Thursday, March 28, 2024
Homeاحکام شریعتاولاد کی اچھی تربیت وقت کا اہم تقاضا

اولاد کی اچھی تربیت وقت کا اہم تقاضا

تحریر عبدالماجد قادری حیدرآبادی اولاد کی اچھی تربیت وقت کا اہم تقاضا

اولاد کی اچھی تربیت وقت کا اہم تقاضا

جملہ تسبیح و تحمید ہے خداے وحدہ لا شریک کے لیے جس نے لفظ کُن سے عالم کو وجود بخشا، دُرود و سلام کے گلدستے پیش ہیں محسن اِنسانیت جناب محمد رسول اللہ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ ناز میں جنہیں رب تعالیٰ نے خاتم النبیین اور رحمۃ للعالمین کا تاج پہنایا، اور دُرود و سلام نازل ہو آپ کے جملہ آل و اصحاب پر۔

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر و اِحسان ہے کہ اُس نے ابنِ آدم کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا۔ قسم قسم کے اَسبابِ راحت و سکون فراہم کیا۔ اُنھیں نعمتوں میں سے ایک عظیم تر نعمت اور عظیم المرتبت سبب راحت اولاد ہیں، جو والدین کے لیے سکون و قرار کا باعث اور قرۃِ عین کا سبب ہیں، مگر یہ سب اُسی وقت ممکن ہے جب اُن کی بہتر تعلیم اور اچھی تربیت کا اِہتمام کیا جائے، اور اُنھیں اَخلاقِ حسنہ کا خوگر بنایا جائے، ورنہ یہ اَولاد، قرۃِ عین کا سبب اور گھر کی زینت بننے کے بجائے دنیا میں وبالِ جان اور آخرت میں ہلاکت کا سبب ہوں گے۔

عالَم کے جملہ مذاہب میں تربیت اَولاد کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ خود مذہب اسلام میں اِس کی نمایاں شان ہے کہ قرآن کریم حضرت لقمان کی نصیحت و تربیت اَولاد کے قیمتی جواہر اپنے دامن میں محفوظ کیے ہوئے ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے  ﴿  وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ…………يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ﴾ [سورۃ لقمان: ۳۱، الآیۃ: ۱۳-۱۹]۔

۔﴿اور یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے بیٹے! کسی کو اللہ کا شریک نہ کرنا، بےشک شرک یقیناً بڑا ظلم ہے…………اے میرے بیٹے! برائی اگر رائی کے دانے کے برابر ہو، پھر وہ پتھر کی چٹان میں ہو، یا آسمانوں میں، یا زمین میں؛ اللہ اُسے لے آئے گا۔ بےشک اللہ ہر باریکی کا جاننے والا، خبردار ہے۔ اے میرے بیٹے! نماز قائم رکھ، اور اچھی بات کا حکم دے، اور بری بات سے منع کر، اور تجھے جو مصیبت آئے؛ اُس پر صبر کر، بےشک یہ ہمت والے کاموں میں سے ہے۔ اے میرے بیٹے! اور لوگوں سے بات کرتے وقت اپنا رخسار ٹیڑھا نہ کر، اور زمین میں اکڑتے ہوئے نہ چل، بےشک اللہ کو ہر اکڑنے والا، تکبر کرنے والا نا پسند ہے۔ اور اپنے چلنے میں درمیانی چال سے چل، اور اپنی آواز کچھ پست رکھ، بےشک سب سے بُری آواز گدھے کی آواز ہے﴾۔

  اس کو بھی پڑھیں رب کا  فرمان ماں باپ کا احترام کرو

تفسیر صراط الجنان” میں اِس آیت کے تحت ہے کہ اِس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے

[1] اِس سے معلوم ہوا کہ نصیحت کرنے میں گھر والوں اور قریب تر لوگوں کو مقدم کرنا چاہیے، اور نصیحت کی ابتدا عقائد کی اِصلاح سے ہونی چاہیے، خصوصاً اُنھیں الله تعالیٰ کی وحدانیت کے بارے میں بتانا چاہیے، اور سب سے پہلے اُنھیں شرک سے بچانا چاہیے؛ کہ یہ نہایت اہم ہے۔

[2] انسان پہلے اپنے گھر والوں کو وعظ و نصیحت کرے، پھر دوسروں کو۔

[3] نصیحت نرم الفاظ میں ہونی چاہیے۔ آپ -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- نے اُسے “اے میرے بچے” فرما کر خطاب فرمایا۔

[4] گزشتہ بزرگوں کی تعلیم یاد دلانا، اُن کے اَقوال نقل کرنا سنتِ اِلٰہیہ ہے۔

حضرت لقمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں

حضرت حسن بصری -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- فرماتے ہیں “حضرت لقمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا: میں نے بڑے پتھر، لوہا اور ہر وزنی چیز اُٹھائی ہے، لیکن میں نے بُرے پڑوسی سے بھاری چیز کوئی نہیں اٹھائی۔ میں نے ہر کڑواہٹ دیکھی ہے، مگر فقر سے زیادہ کڑوی چیز نہیں دیکھی۔ اے میرے بیٹے! جاہل کو قاصد بنا کر نہ بھیج، اگر تو کسی صاحبِ حکمت کو نہ پائے تو اپنا قاصد خود بن جا

اے میرے بیٹے! جنازوں  میں حاضر ہوا کر اور شادیوں میں نہ جایا کر؛ کیوں کہ جنازے تجھے آخرت کی یاد دلاتے ہیں، اور شادی تجھے دنیا کی خواہش دلاتی ہے۔ اے میرے بیٹے! سَیر پر سَیر ہو کر نہ کھا، اگر تو اُس کھانے کو کتے کے سامنے پھینک دے تو یہ اِس سے بہتر ہے کہ تو خود اُسے کھائے۔ اے میرے بیٹے! اِتنا میٹھا بھی نہ بن کہ تجھے نگل لیا جائے، اور نہ اِتنا کڑوا ہوجا کہ تجھے باہر پھینک دیا جائے۔” [شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان الخ، آثار و حکایات فی فضل الصدق الخ، ٤؍ ۲۳۱، روایت نمبر: ٤۸۹۱]۔

اللہ تبارک و تعالیٰ دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے ﴿  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴾ [سورۃ التحریم: ٦٦ ، الآیۃ: ٦]۔ 

اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اُس پر سختی کرنے والے، طاقت ور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جو اُنھیں حکم دیا جاتا ہے

جب آقاے کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام کے سامنے اِس آیتِ کریمہ کی تلاوت فرمائی تو صحابۂ کرام عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- ہم اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ تو آقاے کریم صلی تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا( تم اپنے اہل و عیال کو اُن چیزوں کا حکم دو جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں، اور اُن چیزوں سے روکو جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں)[الدر المنثور للسیوطی ، سورۃ التحریم ،تحت الآیۃ]۔

اِس آیت کے تحت “تفسیر صراط الجنان” میں ہے کہ: اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ  وآلہ وسلم  کی فرماں برداری اِختیار کرکے، عبادتیں بجالا کر، گناہوں سے باز رہ کر، اپنے گھر والوں کو نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت کرکے اور اُنھیں علم و ادب سکھا کر اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا اِیندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ ہر مسلمان پر اپنے اہل خانہ کی اِسلامی تعلیم وتربیت لازم ہے

اِس آیت سے معلوم ہوا کہ جہاں مسلمان پر اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے؛ وہیں اہل خانہ کی اسلامی تعلیم و تربیت کرنا بھی اُس پر لازم ہے؛ لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے بیوی، بچوں اور گھر میں جو اَفراد اُس کے ماتحت ہیں؛ اُن سب کو اِسلامی اَحکامات کی تعلیم دے، یا دلوائے۔ یوں ہی اِسلامی تعلیمات کے سائے میں اُن کی تربیت کرے؛ تاکہ یہ بھی جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں۔

تفسیر صراط الجنان، سورۃ التحریم، تحت الآیۃ   آیت کریمہ سے ماخوذ نصیحتیں

[1] رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔

[2] نماز قائم کرو۔ 

[3] بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔

[4] کوئی مصیبت آ جائے تو صبر کرو۔۔

[5] زمین پر اکڑ کر نہ چلو؛ کہ اللہ رب العزت تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ 

۔[6 اپنی رفتار میں میانہ روی رکھو اور چیخ چلا کر نہ بولا کرو۔

[7] اپنی آواز پست رکھو؛ کیوں کہ بد ترین آواز گدھے کی آواز ہے۔

[8] اہل ایمان پر لازم ہے کہ خود اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں۔

تربیت کے حوالے سےچند احادیثِ کریمہ ملاحظہ ہوں

[1] حضرت جابر بن سمرہ -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ کوئی شخص اپنی اولاد کو اَدب دے، یہ اُس کے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے  [سنن الترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی ادب الولد، حدیث: ۲۰۷۸]۔

[2] حضرت انس -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا اپنی اولاد کا اِکرام کرو، اور اُنھیں اچھے آداب سکھاؤ[سنن ابن ماجہ، کتاب الادب، باب بر الوالد، حدیث: ۳٦۷۱]۔

[3] حضرت عمرو بن سعید بن عاص -رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  والد کا اپنی اَولاد کے لیے اِس سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں کہ اُسے اچھے آداب سکھائے [المستدرک للحاکم، کتاب الادب، باب فضل تادیب الاولاد، حدیث: ۷۷۵۳]۔

[4] حضرت ایوب بن موسیٰ اپنے والد سے، وہ اُن کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا باپ کا اپنی اولاد کے لیے اچھے ادب سے زیادہ بہتر کوئی تحفہ نہیں  [سنن الترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی ادب الولد، حدیث: ۲۰۷۹]

[5] حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماروایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  جو شخص کسی یتیم کو اپنے کھانے پینے میں شریک کرے؛ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے ضرور جنت واجب کر دے گا، اور جو شخص تین لڑکیوں یا اتنی ہی بہنوں کی پرورش کرے، اُن کو ادب سکھائے، اُن پر مہربانی کرے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اُنھیں بے نیاز کردے -اب اُن کو ضرورت باقی نہ رہے- اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جنت واجب کردے گا 

کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اگر دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں تب بھی وہی ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا  ہاں! اگر دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں؛ تب بھی وہی ثواب ہے روای کہتے ہیں کہ اگر لوگوں نے ایک کے متعلق پوچھا ہوتا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  ایک کےمتعلق بھی فرما دیتے۔  [شرح السنۃ للبغوی، جزء: ۱۰، ص: ۲۷٤، شاملہ]۔

[6] حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے، اور ہر ایک سے اُس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، چناں چہ حاکم نگہبان ہے، اُس سے اُس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائےگا۔

آدمی اپنے اہل خانہ پر نگہبان ہے، اُس سے اُس کے اہل خانہ کے بارے سوال کیا جائےگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان ہے، اُس سے اُس کے بارے میں پوچھا جائےگا۔ خادم اپنے مالک کے مال میں نگہبان ہے، اُس سے اُس کے بارے میں سوال ہوگا۔ آدمی اپنے والد کے مال میں  نگہبان ہے، اُس سے اُس کے بارے میں پوچھا جائےگا۔ الغرض تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے، اُس سے اُس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا [صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن، حدیث: ۸۹۳]۔ 

[7] حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے، وہ اُن کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا  اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو اُنھیں مار کر نماز پڑھاؤ، اور اُن کے بستر الگ کر دو)) [سنن ابی داؤد، کتاب التطوع، باب قیام اللیل، حدیث: ٤٩٥]۔ [8] حضرت ابوہریرہ -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشا د فرمایا:  اللہ تعالیٰ اُس شخص پر رحم فرمائے جو رات میں اٹھ کر نماز پڑھے، اور اپنی بیوی کو بھی نماز کے لیے جگائے، اگر وہ نہ اُٹھے تو اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اللہ تعالیٰ اُس عورت پر رحم فرمائے جو رات کے وقت اُٹھے، پھر نماز پڑھے، اور اپنے شوہر کو جگائے، اگر وہ نہ اٹھے تو اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے [سنن ابی داؤد، کتاب التطوع، باب قیام اللیل، حدیث: ۱۳۱۰]۔

احادیث کریمہ سے ماخوذ نصیحتیں

[1] اپنی اولاد کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔

[2] اولاد کی تعظیم و تکریم کرنی چاہیے۔

[3] اولاد کو اچھے آداب سکھانا چاہیے۔

[4] اولاد کے لیے سب سے بڑا تحفہ یہ ہے کہ انھیں اچھے آداب سکھائے جائیں۔

[5] جو شخص کسی یتیم کو کھلائے، پلائے؛ اس کے لیے جنت واجب ہے۔

[6] جو شخص ایک یا دو یا تین لڑکیوں، یا بہنوں کی اچھی تربیت کرے، پھر شادی کرکے اُنھیں بےنیاز کر دے؛ اُس کے لیے جنت واجب ہے۔

[7] ہر شخص ذمہ دار ہے، اُس سے اُس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

[8] اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دینا چاہیے، اور دس سال کی عمر میں مار کر پڑھوانا چاہیے، اور بستر الگ کر دینا چاہیے۔

[9] جو شخص رات کو اٹھ کر نماز پڑھے، اور اپنی بیوی کو نماز پڑھنے کے لیے جگائے؛ اُس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔

[10] جو عورت رات کو اٹھ کر نماز پڑھے، اور اپنے شوہر کو نماز پڑھنے کے لیے جگائے؛ اُس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔

مذکورہ بالا قرآنی آیات اور احادیث کریمہ کی روشنی میں والدین پر لازم و ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا بہتر انتظام کریں۔ اُنھیں نیک بنانے کی کوشش کریں۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے اُس کی تربیت گاہ کو دینی فضا میں تبدیل کریں۔ مگر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تربیت کی شروعات کب سے کی جائے۔ اِس سلسلے میں درج ذیل اقتباس کو بغور ملاحظہ فرمائیں۔

بچوں کی تربیت کب شروع کی جائے؟

والدین کی ایک بڑی تعداد ہے جو اِس انتظار میں رہتی ہے کہ ابھی تو بچہ چھوٹا ہے، جو چاہے کرے، تھوڑا بڑا ہو جائے تو اُس کی اَخلاقی تربیت شروع کریں گے۔ ایسے والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر بھرپور توجہ دیں؛ کیوں کہ اُن کی زندگی کے ابتدائی سال بقیہ زندگی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ پائیدار عمارت مضبوط بنیاد پر ہی تعمیر کی جا سکتی ہے، جو کچھ بچہ اپنے بچپن میں سیکھتا ہے؛ وہ ساری زندگی اُس کے ذہن میں راسخ رہتا ہے؛ کیوں کہ بچے کا دماغ مثل موم ہوتاہے، اُسے جس سانچے میں ڈھالنا چاہیں؛ ڈھالا جا سکتا ہے

بچے کی یاد داشت ایک خالی تختی کی مانند ہوتی ہے، اُس پر جو لکھا جائے گا؛ ساری عمر کے لیے محفوظ ہو جائےگا۔ بچے کا ذہن خالی کھیت کی مثل ہے، اُس میں جیسا بیج بوئیں گے؛ اُسی معیار کی فصل حاصل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اُسے بچپن ہی سے سلام کرنے میں پہل کرنے کی عادت ڈالی جائے تو وہ عمر بھر اُس عادت کو نہیں چھوڑتا۔

اگر اُسے سچ بولنے کی عادت ڈالی جائے تو وہ ساری عمر جھوٹ سے بیزار رہتا ہے۔ اگر اُسے سنت کے مطابق کھانے، پینے، بیٹھنے، جوتا پہننے، لباس پہننے، سر پر عمامہ باندھنے اور بالوں میں کنگھی وغیرہ کرنے کا عادی بنا دیا جائے تو وہ نہ صرف خود اِن پاکیزہ عادات کو اپنائے رکھتا ہے، بلکہ اُس کے یہ مدنی اوصاف اُس کی صحبت میں رہنے والے دیگر بچوں میں بھی منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔[تربیت اولاد، ص: ۲۳ ، ناشر: مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ، کراچی]۔

اب ہم ذیل میں چند بنیادی اُصول کا تذکرہ کرتے ہیں اور اللہ کے فضل سے یہ اُمید رکھتے ہیں کہ اگر اِن اصول کی روشنی میں ہم اولاد کی تربیت کا اہتمام کریں تو یقیناً وہ سکون و قرار کا سبب اور قرۃِ عین کا باعث ہوں گی۔

تربیتِ اولاد کے چند بنیادی اُصول

[1] گھر کا ماحول دینی بنائیں کہ ماحول کا کافی اثر پڑتا ہے۔ اگر ابتدا ہی سے اولاد دینی ماحول میں پروان چڑھے گی تو یہ اُس کے لیے تابناک مستقبل کی دلیل ہوگی۔

[2] اولاد جب بولنا شروع کردے تو اُس کو کلمۂ طیبہ کا عادی بنائیں۔

[3] جب اِرد گِرد کے ماحول سے متاثر ہونے لگے تو اچھوں کی صحبت میں بٹھائیں اور بُروں کی صحبت سے دور رکھیں۔

[4] جب چار یا پانچ سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اُسے یہ بتایا جائے کہ اللہ و رسول کے متعلق اُس کا عقیدہ کیسا ہونا چاہیے، اور چند بنیادی عقائد کی وضاحت کرکے اُسے یاد بھی کرایا جائے۔

[5] آقاے کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم، صحابۂ کرام، تابعین عظام، اولیاے کرام اور محبوب بندے، بندیوں کے اچھے اَخلاق اور بہتر صفات کا تذکرہ اُن کے سامنے بار بار کیا جائے، اور اُن کی سیرت طیبہ بھی بیان کیا جائے؛ تاکہ بچپن ہی سے اُن کے دل میں اُن کی عظمت بس جائے، اور اُنھیں اپنا آئیڈیل بنانے کی کوشش کرے۔

[6] اُنھیں اَرکانِ اسلام کے بارے میں بتائیں۔

[7] نماز کا عادی بنائیں۔ حدیث پاک میں ہے  اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو اُنھیں مار کر نماز پڑھاؤ، اور اُن کے بستر الگ کر دو [سنن ابی داؤد، کتاب التطوع، باب قیام اللیل، حدیث: ٤٩٥]۔

[8] دُرودِ پاک، تلاوتِ قرآن کریم، سماعت قرآن عظیم اور نعت گوئی کا عادی بنائیں۔

[9] اَخلاقِ حسنہ کا پیکر بنائیں، بُرے اَخلاق مثلاً: جھوٹ، چغلی، غیبت، بغض و حسد اور گالی گلوج سے باز رہنے کی تاکید کریں، اور اُس کی مذمت میں جو قرآنی آیات و احادیث شریفہ وارد ہیں؛ اُنھیں سنائیں، اور عذابِ الہی کا خوف دلائیں۔

[10] دینی تعلیم دلائیں، دینی اِصلاحی محافل میں شرکت کا پابند بنائیں۔

[11] بعد بلوغت جلد ہی اُن کی شادی کرائیں۔

الله تعالیٰ ہم سب کو اپنی اولاد کی ایسی تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اُن کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کا ذریعہ بنے، اور والدین کے دنیوی سکون اور اخروی نجات کا سامان ہو۔ آمین۔

عبدالماجد قادری ، حیدرآبادی۔

دارالعلوم فیض رضا شاہین نگر، حیدرآباد، تلنگانہ

رابطہ نمبر 7093202438

حسد گناہِ بے لذت   اس کو بھی پڑھیں 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن