Monday, November 18, 2024
Homeاحکام شریعتنماز تراویح کی تاریخی اور شرعی حیثیت

نماز تراویح کی تاریخی اور شرعی حیثیت

 تحریر  محمد ہاشم اعظمی مصباحی نماز تراویح کی تاریخی اور شرعی حیثیت    پہلی قسط 

نماز تراویح کی تاریخی اور شرعی حیثیت

 پہلی قسط :_   موسم بہار ماہ رمضان المبارک اپنی تمام تر رعنائیوں اور جلوہ سامانیوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہے جس کی وجہ سے ہر منظر نور نور ہے اسلامی تقویم میں نواں مہینہ بڑا ہی تقدس مآب گردانا گیا ہے اس ماہ مقدس میں اللہ کی نعمتوں، برکتوں کا ہر آن نزول ہوتا رہتا ہے ماہِ رمضان میں ہم اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے توشۂ آخرت تیار کرتے ہیں عمل کی بزم سجاتے ہیں اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار و برکات کا ایسا سیلاب آتا ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے رحمت یزداں کی موسلادھار بارش میں لمحہ لمحہ غوطہ زن رہتا ہے۔

 اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک مہینہ ہمیں اس لیے عطا فرمایا ہے کہ گیارہ مہینے ہم دنیاوی ضروریات میں مشغول و منہمک رہتے ہیں جس کی وجہ سے دلوں میں غفلت وکدورت پیدا ہوسکتی ہے، روحانیت وعرفانیت اور قرب الٰہی میں کمی وکجی واقع ہوسکتی ہے رمضان المبارک میں ہم اللہ کی عبادت وریاضت کرکے اسے دور کرسکتے ہیں ، زنگ آلود قلوب واذہان کی غفلت و کدورت کو ختم کرسکتے ہیں، قرب ربانی اور معرفت الٰہی کا نیادور شروع کرسکتے ہیں۔

جس طرح کسی مشین کو کچھ عرصہ استعمال کرنے کے بعد اس کی سروس کرانی پڑتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی صفائیِ قلب و روح کے لیے یہ نورانی مہینہ عطا فرمایا ہے مطلعِ آسمان پر رمضان شریف کا چاند نمودار ہوتے ہی مومنین کے شوق عبادت میں توانائی کی رمق دوڑ جاتی ہے،اس روحانی مہینے میں جہاں روزہ رکھنے کے ساتھ ہم کثرت عبادات کا اہتمام کرتے ہیں وہیں نماز تراویح کا بھی خصوصی اہتمام کرتے ہیں اس لیے کہ یہ نماز رمضان ہی ساتھ خاص اور مشروع ہے سر دست ہمیں نماز تراویح کی تاریخی وشرعی حیثیت کے پس منظر اور پیش منظر پر گفتگو کرنی ہے اس لیے اب ہم اپنی گفتگو کو چند ذیلی سرخیوں کے ساتھ محدود ومربوط کرنے کوشش کر تے ہیں-والله المعین و ھو المستعان

 ذیلی سرخیاں

۔ (١)تراویح کا لغوی معنی

۔(٢) تراویح کا اصطلاحی معنی

۔(٣) تراویح کی وجہِ تسمیہ

۔(٤) نماز تراویح کا آغاز

۔(٥) ایک غلط فہمی کا ازالہ

۔۔(٦)  نماز تراویح کی رکعات

۔(٧) بیس رکعت نماز تراویح کا ثبوت

۔(٨) نماز تراویح اور ائمہ اربعہ

۔(٩) تراویح کی بیس رکعت اور اسلاف امت

۔(١٠)امام حرم عبدالرحمن السديس سے دو باتیں

۔(١١) نماز تراویح کی فضیلت

 تراویح کا لغوی معنی

 صاحب لسان العرب تحریر فرماتے ہیں :التراویح جمع ترویحۃ وھی المرۃ الواحدۃ من الراحۃ تفعیلۃ منھا مثل تسلیمۃ من السلام. ” ترجمہ: تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور ایک مرتبہ آرام کرنے کا نام ہے – مادہ راحت سے تفعیلۃ کے وزن پر جیسے مادہ سلام سے تسلیمۃ کے وزن پر. (لسان العرب ج ٥، ص ٣٦٠)۔

صاحب فتح الباری حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃاللہ علیہ رقم طراز ہیں: تراویح ”ترویحة“ کی جمع ہے، اور ترویحہ ایک دفعہ آرام کرنے کو کہتے ہیں جیسے”تسلیمة“ایک مرتبہ سلام پھیرنے کو کہتے ہیں

 تراویح کا اصطلاحی معنی

شریعت کی اصطلاح میں  تراویح وہ نماز ہے جو سنت مؤکدہ ہے اور رمضان المبارک کی راتوں میں عشا کی نماز کے بعد سے صبح صادق کے درمیان جماعت کے ساتھ یا اکیلے پڑھی جاتی ہے *تنبیہ* عام رواج اور معمول کے مطابق نماز تراویح عشا کے بعد متصل پڑھی جاتی ہے

 تراویح کی وجہِ تسمیہ

  تراویح نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ پہلی دفعہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نماز تراویح کے لیے جمع ہوئے تو سب کا اس امر پر اتفاق ہوگیا کہ ہر دو سلام یعنی چار رکعت کے بعد کچھ دیر آرام اور وقفہ فرماتے. (فتح الباری 4/250، کتاب صلاۃ التراویح)۔

 نماز تراویح کا آغاز

ہجرت کے دوسرے یا تیسرے سال تراویح کی نماز کا آغاز حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے ہی میں ہوگیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باضابطہ تین دن تراویح کی جماعت بھی قائم فرمائی تھی لیکن اس اندیشہ سے جماعت کو ترک فرما دیا کہ کہیں فرض نہ ہوجائے اس لئے تین دن سے زیادہ جماعت نہیں کرائی۔

 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین فرداً فرداً یا کبھی دو دو چار چار لوگ جماعت بھی کرلیتے تھے، یہ سلسلہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوائل زمانہ خلافت تک رہا بعد میں پھر آپ ہی نے باضابطہ جماعت عام کو مستقل طور سے قائم فرمایا_ تب سے لی کر آج تک بیس رکعات کا سلسلہ قائم ہے یہی سنت ہے اسی پر اجماع امت ہے اور اسی پر سواد اعظم اہلسنت والجماعت کے چاروں فقہی مذاہب کا فتویٰ اور عمل ہے

 دلیل نمبر 1

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی، لوگوں نے آپ کے ساتھ پڑھی پھر دوسری رات کی نماز میں شرکا زیادہ ہوگئے، تیسری رات میں اور زیادہ ہوگئے، چوتھی رات میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نماز تراویح کے لیے مسجد تشریف نہیں لے گئے صبح ہوئی تو لوگوں نے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تمھارا شوق وذوق دیکھ لیا اس ڈر سے میں مسجد میں نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کر دی جائے_(صحیح مسلم باب الترغيب فی صلاۃ التراویح)۔

 دلیل نمبر  : ۔  

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ حَمْزَۃُ بْنُ یُوْسُفَ السَّھْمِیُّ حَدَّثَنَا اَبُوْالْحَسَنِ عَلِّیُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَحْمَدَ الْقَصْرِیُّ اَلشَّیْخُ الصَّالِحُ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤمِنِ اَلْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ؛ اَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُوْنَ حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ الْحَنَّازِعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عَتِیْکٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَ بِثَلَاثَۃٍ ۔(تاریخ جرجان لحافظ حمزۃ بن یوسف السھمی ص146)۔

ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کی ایک رات تشریف لائے ۔لوگوں کو چار رکعات فرض، بیس رکعات نماز(تراویح)اور تین رکعات وتر پڑھائے۔

 دلیل نمبر 

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ اَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ عُثْمَانَ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مَقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ فِیْ رَمْضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَالْوِتْرَ(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص286؛معجم کبیرطبرانی ج5 ص433 )۔

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف میں بیس رکعات نماز(تراویح)اور وتر پڑھاتے تھے__رمضان المبارک میں تین دن تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تراویح پڑھانا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، اور بعض روایات سے بیس رکعات تراویح کی نسبت بھی خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً ثابت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک لوگوں کو تراویح پڑھائی پھر لوگوں کے شدت ذوق وشوق کو دیکھ کر اس اندیشہ سے پڑھنا ترک فرمادیا کہ کہیں فرض نہ ہوجائے کہ لوگوں کو مشقت ہوگی.

 ایک غلط فہمی کا ازالہ

 عام طور پر لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ تراویح کی نماز کا آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانۂِ خلافت میں ہوا اور آپ ہی نے نماز تراویح کو ایجاد کیا ہے اس لیے یہ سنت عمر تو ہو سکتی ہے سنت رسول ہر گز نہیں. جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے نماز تراویح کو نہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایجاد کیا ہے اور نہ آپ نے اس کا آغاز کیا ہے بلکہ یہ سنت رسول علیہ السلام ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تراویح کی نماز پڑھتے تھے آپ کی حیات مبارکہ میں صحابہ کرام بھی پڑھتے تھے بلکہ حضور علیہ السلام کا تین دن نماز تراویح کی جماعت کرنا بھی احادیث صحیحہ سے صراحتاً ثابت ہے جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں آپ نے ملاحظہ کیا ۔

آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کے دور خلافت میں داخلی اور خارجی فتنوں کی کثرت اورمدت خلافت کی قلت کی بنا پر اس سنت عظیمہ کے قیام کا موقع نہ مل سکا، لیکن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس سنت کو جو عارض کی بنا پر موقوف ہو گئی تھی اسے جاری فرما دیا تو معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز تراویح کے موجد نہیں ہیں بلکہ ایک معطل سنت کو جاری فرمانے والے ہیں۔

 حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں: وإن کانت لم تکن في عہد أبي بکر رضي اللہ عنہ فقد صلاها رسول الله صلی الله علیہ وسلم وإنما قطعہا أشفاقًا من أن تفرض علی أمتہ و کان عمر ممن تنبہ علیھا وسنہا علی الدوام فلہ أجرہا وأجر من عمل بہا إلی یوم القیامة”۔

ترجمہ: اگرچہ تراویح باجماعت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں نہیں تھی ۔ لیکن چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جو اس حقیقت سے باخبر تھے، انھوں نے دائمی طور پر جاری فرمادیا تو انھیں اس کا بھی اجر ہے اور قیامت تک جو لوگ عمل کرتے رہیں گے ان کا بھی اجر ہے.(مرقات)۔

جاری

قسط دوم پڑھنے کے لیے کلک کریں

قسط سوم پڑھیں 

قسط چہارم پڑھیں

محمد ہاشم اعظمی مصباحی

نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یو پی

رابطہ     9839171719

Amazon     Flipkart

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن