مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری کیوں رضا آج گلی سونی ہے اٹھ مرے دھوم مچانے والے
کیوں رضا آج گلی سونی ہے اٹھ مرے دھوم مچانے والے
مجدداعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقادری محدث بریلوی قدس سرہ العزیز(متوفیٰ 1340ھ/1921ء) کی علمی جلالت اور دینی خدمات کا ڈنکا آج چہاردانگ عالم میں بج رہا ہے۔آپ نے دین حق کی پاسبانی کا عظیم فریضہ انجام دے کر اسلامیان ہند کے ایمان و عقیدے کو تحفظ فراہم کیا۔
ورنہ بد عقیدگی کا طوفان معلوم نہیں امت مسلمہ کو ضلالت وگمراہی کے کس گڑھے میں جا گراتا۔ متعدد گمراہ جماعتیں اور الحاد پیشہ افراد ہر چہار جانب سے مسلمانوں کو اپنے دامن ِتزویر میں پھانس رہے تھے،اور مشکل یہ تھی کہ ہر ایک اسلام ہی کا نام لیتا اور اصلاح و ہدایت ہی کا دعویٰ کرتا تھا،ایسے نازک وقت میں برصغیر(ہند وپاک،بنگلہ دیش) میں دین کے احیا اور تجدید کا کام کرکے امام احمد رضا ہی نے بروقت مسلمانوں کو گمراہ ہونے سے بچایا۔
انھیں اسلاف و بزرگانِ دین کے مسلک ِحق پر قائم رہنے کی تلقین کی اور نئے نئے اعتقادی فتنوں سے بچایا۔صدیوں سے چلے آرہے مراسم ومعمولات اہل سنت کو شرک و بدعت سے تعبیر کرنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا،جائزمراسم کی پشت پر دلائل کا انبار لگا دیا،اور واقعی جورسمیں غلط اور ناجائز تھیں ان کے خلاف کھل کر قلم اٹھایا اوران کا رد بلیغ کیا۔یعنی حق کو حق اور باطل کوباطل بتایا، اور اس راہ میں کسی لومت لائم(کسی ملامت کرنے و الے کی ملامت)کی ہرگزپروانہیں کی۔
اپنوں کا بھی کچھ لحاظ نہیں کیا کہ“الدین النصح لکل مسلم ”کا تقاضاہی یہی تھا،کہ اپنوں کوبھی غلط راستے سے بچا کر ہدایت کا راستہ دکھایا جائے۔ایسے موقعوں پر اپنوں کا لحاظ وخیال کرنا،انھیں ان کی گمراہی پر چھوڑ دینا اور اپنے کو ملامت سے بچاناسچی خیر خواہی نہیں،آپ نے اپنے اس عمل سے اپنوں کی بھی رہنمائی فرمائی اور معاندین اہل سنت کو بھی ان کے گھر تک پہنچایا۔اس لیے علماے عرب و عجم نے آپ کوچودہویں صدی کا مجدد قرار دیا۔
مجدد اسی کو کہتے ہیں جو دین کو اپنے عہد میں تحفظ فراہم کرے اور باطل افکار و نظریات کا قلع قمع کرے اور اس راہ میں اپنے اندر کوئی کمی اور کمزوری نہ محسوس کرے۔آج ہم اسلامیان ہندہی نہیں پوری دنیا کے خوش عقیدہ مسلمان امام موصوف کے فضل و کمال اور ان کی دینی خدمات کے معترف ہیں اور ممنون احسان بھی۔
اعلیٰ حضرت نے گستاخان رسول کا سخت رد کرنے کے ساتھ ساتھ دین میں پھیلی ہوئی بدعات کابھی خوب خوب رد کیا۔مثلاً: مروجہ (موجودہ)تعزیہ داری،قبروں کو سجدہ، جھک کر سلام کرنا،مزارات اولیا ے کرام پر عورتوں کی بھیڑ بھاڑ،آخری بدھ،محرم وغیرہ میں شادی بیاہ کی ممانعت،شادی بیاہ میں باجے گاجے کی دھوم دھام،قبرو ں کاطواف،بزرگوں کی تصویریں لگانا، فرضی قبریں بنانا،عام مُردوں کے لیے دعوت عام کرنا،انگریزی وضع کے کپڑے پہننا، عورتوں کی پیر سے بے پردگی،آتش بازی،قوالی مع مزامیروغیرہ کے بارے میں اعلیٰ حضرت نے اپنے فتاویٰ اور دیگر کتابوں میں کھل کر اظہار خیال کیا ہے اور ان کی قباحتیں بیان کی ہیں۔
