از: محمد عبدالماجد قادری، حیدرآبادی۔ حسد ایک گناہِ بے لذت
حسد ایک گناہِ بے لذت
حسد کی وضاحت امام غزالی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- فرماتے ہیں کہ حسد صرف نعمت پر ہی ہوتا ہے، جب باری تعالیٰ تمھارے کسی مسلمان بھائی کو کوئی نعمت عطا فرماتا ہے تو اس وقت تمھاری دو حالتیں ہوتی ہیں
۔[١] تم اس کی نعمت کو ناپسند کرو، اور اس کے زوال کی آرزو کرو، اس حالت کو حسد کہتے ہیں۔
۔[٢] تم نہ تو زوالِ نعمت کی تمنا کرو، اور نہ ہی اس کے وجود کو ناپسند جانو، البتہ تمھارے دل میں یہ چاہت ہو کہ تمھیں بھی اس قسم کی نعمت ملے، اس حالت کو رشک کہتے ہیں۔ [إحیاء العلوم للغزالی، باب: بيان حقيقة الحسد وحكمه وأقسامه ومراتبه، جزء: ۳، ص: ۱۹۲]۔
حسد کا حکم
امام نووی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- فرماتے ہیں کہ اہل علم نے فرمایا کہ حسد کی دو صورتیں ہوتی ہیں
۔[١] حقیقی [٢] مجازی۔
۔[١] حقیقی: حقیقی حسد یہ ہے کہ صاحبِ نعمت سے زوالِ نعمت کی تمنا کی جائے۔ اس کی حرمت پر امت کا اجماع ہے۔
۔[٢] مجازی: مجازی حسد [جسے غبطہ بھی کہا جاتا ہے] یہ ہے کہ صاحبِ نعمت سے زوالِ نعمت کی تمنا کیے بغیر، اس جیسی نعمت کے حصول کی آرزو کی جائے۔ اگر یہ دنیوی امور میں ہو تو مباح ہے، اور اگر طاعات میں ہو تو مستحب ہے۔ [شرح النووي علی مسلم، الجزء السادس، باب: فضل من یقول بالقرآن ویعلمه إلخ، جزء: ٦، ص: ۹۷]۔
حسد کی قسمیں
حسد کی دو قسمیں ہیں
۔[١] دنیوی امور سے متعلق، مثلاً مال ودولت، جاہ ومنصب اور حسن وجمال وغیرہ۔
۔[٢] دینی امور سے متعلق، مثلاً نبوت و رسالت وغیرہ۔
حسد کے درجات
حسد کے چار درجے ہیں
پہلا درجہ یہ ہے کہ حاسد، دوسروں کی نعمت کا زوال چاہے، اگرچہ اسے نہ ملے۔ اس قسم کا حسد، مسلمانوں پر گناہ کبیرہ ہے، اور کافر فاسق کے حق میں جائز، مثلاً کوئی مال دار اپنے مال سے کفر یا ظلم کر رہا ہے، اس کے مال کی بربادی، اس لیے چاہتا ہے کہ دنیا، کفر و ظلم سے بچے۔ یہ جائز ہے۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ حاسد، دوسروں کی نعمت خود لینا چاہے کہ فلاں کا باغ یا اس کی جائداد میرے پاس آ جائے، یا اس کی ریاست کا، میں مالک ہو جاؤں۔ یہ حسد بھی مسلمانوں کے حق میں حرام ہے۔
تیسرا درجہ یہ ہے کہ حاسد، اس نعمت کے حاصل کرنے سے خود تو عاجز ہے؛ اس لیے آرزو کرتا ہے کہ دوسروں کے پاس بھی نہ رہے تاکہ وہ مجھ سے بڑھ نہ جائے۔ یہ بھی منع ہے۔
چوتھا درجہ یہ ہے کہ وہ تمنا کرے کہ یہ نعمت، دوسروں کے پاس بھی رہے، اور مجھے بھی مل جائے یعنی دوسروں کا زوال نہیں چاہتا، اپنی ترقی کا خواہش مند ہے، اسے غبطہ کہتے ہیں۔ یہ دنیوی باتوں میں منع اور دینی باتوں میں اچھا اور کبھی واجب ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے ( وَفِيْ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ )۔ [المطففین: ۸۳، الآیۃ: ٢٦]۔ (اور اسی پر چاہیے کہ للچائیں للچانے والے) [کنزالإیمان، للإمام أحمد رضا البریلوي]۔
حدیث شریف میں ہے کہ (دو شخصوں پر حسد یعنی غبطہ جائز ہے: ایک وہ عالم دین جو اپنے علم سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہو۔ دوسرا وہ سخی مال دار جس کے مال سے فیض جاری ہو) [تفسیر نعیمي للمفتي أحمد یار خان النعیمي، البقرۃ، الآیۃ: ۱۰۹]۔
حسد، قرآنی آیات کی روشنی میں
حسد کا تذکرہ متعدد قرآنی آیات میں موجود ہے، یہاں دو قرآنی آیات ملاحظہ ہوں
۔[١] اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے (وَلَا تَتَمَنَّوۡا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعۡضَکُمۡ عَلىٰ بَعۡضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبُوۡا وَلِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنَ وَسۡئَلُوا اللّٰهَ مِنۡ فَضۡلِهٖ اِنَّ اللّٰهَ کَانَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ) [النساء: ٤، الآية: ٣٢] (مردوں کے لیے ان کی کمائی سے حصہ ہے، اور عورتوں کے لیے ان کی کمائی سے حصہ، اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو، بےشک اللہ سب کچھ جانتا ہے ) [کنزالإیمان، للإمام أحمد رضا البریلوي]۔
صدر الافاضل، حضرت علامہ نعیم الدین مرادآبادی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- اس آیت کے تحت ارشاد فرماتے ہیں کہ “آپس میں بغض وحسد نہ کرو، یہ نہایت بری صفت ہے۔ حاسد، دوسرے کو اچھی حالت میں دیکھتا ہے تو اپنے لیے اس کی خواہش کرتا ہے، اور ساتھ میں یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کا بھائی، اس نعمت سے محروم ہو جائے، یہ ممنوع ہے۔ بندے کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہے، اس نے جس بندے کو جو فضیلت دی، خواہ دولت وغنا کی، یا دینی مناصب ومدارج کی، یہ اس کی حکمت ہے”۔ [تفسیر خزائن العرفان للعلامۃ نعیم الدین المرادآبادي، النساء: تحت الآیۃ]۔
۔[٢] ارشاد باری تعالیٰ ہے ( وَمِنۡ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ) [الفلق: ۱۱۳، الآیۃ: ٥] (اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے) [کنزالإیمان، للإمام أحمد رضا البریلوي]
اس آیت کے تحت حضرت علامہ نعیم الدین مرادآبادی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- فرماتے ہیں کہ: “حسد بدترین صفت ہے، اور یہی سب سے پہلا گناہ ہے جو آسمان میں ابلیس سے سرزد ہوا، اور زمین میں قابیل سے”۔ [تفسیر خزائن العرفان للعلامۃ نعیم الدین المرادآبادي، الفلق، تحت الآیۃ]۔
حسد کی مذمت، احادیثِ کریمہ کی روشنی میں
حسد کے متعلق متعدد احادیث کریمہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں
۔[١] عن أنس أن رسول الله -صلى الله تعالى عليه وسلم قال: ( الحسد یاکل الحسنات کما تاکل النار الحطب، والصدقة تطفئی الخطیئة کما یطفئی الماء النار، والصلاۃ نور المؤمن، والصیام جُنۃ من النار ) [سنن إبن ماجه، باب: کتاب الزھد، جزء: ۵، ص: ۲۹۵، رقم: ٤٢١٠]۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آقا کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا (حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے، اور صدقہ خطاؤں کو بجھاتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے، نماز مومن کا نور ہے اور روزہ آگ -جہنم- سے ڈھال ہے)۔
۔[٢] عن عبد الله بن بسر أن رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم قال: ( لیس منی ذو حسد ولا نمیمة ولا کھانة ولا أنا منه) [جمع الجوامع للسیوطي، باب: حرف اللام، جزء: ۱، ص: ١٧٤٨٥، رقم: ١٣٦٤]
حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا (حسد، چغلی اور کہانت نہ مجھ سے ہیں، اور نہ میں ان سے) یعنی مسلمان کو ان چیزوں سے بالکل تعلق نہ ہونا چاہیے۔
۔[٣] عن أبي ھریرۃ أن رسول الله -صلى الله تعالى عليه وسلم- قال: ( تفتح أبواب الجنة یوم الإثنین ویوم الخمیس فیغفر لکل عبد لا یشرک بالله شیئا إلا رجلا کانت بینه وبین أخیه شحناء فیقال: أنظروا ھذین حتی یصطلحا، أنظروا ھذین حتی یصطلحا، أنظروا ھذین حتی یصطلحا) [صحیح مسلم، باب: النھی عن الشحناء والتھاجر، جزء: ۸، ص: ۱۱، رقم: ٦٧٠٩]۔
حضرت ابو ہریرہ -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- سے روایت ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
(دوشنبہ اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر اس شخص کی مغفرت کی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراتا ہو، مگر اس شخص کو نہیں بخشا جاتا جو اپنے بھائی سے بغض وکینہ رکھتا ہو، تو کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو مہلت دو یہاں تک کہ یہ دونوں صلح کر لیں)۔
۔[٤] عن أبي ھریرۃ قال: قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم: (لا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تجسسوا ولا تحسسوا ولا تناجشوا وکونوا عباد الله إخوانا) [صحیح مسلم، باب: تحریم الظن والتجسس والتنافس، جزء: ۸، ص: ۱۰، رقم: ٦٧٠٣] حضرت ابو ہریرہ -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: (آپس میں نہ حسد کرو، نہ بغض رکھو، نہ جاسوسی کرو، نہ ایک دوسرے کے عیب تلاش کرو، اللہ کے بندوں! بھائی بھائی بن کے رہو)۔
۔ [٥] عن أنس قال: قال رسول الله -صلى الله تعالى عليه وسلم: (لا تحاسدوا ولا تقاطعوا ولا تدابروا وکونوا عباد الله إخوانا ولا یحل لمسلم أن یھجر أخاہ فوق ثلاث) [مسند أحمد بن حنبل -رضي الله تعالیٰ عنہ-، باب: مسند أنس بن مالک -رضي اللہ تعالیٰ عنہ-، جزء: ۳، ص: ١٦٥، رقم: ١٢٧١٤] حضرت انس بن مالک -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- سے مروی ہے کہ رسول اکرم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- نے فرمایا: (آپس میں ایک دوسرے سے نہ حسد کرو، نہ قطع تعلق کرو اور نہ ہی ایک دوسرے سے منہ پھیرو۔ اے اللہ کے بندوں! آپس میں بھائی بھائی ہو جاؤ۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے)۔
قرآنی آیات اور احادیثٍ شریفہ سے مستفاد جواہر
۔[١] زوال نعمت کی تمنا جائز نہیں۔
۔[٢] تقسیم انعامات الہیہ، بتقاضاے حکمت ہیں۔
۔[٣] باری تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرنا چاہیے۔
۔[٤] اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔
۔[٥] حسد سے بچنا چاہیے۔
۔[٦] حاسد کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنا چاہیے۔
۔[٧] حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے۔
۔[٨] صدقات، خطائیں مٹاتا ہے۔
۔[٩] نماز مومن کے لیے نور ہے۔
۔[١٠] روزہ جہنم کے لیے ڈھا ل ہے۔
۔[١١] حسد، چغلی اور کہانت کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔
۔[١٢] دوشنبہ اور جمعرات کے دن حاسد کی بخشش نہیں ہوتی، جب کہ دیگر مسلمانوں کی بخشش ہو جاتی ہے۔
۔[١٣] حسد کرنا، بغض رکھنا، پیٹھ پیچھے برائی کرنا اور ایک دوسرے سے منہ پھیرنا جائز نہیں۔
۔[١٤] حسد دین کو مونڈ دیتا ہے۔
۔[١٥] سلام کرنا چاہیے کہ اس سے محبت بڑھتی ہے، اور حسد کا جذبہ ختم ہوتا ہے۔
حسد کے چند نمایاں نقصانات
مبلغ اسلام، حضرت علامہ عبدالمبین نعمانی -دام ظلہ العالی- اپنی کتاب “حسد وکینہ کی تباہ کاریاں” میں حسد کے نقصانات شمار کراتے ہوئے رقم طراز ہیں:
۔[١] حاسد، اللہ ورسول کا نافرمان ہوتا ہے۔
۔[٢] حاسد کے دل میں، کامل ایمان باقی نہیں رہتا۔
۔[٣] حاسد کی نیکیاں، حسد کی وجہ سے بے اثر ہو جاتی ہیں۔
۔[٤] حاسد، دوستی اور صحبت کے لائق نہیں رہتا۔
۔[٥] حاسد، مصائب کو دعوت دیتا ہے، اور نعمتوں کو اپنے سے دور رکھتا ہے۔
۔[٦] حسد، کفار کی عادت ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ( حَسَدًا مِّنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِهٍمۡ ) [البقرۃ: ۲، الآیة: ۱۰۹]۔
۔[٧] حاسد سے، قرآن پاک میں پناہ مانگنے کا حکم آیا ہے۔ یعنی اس سے دور رہنے کی دعا، قرآن میں وارد ہے۔
۔[٨] حسد سے عداوت پیدا ہوتی ہے۔
۔[٩] حسد، آپس میں پھوٹ اور جدائی کا سبب ہے۔
۔[١١] حسد، اتحاد کا دشمن ہے۔
۔[١٢] حسد، قرابت داری کو ختم کر دیتا ہے۔
۔[١٣] حاسد، اپنی عاقبت بھی برباد کرتا ہے، اور دنیا بھی۔
۔[١٤] ہر چیز کا کچھ فائدہ ہوتا ہے، اور حسد کا کچھ فائدہ نہیں۔
۔[١٥] حسد سے شیطان خوش ہوتا ہے، اور خدا ناراض۔
۔[١٦] حسد کی وجہ سے حاسد، کفر کے قریب ہوتا ہے۔ ابلیس کی مثال، سامنے ہے کہ اس نے حضرت آدم -عليه السلام- کی عظمت برداشت نہ کی، اور کفر کر بیٹھا۔
۔[حسد وکینہ کی تباہ کاریاں، ص: ٨]
حسد سے بچنے کے انعامات
۔[١] حسد سے بچنے والا، ہدایت یافتہ ہوتا ہے۔
۔[٢] حسد سے دوری، دخول جنت کا سبب ہے۔
۔[٣] حسد سے پرہیز کرنا، کامیابی کا سبب ہے۔
۔[٤] حسد سے دور رہنے والا، لوگوں میں مقبول ہوتا ہے۔
۔[٥] حسد سے اجتناب کرنا، قرب خداوندی کا ذریعہ ہے۔
اقوال سلف صالحین
محترم قارئین کرام!۔
اب ذیل میں مستند کتابوں سے چند حکمت بھرے اقوال نقل کیے جا رہے ہیں، انھیں پڑھ کر اپنا محاسبہ کریں۔
۔[١] حضرت وہب بن منبہ -رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ- فرماتے ہیں:
حاسد کی تین نشانیاں ہیں
۔[١] جب سامنے آتا ہے تو چاپلوسی کرتا ہے۔
۔[٢] پیٹھ پیچھے غیبت کرتا ہے۔
۔[٣] جب دوسرے پر مصیبت آتی ہے تو خوش ہوتا ہے۔
۔[حسد وکینہ کی تباہ کاریاں، ص: ۱۰]
۔[٢] حضرت سفیان ثوری -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- فرماتے ہیں:
۔[١] ہمیشہ خاموش رہا کر؛ پرہیز گاری حاصل کرے گا۔
۔[٢] دنیا پر مت للچا؛ اس سے تمھارا حافظہ قوی ہو جائے گا۔
۔[٣] طعنہ زن مت بن؛ لوگوں کی زبان سے محفوظ رہے گا۔
۔[٤] حاسد مت بن؛ تیری فہم میں تیزی آئے گی۔
۔[حسد وکینہ کی تباہ کاریاں، ص: ۱۱]
۔[٣] حضرت احنف بن قیس -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- فرماتے ہیں:
۔[١] حاسد کو، کبھی راحت نصیب نہیں ہوتی۔
۔[٢] بخیل کے اندر، کبھی وفاداری نہیں ہوتی۔
۔[٣] تنگ دل کا، کوئی دوست نہیں ہوتا۔
۔[٤] جھوٹے میں، مروءت نہیں ہوتی۔
۔[٥] خائن، قابل اعتماد نہیں ہوتا۔
۔[٦] بد اخلاق کے اندر، محبت نہیں ہوتی۔
۔[حسد وکینہ کی تباہ کاریاں، ص: ۱۳]
۔[٤] حضرت ابو دردا -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- فرماتے ہیں:
بندے کا، موت کو کثرت سے یاد کرنا، خوشی اور حسد کو کم کر دیتا ہے۔ [إحیاء العلوم للغزالی، باب: القول في ذم الحسد إلخ، جزء: ۳، ص: ۱۸۹]
۔[٥]حضرت امیر معاویہ -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- فرماتے ہیں
نعمت پر حسد کرنے والے کے سوا، میں ہر شخص کو راضی کر سکتا ہوں؛ کیوں کہ حاسد، زوال نعمت پر ہی راضی ہوتا ہے ۔ [إحیاء العلوم للغزالی، باب: القول في ذم الحسد إلخ، جزء: ۳، ص: ۱۸۹]۔
امکان غالب ہے کہ اتنا پڑھنے کے بعد ہر ذی عقل کو یہ خیال ضرور آئے گا کہ حسد سے بچنا چاہیے؛ اس لیے ذیل میں حسد سے بچنے کی تدبیر ذکر کی جا رہی ہے۔ مولیٰ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے۔ آمین۔
تعلیمی سال کا آغاز ایک جائزہ (از قلم وزیر احمد مصباحی) پورا مضمون پڑھ کر شئیر کرنا نہ بھولیں
حسد سے بچنے کی تدبیر
مبلغ اسلام حضرت علامہ عبدالمبین نعمانی -ظلہ العالی- اپنی کتاب “حسد وکینہ کی تباہ کاریاں” میں حسد سے بچنے کی صورت بیان کرتے ہیں
حسد سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے جب کسی کو اپنے سے بڑا دیکھے، اور دل میں حسد کی چنگاری سلگنا شروع ہو جائے تو فورا یہ سوچ لے کہ جو کچھ منصب اور دولت اس کے پاس ہے؛ سب اللہ -عزوجل- کی عطا کردہ ہے، اس پر اعتراض کرنا، اور اس سے زوال کی خواہش کرنا، اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کرنا ہے۔ اس کی دی ہوئی نعمت کے زوال کی خواہش کرنا، سرے ہی سے نادانی اور خالص شیطانی فکر ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ جلد ہی حسد کی آگ بجھ جائے گی، اور اس کے عظیم نقصان سے بچ جائے گا۔ [حسد وکینہ کی تباہ کاریاں، ص: ١٤]۔
ہاں ! اگر حصول نعمت ہی مقصود ہے تو اس جیسی نعمت یا منصب کا طلب گار بنے، جسے غبطہ اور رشک کہتے ہیں، یہ بلا شبہ جائز ہے۔
خلاصہ
قارئین کرام! مذکورہ بالا قرآنی آیات، احادیث شریفہ اور اقوال امت سے بحسن وخوبی یہ معلوم ہو چکا ہوگا کہ حسد کس قدر عظیم مہلک بیماری، اور گناہ بے لذت ہے۔ حسد کرنے والا نہ دنیا میں کامیاب ہوتا ہے، اور نہ ہی آخرت میں کامیاب ہوگا۔ اس لیے حتی الوسع ہمیں چاہیے کہ حسد سے بچیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم– کے صدقے، حسد جیسے عظیم گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
محمد عبدالماجد قادری حیدرآبادی
متعلم : دارالعلوم فیض رضا، شاہین نگر
حیدرآباد ، تلنگانہ
رابطہ نمبر 7093202438