تحریر عالمہ ثنا انجم احسنی ام المؤمنین سیدہ خدیجہ سلام اللہ علیھا
ام المؤمنین سیدہ خدیجہ سلام اللہ علیھا
ولادت باسعادت عام الفیل سے 15 سال پہلے ہوئی تھی نام خدیجہ والد کا نام خویلد اور والدہ کا نام فاطمہ ہے والد کے کی طرف سے آپ کا نسب اس طرح ہے خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصہ بن کلاب بن مرہ کعب بن لوی بن غالب بن فھر ہیں۔اور والدہ کی طرف سے آپ کا نسب فاطمہ بنت زائدہ بن اصم بن ھرم بن رواحه بن حجر بن عبد بن معیص عامر ببنہ لوی بن غالب بن فهر ہیں
قریش کی ایک باکردار خاتو ن
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا قبیلہ قریش کی ایک بہت ہی با ہمت ، بلند حوصلہ اور عقل مند خاتون تھیں، اللہ تعالی نے آپ رضی اللہ تعالی عنھا کو بہت بہترین اوصاف سے نوازا تھا جن کی بدولت آپ رضی اللہ تعالی عنہا زمانہ جاہلیت کے دورشر و فساد ہی میں طاہرہ کی پاکیزہ لقب سے مشہور ہو چکی تھی-
آپ کے اعلی درجہ کے صفات اور اعزازات کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی سہیلی حضرت نفیسہ بنت منیہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا دور اندیش،سلیقہ،شعار، پریشانیوں اور مصیبتوں کے مقابلے میں بہت بلند حوصلہ و ہمت رکھنے والی معزز خاتون تھیں، ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالی نے آپ کو عزت و عظمت اور خیر وبھلائی سے خوب نوازا تھا ۔
آپ خاندان قریش میں اعلی نسب رکھنے والی بہت ہی بلند مرتبہ اور سب سے زیادہ مالدار خاتون تھیں-دور جاہلیت میں آپ کا نکاح پیارے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے سے پہلے دو مرتبہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی ہوچکی تھی، پہلے ابوہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوئی ، اس کے فوت ہوجانے کے بعد عتیق بن عابد مخزومی سے ہوئی،جب یہ بھی وفات پا گیا توکئی روسائے قریش نے آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو شادی کے لیے پیغام دیا لیکن آپ نے انکار کر دیا اور کسی کا بھی پیغام قبول نہ کیا۔
چنانچہ آپ اکیلے ہی اپنی اولاد کے ساتھ زندگی کے شب و روز گزار رہی تھیں حضرت نفیسہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: کہ قریش کے تمام افراد آپ سے نکا ح کرنے کی خواہش رکھتے تھے کہ. کاش وہ اس کی قدرت رکھتے، کہ وہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو نکاح کی درخواست کر چکے تھے۔ اور وہ اس مقصد کے لیے آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو مال بھی پیش کیا کرتے تھے-
لیکن آپ انکار پر قائم رہتی تھیں۔آپ حضرت رضی اللہ تعالی عنہا بہت مالدار خاتون تھیں، دیگر قریشیوں کی طرح آپ رضی اللہ عنہا بھی تجارت کیا کرتی تھیں،عام لوگوں کی نسبت آپ کا سامان تجارت بہت ہوتا تھا ایک روایت میں ہے کہ صرف اپ کے مال تجارت سے لدے ہوئے اونٹ عام قریشیوں کے اونٹوں کے برابر ہوتے تھے،آ پ لوگوں کو مزدور بھی رکھتی تھیں اور مضاربت کے طور پر بھی مال دیا کرتی تھیں ، چنانچہ ہر تاجر کی طرح آپ کو بھی ایسے ذی شعور، سمجھدار،ہوشیار،باصلاحیت، ااور سلیقہ مند افراد کی ضرورت رہتی تھی،جو امین،اور دیانت دار بھی ہوں۔
پیارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کےحسن کردارکی شہرت
سرکار مدینہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق، راستبازی ایمانداری، دیانتداری کا چرچا ہر خاص و عام کی زبان پر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اخلاق کریمہ کے بنا پر اس دور جہالت میں بھی امین کہہ کر پکارے جانے لگے – نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کے چرچے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس پہنچ چکے تھے اس وجہ سے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سامان دے کر تجارتی قافلے کے ساتھ روانہ کرنا چاہتی تھی لیکن انہیں یہی خیال تھا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کردے تو اس لئے پھر آپ نے اپنا ارادہ ترک کر دیا-
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ رہتے تھے ابو طالب نے کہا کہ اے میرے بھتیجے میں ایسا آدمی ہوں جس کے پاس مال و دولت نہیں اور نہ ہی ہمارے کوئی سازوسامان ہے نہ مال تجارت تو آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تجارت کرے مجھے یقین ہے وہ آپ کا انتخاب ضرور کرےگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پسند نہیں فرماتے تھے ، لیکن ابوطالب کے اصرار کرنے پر آپ مان گئے لہذا آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کا کے ساتھ تجارت کرنے لگے۔
حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح کا پیغام
چنانچہ سرکار عالی وقار محبوب رب الغفار صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ اخلاق و انداز سے متاثر ہوکر آپ نے اپنی سہیلی حضرت نفیسہ بنت منیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا معلوم کرنے کے لیے بھیجا، وہ فرماتی ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو نکاح کرنے کے لیے کس چیز نے روکا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس کوئی مال نہیں جس کے ذریعہ میں نکاح کر سکوں، میں نے کہا: ۔
اگر آپ کو مال کی طرف سے سے بے پرواکر دیا جائے پھر حسین وجمیل مالدار معزز عورت سے نکاح کی دعوت دی جائے جو حسب و نسب کے اعتبار سے آپ کی کفو ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قبول فرمالیں گے؟ رسول مکرم شفیع المعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا : وہ کون ہے؟ میں نے کہا: ۔
خدیجہ بنت خو یلد- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ میرے لئے یہ کیوں کر ممکن ہے؟ فرمایا: اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ اگر ایسا ہے تو پھر میں تیار ہوں-حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا معلوم کرنے کے بعد حضرت نفیسہ بنت منیہ رضی اللہ عنہا حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں اور کہا : کہ مبارک ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے پیغام کو قبول فرما لیا ہے-
اس پر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا نے بہت زیادہ اظہار مسرت کیا- اور کسی کو اپنے چچا عمربن اسد کے پاس بھیجا کہ وہ بوقت نکاح موجود رہیں- ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابوطالب اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اور اپنے دیگر چچاؤں کے ساتھ اور حضرت ابوبکرصدیق اور قبیلۂ مضر کے کچھ روسا کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان پر تشریف لائے اور نکاح فرمایا-
نکاح کے یہ پر سعید تقریب سید عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر شام سے واپسی کے دو ماہ 25 دن بعد منعقد ہوئی اور سیدنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آ کر قیامت تک کے تمام مؤمنین کی مائیں یعنی ام مومنین ہونے کا شرف حاصل کیا-نکاح کے بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اپنے چچا سے فرمائیےکہ اونٹوں میں سے ایک اونٹ ذبح کریں اور تمام لوگوں کو کھانا کھلائیں-
فضائل حضرت خدیجہ رضی اللہُ عنھا اے میری پیاری بہنو! ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا کے فضائل بہت کثیر ہے، ایسے ہی آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی خصوصیات بھی کثیر ہیں-آپ رضی اللہ تعالی عنہا سب سے پہلے سرور کائنات فخر موجودات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ ٔ زوجیت میں آئیں
آپ کی خصوصیت
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر ازواج مطہرہ کی مثبت آپ کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا سے کبھی کوئی ایسی بات سرزد نہیں ہوئی جس سے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےغضب فرمایا ہو آپ ہرممکن چیز کے ذریعے مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا پانے کے لیے ہر وقت حریص مند اورکوشاں رہتی تھیں-سرکار نامدار مدینے کے تاجدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولادیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے علاوہ آپ ہی سے ہیں-سید عالم نور مجسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم علم کی آل مبارک حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے چلی ہے ۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی شہزادی ہیں
دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہا کے مقابلے میں آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ تقریبا 25 سال یعنی سب سے زیادہ رفاقت اور ہمراہی میں رہنے کا شرف حاصل کیا-سیدالانبیاء محبوب کبریاصلی اللہ علیہ وسلم کی ظہور نبوت کی خبر سب سے پہلے آپ کو ملی، اور سرکار عالی وقار محبوب رب غفار صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت حاصل کی – تاجدار رسالت شہنشاہ نبوت کے اعلان نبوت کے بعد سب سے پہلے آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے نماز پڑھی اور آپ کی اقتدا میں پڑھی
سفر آخرت
ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ زوجیت میں جب تک حیات رہیں اپ ان کی خدمت کرتی رہیں بالآخر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلان نبوت فرمائے دسواں سال شروع ہوگیا آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے وصال کا وقت قریب آگیا،ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا مرض وفات شریف مبتلا تھیں، سرکار دو عالم نور مجسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے خدیجہ مجھے تمہیں اس حالت میں دیکھنا گراں گزرتا ہے لیکن اللہ تعالی نے اس گراں گزرنے میں بہت بھلائی رکھی ہے-
تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے جنت میں میرا نکاح تمہارے ساتھ، مریم بنت عمران کے ساتھ، موسی علیہ السلام کی بہن کلثوم، کے ساتھ اور فرعون کی بیوی آسیہ کے ساتھ فرمایا ہے-انتقال پر ملال- نبوت کے دسویں سال رمضان المبارک کے مہینے میں جب کہ ابوطالب کو وفات پاے ہوئے تین یا پانچ دن ہی ہوئے تھے کے دس تاریخ کو آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے پیک اجل کو لبیک کہتے ہوئے آخرت کے سفر کا آغاز فرمایا- بوقت وفات آپ کی عمر شریف 65 برس کی تھی- آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر مبارک میں اتر کر آپ رضی اللہ عنہا کو خود دفن کیا-
حضرت خدیجةالکبری سے محبت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر بکری ذبح فرماتے تھےاس کے اعضاء کاٹتے اور پھر حضرت سید خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سہیلیوں کے پاس تحفہ کے طور پر بھیج دیتے ام مومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: میں کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیتی کہ گویا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ دنیا میں کوئی عورت ہی نہ تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے: کہ وہ ایسی تھی ایسی تھی ان سے میری اولادیں ہوئیں۔
حضرت سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: سرور کائنات فخر موجودات صلى الله تعالى عليه وسلم سے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کے بارے میں پوچھا گیا،فرمایا: میں نے انھیں خول دار( اندر سے خالی )موتی سے بنے ہوئے ایک محل میں دیکھا ہے جو جنت کی نہروں میں سے ایک نہر پر واقع ہے، اس میں کوئی بے کار شئ نہیں اور نہ کسی قسم کی کوئی تکلیف
عالمہ ثنا انجم احسنی بنت نسیم خان ،فتح پوری
جامعہ احسن البرکات ، للولی ،فتح پور ،یوپی