اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اور جمع بین الاحادیث کا انداز لطیف (قسط اول)
از ✍: مولانا سلیم رضا مدنی تخصص فی الحدیث (سال دوم ہند)
علم و آگہی کے سمندر میں ہر شخص ہی غوطہ زن رہنے کا خواہاں ہے مگر کوئی اس کی بالائی سطحوں تک ہی منحصر ہو کر رہ جا تاہے اور کوئی اس سمندر کی چند مچھلیوں کا شکار کر کے محظوظ ہو جاتا ہے
لیکن اس کی گہرائی سے ہیرے جواہرات حاصل کرنا اسی کا نصیبہ ہے جسے تائید الٰہی حاصل ہو تو پھر وہ جوہری کبھی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے تو کبھی امام احمد رضا خان الملقب بہ اعلی حضرت سے متعارف ہوتا ہے،ثانی الذکر امام احمد رضا خان نور اللہ مرقدہ اپنی فقیہانہ شان، محققانہ جدوجہد ، کی وجہ سے امام اعظم ثانی کہلاے
لیکن اپنی محدثانہ مساعی جمیلہ سے چہار دانگ عالم میں “امیر المؤمنین فی الحدیث” جیسے لقب عظیم سے متعارف ہوئے، سیدی و سندی امام اہل سنت امام احمد رضا خان نوراللہ مرقدہ دیگر علوم وفنون میں کامل دسترس کے ساتھ ساتھ حدیث فہمی اور “جمع بین الاحادیث”میں بھی ید طولٰی کے مالک تھے، آپ کی مختلف روایات میں تطبیقات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
آپ کی حدیث فہمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے بیماری کے متعدی ہوتی ہے یا نہیں اس موضوع پر ایک مستقل کتاب تصنیف فرمائی جس کا نام” الحق المجتلی فی حکم المبتلی” رکھا اور اس میں احادیث کے درمیان توفیق و تطبیق پر ایسی تحقیقی گفتگو فرمائی جسے پڑھ کر ہر ذی شعور آپ کو “امیر المؤمنین فی الحدیث” ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے
اسی طرح آپ نے اپنے رسالہ “الامن و العلی” میں بھی متعدد مقامات پر احادیث کے درمیان تطبیق فرماتے ہوئے علم کے موتی بکھیرے، آپ کے فتاوی جات میں بھی اس کی کثیر مثالیں جگمگا رہی ہیں، تاہم چند مقامات ہم یہاں ذکر کرتے ہیں جس سے امام اہل سنت کی حدیث فہمی اور ملکۂ جمع بین الاحادیث کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کافر سے ہدیہ قبول کرنے کے باب میں وارد احادیث میں تطبیق اعلیٰ حضرت امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان نوراللہ مرقدہ سے سوال ہوا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارو ہنود کی جانب سے جو تحفے تحائف مسلمانوں کو دیے جاتے ہیں ان کا قبول کرنا درست ہے یا نہیں ؟
آپ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں سے ہدیے قبول بھی فرماے اور رد بھی۔ اس کے بعد محدث بریلوی نے وہ حدیثیں ذکر فرمائیں جو جواز پر دلالت کرتی ہیں، بعدہ ان احادیث کو نقل فرمایا جو عدم جواز پر دال ہیں،فتاوی رضویہ میں ان تمام احادیث کی تخریج بھی موجود ہے اس لیے اختصاراً ہم صرف آخر میں فتاوی رضویہ کا حوالہ درج کریں گے۔
حدیث اول :
کسرٰی بادشاہ ِايران نے ایک خچر بارگاہ رسالت میں پیش کیا قبول فرمایا :
عن ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنهما قال ان کسرٰی اھدی للنبی صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم بغلة فرکبھا بحبل من شعر ثم اردفنی خلفه،قال الحافظ الدمیاطی فی ذٰلك نظر لان کسرٰی مزق کتابه صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فبعید ان یھدی له
حاکم نے مستدرک میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی ہے انھوں نے فرمایا کسرٰی شاہ ایران نے نبی رحمت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک خچر بطور تحفہ بھیجا اور آپ نے اس پر سواری فرمائی جب کہ اس کی لگان بالوں کی رسی تھی اور آپ نے مجھے اپنے پیچھے بٹھایا. حافظ دمیاطی نے فرمایا اس میں اشکال ہے اس لیے کسرٰی نے آپ کا نامہ مبارک چاک کردیا تھا، اور یہ بات ناقابل فہم اور بعید ہے کہ اس نے آپ کے لیے تحفہ بھیجا ہواس کے بعد اعلي حضرت عليه الرحمه محدث دمیاطی کے اعترض کے متعلق فرماتے ہیں :
اقول : یرد نظرہ حدیث الآتی و اما استبعادہ فقد اجاب عنه العلماء بجوابین ذکرھما الزرقانی فی شرحه علی المواھب فی ذکر بغاله صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم. میں کہتا ہوں محدث دمیاطی کے اعتراض کو اگلی حدیث مسترد کر رہی ہے۔ رہا ان کا بعید کہنا تو اہل علم حضرات نے اس کے دو جواب دیئے ہیں جن کو علامہ زرقانی نے “مواھب اللدنیه” کی شرح میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وآلہ وسلم کے خچروں کے شمار کے سلسلے میں ذکر کیا ہے۔
حدیث دوم :
یوں ہی بادشاہ فدک نے سامان سے لدی ہوئیں چار اونٹنیاں بارگاہ رسالت مآب میں نذر کی،قبول فرمائیں، اور بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بخش دی۔رواہ ابو اداؤد عن بلال المؤذن رضی ﷲ تعالٰی عنه و فیه انه صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم قال لبلال فاقبضھن واقض دینكاس کو امام ابوداؤد نے حضرت بلال مؤذن کی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اس میں مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا : ان پر قبضہ کرکے اپنا قرض ادا کرو۔
حدیث سوم:
قیصر روم وغیرہ سلاطین کفار کے ہدایا قبول فرمائے۔احمد والترمذی عن امیر المومنین علی کرم ﷲ تعالٰی وجهه، قال اھدی کسرٰی لرسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم فقبل منه واھدی قیصر فقبل منه واھدت له الملوک فقبل منها.امام احمد اور ترمذی نے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کسرٰی بادشاہ ایران نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو تحفہ بھیجا تو آپ نے اس کا تحفہ قبول فرمایا۔ اسی طرح قیصر روم (روم کے بادشاہ) نے تحفہ بھیجا وہ بھی آپ نے قبول فرمایا۔ اسی طرح دیگر بادشاہوں نے بھی ہدئے بھیجے تو آپ نے وہ بھی قبول فرمائے۔
حدیث چھارم :
قتیلہ بنت عبدالعزٰی بن سعد اپنی بیٹی کے ساتھ حضرت سیدتنا اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئیں اور کچھ گوشت کے زندہ جانور ، پنیر، گھی ہدیہ لائی، بنت صدیق نے نہ لیا، نہ ماں کو گھر میں آنے دیا کہ تو کافرہ ہے۔ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا ، آیت اتری: لاینھٰکم ﷲ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کے ساتھ نیک سلوک سے تمھیں منع نہیں فرماتا جو تم سے دین میں نہ لڑیں ۔
پھر اس کے معارض احادیث جن میں ھدیہ رد کرنے کا ذکر ہے وہ نقل فرمائی۔
ھدیہ رد کرنے کی احادیث
حدیث اول :
اور عیاض رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پیش از اسلام کوئی ہدیہ یا ناقہ نذر کیا، فرمایا: تو مسلمان ہے؟ عرض کی نہ۔ فرمایا :اني نھیت عن زبدالمشرکین۔ رواہ عن احمد وابوداؤد والترمذی وقال حسن صحیح۔میں کافروں کی دی ہوئی چیزیں لینے سے منع کیا گیا ہوں (امام احمد ، ابوداؤد اور ترمذی نے اس کو روایت کیا ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا یہ حسن صحیح ہے۔
حدیث دوم:
یونہی ملاعب الاسنہ نے کچھ ہدیہ نذر کیا۔ فرمایا: اسلام لا۔ انکار کیا۔ فرمایا:اني لا اقبل ہدیة مشرک.رواہ الطبرانی فی الکبیرعن کعب بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند صحیح۔میں کسی مشرک کا ہدیہ قبول نہیں فرماتا۔ (امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے بسند صحیح اسے روایت کیا ہے۔
حدیث سوم :
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: انا لا نقبل شیئا من المشرکینرواہ احمد والحاکم عن حکیم بن حزام رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند صحیحہم مشرکوں سے کوئی چیز قبول نہیں فرماتے (اس کو امام احمد اور حاکم نے سند صحیح کے ساتھ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے
اس طرح کی اور بھی حدیثیں رد و قبول میں وارد ہوئی ہیں: اس کے بعد امام اہل سنت بعض وہ علماء جنہوں نے ھدیہ رد کرنے والی احادیث کو ناسخ قرار دیا اور جن میں ھدیہ قبول کیا ہے ان کو منسوخ کہا ان کا قول نقل کرکے امام اہل سنت فرماتے ہیں چوں کہ تاریخ سے نسخ کا علم ہوگا اور ییہاں تاریخ ہی معلوم نہیں لھذا یہ قول غلط ہے۔
اقول : قد قبل عن کسرٰی و لم یکن کتابیا الا ان یتمسك فی المجوس سنوا بھم سنة اھل الکتاب غیر ناکحی نسألھم ولا اٰکل ذبائحھم ان میں کچھ وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ ہدیہ رد کرنے سے اس کا قبول کرنا منسوخ ہوا اور یہ غلط ہے کیوں کہ تاریخ معلوم نہیں۔ اور بعض نے دونوں میں مطابقت اور موافقت پیدا کی کہ جن کا ہدیہ قبول فرمایا وہ اہل کتاب تھے مشرک نہ تھے جیسا کہ مجمع البحارمیں ہے۔ پھر دوسرے وہ علما جنہوں نے اس طرح مطابقت کی تھی کہ اہل کتاب کا ھدیہ قبول فرمایا اور مشرکوں کا نہیں لیکن امام اہل سنت فرماتے ہیں۔
اقول : میں کہتا ہوں کہ آپ نے کسرٰی شاہ ایران کا ہدیہ قبول فرمایا حالاں کہ وہ اہل کتاب میں سے نہ تھا بلکہ مجوس سے تھا۔ مگر یوں استدلال کیا جائے کہ مجوسی نے اہل کتاب کی روش اختیار کی البتہ ان کی عورتوں سے نکاح اور ان کے ذبیحہ کا کھانا جائز نہیں۔
تطبیق اعلیٰ حضرت :
امام اہل سنت فرماتے ہیں: اس بارہ میں تحقیق یہ ہے کہ یہ امر مصلحت وقت وہ حالت ہدیہ آرندہ و ہدیہ گیرندہ پر ہے۔
اگر تالیف قلب کی نیت ہے اور امید رکھتا ہےکہ اس سے ہدایا و تحاتف لینے دینے کا معاملہ رکھنے میں اسے اسلام کی طرف رغبت ہوگی تو ضرور لے۔اور اگر حالت ایسی ہے کہ نہ لینے میں اسے کوفت پہنچے گی اور اپنے مذہب باطل سے بیزار ہوگا تو ہر گز نہ لے۔ اور اگر اندیشہ ہے کہ لینے کے باعث معاذاللہ اپنے قلب میں کافر کی طرف سے کچھ میل یا اس کے ساتھ کسی امر دینی میں نرمی ومداہنت راہ پائے گی تو اس ہدیہ کو آگ جانے۔
( فتاوی رضویہ ج 21، ص 622 ، 626 طبع:رضا فاؤنڈیشن لاہور )