آج بریلی شریف میں تو اعلیٰ حضرت کا یوم وصال منایا ہی جاتاہے۔ہند وپاک کے مختلف شہروں میں جشن رضا کی دھوم مچتی ہے۔بلکہ اب تو یورپ و امریکہ اور دنیا کے مختلف بر اعظموں میں بھی یاد رضا منائی جا رہی ہے۔اور اب تو دسویں شوال المکرم کو بھی جو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کی ولادت کا دن ہے۔
جشن ولادت اعلیٰ حضرت منایا جارہا ہے۔بزرگوں کی یاد یوم ولادت کے طور پر منائی جائے یا یوم وصال کے طور پر جسے عرس کہتے ہیں بہر حال صحیح ہے کہ اس طرح ان کی حیات و خدمات کا تذکرہ بھی ہو جاتا ہے اور ان کی بارگاہوں میں ایصال ثواب و فاتحہ کرکے خراج عقیدت بھی پیش کر دیا جاتا ہے۔ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ یوم ولادت ہو یا یوم وصال ان کو ہر طرح کی خرافات اور شرعی خرابیوں سے دور رکھنا لازم ہے۔تاکہ نہ برائیاں پروان چڑھیں،نہ معاشرہ خراب ہو، اور نہ ہی دوسرے گمراہ فرقوں کو انگشت نمائی کا موقع ملے۔
آج عرسوں اور جشنوں میں عام طور سے لوگ یعنی عوام الناس اور معتقدین شرعی حدو ں کوپار کرتے نظر آتے ہیں۔اور اس کو بزرگوں سے عقیدت کا نام دیتے ہیں۔یہ سراسر ان کی جہالت ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے جو تجدیدی کارنامہ انجام دیا ہے اور جو آج پوری دنیا میں ان کے ماننے والوں کی کثرت ہوتی جا رہی ہے اور ان کے کارناموں سے لوگ متاثر ہوتے جا رہے ہیں اور ان کے خلاف جو غلط پروپیگنڈے ہو رہے تھے ان کا بھی قلع قمع ہو رہا ہے۔حقائق واشگاف ہو رہے ہیں۔یہ ان کے مقبول بارگاہ رسالت ہونے کی بین دلیل ہے۔کیوں کہ آپ نے پوری دنیاکو زندگی بھر سرکار مدینہ سرور قلب و سینہ ﷺ کے عشق و محبت کا جام پلایا۔
اور مخلوق خدا کو غلامی مصطفی کا درس دیا، شریعت مصطفی کی پابندی کی بھرپور تاکید کی۔اس لیے آپ کے کلام ِنثر و نظم میں ایسا لگتا ہے کہ عشق رسول کوٹ کوٹ کر بھراہواہے اور کیوں نہ ہو کہ ہر عاشق رسول کے لیے عشق رسالت ہی سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔
اعلیٰ حضرت نے اس قیمتی سرمایے کو خوب خوب بانٹا جس سے سارا عالم سرمست و سرشار ہو اٹھا۔بس یہی وجہ ہے کہ ہر طرف : ع کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے۔ کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے امام عشق و محبت اپنے ایمان افروز کلام میں فرماتے ہیں
جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خد ا
جس کو ہو دردکامزہ ناز دوا اٹھائے کیوں
اب ضرورت ہے کہ امام احمدرضا کے فکر و فن اور ان کے فضل و کمال کو مزید عالم آشکارکیاجائے۔آپ کی تصانیف اورآپ کی حیات وخدمات پر مشتمل کتابوں کو عربی،انگریزی،ہندی اور دنیا کی مختلف زبانوں میں طبع کرایا جائے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ عصر حاضر میں اس محسن اہل سنت ومجدد دین و ملت کی بارگاہ میں یہ سب سے بہترین خراج عقیدت ہے تاکہ جو اب تک نہیں جان سکے ہیں وہ جانیں اور جو کسی غلط فہمی کے شکار ہیں وہ حقائق سے آگاہ ہوں،اور معاندین کے پھیلائے ہوئے غلط پروپیگنڈوں کا ازالہ بھی ہو۔
اس سلسلے میں دردمندان اہل سنت سے گزارش ہے کہ ارشادات اعلیٰ حضرت (از: راقم سطور)تعلیمات اعلیٰ حضرت (از:مولانا میکائیل ضیائی) امام احمد رضا ارباب علم ودانش کی نظر میں اور امام احمد رضا اور رد بدعات و منکرات (از:مولانا یٰسین اختر مصباحی) فاضل بریلوی اور امور بدعت (از:سید محمد فاروق القادری)امام احمد رضا اور ان کی تعلیمات (از:نعمانی) فاضل بریلوی علماے حجاز کی نظر میں،رہبر و رہنما ،اجالا، محدث بریلوی(از: پروفیسر محمد مسعود احمد نقشبندی) اور ان جیسی دوسری تصانیف کو عام کیا جائے۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ بد عقیدہ اور گمراہ جماعتوں نے جو گمراہ کن نظریات پھیلائے ہیں ان کی خوب تشہیر کی جائے تاکہ اہل سنت کے بھولے بھالے افراد جو ان کی ظاہری دین داری دیکھ کر ان سے متاثر ہو جاتے ہیں۔اس کا بھی ازالہ کیا جاسکے۔اس کام کے لیے ذیل کی کتابوں کی خوب اشاعت کی جائے۔
۔۱) المصباح الجدید(عقائد علماے دیوبند،از: حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان)
۔۲) الحق المبین (از:غزالی دوراں علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہالرحمہ)
۔۳) خون کے آنسو(از:پاسبان ملت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ)
۔۴) زلزلہ (از: علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ)
ان کتابوں کو کثیر تعداد میں چھپوا کر فروخت کیا جائے اور ہدیۃً بھی تقسیم کیا جائے۔اور ان میں سب سے اہم جو کتاب ہے تمہید ایمان بہ آیات قرآن”جسے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے ایمان و عقیدے کے اندر پختگی پیدا کرنے کے لیے قرآنی آیات کو سامنے رکھتے ہوئے تصنیف فرمایا ہے۔
افسوس کہ اس کتاب کی جیسی کچھ اشاعت ہونی چاہیے اب تک نہ ہو سکی۔میری عقیدت مندان اعلیٰ حضرت سے اور امام رضا کے نام پرقائم ہونے والی اکیڈمیوں،تنظیموں اور اداروں سے گزارش ہے کہ اس ایمان افروز کتاب کو اردو،ہندی،گجراتی،بنگلہ اور انگریزی زبانوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعدادمیں شائع کرکے ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں تقسیم کریں۔
آج نہ عقیدت کی کمی ہے،اور نہ مال ودولت کی،بس صحیح سمت توجہ دینے کی کمی ہے۔اگر اہل ثروت اور اہل عقیدت حضرات نے ا س گزارش پر کان دھرا اور کچھ کر گزرے تو میں سمجھتاہوں کہ امام اہل سنت کی بارگاہ میں یہ سب سے بڑا خراج عقیدت اور سب سے قیمتی فاتحہ ہوگا۔اللہ توفیق عطا فرمائے۔آمین
اللہ اگرتوفیق نہ دے انسان کے بس کی بات نہیں
فیضان محبت عام تو ہے،عرفان محبت عام نہیں
از: مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری
المجمع الاسلامی،مبارک پور
اعظم گڑھ،یوپی
رابطہ 9838189592
nomaniqadri@gmail.com