تصدیق نہ کرے”(اعلام الاعلام بانّ ہندوستان دارالاسلام مطبوعہ:بریلی ۱۳۴۵،ص/۱۵)
حاصل کلام یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت،مجدداعظم الشاہ امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی قدس سرہٗ نے فرد اور معاشرے میں پائی جانے والی ہر طرح کی برائیوں، خرابیوں، بدعتوں، فضول وبے جااور بے ہودہ رسموں اور خلاف شرع رواجوں کی اصلاح میں خوب خوب تگ ودو فرمائی جیسا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے مندرجہ بالا چند فرمودات، تحریرات وارشادات وفتاویٰ سے یہ بات بالکل آشکارا ہے۔
بارگاہ مولیٰ تعالی میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بھی اعلیٰ حضرت امام اہل سنّت کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے اصلاح معاشرہ کی توفیق مرحمت فرمائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین [صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم]